... loading ...
ریاض احمدچودھری
شاعر مشرق حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کی شاعری اور ان کے نظریات کو سمجھنے کا عبور چند ہی لوگوں کو حاصل ہے جن میں ایک بریگیڈیئر ریٹائرڈ وحید الزمان طارق ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے شہر العین کے ایک ہسپتال میں گزشتہ عرصہ9 سال سے بطور ڈاکٹر خدمات سرانجام دینے والے ڈاکٹر وحید الزمان طارق ایک عظیم اور قابل مثال علمی ادبی شخصیت ہیں۔ ڈاکٹر اور آرمی آفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ انہوں نے شاعر مشرق حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کی شخصیت اور شاعری پر بہت کام کیا ہے۔بریگیڈیئر ریٹائرڈ وحید الزمان طارق گزشتہ چار برس سے پاکستان واپس پلٹ کر لاہور میں مقیم ہیں۔ زندگی بھر آپ نے کتب لکھیں، شاعری کی اور جہاں بھی رہے اقبال کے پیغام کو عام کرتے رہے۔ میڈیکل ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ آپ منشی فاضل سے لے کر فارسی ادب میں ڈاکٹریٹ کی اسناد کے حامل تو اپنے اوائل شباب میں ہی تھے آپ نے قرآن ، عرب شاعری اور فارسی شعر و ادب میں اپنا مطالعہ جاری رکھا اور اقبال کو فارسی شعرو ادب کی طویل روایت کے پس منظر میں پڑھا اور پڑھایا۔ آپ ہر بدھ کو دو گھنٹے کے دورانیہ کا اقبال کی فارسی شاعری کی وضاحت کیلئے خطبہ دیتے ہیں۔
حضرت علامہ اقبال کی شاعری کا زیادہ تر حصہ چونکہ فارسی میں ہے لہٰذا علامہ اقبال کی شاعری کو صحیح طور پر سمجھنے اور اس پر کام کرنے کے لئے وحید الزمان طارق نے فارسی میں بھی پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ علامہ اقبال کے نظریات اور تعلیم کو سمجھنے کے لئے فارسی زبان پر عبور ضروری ہے۔ بصورت دیگر ایک عام آدمی کے لئے علامہ اقبال کے اشعار سمجھ سے بالا تر ہیں بلکہ علامہ اقبال کے اشعار کا صحیح مطلب جاننے کے لئے کسی ماہر استاد کی ضرورت پڑتی ہے۔ وحید الزمان طارق ماہر اقبالیات بھی ہیں جو ہر ماہ نظریات اقبال کے پھیلاؤ کے لئے اندرون اور بیرون ملک لیکچرز دیتے ہیں جسے اہل علم و دانشور طبقہ غو ر وفکر سے سنتا ہے۔ وحید الزمان طارق نے 1980ء میں کمیشن جائن کیا۔ 1986ء میں پاک آرمی میں میجر بنے جبکہ 1993ء میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ 1996ء میں بطور کرنل عہدہ میں ترقی ملی جبکہ 2002ء میں بریگیڈیئر کا عہدہ ملا اور بطور بریگیڈیئر ہی ریٹائر ہوئے۔ دوران ملازمت بھی علامہ اقبال پر ریسرچ کا سلسلہ جاری رکھا اور اقبالیات کو سمجھنے کے لئے دیگر ممالک کا دورہ بھی کیا۔ وحید الزمان طارق کا کہنا ہے کہ حضرت علامہ اقبال نہ صرف ایک عظیم شاعر تھے بلکہ وہ راسخ العقیدہ مسلمان اور ولی اللہ کا درجہ رکھتے تھے۔ ان کے اشعار سے قرب الہٰی کی خوشبو آتی ہے۔
ماہر اقبالیات کا کہنا ہے کہ حضرت علامہ اقبال ایک راسخ العقیدہ اور سچے مسلمان تھے۔ وہ ایک صوفی منش انسان تھے، ان کی شاعری قرآنی آیات پر مبنی ہے۔ ان کے اشعار اس قدر قیمتی ہیں کہ ان کا مول نہیں چکایا جاسکتا۔ علامہ اقبال کی قدر غیر ممالک کے لوگوں کو ہے جو آج بھی ان کے کلام پر تحقیق کررہے ہیں جبکہ بے شمار لوگ علامہ اقبال کی شاعری پر ڈاکٹریٹ کرچکے ہیں۔ شاعر مشرق کی شاعری کا ترجمہ دنیا کی دیگر متعدد زبانوں میں بھی ہوچکا ہے جو ہمارے لئے باعث فخر ہے۔علامہ اقبال کے افکار اور نظریات کے بارے آج کی نوجوان نسل کو بتانے کی بھی اشدت ضرورت ہے۔ جس کے لئے سنجیدہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ علامہ اقبال 61 سال کی عمر میں پاکستان بننے کے 9 سال قبل ہی انتقال کرگئے۔ پاکستان کا خواب حضرت علامہ اقبال نے دیکھا تھا جس کی جھلک شعروں کی صورت میں ان کی شاعری میں ملتی ہے۔ انہوں نے اس وقت امت مسلمہ کے جن مسائل کی نشاندہی کی تھی وہ آج پوری ہورہی ہے۔علامہ اقبال ایک ولی اللہ بھی تھے جو قدرت کی حقیقتوں کے بے حد قریب تھے۔ علامہ اقبال نے امت مسلمہ کو درپیش مسائل کا حل بھی اپنے اشعار ہی میں بتادیا تھا جسے کھوج لگا کر ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا سرکاری سطح پر نطریات و افکار اقبال کو اجاگر کرنے کی مزید ضرورت ہے تاکہ نسل نو کا قبلہ درست کیا جاسکے۔
حضرت علامہ اقبال کی شاعری اور ان کے نظریات کا ادراک اور شعور رکھنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ علامہ اقبال کی صوفیانہ شاعری دلوں پر گہرا اثر چھوڑی ہے جس کا اعتراف دیگر ممالک کے مفکر اور سکالر بھی کرچکے ہیں اور علامہ اقبال کی شاعری پر ڈاکٹریٹ کرچکے ہیں۔اقبالیات کو گہرائی سے جانچنے اور پرکھنے کا ملکہ محقق و مفکر وحید الزمان طارق کو حاصل ہے جس پر وہ مبارکباد اور خراج تحسین کے متحق ہیں۔ ان جیسے لوگ بہت کم رہ گئے ہیں جو اقبال کے افکار و نظریات کو صحیح انداز میں پیش کرسکتے ہیں۔ ایسے لوگ پاکستان کا اثاثہ ہیں جن کی قدر ان کی زندگی میں کی جانی چاہیے تاکہ ان کو اپنی خدمت کا ثمر مل سکے۔اقبال نے فرد اس کی خودی کی تربیت، تعلیم، تہذیب ، قرآن فہمی اور اپنی روایات کی رجوع کا درس دیتے ہوئے کہا کہ ایک باکردار اور صحت مند انسان ہی ایک عظیم معاشرے اور قوم کی تشکیل کا عنصر ہوتا ہے۔ ہر شخص کو خود شناسی، خودداری ، خود انحصاری اور شعور ذات کا ادراک کر کے اپنے جوہر کی بتدریج نمو کرنا ہوگی۔ یہی خودی کا فلسفہ ہے اورآج کے عہد میں جب ہم لوگ خود انحصاری سے روگردانی کر چکے ہوں تو اقبال کے اس پیغام کو سمجھنا ہوگا۔
ٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں
سفالِ ہند سے مِینا و جام پیدا کر