... loading ...
جاوید محمود
یہ انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ماضی کی حکومتیں ہوں یا حالیہ حکومت کی پالیسیوں نے پاکستان کی ساکھ کو عالمی سطح پہ بُری طرح سے مجروح کیا ہے ۔نو گیارہ کے بعد پاکستان پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ وہ دنیا بھر میں دہشت گردی کو ایکسپورٹ کرتا ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ پاکستان پہ یہ الزام لگا دیا گیا کہ وہ چائنا کو گدھے ایکسپورٹ کرتا ہے ،دو سال قبل پاکستان پہ یہ الزام عائد کیا گیا کہ وہ انسانی اسمگلنگ میں ملوث ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پانی کے جہاز کے ذریعے پاکستانیوں نے دوسرے ملک جانے کے غیر قانونی طریقے اپنائے جس کے نتیجے میں سینکڑوں پاکستانی جہاز ڈوبنے کے نتیجے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ ان خبروں نے پاکستان کی ساکھ کو بری طرح سے متاثر کیا اور اب پاکستانی حکومت کو ایک نیا خطرہ لاحق ہے جس سے عالمی سطح پر اس کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔
حال ہی میں بیرون ملک سعودی عرب اور عراق میں پکڑے جانے والے بھکاریوں میں 90فیصد پاکستانی نژاد ہیں۔ یہ معاملہ اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ سعودی عرب اور عراق جیسے ممالک نے پاکستانی حکومت پر بھکاریوں کی آمد کو روکنے پر زور دیا ہے۔ 2023 میں مکہ کی عظیم الشان مسجد سے پکڑے گئے جیب کتروں کی ایک بڑی تعداد بھی پاکستانی نژاد ہے۔ پاکستان میں ایک بہت بڑی مافیا ہے جو اداروں کے ساتھ مل کر پاکستانیوں اور جیب کتروں کو بیرون ملک بھیجنے میں مصروف ہے سینٹر فار بزنس اینڈ سوسائٹی ان پاکستان میں شائع ہونے والی ایک پالیسی رپورٹ کے مطابق ملک میں بھیک مانگنا اس کے منافع کی وجہ سے پروان چڑھتا ہے جو کہ غیر ہنر مند مزدوروں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اس سال کے شروع میں یہ اطلاع ملی تھی کہ حکومت کی جانب سے گزشتہ ڈھائی سالوں میں سعودی عرب جیسے دیگر ممالک سے 44000 بھکاریوں کو پاکستان واپس لایا گیا ہے۔ پاکستان کی آبادی 230 ملین ہے جس میں سے 38 ملین پیشہ ور بھکاری ہیں جن کی قومی اوسط آمدنی 850 روپے روزانہ ہے۔ ان بھکاریوں کو خیراتی عطیات میں روزانہ 32ارب روپے ملتے ہیں جو کل تقریباً 117ٹرلین روپے سالانہ ہیں ۔ڈالر میں یہ 42 بلین ڈالر کے برابر ہے ۔سادہ لفظوں میں یہ 38 ملین غیر پیداواری افراد 42بلین ڈالر کھا رہے ہیں اور باقی ملک کو 21فیصد مہنگائی برداشت کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ پاکستان میں مزاروں پر جانا اور بھکاریوں کو عطیہ دینا بہت سے مسلمانوں میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے رواج ہیں جو بچوں کا استحصال کرنے والے بھیک مانگنے والے مافیا کو پروان چڑھاتے ہیں ۔
ایشین ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق پاکستان کی 2.5سے 11فیصد آبادی روزی کمانے کے لیے بھیک مانگنے کا انتخاب کر رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق تقریبا 1.2 ملین بچے ملک کے بڑے شہری مراکز کی سڑکوں پر گھومتے ہیں۔ پیشہ ور بھکاریوں کے گروہ کا مسئلہ جو کبھی پاکستان کی سڑکوں اور چوکوں پر بدنام ہوا کرتا تھا ،اب بین الاقوامی سرحدوں کو عبور کر چکا ہے ۔حالیہ شائع ہونے والی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں گرفتار ہونے والے بھکاریوں میں سے 90فیصد کا تعلق پاکستان سے ہے جبکہ پاکستانی شہری سعودی عرب کی مقدس مسجد کے ارد گرد جیب کترے جیسے چھوٹے جرائم میں ملوث ہیں۔ بھکاری پاکستان سے اجتماعی طور پر نکل رہے ہیں، اکثر کشتیوں کے ذریعے سفر کرتے ہیں اور پھر عمرہ اور وزٹ ویزوں کا فائدہ اٹھا کر بیرون ملک زائرین سے بھیک مانگتے ہیں۔ عراق اور سعودی عرب کی جیلوں میں اب پاکستانی بھکاریوں کی ایک بڑی تعداد رہائش پزیر ہے جس سے بیرون ملک پاکستانیوں کی ساکھ مزید خراب ہو رہی ہے۔ اس رجحان کا ایک انتہائی تشویش ناک پہلو سمندر پار پاکستانیوں میں اعتماد کا ٹوٹنا ہے۔ بیرون ملک پاکستانیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے ملک بدرہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔ عراق اور سعودی عرب مسلسل شکایت کرتے ہیں کہ ہم مجرموں کو ان کے ملکوں میں بھیج رہے ہیں اور ان کی جیلیں پاکستان بھکاریوں سے بھری ہوئی ہیں۔ یہ انسانی ا سمگلنگ کا ایک سنگین مسئلہ ہے۔
واضح رہے کہ حال ہی میں وزارت اوورسیز پاکستانی کے سیکریٹری نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا تھا کہ بیرون ملک گرفتار ہونے والے 90فیصد بھیک مانگنے والوں کا تعلق پاکستان سے ہے۔ یہ دعویٰ سامنے آنے کے بعد تحقیق سے علم ہوا کہ ایک منظم طریقے سے پاکستان میں موجود ایجنٹ بھکاریوں یا ضرورت مند افراد کو اس مقصد کے تحت مشرقِ وسطیٰ کے ممالک خصوصا سعودی عرب ایران اور عراق بھجواتے ہیں جہاں سے حاصل ہونے والی رقم میں ان ایجنٹس کو بھی حصہ ملتا ہے ،تاہم حال ہی میں سعودی حکومت کی جانب سے اس معاملے پر پاکستانی حکومت سے باضابطہ شکایت کے بعد وفاق کی وزارت داخلہ کو اس مسئلے کا تدارک کرنے کی ہدایت جاری کی ہیں جس کے نتیجے میں عمرے کے بہانے سعودی عرب جانے والے 37افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ان افراد نے یہ اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے ایجنٹس کو فی کس دو لاکھ 30 ہزار روپے دیے تھے جس کے عوض اس نے ویزا اور ٹکٹوں کا بندوبست کیا تھا۔ ان کے بقول ان تمام افراد نے سعودی عرب میں 20 روز کے قریب قیام کرنا تھا ۔ان کے مطابق ایران اور عراق میں خرچہ نکال کر وہ فی ٹرپ 20سے 30 ہزار روپے فی کس کما لیتے تھے۔ ایران عراق اور سعودی عرب جاکر کبھی گونگا بن کر کبھی ہاتھوں سے روٹی کھانے کا اشارہ کر کے وہ لوگوں سے بھیک مانگتے تھے ۔سوشل میڈیا پر فیس بک پیج چلانے والے ایک ایجنٹ نے بھکاریوں کو عمرے کے نام پر سعودی عرب لے جانے کے بارے میں لکھا کہ یہاں روپے ملتے ہیں سعودی عرب میں ریال میں بھیک دی جاتی ہے زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میں یہاں سے لوگوں کو مزدوری اور عمرے کے نام پر سعودی عرب لے جاتا رہا ہوں، کبھی 16 کبھی 25 لوگ ہوتے ہیں۔ تقریباً پانچ ماہ تک ایسا کرتا رہا ہوں۔ پاکستان میں کام کرنے والے مختلف ایجنٹس کی طرح یہ شخص بھی فیس بک اور واٹس ایپ کے ذریعے اپنے کام کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور لوگوں کو واٹس ایپ پر تمام تر تفصیلات مہیا کر دیتے ہیں ۔ان کا طریقہ کار کچھ یوں ہوتا ہے کہ پاکستان سے کئی افراد مزدوری کرنے کی غرض سے ان ایجنٹ سے رابطہ کرتے ہیں اور جو لوگ کوئی کام نہیں جانتے ،انہیں ایجنٹس بھیک مانگنے کی آفر کرتے ہیں۔ ایجنٹ نے بتایا کہ پاکستان سے ہر کوئی مزدوری کی غرض سے نہیں جاتا اس لیے ان کو کچھ مختلف آفر کرنا پڑتا ہے۔ خواتین اور بچوں کو بھی ان گروہ کا حصہ بنانا پڑتا ہے تاکہ پہلے عمرے یا زیارت کے لیے ویزا حاصل کیا جا سکے اور پھر انہیں مکہ اور مسجد نبوی کے سامنے بٹھایا جا سکے۔
16جون 2023کو سعودی عرب کی حکومت نے وزیراعظم آفس کو سعودی عرب میں بھیک مانگنے، جسم فروشی، منشیات کی ا سمگلنگ اور سفری دستاویزات میں جعلسازی جیسے بڑھتے ہوئے جرائم میں پاکستانوں کے ملوث ہونے کے متعلق تحریری طور پر آگاہ کیا۔ سعودی عرب کی باضابطہ شکایت کے بعد وزیراعظم آفس نے وزارت داخلہ اور اس کے ذیلی اداروں بشمول ایف بی آئی کو ہدایت جاری کی جس کے بعد ایف بی آئی نے سعودی عرب سمیت دیگر مشرق وسطیٰ کے ممالک جانے والے پاکستانیوں کی تمام ہوائی اڈوں پر پروفائلنگ شروع کر دی۔ اس تمام صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر ان گھناؤنے کاروبار کی روک تھام کرنے کے لیے سخت سے سخت اقدامات کرے جو وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کیونکہ ان کی وجہ سے پاکستان کی بہت بدنامی ہو رہی ہے۔ اللہ کا فرمان ہے کہ جس قوم نے اپنی حالت نہیں بدلی اس کی حالت کوئی نہیں بدل سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔