... loading ...
ریاض احمدچودھری
بھارت ہرانتخابی عمل کی آڑ میں مقبوضہ کشمیرمیں فوج کی تعداد میں اسی طرح اضافہ کرتا آیاہے۔ نام نہاد انتخابات کے انعقاد کی آڑ میں لائے جانے والے ان فوجیوں کو بعد میں مستقل طور پر مقبوضہ علاقے میں ہی رکھا جاتا ہے اور انہیں کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دبانے کے لیے استعمال کیا جاتاہے۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں نریندر مودی کی زیر قیادت بھارتی حکومت نے پیراملٹری فورسز کی تقریبا 300اضافی کمپنیاں تعینات کر دی ہیں۔ یہ تعیناتی انتخابی ڈرامے کے کامیاب انعقاد کو یقینی بنانے کی آڑ میں کی گئی ہے جو مقبوضہ جموں و کشمیر میں 18اور 25 ستمبر اور یکم اکتوبر کو تین مرحلوں میں ہونے والا ہے۔
پیراملٹری فورسز کو جن میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس، بارڈر سیکورٹی فورس،شاسترا سیما بل اور انڈو تبتین بارڈر پولیس کے اہلکار شامل ہیں، سرینگر، ہندواڑہ، گاندربل، بڈگام، کپواڑہ، بارہمولہ، بانڈی پورہ ، اسلام آباد ،شوپیاں، پلوامہ اور کولگام کے مختلف علاقوں میں تعینات کیاگیاہے۔گرمائی دارالحکومت سرینگر میں سب سے زیادہ55کمپنیاں تعینات کی گئی ہیں۔ انتخابات کے پہلے مرحلے کا نوٹیفکیشن منگل کو جاری کر دیا گیا۔بھارتی فورسز کی بھاری تعدادمیں تعیناتی سے لگتا ہے کہ نام نہاد انتخابات کے نام پر جمہوری مشق کے بجائے کشمیریوں کے خلاف جنگ چھیڑی جا رہی ہے۔بھارتی فورسز کی بڑی تعداد کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کچلنے کے لیے تعینات کی گئی ہے۔ 5 اگست 2019 ء کے شب خون سے قبل بھارتی سفاک سپاہ کی مقبوضہ وادی میں تعداد 7 لاکھ تھی۔ کشمیری بھارت کے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے ظلم کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ وہ 5 اگست کے فیصلے کے خلاف گھروں سے نکل آئے۔ سروں پر کفن باندھ کر احتجاج شروع کیا مظاہرے ہونے لگے۔ جس پر بھارت نے قابو پانے کے لیے مزید بربریت سے کام لیا۔دو لاکھ مزید فوجی مقبوضہ وادی میں تعینات کر دیئے اور فوری طور پر وادی میں سخت ترین پابندیوں کا حامل کرفیو نافذ کر دیا گیا جو آج پونے دو سال سے مسلسل لاگو ہے۔ اس کے باوجود کشمیری موقع ملتے ہی گھروں سے نکل کر احتجاج کرتے ہیں۔ ان کی آواز کو مکمل طور پر دبانے کے لیے 5 اگست کے بعد وادی میں فوج کی تعیناتی میں بتدریج اضافہ کیا جارہا ہے جو کل تک نو لاکھ تھی جس میں اب مزید 20 ہزار کا اضافہ کیا گیا۔ اس سے مقبوضہ وادی میں انسانی بحران مزید سنگین ہو سکتا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں غاصب بھارتی فوج کی بربریت پرہٹلرکی روح بھی کانپ اٹھی ہے،مگرنہتے کشمیریوں پرظلم کے پہاڑتوڑتے ہوئے بھارتی حکومت اورفوج کو شرم نہیں آئی۔کشمیریوں پر بد ترین ریاستی دہشت گردی کر کے حقوق انسانی کی کھلی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔دنیا اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے عوام کو محض عسکری طاقت کے بل بوتے پر نہ صرف اپنا غلام بنا رکھا ہے بلکہ اس نے کشمیری عوام پر ظلم و ستم اور جبر و تشدد کے ایسے پہاڑ توڑے ہیں جن کا کوئی اخلاقی یا سیاسی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔ کل جماعتی حریت کانفرنس آزاد جموں و کشمیر کی طرف سے حال ہی میں جو تفصیلات فراہم کی گئی ہیں ان کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں1989ء سے اب تک 94ہزار سے زائد بے قصور اور بے گناہ افراد کو شہید کیا جا چکا ہے۔ اس کے نتیجہ میں ایک لاکھ 7ہزار سے زائد بچے یتیم ہو گئے اور 22ہزار 7سو سے زائد عورتیں بیوہ ہو گئیں۔ اس کے علاوہ 10ہزار ایک سو سے زائد خواتین کی زبردستی آبرو ریزی کی گئی۔ اس عرصہ میں ایک لاکھ 6ہزار سے زائد مکانات اور دکانوں کو مسمار کر دیا گیا۔ اس بربریت اور ظلم و ستم کے باوجود مقبوضہ وادی کے عوام اپنے حق خود ارادیت کے حصول کے لئے پرامن جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔اگر بھارت اپنے تمام وسائل، عسکری قوت اور خزانہ بھی مقبوضہ کشمیر میں بروئے کار لائے تو پھر بھی وادی کی ہیئت تبدیل نہیں ہو گی۔ بھارتی قیادت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ دھونس اور دبائو کی پالیسی سے جذبہ آزادی ختم نہیں ہو گا۔عالمی برادری کے ساتھ ساتھ حقوق انسانی کے عالمی ادارے گزشتہ 25برسوں کے دوران لاپتہ کئے گئے 9ہزار سے زائد افراد کی بازیابی اور ان لوگوں کی گمشدگی سے متعلق حقائق کو منظر عام پر لانے کے لئے بھارت پر دبائو ڈالیں۔ 8ہزار سے زائد گمنام قبروں میں دفن لوگوں کے اصل حقائق سے کشمیری قوم اور ان افراد کے لواحقین کو معلومات فراہم کرنا عالمی برادری کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ ہم عالمی برادری کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہوئے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ کشمیری عوام پر جاری مظالم کے خاتمے کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔
عالمی برادری کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی طرف سے جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ انسانی حقوق کی پامالی کی بدترین مثال ہے۔ وہاں تعینات فورسز کشمیریوں کے خلاف ظلم کا ہر حربہ اور ضابطہ روا رکھے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں جن پر عمل کرتے ہوئے کشمیریوں کو حقِ استصواب دیا جائے۔ آج مقبوضہ وادی سے بلاتاخیر سفاک بھارتی فوج نکال کر عالمی امن فوج تعینات کرنے کی ضرورت ہے۔کشمیر یو ں کے جذبہ آزادی کا مقابلہ کر نے کیلئے ساڑھے تین لا کھ فو ج بھی کم پڑ گئی۔ وادی میں تازہ دم دستے تعینات کردئیے گئے۔حریت پسند کمانڈر برہان وانی کی شہادت کے بعد مقبوضہ وادی میں کشیدگی جنوبی کشمیر سے شمالی کشمیر تک پھیل گئی ہے۔ بڑھتی کشیدگی کودیکھتے ہوئے وادی بھر میں کرفیونافذ کردیاگیا۔ قابض حکومت نے کشمیریوں کی حق خودارادیت کی آواز کو دبانے کے لئے مقبوضہ وادی میں مزید فورسز کو تعینات کردیا جب کہ وادی میں کرفیو لگا رکھا ہے اور موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز بھی بند کردی گئی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اسپتالوں میں زخمیوں کی تعداد کے پیش نظر اور موبائل و انٹرنیٹ سروسز بند کیے جانے سے کشمیر میں ایمرجنسی جیسی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔