... loading ...
جاوید محمود
برطانوی اخبار دی گارڈین نے یہ انکشاف کیا ہے کہ اقوام متحدہ کا یہ اندازہ ہے کہ فلسطین میں ملبے کو نکالنے میں 15سال لگیں گے جبکہ ملبہ ہٹانے کے آپریشن کی لاگت پانچ سو ملین سے لے کر 600 ملین ڈالر کے درمیان ہوگی۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام نے مئی میں اعلان کیا تھا کہ غزہ میں جنگ کے دوران تباہ ہونے والے گھروں کی تعمیر نو کا کام 2040تک جاری رہ سکتا ہے۔ یہ انتہائی معقول امکان ہے ،ورنہ اس سے زیادہ عرصہ بھی لگ سکتا ہے ۔پوری پٹی میں تعمیر نو کی کل لاگت 40سے 50 ارب ڈالرز تک پہنچ جائے گی۔ اقوام متحدہ کے مطابق بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والا نقصان بہت زیادہ ہے۔ خان یونس میں ایک بھی عمارت ایسی نہیں جو اب تک محفوظ ہو۔ اسکول صحت کی سہولیات سڑکیں صفائی ستھرائی اور دیگر اہم انفراسٹرکچر سبھی کو شدید نقصان پہنچا ۔واضح رہے ایک طرف غزہ کے لوگ انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں اور تباہ شدہ ملبہ کے ڈھیر پر اپنی زندگی کی بقیہ سانسیں پوری کر رہے ہیں جبکہ اس کے برعکس سعودی عرب دنیا کا ماڈرن شہر بنانے کے لیے اپنی تمام توانائی اور صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں مصروف ہے۔
سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے نئے شہر کے منصوبے میں 90 لاکھ شہریوں کو بسانا چاہتے ہیں۔ اس کی منفرد ڈیزائن میں آمنے سامنے دو ہو بہو عمارتیں کھڑی دکھائی دیتی ہیں جو 500 میٹر اونچی ہیں یعنی امپائراسٹیٹ بلڈنگ سے بھی بڑی ان کی چوڑائی 100 کلومیٹر سے بھی زیادہ بتائی گئی ہے۔ یہ سعودی شہزادے کے 500ارب ڈالرز کے نیوم پروجیکٹ کا حصہ ہیں جس کے ذریعے بیلجیئم جتنے صحرا کو جدید شہر میں تبدیل کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے ۔محمد بن سلطان نے اس میگا پروجیکٹ کا اعلان 2017میں کیا تھا اور اس سلسلے میں یہ عہد کیا تھا کہ اس منصوبے سے ایک جدید تر شہری زندگی کی بنیاد رکھی جائے گی۔ اس کے ذریعے غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھنے نے کی توقع کی جا رہی ہے تاکہ معیشت پر سے تیل کی برآمد کا انحصار کم کیا جا سکے مگر پانچ سال گزرنے کے باوجود نیوم منصوبہ تاخیر کا شکار ہے جس میں سب سے بڑی مشکل سعودی شہزادے کے خوابوں کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ اندھیرے میں جگمگاتا ساحل وسیع عریض صحراؤں والے ملک میں اربوں درخت مقناطیسی قوت سے زمین کے اوپر دوڑتی مسافر ٹرینیں ،ایک نقلی چاند ،صحرا کے ساتھ ساتھ 100 میل طویل ماحول دوست شہر ،یہ مستقبل میں بسائے جانے والے ایک مجوزہ شہر نیوم میں بننے والے کچھ منصوبے ہیں۔ سعودی عرب اپنے ملک کو سرسبز بنانے کے عزم کے تحت ایک ایسا شہر بسانا چاہتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب ممکن ہے؟ نیوم انتظامیہ کا دعوی ہے کہ یہ مستقبل کا ایک ایسا نقشہ ہے جس کے تحت انسانیت ترقی اور جدید یت کی منازل تو طے کرے گی مگر اس ترقی کا کرہ ارض کے ماحول پر کوئی برا اثر نہیں پڑے گا۔
شہر بسانے کے اس منصوبے کی مالیت لگ بھگ 500 ارب ڈالر ہے اور یہ سعودی عرب کے ویژن 2030 کے بڑے منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت سعودی عرب اپنی معیشت کو تیل پر انحصار سے چھٹکا رادلا پائے گا۔ واضح رہے کہ تیل کی صنعت نے ہی سعودی عرب کو دولت سے مالامال ملک بنایا ہوا ہے مگر اب سعودی عرب چاہتا ہے کہ ملکی معیشت کا انحصار تیل پر کم از کم ہو۔ یہ شہر مجموعی طور پر500٫ 26 مربع کلومیٹر کے رقبے پر تعمیر کیا جائے گا۔ یہ رقبہ کویت یا اسرائیل کے انفرادی رقبے سے بڑا ہے۔ اس شہر کے منصوبہ سازوں کا دعویٰ ہے کہ شہر میں سعودی قوانین لاگو نہیں ہوں گے کیونکہ یہ خود مختار علاقہ ہوگا جس کے نظام کو سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے ڈیزائن کیا جائے گا۔ منصوبہ سازوں کا دعویٰ ہے کہ جب یہ شہر مکمل ہو جائے گا تو اس میں تیز رفتار ٹرینوں کے ذریعے سفر ہوگا اور شہر کے کونے سے دوسرے کونے تک پہنچنے میں زیادہ سے زیادہ 20 منٹ لگیں گے۔ نیوم کا تجارتی یا کمرشل مرکز بھی دلچسپ ہوگا جو بذات خود ایک پانی پر تیرتا ہوا چھوٹا شہر ہوگا۔ منصوبے کے مطابق شہر کا تجارتی مرکز 7میٹر 4.3 میل کے رقبے پر محیط ہوگا اور یہ دنیا کا سب سے بڑا تیرتا ہوا تعمیراتی ڈھانچہ ہوگا۔ نیوم کے چیف ایگزیکٹو کا کہنا ہے کہ یہ بندرگاہ کاواحد شہر آغاز میں اپنے پہلے کرائے داروں کا خیر مقدم کرے گا لیکن اب تک سعودی عرب سب سے مشکل ترین انتخاب سے گریز کر رہے ہیں جس میں وہ ایندھن یعنی پٹرول کی پیداوار سے دور ہو رہے ہیں۔ سعودیوں کا کہنا ہے کہ وہ دنیا کی توانائی کی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں۔ سعودی سفارت خانے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں ہائیڈرو کاربن کی مانگ اب بھی موجود ہے۔ نیوم کی عوامی رابطے کی کوششیں سعودی معیشت کو متنوع بنانے کے لیے سیاحوں کو راغب کرنے کی کوشش کا حصہ ہے لیکن وہ بھی تنقید کی زد میں ہے۔ چمکدار پروموشنل ویڈیوز ایک کاسمو پولیٹن شہر کے اپنے قوانین اور سیکورٹی فورسز کے ساتھ تمام چمک دمک اور گلیمر کو دکھاتے ہیں۔ یہ علاقہ سعودی عرب پر حکومت کرنے والے پرانے محافظوں سے آزاد ہے بہرحال ناقدین کا کہنا ہے کہ اس منصوبے میں زیادہ امیروں کی ضرورتیں پوری ہوں گی اور ان کا خیال رکھا جائے گا ۔اطلاعات کے مطابق ملک کے شاہی خاندان کے لیے یہاں محلات بنائے گئے ہیں ۔پہلے تعمیراتی منصوبوں کی سیٹلائٹ سے لی جانے والی تصاویر میں ایک ہیلی پیڈ اور ایک گولف کورس دکھائی دیتے ہیں۔ اس شہر میں مزدوروں سے لے کر عرب پتیوں تک ہر ایک کو رکھا جائے گا۔ عمومی سطح پر اس دعوے کو قبول عام حاصل نہیں ۔محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ ایک سرسبز مستقبل کے لیے اس سفر کا آغاز آسان نہیں تھا لیکن ہم سخت چوائس سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ ہم معیشت کو تحفظ اور ماحولیات کے تحفظ کے درمیان غلط انتخاب کو مسترد کرتے ہیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی میں توانائی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پٹرول کے کنووں کو بند کرنا مشکل ہوگا۔ اقتصادی نقطہ نظر سے کسی ایسے ملک سے جس کا انحصار حد درجہ تیل اور گیس پر ہو اس سے یہ توقع کرنا بہت مشکل ہوگا کہ وہ اچانک اس کا استعمال بند کر دے اور اپنے پاس موجود وسائل کا نکالنا بند کر دے نیوم شہر پردرجنوں رپورٹس شائع ہو چکی ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ یہ ویژن سعودی عرب کا نہیں ہو سکتا۔ اس ویژن کے پیچھے ان یہودیوں کا منصوبہ کام کر رہا ہے جو عالمی سطح پر کاروبار پر چھائے ہوئے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اس شہر میں سعودی قوانین نافذ نہیں ہوں گے۔ موجودہ عالمی صورتحال میں فلسطینیوں کو نظر انداز کر کے اس جدید شہر کو تعمیر کرنا فلسطینیوں کے ساتھ کھلے عام زیادتی ہے۔ غزہ کی فلسطینی پٹی پر 40ملین ٹن سے زیادہ ملبہ پڑا ہے جسے صاف کرنے میں 15 سال لگیں گے ۔حال ہی میں ایک ایسی چونکا دینے والی رپورٹ منظر عام پر آئی ہے جس کے مطابق غزہ میں اب تک پونے دو لاکھ سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ یہ انکشاف لندن سے شائع ہونے والے بین الاقوامی طبی جریدے لینسٹ نے کیا ہے۔ غزہ میں اسرائیلی درندگی اور بربریت کا ننگا ناچ بلا روک ٹوک جاری ہے ۔ہر روز میڈیا میں اس کی دل دہلادینے والی خبریں شائع ہوتی ہیںلیکن اب ہم ان خبروں کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ ان پر شاذ و نادر ہی نظر ڈالتے ہیں ۔فلسطینیوں کی نظریں اپنے مسلمان بھائیوں پر لگی ہیں اور انہوں نے یہ امید لگا رکھی ہے کہ مسلمان بھائی ان کی مدد کریں گے لیکن اس کے برعکس سعودی عرب فلسطینیوں کو نظر انداز کر کے ایک ایساماڈرن سٹی تعمیر کرنے میں مشغول ہے جو اس سے پہلے کبھی تعمیر نہ ہو سکا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان حالات میں فلسطینیوں کو نظر انداز کرنا ان کے ساتھ سرا سر ظلم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔