... loading ...
عطا اللہ ذکی ابڑو
ایک بی ایم ڈبلیو کار کے دروازے پہ ڈینٹ تھا، اس کے مالک نے ڈینٹ والا دروازہ کبھی مرمت نہیں کرایا۔ کوئی پوچھتا تو وہ بس یہی کہتا “زندگی کی دوڑ میں اتنا تیز نہیں چلنا چاہیے کہ کسی کو اینٹ مار کرآپ کی گاڑی روکنا پڑے ؟ ہر سننے والا اس کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر قدرے حیران ہوتا اور پھر سمجھتے نہ سمجھتے ہوئے سر ہلا دیتا۔
ایک نوجوان بزنس منیجراپنی برانڈ نیو بی ایم ڈبلیو میں دفتر سے ڈی ایچ اے میں واقع گھر جاتے ہوئے ایک پسماندہ علاقے سے گزرا۔ اچانک اس نے ایک چھوٹے بچے کو بھاگ کر سڑک کی طرف آتے دیکھا تو گاڑی آہستہ کردی اس نے بچے کو کوئی چیز اچھالتے دیکھا؟ اور ٹھک کی آواز کے ساتھ ایک اینٹ اس کی نئی بی ایم ڈبلیو کے دروازے پرآ لگی تھی۔ اس نے فوراً بریک لگائی اور گاڑی سے باہر نکل کر دروازہ دیکھا جس پر اینٹ لگنے کی وجہ سے ایک بڑا ڈینٹ پڑچکا تھا۔ اس نے غصے سے اُبلتے ہوئے بھاگ کر اینٹ مارنے والے بچے کو پکڑا اور زور سے جھنجھوڑا، اندھے ہوگئے ہو، پاگل کی اولاد ؟ تمہارا باپ اس کے پیسے بھرے گا ؟ وہ زرو سے دھاڑا، میلی کچیلی شرٹ پہنے بچے کے چہرے پر ندامت اور بے چارگی کے ملے جلے تاثرات تھے ، بچہ بولا سائیں مجھے سمجھ نہیں آرہا ،میں کیا کروں؟ میں ہاتھ اٹھا کر چیختا رہا مگر کسی نے بات نہیں سنی اس نے ٹوٹی پھوٹی اردومیں کچھ کہا ۔اچانک اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے ۔بچے نے سڑک کے اس پسماندہ نشیبی علاقے کی جانب اشارہ کیا اور کہا ادھر میرا بابا گرا پڑاہے۔ بہت بھاری ہے مجھ سے اُٹھ نہیں رہا تھا میں کیا کرتا سائیں؟میری بات کوئی نہیں سن رہا ؟
بزنس ایگزیکٹو کے چہرے پرایک حیرانی آئی اور وہ بچے کے ساتھ نشیبی علاقے کی طرف بڑھا تو دیکھا ایک معذور شخص اوندھے منہ مٹی میں پڑا ہوا تھا اور ساتھ ہی ایک ویل چیئر پڑی تھی۔ ایسا دکھائی دے رہا تھا کہ شاید وزن کے باعث بچے سے ویل چیئر سنبھالی نہیں گئی اور نیچے آگری ۔ساتھ ہی پکے ہوئے چاول بھی گرے ہوئے تھے جو شاید باپ بیٹا کہیں سے مانگ کے لائے تھے ۔ بچہ بولا سائیں، مہربانی کرو۔ میرے بابا کو اٹھوا کرکرسی پر بٹھا دو ۔اب میلی شرٹ والا بچہ باقاعدہ ہچکیاں لے رہا تھا۔ نوجوان ایگزیکٹو کے گلے میں جیسے پھندا سا لگ گیا اسے معاملہ سمجھ آگیا۔ اس نے اپنے غصے پرندامت محسوس کی۔ وہ اپنے سوٹ کی پرواہ کیے بغیر آگے بڑھا پوری طاقت لگاکرکراہتے ہوئے معذورشخص کو اٹھایا اورکسی طرح ویل چیئر پر بٹھا دیا۔ بچے کے باپ کی حالت غیرہوچکی تھی۔ چہرہ خراشوں سے بھرا پڑا تھا،نوجوان ایگزیکٹو بھاگ کراپنی گاڑی کی طرف گیا اپنے پرس سے دس ہزار نکالے ، کپکپاتے ہاتھوں سے معذور کی جیب میں ڈال دیے پھر ٹشو پیپرسے اس کی خراشوں کو صاف کیا اور ویل چیئر کو دھکیل کر اوپر لے آیا بچہ ممنونیت کے آنسوؤں سے اسے دیکھتا رہا اور پھر اپنے بابا کو لیکر اپنی جھگی کی طرف چل پڑا ۔اس کا بابا مسلسل آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتے ہوئے نوجوان کو دعائیں دے رہا تھا۔اس ایگزیکٹو نوجوان نے بعد میں ایک خیراتی ادارے کے تعاون سے جھگی میں رہنے والوں کے لیے وہیں پر ایک جھگی اسکول کھلوادیا۔آنے والے وقتوں میں وہ بچہ بہت سے دوسرے بچوں کے ساتھ پڑھ لکھ کر زندگی کی دوڑ میں شامل ہوگیا۔ وہ بی ایم ڈبلیو اس کے پاس مزید پانچ سال رہی تاہم اس نے ڈینٹ والا دروازہ مرمت نہیں کرایا۔ کبھی کوئی اس سے پوچھتا تو وہ بس یہی کہتا ہمیں زندگی کی دوڑ میں اتنا تیز نہیں چلنا چاہیے کہ کسی کو اینٹ مار کرآپ کی گاڑی روکنا پڑے ؟
19 اگست پیر کے روز پیش آنے والے سانحہ کارساز کا سارامنظر نامہ مجھے اسی کہانی کا تسلسل لگتا ہے ۔ہاتھوں کی دونوں انگلیوں سے ڈانس کرتی ملزمہ نتاشا کی وائرل ویڈیو میں اس کی بدحواسی دراصل ہمارے بے حس معاشرے کی عکاسی ہے۔ نتاشا پر مقدمے سے پہلے میڈیکل رپورٹ میں پہلے ذہنی مریضہ اوردوسرے ہی روز اسے مکمل فٹ کا سرٹیفیکٹ تھماکر بغیر راہداری ریمانڈ جیل کسٹڈی میں بی کلاس دے دی گئی ہے جس میں اسے ٹی وی ،اے سی ،اخبارات اور گھر کے کھانے اور ان کمنگ کال کی سہولیات میسر ہوں گی؟ یہ المناک سانحہ اب دیت کی طرف جارہا ہے ،نتاشا کے وکیل عامرمنسوب کہہ چکے ہیں کہ اگرچہ یہ ایک حادثہ ہے ملزمہ کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں اوروہ کسی کو بتائے بغیر گھر سے گاڑی لے کر نکلی تھیں ۔ہم ورثا کو فی کس اڑسٹھ لاکھ ایڈوانس جمع کرانے کو تیار ہیں۔ گورنرسندھ کہتے ہیں ورثا کو انصاف نہ ملا تو میں خود کیس کا سامنا کروں گا ؟ نتاشا نے اپنی گاڑی تلے دوزندگیاں ماردیں مگر اس کے چہرے پر کہیں انسانیت سے ہمدری کے تاثرات نہیں چھلکے۔ یہ ذہنی مریضہ پیلے کپڑوں میں ملبوس اپنے ساتھ آنے والی خاتون سے سرگوشیوں میں جائے وقوعہ سے فرار کے راستے تلاش کرتی نظرآئی مگر نتاشا کی پراڈو کے آگے پڑی باپ،بیٹی کی لاشوں کے گرد کھڑے عوام نے انہیں فرار کا راستہ نہیں دیا۔ آج پاپڑبیچ کر اورپانی کی بوتلیں گھر گھر پہنچاکراپنی لاڈلی بیٹی کو اپنے پیروں پر کھڑاکرنے کے خواب دیکھنے والا باپ 60سالہ عمران اپنی راج دلاری آمنہ کے پہلو میں ابدی نیند سورہا ہے اور انہیں اپنی پراڈو کے آگے روندنے والی نتاشا کو بچانے کے لیے اس کا پیسہ انصاف کے آگے کھڑا اسے بچ نکلنے کیلئے راہداری دے رہا ہے، جس طرح رانی پور کی فاطمہ کا ریپ کرنے والے ایک پیر نے اپنے کمدار نہتے لاچار باپ کو اس کی فاطمہ کی قیمت دوکروڑ لگاکر خود کو بچایا۔ یہی منظرنامہ ہمیں نتاشا کیس میں نظرآرہا ہے ؟ اے منصفو خدارا زبان خلق کو نقارہ ٔخدا سمجھو، خلق خداکی زبان کی ایک گونج ہمیں سوشل میڈیا پراداکاہ بشری انصاری کی صورت بھی نظر آئی۔ بشری انصاری کہتی ہیں پاگل اور نشے میں بہت فرق ہوتا ہے مگر افسوس اس بات پر ہے کہ اس خاندان کے ساتھ پیش آنے ولا یہ بڑا ہولناک سانحہ بھی سیٹھ کے کروڑوں روپے کی نذر ہوجائے گا۔
اوپروالا کبھی ہمارے کانوں میں سرگوشیاں کرتا ہے اور کبھی ہمارے دل سے باتیں کرتا ہے، جب ہم اس کی بات سننے سے انکار کردیتے ہیں تو وہ کبھی کبھار ہمارے طرف اینٹ بھی اچھال دیتا ہے پھروہ بات ہمیں سننا پڑتی ہے۔ ہم اس جہاں میں ملازمت، بزنس، خاندان اور بیوی بچوں کی خوشیوں کے لیے بس بھاگے جارہے ہیں مگریاد رکھیں ہمارے آس پاس یہیں کہیں بہت سی گونگی چیخیں اورسرگوشیاں بکھری پڑی ہیں۔ اچھا ہو کہ ہم اپنے ارد گرد کی سرگوشیاں سن لیں تاکہ ہم پر کسی کو اینٹ اچھالنے کی نوبت نہ آئے۔