... loading ...
ریاض احمدچودھری
بھارت نے بغیر پیشگی خبردار کیے دریائے راوی اور دریائے چناب کے سپیل اوور کھول دئیے، جس کی وجہ سے پاکستان میں ہزاروں دیہات اور لاکھوں ایکڑ رقبہ زیرِ آب آ چکا ہے۔ بھارت کے بغیر وارننگ جاری کیے اچانک پانی چھوڑ دینے کی وجہ سے پاکستان میں ہنگامی صورتِ حال پیدا ہوئی۔ پی ڈی ایم اے کے مطابق بھارت کی جانب سے دریائے چناب میں پانی چھوڑے جانے کے بعد دریائے چناب پر قادر آباد بیراج پر پانی کی سطح تیزی سے بڑھ رہی ہے اور پانی کی سطح 2 لاکھ کیوسک سے بڑھ کر 2 لاکھ 50 ہزار کیوسک ہونے کا امکان ہے۔ دریائے راوی میں جسڑ اور شاہدرہ کے مقام پر 40 سے 55 ہزار کیوسک پانی کا بہاؤ متوقع ہے جب کہ پی ڈی ایم اے کی جانب سے نچلی سطح پر سیلاب کی وارننگ جاری کی گئی ہے۔ پی ڈی ایم اے نے علاقہ مکینوں کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کی ہدایت کی ہے۔
بھارتی آبی دہشت گردی کو نہ روکا گیا تو آئندہ چند برسوں بعد پینے کا پانی ملنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ چناب میں پانی چھوڑ کر بھارت نے باقاعدہ ریہرسل کی ہے وہ باقی دریاؤں پر بھی ڈیم بنا کر پاکستان کو مکمل طور پر ڈبونے کی منصوبہ بندی کر چکا ہے بھارتی آبی جارحیت کے مسئلہ پر حکومت پر دباؤ بڑھانے اور قومی سطح پر شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ قائد اعظم نے کشمیر کو شہہ رگ قرار دیا، شہ رگ سے بھارت کا غاصبانہ قبضہ چھڑانا قوم پر فرض ہے۔ ہمیں بے بسی کی موت نہیں مرنا بلکہ بھارت کی جارحیت کو بے نقاب کرنا ہے۔ اس مسئلہ کو سیاست کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہیے۔
سندھ طاس سمیت بھارت سے تمام معاہدے شدید دباؤ میںکئے گئے۔ یہ معاہدے پاکستان کے حق میں نہیں ہیں۔ بھارت نے ان معاہدوں سے گنجائشیں نکال کر وطن عزیز پاکستان کو بہت زیادہ نقصانات سے دوچار کیا ہے۔ سندھ طاس معاہدہ میں لکھا گیا ہے کہ وہ بہتا ہوا پانی استعمال اوراس سے بجلی بنا سکتا ہے مگر وہ سارے کے سارے پانی کو اپنے کنٹرول میں لے رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم کو متحد و بیدار کیا جائے اور حکومت پر دباؤ بڑھایا جائے کہ وہ اس مسئلہ کو قومی سطح پر اجاگر کریں۔ بھارت نے چار ہزار ڈیموں کی تعمیر مکمل کر لی مگر ہماری حکومتیں دو ڈیم بنانے کے بعد تیسرا نہیں بنا سکیں۔ آج قوم اس قدر تقسیم ہو چکی ہے کہ قومی شعور کی بات نظر نہیں آتی۔
سیلاب کی موجودہ صورت حال کا ذمہ دار بھارت ہے جس نے مقبوضہ جموں کشمیر سے نکلنے والے دریائوں پر قبضہ کر رکھا ہے اور ان دریائوں پر بنائے جانے والے ڈیموں کے پانیوں کو جنگی ہتھیار کے طور پر پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ ریاست جموں کشمیر آبی وسائل کا اہم منبع تھا۔ دریائے کابل کو چھوڑ کر پاکستان کے باقی تمام بڑے دریا ریاست جموں کشمیر سے نکلتے ہیں اسی وجہ سے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے جموں کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔قومی وسائل کا استعمال نہ کرکے حکمران وطن فروشی کا ثبوت دے رہے ہیں اگر کماحقہ پاکستان کے قدرتی وسائل کو استعمال کیا جائے تو ہمارا ملک دنیا کی بڑی معاشی قوتوں میں شامل ہو سکتا ہے۔ خصوصاً بجلی کے ہائیڈل منصوبوں کی تکمیل سے سستی توانائی کو ممکن بنا کر وطن عزیز کی معیشت میں انقلابی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ایسے منصوبوں کے بجائے رینٹل منصوبوں کو تقویت دی جا رہی ہے جس سے ہماری معیشت مفلوج ہوتی جا رہی ہے۔
توانائی کے بحران کو حل کرنے کیلئے پاکستان کو بیرونی اور اندرونی دونوں محاذوں پرہوش مندی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔بھارت کشمیر میں پاکستانی پانیوں پر ڈیم بنا کر پاکستان کو بنجر بنانے کے 212 ارب ڈالر کے ماسٹر پلان پر عمل پیرا ہے۔ بگلیہار اور اس جیسے کئی ڈیموں کی تکمیل سے پاکستانی پانی کے ایک حصہ کو کنٹرول کر لیا گیا ہے۔ پاکستانی اداروں کوتاہی کے اس جرم میں پاکستانی واٹر کمیشن پوری طرح شریک ہے۔ کشن گنگا ڈیم میں بھی پاکستانی مشن نے بڑی مشکل سے stay کیلئے موو کیا تھا۔ اگر کشن گنگا ڈیم مکمل ہوتا ہے تو نیلم جہلم پراجیکٹ بھی متاثر ہوگا، کوہالہ پراجیکٹ کیلئے بھی سوچنا پڑیگا بلکہ منگلا ڈیم بھی خطرے سے دوچار ہو جائیگا۔ پاکستانی حکمران اب بھی ہوش کے ناخن لیں۔ اس جنگ کو ہمارا ازلی دشمن بڑی چالاکی اور مکاری سے لڑ رہا ہے۔امریکہ اور اسرائیل اس اتحاد ثلاثہ کے اہم رکن ہیں۔ اب بھی وقت ہے ہم اپنے فیصلے خود کریں۔ پاکستان کے عوام اپنے وطن سے بہت محبت کرتے ہیں۔ صرف حکمرانوں کے جذبہ حب الوطنی کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی عوام نے ہر موقع پر اپنی حب الوطنی کو ثابت کیا ہے اسکے برعکس حکمرانوں نے ہمیشہ پیٹھ دکھائی ہے۔
ہمارے حکمران خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے حکمران اس خاموشی کو توڑیں، جرأت کا مظاہرہ کریں اور اس معاملے کو سلامتی کونسل میں لے کر جائیں۔پاکستان وسائل کے لحاظ سے کسی سے کم نہیں۔کمی ہے تو صرف حکمران ٹولے کی نیک نیتی کی ہے۔