... loading ...
افتخار گیلانی
۔۔۔۔۔
مجھے یاد آتا ہے کہ 28مئی 1998کی دوپہر بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں یعنی لوک سبھا میں دس دن قبل کئے گئے جوہری دھماکوں پر بحث ہو رہی تھی۔ میں پریس گیلری کی اگلی صف، بالکل اسپیکر کی کرسی کے عین اوپر سے اس بحث کو کور کر رہا تھا۔وزیر داخلہ لال کرشن ایڈوانی نے بتایا کہ بھارت کے جوہری دھماکوں سے خطے میں طاقت کا توازن بھارت کے پلڑے میں جھک گیا ہے ، جس کا پاکستان کو ادراک ہونا چاہئے ۔ پارلیمانی امور کے وزیر مدن لال کھورانہ نے پاکستان کو دھمکی دی کہ دو دوہاتھ کرنے کیلئے وہ میدان چنے ۔دوپہر چاربجے کے آس پاس اپوزیشن کانگریس پارٹی کے راجستھان سے رکن پارلیمان نٹور سنگھ ایوان میں داخل ہوگئے ۔1984تک وزارت خارجہ کے ساتھ وابستہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے صبح کانگریس پارٹی کی طرف سے نہایت مدلل تقریر کی تھی۔ اس وقت ا گلے بینچوں پر جاکر انہوں نے پہلے لیڈر آف اپوزیشن شرد پوار کے کان میں کچھ کہا اور پھر اسپیکر بالا یوگی کو ایک سلپ بھجوا دی۔اس کانا پھوسی سے لگ رہا تھا کہ کوئی اہم واقعہ وقوع پزیر ہو گیا ہے ۔ بائیں بازو محاذ کے زیرک لیڈر سومناتھ چٹرجی اس وقت تقریر کر رہے تھے ۔ انہوں نے چٹرجی کو بھی اشارہ کیا کہ وہ کوئی اہم بات ایوان کے سامنے لانا چاہتے ہیں۔ چٹرجی نے ان کو فلور دے دیا۔ نٹور سنگھ نے بتایا کہ ان کو اطلاع ملی ہے ، چند منٹ قبل پاکستان نے جوہری دھماکے کئے ہیں۔ ایوان میں شور شرابہ اور ہنگامہ مچ گیا ۔اسی ہنگامہ کے درمیان وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی اورایل کے ایڈوانی ایوان سے باہر چلے گئے ۔ یہ تو آگ میں گھی ڈالنے والا معاملہ تھا۔مگر شور شرابہ کے دوران ہی وزیر اطلاعات سشما سوراج نے کہا کہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ اسی اطلاع کی تصدیق کرنے کیلئے باہر گئے ہیں۔ چٹرجی نے جب تقریر دوبارہ شروع کی تو انہوں نے سوال کیا کہ آخر اپوزیشن لیڈر کو اس دھماکہ کی اطلاع کیسے پہلے موصول ہوئی اور حکومت اور اس کے خفیہ اداروں کو ابھی تک پتہ ہی نہیں ہے ؟ تھوڑی دیر کے بعد واپس آکر واجپائی نے پاکستان کے جوہری دھماکو ں کی تصدیق کی اور بتایا کہ یہ ایک نئی پیش رفت اور صورت حال ہے ، اس کا اب ادراک کرنا ضروری ہے ۔ جن اراکین کے اب بولنے کی باری تھی، انہوں نے بھی کہا کہ صورت حال تبدیل ہو چکی ہے ، اس لئے اب بحث کو موخر کیا جائے اور اگلے دن وہ تیاری کرکے آئیں گے ۔
بھارت کو پاکستان کے جوہری دھماکوں کی بریکنگ نیوز دینے والے نٹور سنگھ کا ابھی 10اگست کو نئی دہلی میں انتقال ہوا ہے ۔ وہ 93برس کے تھے ۔ پاکستان کے جوہری دھماکوں کی پندرہ منٹ بعد ہی اطلاع ملنے کی وجہ سے نٹور سنگھ نے اگلے چند روز خوب واہ واہ لوٹی، جس پر واجپائی نے اپنے مخصوص انداز میں پھبتی کسی کہ ان کو معلوم ہے کہ سنگھ کی نظریں سرحد پار ہی لگی رہتی ہیں ۔ویسے بتایا جاتا ہے کہ آنجہانی وزیراعظم اندرا گاندھی بھی ان پر اس وجہ سے مہربان تھیں کیونکہ 1971میں پولینڈ میں بھار ت کے ایک سفارت کار کے ہوتے ہوئے انہوں نے وہاں پاکستانی سفارت خانہ میں مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سفار ت کار تک رسائی حاصل کی تھی۔ جس سے ان کو بہت اہم معلومات حاصل ہوتی تھیں اور وہ ان کو براہ راست وزیر اعظم اور ان کے قریبی مشیروں کو پہنچا تے تھے ۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ جب اندرا گاندھی نے سابق راجے مہاراجوں کے وظیفے بند کروائے تو ان شاہی خاندانوں کو رام کرنے کا کام نٹور سنگھ کے ہی سپرد کیا ، جو انہوں نے بخوبی نبھایا۔
راجستھان کے بھرت پور اجواڑہ کے شاہی خاندان سے ان کا تعلق تھا اور بقول ان کے 1953میں سول سروس کا امتحان پاس کرکے وہ راجستھان کے پہلے انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس اور فارن سروس آفیسر بنے ۔ ان دنوں فارن سروس میں بھرتی ہونے والوں کی پوسٹنگ سے قبل وزیر اعظم جواہر لال نہرو ان کا خود ہی انٹرویو لیتے تھے ۔اس لیے وہ گفتگو میں بار بار نہرو کا ذکر کرتے رہتے تھے اور لگتا تھا کہ ان کی شخصیت پر ان کی گہری چھاپ ہے ۔مگر کیا کیا جائے سیاست کا کہ عمر کے آخری دنوں وہ موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کے حامی بن گئے تھے ، جو نہرو کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔منموہن سنگھ کی حکومت 2004-2005میں نٹور سنگھ وزیر خارجہ رہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ سونیا گاندھی نے ان کو خود کہا کہ امریکی ان پر دباو ڈال رہے ہیں کہ نٹور سنگھ کو وزارت خارجہ کا قلمدان نہ دیا جائے۔ جب سونیا نے ان کو کوئی اور وزارت لینے کیلئے کہا تو انہوں نے انکار کردیا۔ 1998میں سونیا گاندھی کے سیاست میں قدم رکھتے ہی وہ ان کے خارجی امور کے مشیر بن گئے ۔ اس سے قبل انہوں نے وزیر اعظم راجیو گاندھی کی وزارت میں 1985-1986تک اسٹیل، کانوں ، کوئلہ اور زراعت کے مرکزی وزیر مملکت کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد اسی حکومت میں 1986-1989کے دوران وزارت خارجہ میں وزیر مملکت کے طور پر کام کیا۔ شاہی خاندان سے تعلق اور پھر سفار ت کار ہونے کی وجہ سے وہ نخوت سے بھر پو رتھے ۔میڈیا کو تو وہ خاطر میں لاتے ہی نہیں تھے ۔ مگر خاصے وسیع المطالعہ شخص تھے ۔ قومی روزناموں اور کئی بار نیویارک ٹائمز کیلئے بھی وہ بک ریو پر مبنی کالم لکھتے تھے ۔ ان سے ملتے وقت یہ دھیان رکھنا پڑتا تھا کہ ان کا پہلا سوال ہوگا کہ آجکل کونسی کتاب پڑھ رہے ہو؟ اگر بدقسمتی سے وہ کتاب انہوں نے پڑھی ہو، تو سوال پر سوال داغتے تھے ۔جب موڈ ہوتا تو سفارت کاری کے دوران پیش آئے واقعات وہ نمک مرچ لگا کر سناتے تھے۔ان میں سے کئی واقعات کو انہوں نے اپنی خود نوشت سوانح حیات میں بھی قلمبند کیا ہے ۔
وزارت خارجہ میں بھرتی کے دوسال بعد ان کو سعودی عرب کے بادشاہ سعود بن عبدالعزیز کے دورہ کے انتظامات کی ٹیم میں شامل کیا گیا تھا۔ شاہ سعود ایک بہت بڑا وفد لے کر آئے تھے ، جس میں کئی نوجوان شہزادے شامل تھے ۔ ائیرپورٹ پر وزیر تعلیم مولانا ابو الکلام آزاد نے ان کا استقبال کیا۔ چونکہ وہ عربی زبان پر عبور رکھتے تھے، بادشاہ ان سے جلدی گھل مل گئے ۔دورہ کے دوران وفد میں شامل شاہی خاندان کے افراد کو بذریعہ ٹرین آگرہ لے جایا گیا، جہاں شہزادوں نے کچھ خواتین کو چند خدمات کے عوض نقدی کے بدلے سونے کے بسکٹ دئیے ۔ یہ خبر شہر میں کیا پھیلی کہ ہوٹل کے باہر خواتین کا ایک ہجوم جمع ہوگیا۔ اس حد تک کہ لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ ہو گیا۔ وزیر اعظم نہرو تک جب بات پہنچی، تو اس نے چیف آف پروٹوکول کو یہ معاملہ شاہ کے علم میں لانے کیلئے کہا۔ شاہ نے چیف آف پروٹوکول سے مطالبہ کیا کہ ان کو شہزادوں کے نام دیے جائیں، جوایسی حرکت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ وہ شام تک ان کے سر اتار کر نہرو کو بھیج دیں گے ۔
چیف آف پروٹوکول دم دبا کر بھاگ گیا اور نہرو کو بتایا کہ اس معاملہ کو گول کردیں اور شاہ کے سامنے اب اشاروں میں بھی اس کا کوئی ذکر نہ کریں۔ اسی طرح مارچ 1955کو کمبوڈیا کے بادشاہ نورودوم سیہانوک بھارت کے سرکاری دورے پر آئے تھے ۔ وہ اپنے ساتھ پانچ بدھ راہبوں کو بھی لے کر آگئے ۔ بدھ مت کا جنم ہی بھارت میں ہوا ہے ۔ بھارت نے میزبانی کیلئے پانچ بدھ بھکشووں کی خدمات حاصل کی تھیں۔ دونوں طرف کے بھکشووں نے آپس میں بدھ مت کی مقدس پالی زبان میں بات کی۔ سفارت کار خوش تھے کہ دونوں طرف خیر سگالی اور رابطے کا بہت اچھا پیغام جا رہا ہے ۔ بھارت کے بدھ راہبوں کے لیڈر نے ہوٹل پہنچ کر اپنے کمبوڈیا کے ہم منصب سے پوچھا کہ کھانے میں وہ کیا پسند کریں گے ؟ تو کمبوڈیا کے راہبوںنے یک زبان ہو کر کہا کہ ان کو بیف یعنی گائے کا گوشت چاہئے ۔ اتنا سننا تھا کہ بھارتی بھکشو بے ہو ش ہوتے ہوتے رہ گئے ۔
مارچ 1983کو پھر نومبر1983میں بھارت میں بالترتیب ناوابستہ ممالک اور پھر دولت مشترکہ کے ممالک کے سربراہی اجلاس منعقد ہوئے ۔ ان دونوں اجلاسوں کے منتظم کے بطور اندراگاندھی نے نٹور سنگھ کا انتخاب کیا۔ جہاں ایک سربراہ مملکت کے دورے سے حکومت اور اس شہر کی سٹی گم ہو جاتی ہے ، اب اگر ایک سو کے قریب سربراہان مملکت شہر میں موجود ہوں تو کیا سماں ہوگا۔ ان کے آنے سے قبل ان کی سکیورٹی ٹیم اور پھر ان کے وفود کو بھی سنبھالنا پڑتا ہے ۔ شمالی کوریا کی ایڈوانس ٹیم نے نٹور سنگھ کو کہا کہ ان کو پورا ہوٹل درکار ہے اور اس میں اور کوئی نہیں ہونا چاہئے ۔ جب ا ن کا لیڈر سڑک پر ہو، تو ایک گھنٹہ قبل اس پر کوئی ٹریفک نہیں ہونا چاہیے ۔ اس طرح ان کے لیڈر کے آس پاس آٹھ سیٹوں تک کوئی اور نہ بیٹھے ۔ وہ اس وفد کے سربراہ کو سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ تقریبا سو کے قریب سربراہان آرہے ہیں اور کیسے ایک پورا ہوٹل اور ایک پوری سڑک ان کیلئے وقف کرسکتے ہیں۔ نٹور سنگھ کہتے ہیں کہ پوری حکومت کا چین لٹ چکا تھا ، جب تک یہ خبر نہیں آئی کہ شمالی کوریا کے عظیم لیڈر نے سمٹ میں آنے کا فیصلہ رد کردیا ہے اور وہ اپنے وزیر خارجہ کو اجلاس میں شرکت کیلئے بھیج رہے ہیں۔ دولت مشترکہ کا سربراہی اجلاس 1985میںویسٹ انڈیز کے پاس بہاماس کے دارالحکومت ناساؤ میں منعقد ہونے والا تھا۔ان کو وزیر اعظم راجیو گاندھی نے بتایا کہ وہاں جاکر معلوم کریں کہ اس اجلاس کو منعقد کرنے کے حوالے سے کیسے ان کی مدد کی جاسکتی ہے ؟ نٹور سنگھ کا کہنا ہے کہ وہ پہلے نیو یارک چلے گئے اور وہاں اقوام متحدہ میں اپنے مستقل نمائندے سے کہا کہ وہ بہاماس کے سفیر سے رابطہ کرکے وزیر اعظم سر لنڈن آسکر پنڈلنگ سے ملاقات کا بندوبست کراودیں۔ مگر کئی روز تک کوئی پیغام نہیں آیا۔ انہوں نے واشنگٹن میں بھی بہاماس کے سفارت خانے سے رابطہ کیا۔ مگر کچھ حاصل نہیں ہوا۔ ایک روز ان کو اپنے سفیر نے بتایا کہ معروف سادھو چندرا سوامی ان سے بات کرنا چاہتا ہے ۔ جب انہوں نے فون اٹھایا تو سوامی ہنس رہا تھا۔ کنور صاحب، پنڈلنگ سے ملاقات نہیں ہوئی۔” نٹور سنگھ ابھی کچھ غصے میں بولنے والے تھے کہ سوامی نے کہا کہ کل بہاماس کا وزیر اعظم آپ سے ملاقات کر رہا ہے ۔”میں نے انتظام کر دیا ہے” ۔ جہاں بھارت کی پوری سفارت کاری ناکام ہو گئی تھی، وہاں سوامی کامیاب ہو گیا تھا۔ بھارتی سیاست میں چندر سوامی ایک عجیب و غریب کریکٹرکا نام ہے ۔ وہ بعد میں دھوکہ دہی اور کئی الزامات کے سلسلے میں جیل میں بھی رہا۔ مگر کئی سیاستدان اس کے آشرم میں پانی بھرتے نظر آتے تھے اور ایک زمانے میں اس کو بادشاہ گر کے طور بھی دیکھا جاتا تھا۔
نٹور سنگھ کا اس سوامی سے 1975میں بھی واسطہ پڑا ، جب وہ برطانیہ میں نائب سفیر تھے ۔ وزیر خارجہ یشونت راو چوہان نے ان کو ہدایت دی تھی کہ سوامی کولندن میں لارڈ مونٹ بیٹن یا مارگریٹ تھیچر سے ملاقات کروانے کا بندوبست کروائیں”۔ مرتا کیا نہ کرتا، پہلے مونٹ بیٹن کے دروازے پر دستک دی، تو معلوم ہو اکہ وہ چھٹیاں منانے کہیں جا رہے ہیں۔ تھیچر اپوزیشن کی ایک توانا آواز بن کر ابھر رہی تھی، مگر وزارت عظمیٰ سے ابھی بہت دور تھی۔نٹور سنگھ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کس طرح ایک انگریز خاتون ممبر پارلیمنٹ کو ایک سادھو سے ملنے کیلئے راضی کیا جائے ۔ خیر وہ برطانوی پارلیمنٹ میں تھیچر کے دفتر پہنچے اور اس نے دس منٹ ملنے کیلئے ہامی بھری۔ راستے بھر نٹور سنگھ چندرا سوامی کو ہدایت دیتے رہے کہ وہاں کوئی کھڑاک نہ کرنا۔ خیر دفتر میں سوامی نے کاغذ کی چند پرچیوں پر مارگریٹ تھیچر کو کچھ سوال لکھنے کیلئے اور پھر ان کی گولی بناکر میز پر پھینکنے کیلئے کہا۔پھر اس نے ایک ایک گولی میں درج سوال ان کو کھولے بغیر تھیچر کے گوش گزار کئے ۔ میٹنگ ختم ہوگئی، مگر تھیچر نے کہا کہ وہ پھر سوامی سے ملنا چاہتی ہیں اور اس بار بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر کے گھر پر۔ نٹور سنگھ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے گھر پر ڈنر کا اہتمام کیا اور سوامی صوفے پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ کر تھیچر کو بتانے لگا کہ وہ ایک دہائی سے زائد برطانیہ کی وزیر اعظم ہونگیں۔ تھیچر نے پوچھا ،مگر کب ا س عہدہ تک پہنچوں گی؟ سوامی نے جواب دیا کہ اگلے چار یا پانچ سالوں میں۔ تھیچر واقعی پھر 1979میں برطانیہ کی وزیر اعظم منتخب ہوگئیں۔کئی برسوں بعد جب ایک دن کسی تقریب میں نٹور سنگھ نے تھیچر کو، جو اب وزیر اعظم تھیں، یاد دلایا، تو اس نے ان کو ایک کونے میں لے جاکر ہدایت دی کہ اس واقعہ کا ذکر کہیں نہیں ہونا چاہئے ۔
نٹور سنگھ، پاکستان میں بھارت کے ہائی کمشنر بھی رہ چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب وہ اپنی اہلیہ ہیم کے ساتھ 20مئی 1980کو اسلام آباد پہنچے تو جہاز کی کھڑکی سے انہوں نے دیکھا کہ میڈیا کا ایک ہجوم ٹارمیک پر تھا۔ اس کے ساتھ ان کی نظر ایک سرخ قالین پر بھی پڑی۔ انہوں نے سوچا کہ ایسا بھی کیا کہ بھار ت کے نئے ہائی کمشنر کا اس طرح استقبال ہو رہا ہے ۔ وہ اسی زعم میںجب باہر نکلے تو کوئی کیمرہ کلک نہیں ہوا۔ جب ایک دوسرا جہاز ٹارمیک پر آیا تو پورا میڈیا اس کی طرف لپک پڑا، معلوم ہوا کہ مالدیپ کے وزیر خارجہ سرکاری دورہ پر پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ اسلام آباد روانگی سے قبل نٹور سنگھ نے بھارت میں پاکستانی سفیر عبدالستار سے ملاقات کی۔ انہوں نے ستار سے پوچھا کہ” بطور سفار تکار میں جانتا ہوں کہ سرحد پار اپنے دوستوں کو کیا کہنا ہے ۔ مگر مجھے بتائیں کہ مجھے کیا نہیں کہنا چاہئے ؟ان کا صاف جواب تھا کہ” دیگر بھارتی سفارت کاروں اور سیاستدانوں کی طرح یہ کبھی مت کہوں کہ ہم ایک جیسے لوگ ہیں۔ اگر ہم ہوتے توہم 1947میں الگ ہی کیوں ہوتے ”۔
نٹور سنگھ کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ مشورہ گرہ میں باندھ لیا اور اس کو وہ آج تک نہیں بھولے ۔
جب نٹور سنگھ 1980 کی دہائی میں اسلام آباد میں بھارت کے ہائی کمشنر تھے تو ان کی پاکستان کے اس وقت کے صدر ضیاء الحق کے ساتھ بہت دوستی ہوگئی تھی۔ دونوں دہلی کے سینٹ اسٹیفن کالج کے طالب علم رہ چکے تھے ۔ جب 1981میں اس کالج کی صد سالہ تقریبات منائی جارہی تھیں، تو ضیاء الحق اس میں شرکت کرنے کے خواہشمند تھے اور اس بارے میں کئی بار اشارے دے چکے تھے مگر بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو ان کے دہلی آنے سے متعلق تحفظات تھے ۔ نٹور سنگھ نے ضیاء الحق کو کالج میگزین کے صدسالہ خصوصی شمارہ کیلئے ایک مضمون لکھنے کا مشورہ دیا، جو انہوں نے بخوبی تحریر کیا۔ میگزین جب چھپا ، تو نٹور سنگھ نے اس کی کاپی ضیاء الحق کو پیش کی۔ میگزین کے ورق پلٹتے ہوئے ، ان کی نظر ایک مضمون پر پڑی، جس کو آگسٹین پال نے تحریر کیا تھا۔ انہوں نے نٹور سے کہا کہ یہ شخص ہوسٹل میں میرا روم پارٹنر ہوتا تھا۔ اس نے بھارتی ہائی کمشنر سے استدعا کی کہ اس کا ایڈریس ڈھونڈ کر اس تک میرا خط اور آٹو گراف شدہ فوٹو پہنچا دیں۔ نٹور سنگھ کا کہنا ہے کہ بڑی مشکل سے انہوں نے پال کا پتہ لگایا تو معلوم ہوا کہ وہ بنکاک کے بھارتی سفارت خانہ میں کام کرتے ہیں۔ ضیاء الحق اپنے روم میٹ کے جواب کا انتظار کر رہے تھے ۔ جب چند ماہ تک بھی جواب نہیں موصول ہوا، تو انہوں نے نٹور سنگھ سے شکایت کی۔ نٹور سنگھ نے جب پتہ لگایا تو معلوم ہوا کہ اس خط کے ملنے کے بعد پال کی تو حالت خراب ہوگئی ہے ۔ پوری بھارتی انٹیلی جنس اس کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑی ہے ۔ اس کی تو کئی بار پوچھ گچھ ہو چکی ہے ۔پاکستان اور ضیاء الحق کے ساتھ اس کے تعلقات کو کھنگالا جا رہا ہے ۔ آخر اندرا گاندھی کی ذریعے نٹور سنگھ نے اس کی جان خفیہ ایجنسیوں سے چھڑا لی۔ نٹور کا کہنا ہے کہ بجائے ضیاء الحق کے دہلی جانے کے کالج کے اساتذہ اور طلباء کا ایک گروپ، کالج کے پرنسپل مسٹر راجپال کی قیادت میں، اسلام آباد آیا۔ وہ ضیاء الحق کیلئے ایک نایاب تحفہ لائے تھے ۔ یہ ایک تصویر تھی، جس میں ضیاء الحق اپنی کلاس کے ساتھیوں کے ساتھ کھڑے تھے ۔ نٹور سنگھ کا کہنا ہے کہ انہوں نے پہلی بار ضیاء الحق جیسے سخت ترین آدمی، جو کبھی اپنے جذبات کا اظہار نہیں کرتا تھا، کی آنکھوں میں آنسو دیکھے ۔ وہ بار بار اس فوٹو کو چوم رہے تھے ۔ اس نے اس وفد کو بتایا کہ جب یہ فوٹو پرنٹ ہو کر آگئے تھے ، تو ان کے پاس اس کوخریدنے کیلئے پیسے نہیں تھے ۔ جب یہ وفد ہوٹل واپس آیا، تو ان کے کمروں میں بیش قیمت تحائف ضیاء الحق کی طرف سے رکھے گئے تھے ۔ کالج جانے کی ضیاء کی خواہش 1981میں ہی پوری ہو گئی جب وہ ناوابستہ سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے دہلی آئے ۔ سینٹ اسٹیفن کالج کے تاریخ کے استاد پروفیسر محمد امین نے ایک بار مجھے بتایا کہ دہلی یونیورسٹی کیلئے یہ ایک یادگار دن تھا۔ نٹور سنگھ کے ساتھ ضیاء الحق مکھرجی ہاسٹل کے اس کمرے میں گئے ، جہاں وہ مقیم رہے تھے ۔
جنوری 1986 میں جب نٹور سنگھ راجیو گاندھی کی حکومت میں نائب وزیر خارجہ تھے تو افغانستان کے صدر نجیب اللہ کا استقبال کرنے
کیلئے وزیر اعظم نے ائیر پورٹ جاتے ہوئے اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھایا اور پوچھا ”نٹور، کیا ہم پاکستان کے ساتھ جنگ کرنے والے ہیں”؟ راجستھان میں اس وقت فوج کے سربراہ جنرل سندرجی کی ایما پر فوجی مشقیں ہو رہی تھیںجو ایک بڑا مسئلہ بن گئی تھیں۔ اس وقت کے وزیر مملکت برائے دفاع ارون سنگھ نے اسکی منظوری دی تھی۔ وزیر اعظم نے ان سے اور وزیر خارجہ این ڈی تیواری سے ا مریکہ اور سوویت یونین کے سفیروںسے مل کر پاکستانی فوج کی نقل و حرکت کے بارے میں معلوم کرنے کیلئے کہا۔ سفیروں نے جلد ہی اطلاع دی کہ سرحد پار کوئی فوجی جماؤ نہیں ہے ۔ وزیر اعظم نے ایک میٹنگ بلائی اور جب وزارت خارجہ کی طرف سے تیواری اور سنگھ نے سفیروں کی معلومات رکھیں تو ارون سنگھ نے امریکی اور روسی سیٹلائٹوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگایا اور کہا کہ ان کو اطلاع ہے کہ پاکستان حملہ کرنے والا ہے ۔ میٹنگ ختم ہونے کے بعد وزیر اعظم نے وزیر خارجہ اور نٹور سنگھ کو روک کر پوچھا کہ ایسے وزیر دفاع کے ساتھ کیا کرنا چاہئے ؟نٹور سنگھ نے کہا برطرفی کے علاوہ کیا کیا جاسکتا ہے ؟ راجیو نے کہا کہ وہ ان کے ا سکول کا ساتھی ہے ۔ نٹور سنگھ اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں کہ میں نے کچھ سختی سے کہا، جناب ، آپ دون اسکول کی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے صدر نہیں ہیں، بلکہ ایک ملک کے وزیراعظم ہیں اور وزیر اعظم کا کوئی دوست نہیں ہوتا۔ چند دن بعد ہی ارون سنگھ کو وزارت خزانہ میں تبدیل کر دیا گیا، بعد میں نہ صرف اس کو وزارت سے برطر ف کیا گیا، بلکہ راجیہ سبھا سے بھی مستعفی ہونے کیلئے کہا گیا۔ اس دوران صدر ضیاء الحق بھی فروری 1987میں کرکٹ میچ دیکھنے کے بہانے راجیو گاندھی کو جنگ ہونے کی صورت میں خطرناک نتائج بھگتنے کی دھمکی دے چکے تھے ۔
2004میں کانگریس پارٹی کے زیر قیادت اتحاد کی جیت کے بعدان کو وزیر خارجہ بنایا گیا۔ مگر ایک سال بعد ہی امریکی پال وولکر کی رپورٹ نے ان کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا،جس میںان کا نام ان سیاستدانوں اور کاروباریوں کے ساتھ آیا تھا، جن کو عراقی صدر صدام حسین نے تیل کے کوپن دیکر نوازا تھا۔کانگریس پارٹی نے اپنے آپ کو ان سے علیحدہ کرلیا۔ من موہن سنگھ نے پہلے ان کو وزارت خارجہ سے ہٹا کر وزیر بے قلمدان بنایا اور پھر ان کو وزارت اور پھر کانگریس پارٹی ہی چھوڑنا پڑی۔ اس واقعہ سے قبل ہی سونیاگاندھی کا دل ان سے کھٹا ہو چکا تھا۔ مگر بتایا جاتا ہے کہ چونکہ امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدہ کے خد و خال طے ہو رہے تھے تو واشنگٹن کی پہلی شرط نٹور سنگھ کو ہٹانے کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ انہوں نے عراق پر امریکی جنگ کی مخالفت کی تھی اس لئے امریکی ان سے بدلہ لے رہے تھے ۔ انہوں نے اپنی سوانح حیاتOne Life Is Not Enoough کے دیباچہ میں لکھا ہے کہ”زندگی نقشے کے بغیر ایک سفر ہے ۔ میرے باغ میں بہت سے پتے جھڑ گئے ہیں۔ اب کوئی ہار یا جیت نہیں ہے ، صرف خود شناسی ہے ۔ ہر صبح اب کوئی وعدہ نہیں ہے” ۔ وہ ایک زیرک اور کامیاب سفارت کار تھے ، گاندھی خاندان کے نہایت ہی قریبی مانے جاتے تھے ، مگر سیاست کسی کی دوست نہیں ہوتی ہے ، یہ بس مفادات کی آبیاری کا نام ہے ۔ کانگریس ان سے دورتو ہوگئی، مگر نٹور سنگھ اور ا ن کے بیٹے جگت سنگھ بھی تو خود تمام عمر کے پالے ہوئے نظریہ کو لات مار کر بی جے پی کی گود میں بیٹھ گئے ، جہاں ا ن کے نظریہ ساز نہرو کو دن رات گالیاں دی جار ہی ہیں۔واہ رے سیاست تیرے انداز۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔