... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
نام شہنشاہ تو کام بھی شہنشاہ بھارت کی فلم شہنشاہ میں امیتابھ کا ایک ڈائیلاگ ہے کہ رشتے میں ہم تمھارے باپ ہوتے ہیں نام ہے شہنشاہ۔ میں بھی جس شہنشاہ کا ذکر کررہا ہوں وہ اس وقت پنجاب کے ایک اہم ادارے تعلقات عامہ کا ڈی جی لگ چکا ہے شکل سے معصوم اور سیدھا سادھا نظر آنے والا شہنشاہ فیصل عظیم اندر سے پورے دنوں کا ہے ۔یہ اس ادارے کا سربراہ بنا ہے جہاں کے لوگ اپنوں کو برداشت نہیں کرتے اور باہر سے آنے والوں کے آگے لیٹ جاتے ہیں لیکن ایک مخصوص وقت کے لیے اس کے بعد ان کے اندر کا شیطان جاگ جاتا ہے اور یہ پھر سازشوں میں لگ جاتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح ڈی جی سے جان چھڑوائیں لیکن اس بار اس ادارے کے منافقین کی منافقت اس لیے نہیں چلے گی کہ شہنشاہ اپنے کام میں بھی عظیم ہے۔ وہ سامنے والی کی شکل دیکھ کر اس کے اندر کا حال جان جاتا ہے۔ اس لیے اسے چکر دینا مشکل ہو جائے گا۔ ویسے میں ذاتی طور پر اس بات کے خلاف ہوں کہ اس اہم ادارے میں کوئی بندہ باہر سے آکر براجمان ہو جائے جو پبلک ریلیشنز کی الف ب سے بھی واقف نہ ہو لیکن جب اس اداے میں بیٹھے ہوئے افسران ہی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں اپنا سارا وقت اورزور لگائے رکھیں گے ۔سازشوں کے تانے بانے بنتے رہیں گے تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے جو اب اس ادارے کے ساتھ ہو رہا ہے تیتر اور بٹیر کی لڑائی میں یہ لوگ اپنا سب کچھ دائو پر لگاکر اپنا ہی نقصان کررہے ہیں۔
ایک تھا تیتر ایک بٹیر
لڑنے میں تھے دونوں شیر
لڑتے لڑتے ہو گئی گْم
ایک کی چونچ ایک کی دْم
ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے والوں نے نہ صرف اپنا نقصان کیا بلکہ اس ادارے کی عزت وآبر بھی گنوا بیٹھے ہیں۔ اسی لیے تو یہاں پرباہر سے آنے والوں کا راستہ صاف اور کھلا ہوا ہے کبھی جونیئر آکر ان پر مسلط ہو جاتا ہے تو کبھی میڈیا سے لاتعلق شخص یہاں بھیج دیا جاتا ہے۔ آپس کی لڑائیاں لڑتے لڑتے یہ لوگ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے اور اسی وجہ سے 82دن ڈی جی پی آر کی سیٹ خالی رہی۔ اس دوران حکومت نے محکمہ میں سے کسی افسر کو اس قابل نہیں سمجھا کہ اسے ڈی جی پی آر تعینات کردیا جائے یا کم از کم اسی ادارے میں سے کسی کو چارج ڈی جی کا چارج ہی دیدیا جاتا ۔اسی سال 22جولائی کواپنوں کی سازشوں کی بدولت ڈی جی پی آر کی خوبصورت اور ذہین روبینہ افضل نے ڈی جی پی آر کا چارج چھوڑا تھا اور پھر تقریبا تین ماہ اس محکمہ میں ڈی جی پی آر نہ لگ سکا ۔روبینہ سے پہلے ڈاکٹر اسلم ڈوگر بھی ڈی جی پی آر رہے۔ انہیں بھی اپنوں نے برداشت نہیں کیا اور آخر کار وہ اپنی ملازمت کے آخری دن الحمرا میں پورے کرنے پر مجبور ہوئے۔ ڈی جی پی آر کے مقامی لوگوں میں مثالی کام کرنے والے افسران میں شعیب بن عزیز،خواجہ طاہر جمیل ،آغا اسلم اورچوہدری امجدسر فہرست رہے، جنہوں نے اپنے اپنے دور میں بہترین پبلک ریلیشنگ کی۔ اب اس ادارے کی صورتحال یہ ہے کہ سوائے اشتہارت کے اور کوئی ڈھنگ کا کام یہاں نہیں ہوتا۔ پنجاب بھر میں پھیلے ہوئے ان کے دفاتر میں بنیادی سہولیات ہی میسر نہیں بلکہ آج سے کچھ عرصہ پہلے تک ان کے پاس کوئی چج کی گاڑی بھی نہیں ہوتی تھی نہ انکے کمروں میں اے سی تھے اور نہ ہی پینے کے لیے ٹھنڈے پانی کا کوئی بندوبست تھا ۔وہ تو بھلا ہو ثمن رائے کا جس نے اس محکمہ کے منہ پہ چھائی ہوئی دھند کو صاف کیا اور ڈی جی پی آر کے لیے نئی گاڑیاں ،اے سی اور واٹر ڈسپنسر منگوائے اور ہمارے بیڈمنٹن کورٹ پر نئی بلڈنگ بنوا دی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب اس محکمہ کے نئے ڈی جی پی آر ڈاکٹر شہنشاہ فیصل عظیم بھی یہاں پر مثالی کام کرینگے کیونکہ وہ عظیم شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ ہر ایچی بیچی کو بھی سمجھتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اس ادارے میں بیٹھے ہوئے افسران سے زیادہ پی آر کے مالک ہیں۔ یہ ادارہ بنیادی طور پر ہے ہی پبلک ریلشنز کا ہے جسکے ذمہ کام بھی سب سے اہم ہے کہ انہوں نے حکومت کا عوام میں اچھا تاثر قائم کرنا ہے ۔
یہ ادارہ 1940 کی دہائی میں ڈائریکٹوریٹ آف پبلک ریلیشنز (DPR) کے طور پر قائم کیا گیا تھا اور 1984 میں ڈائریکٹوریٹ جنرل آف پبلک ریلیشنز پنجاب کے طور پر اپ گریڈ ہوااس ادارے میںمختلف ونگز ہیں اور ان کا بھی اس وقت وہی حال ہے جو ہماری اسپورٹس فیڈریشنوں کا بنا ہوا ہے وہ بھی آپس کی لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے انٹرنیشنل سطح پر بین ہیں۔ اکثر میں وہ لوگ صدر بن کر بیٹھے ہوئے ہیں جنکا سپورٹ کے ساتھ کوئی لینا دینا ہی نہیں۔ فٹ بال فیڈریشن کے وہ لوگ صدر رہے جنہوں نے کبھی فٹ بال ہی نہیں کھیلا ۔پاکستان اسپورٹس بورڈ اس وقت ملک میںکھیلوں کی ترقی کے لیے بہت ہم ہے، لیکن لاہور میں پی ایس بی کا جو ڈائریکٹر تعینات ہے۔ اس کا کھیلوں کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں۔ خیر میںبات کر رہا ہو تعلقات عامہ کی کہ اس کے مختلف شعبوں میں بیٹھے ہوئے افسران کا بھی ان شعبوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں جن میں وہ بیٹھے کام کررہے ہیں جو لوگ ان معاملات کو سمجھتے ہیں انہیں لاہور سے باہر تعینات کررکھا ہے۔ اس ادارے میں تعیناتیوں کا کوئی طریقہ کار ہے اور نہ ہی ترقیوں کے حوالہ سے کوئی کام ہوتا ہے۔ اس ادارے میں بیٹھے ہوئے افسران اپنے محکمہ کے کامیاب لوگوں کی نقل نہیں کرسکتے تو راجہ جہانگیر اورثمن رائے کے ہی نقش قدم پر چل کردیکھ لیں یا پھر شہنشاہ فیصل عظیم کے کام کو ملاحظہ کرتے رہیں کیونکہ یہ تینوں لوگ پبلک ریلیشنز کے نہ ہونے کے باوجود اس محکمہ تعلقات عامہ میں بیٹھے ہوئے ہر افسر سے زیادہ پبلک ریلیشنز والے ہیں۔ اس محکمہ کی اصل روح اسی محکمہ کے لوگوں کے اندر ہے جو ابھی تک تو نیم مردہ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس نحیف جسم میں جان پڑتی ہے یا پھر کہیں جاکر دفن کرنا پڑے گا، ویسے آپس کی بات ہے کہ یہ ادارہ طاقتور ہوتا ہے تو اس وقت پنجاب حکومت بھی مضبوط ہوتی ہے جب یہ ادارہ کمزور ہوتا ہے تو حکومت بھی کمزور ہی رہتی ہے ۔اسی ادارے نے بتانا ہوتا ہے کہ حکومت کتنی عوامی ہے اور کتنی کمزور۔ ابھی تو یہ ادارہ خود اپنے پائوں پر کھڑا نہیں ہورہاحکومت کو کیا کھڑا کرے ۔لیکن شہنشاہ بادشاہ ہوتا ہے اپنی مرضی کے فیصلے ایک بادشاہ ہی کر سکتا ہے۔ امید اور توقع کی جاسکتی ہے کہ ڈی جی پی آر کا بادشاہ اس ادارے کوتیتر اور بٹیر کی لڑائی سے نکال کر اس کا مقام دلوا کر ہی واپس جائے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔