... loading ...
سمیع اللہ ملک
آج میرے پاکستان کی78ویں سالگرہ ہے،مجھے اس کی دوستی پرفخرہے۔جب میں اس کے ہمراہ ہوتاہوں تومجھے ایک گونہ اطمینان ہوتاہے۔پاکستان کی ایک بد قسمتی یہ بھی رہی ہے کہ اس کوقائد اوراس کے رفقا کے بعدجوساتھی ملے،اس کے خلوص، اس کی محبت،اس کی ہمدردی،اس کی وسیع القلبی کابے جااستعمال کرتے رہے۔ پاکستان یہ سب چکرسمجھتا تھا مگراپنی طبعی شرافت کی وجہ سے اس نے یہ سارے معاملات اللہ پرچھوڑرکھے تھے۔جب میں اپنے گھرسے باہرنکلاتومیں نے جگہ جگہ اجتماعات دیکھے،جس میں مقررحضرات پاکستان سے اپنی دوستی اورمحبت میں ایک دوسرے سے بڑھ کررطب اللسان تھے۔میں ایک جلسے سے دوسرے پھردوسرے سے تیسرے میں پاکستان کو تلاش کرتارہا،ہرکوئی ایک دوسرے پرالزامات کے طعنوں اورتیروں کی بارش کرتانظرآیاجبکہ قوم جانتی ہے کہ ان سب کاکردارایک جیسا ہے، مجھے یوں واضح نظرآرہاتھاکہ پاکستان اپنی اس78ویں سالگرہ کی تیاریوں میں نہ توشریک ہوناچاہتاہے اورنہ ان تمام اجتماعات کرنے والوں کے ساتھ کوئی بات بھی کرنا چاہتاہے کہ اس کودشمن نے اتنے گھانہیں لگائے جس قدران کے ہاتھوں زخم کھائے ہیں۔
ان پریشان کن خیالات کولے کر میں نے گلی گلی اس کوڈھونڈناشروع کیا،جیسے جیسے میری تلاش بڑھتی گئی،میری امیدکمزور پڑتی گئی اوروقت بھی تنگ ہوتاچلاگیا۔مجھے یہ بھی فکرلاحق تھی کہ شام کوبچوں سمیت پوتے پوتیوں نے بھی پاکستان سے مل کر مبارکباد دینا تھی، اگر مجھے پاکستان نہ ملاتومیں اپنے بچوں کوکیاجواب دوں گا،ویسے بھی بچے پاکستان سے میری دوستی کو ایک خواب ہی سمجھتے تھے اورمیں نے بڑے وثوق سے ان کویقین دلایاتھاکہ میں تم کوبتاں گاکہ میں اورپاکستان کتنے اچھے دوست اورساتھی ہیں۔اچانک خیال آیاکہ پاکستان جب گھبراتاہے یاکسی بات پراس کوصدمہ ہوتاہے تووہ ایک ہی جگہ ملتاہے۔یہ خیال آتے ہی میں الٹے پاؤں بھاگتاہواگھرآیااوراپنے بچوں،پوتوں کوساتھ لے کر قائداعظم کے مزارکی طرف روانہ ہوگیا۔بابائے قوم کے مزار کے احاطے میں آیاتوکیادیکھتاہوں کہ پاکستان بابا کی قبرسے لپٹاہچکیاں لے رہاہے۔
قدموں کی آہٹ پرپاکستان نے اپناآنسوؤں بھراچہرہ قبرسے الگ کیااوراپنی سوجی ہوئی آنکھوں سے میری طرف لپکا۔میں نے بے اختیاری میں اپنے ہاتھ پھیلائے،بغل گیر ہوتے ہی ہم دونوں ایک دوسرے کوبتائے بغیرپھوٹ پھوٹ کررونے لگ گئے اورمیرے بچے یہ مناظردیکھ کرحیران وپریشاں تھے۔میں نے اپنی نظریں جھکاکرپوچھاکہ پاکستان تم اپنی سالگرہ کے جلسوں میں کیوں نہیں تھے؟اس نے مجھے فوراًاپنے سے الگ کرتے ہوئے ایک ہاتھ سے میراکندھاپکڑکرزورسے جھٹکادیاکہ تم بھی مجھے یہی کہنے کیلئے آئے ہو؟ کیاکوئی اپنی سالگرہ اس منافقت سے مناسکتاہے؟میں نے کہاکہ میں تمہاری بات نہیں سمجھا،اس پرپاکستان نے قبرکی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھے یہ کہاکہ کیامجھے میرے باپ نے اسی لئے جنم دیا تھاکہ یہاں قتل وغارت گری ہو، عبادت گاہوں میں خون خرابہ ہو،رشوت،چوربازاری ہو،امتحانوں میں نقل اورغنڈ ہ گردی ہو، عالمی مالیاتی اداروں کے قرض میں ڈوبے ہوئے پاکستان میںصدر،وزیراعظم،وزرائے اعلیٰ، ججز، اسپیکر زاوردیگراشرافیہ اس شاہانہ پروٹوکول کے ساتھ سالانہ اربوں روپے اڑادیں اورقوم مہنگائی اوربلوں کے ہاتھوں خودکشیاں کررہی ہو۔ قوم کے اربوں نہیں کھربوں روپے لوٹ کراغیارکے بینکوں میں محفوظ کررکھے ہوں اوررہائش کیلئے اپنے محلات تعمیرکررکھے ہوں اورجبکہ قوم کے افراد جھونپڑیوں میں سسک رہی ہو۔ایف بی آرکاادارہ جس کام محصولات وصول کرکے کارِحکومت کے قوانین کی پابندی کرناہومگروہاں اربوں روپے کی رشوت کی تقسیم میں ایک دوسرے پربندوقیں تان لی جائیں اورجب سرکاری تحقیقاتی ادارہ اس کی تفتیش کیلئے تمام دستاویزات طلب کرکے تفتیش کاآغازکرناچاہے تویہی راشی حضرات لاہورہائی کورٹس سے اس تفتیش کے خلاف احکام لے آئیں۔کیامیرے باپ نے اس کھلم کھلاکرپشن اورلاقانونیت کیلئے اپنی صحت کوبھی داؤپرلگادیاتھااورکھلی سڑک پرایک سرکاری ایمبولنس میں اپنی لاچار زندگی کے آخری سانس لئے تھے۔کیاپاکستان اس لئے بنایاتھا کہ ہزاروں میل دورسے وہی استعمارآکرتم پرحکم چلائیں جن سے میں تمہیں باوقاراندازمیں آزادکرواکے گیاتھا،میری تصویر کواپنی پشت پرلٹکاکرمیرے سامنے میری غیرت کوسرِعام نیلام کیاجائے اورتم سب منہ میں گھنگھنیاں ڈال کرکسی مصلحت کی بناپراف تک نہ کرو،حتی کہ دنیا کی تمام برائیوں کواپنے ہاں رائج کرکے خودکوترقی یافتہ سمجھو؟
میں جب ایک سال اورکچھ دن کاتھاتومجھ سے میرے بابابچھڑگئے،اس یتیم کوپالنے کیلئے میرے چچا نے بھرپورکرداراداکیا اورآہستہ آہستہ وہ لوگ بھی مجھ سے بچھڑگئے۔ایک پھوپھی تھی جومیری غمخواراورہمدردتھی،باپ کی کمی جب مجھے محسوس ہوتی تومیں ان کی گود میں سررکھ دیتااوربے انتہاسکون پاتا۔افسوس وہ بھی مجھ سے جداہوگئیں،میں غیروں کے رحم وکرم پر آگیا،جوچچااوررشتہ دارکروڑپتی تھے،نواب تھے،صاحبِ حیثیت تھے،انہوں نے اپناتمام دھن مجھ پرلٹادیااورمرتے وقت ان کی زبان سے میرے لئے دعائے خیرکے کلمات ہی نکلے کہ اے اللہ!پاکستان کی حفاظت کرنا(آمین)۔اب تم خودہی بتاکیاوہ لوگ عظیم تھے جنہوں نے ایک یتیم کی پرورش کیلئے اپنی جان ومال داپرلگادیئے یاوہ لوگ عظیم ہیں جومیری جائیداد،میری دولت کو لوٹتے رہے اوراپنے ناموں اوراپنی اولادوں کے نام منتقل کرتے رہے اورپھرڈھٹائی دیکھوکہ اس یتیم کوبجائے سنوارنے اور بنانے کے ایک بازوسے بھی محروم کردیااورپھربھی میری محبت کاجھوٹادم بھرتے ہیں۔اب تم خودہی بتاکیا میں ان کی محفلوں میں شریک ہوسکتاہوں؟
میں نے کہادیکھومیرے ساتھ میرے بچے اورمیرے پوتے بھی آئے ہیں اورمیں بڑے فخرسے اپنی اورتمہاری دوستی کے متعلق بتاتاہوں تویہ مانتے نہیں۔پاکستان نے اپنے بازو میرے بچوں اورپوتوں کے سرپررکھے اورکہااے بچو!تمہارے اورتمہارے ابوجیسے لوگ مجھ سے بے غرض محبت کرتے ہیں اورانہی جیسے لوگوں کی وجہ سے میں اب تک مملکت ِ خدا داد ہوںورنہ اپنوں کی ریشہ دوانیوں کاشکارہوکرکب کاختم ہوگیاہوتا۔مجھے آج بھی یاد ہے جب تمہارا باپ میراایک بازوکٹ جانے کی خبرسن کرزمین پرگر گیاتھاتواس کے سرپرایک چوٹ آئی تھی تومیرے ہی دوسرے سلامت مگرزخمی ہاتھ نے اس کوسہارادیکرزمین سے اٹھایااوراس کے زخم پراپنی محبت کامرہم رکھااوریہ احساس اسی وقت پیداہوتاہے جب کسی کیلئے زندگی جیسی قیمتی چیزبھی قربان کردی جائے۔ وہ لوگ بھی مجھ سے محبت کرتے ہیں جوایمانداری،وفاداری اورخلوص کے ساتھ میری خدمت میں لگے ہوئے ہیں اور کسی قسم کا صلہ نہیں چاہتے۔
تمہیں یادہے کہ ایساہی سپوت جوسقوطِ مشرقی پاکستان جیسے صدمے کے بعدہالینڈمیں دنیاکی تمام مادی آسائشوں کوترک کرکے صرف میرے زخمی جسد پرآنے والے زخموں کے علاج کیلئے چلاآیااوربالآخراس نے نہ صرف میرے ان زخموں کوعلاج کیابلکہ اس کوایسامضبوط اورایٹمی قوت بنادیاکہ ہرموذی دشمن کی ناپاک نگاہ سے محفوط بنادیالیکن یہاں کے ڈکٹیٹرحکمران نے اس کے ساتھ کیاسلوک کیا؟ساری قوم کے سامنے آبدیدہ اورنمناک آنکھوں سے معافی کے خواستگارالفاظ اس کے منہ سے نکل رہے تھے لیکن مجھ سے محبت کرنے والوں کے دلوں پرنشترچل رہے تھے۔ہم نے اس سے یہ سلوک کیاکہ اس کوعالمِ تنہائی جیسے عذاب میں مبتلاکردیاتاوقتیکہ وہ اسی فریادکناں حالت میں اللہ کے ہاں حاضر ہوگیا۔وہ مردمجاہدڈاکٹر عبدالقدیر خان یقینااپنے رب کے ہاں بڑے اعزازکے ساتھ ہوگالیکن ہمارے ان ڈکٹیٹروں نے سیاستدانوں سے مل کرمیرے باقی ماندہ جسم کوبھی بھنبھوڑکررکھ دیاہے۔اب عالمی ادارے خاکم بدہن ایک خاص سازش کے تحت مجھے اسے ایٹمی قوت سے محروم کرنے کے درپے ہیں اوراقتدارکے بھوکے بھیڑیے ایک دوسرے پردشنام طرازی میں مصروف ہیں۔
میں نے پاکستان سے ایک مرتبہ پھردرخواست کی کہ میرے بچوں کونصیحت فرمائیں کہ اس خطرناک سیاسی ابتری اورانارکی کے ماحول میں ان کوکیاکرناچاہئے توپاکستان نے ان کو مسرت سے دیکھتے ہوئے کہاکہ بچو !میری خدمت یامجھ سے محبت کے اوربھی بے شماراندازہیں جومیں تم کوبتاناچاہتاہوں۔لال بتی پررکنا،قانون کی پاسداری کرنا،اپنے اختیارات کاناجائزاستعمال نہیں کرنااورمظلوموں کے حقوق دلانا،یہ بھی مجھ سے محبت کے اندازہیں۔اپنے کام کوتندہی سے کرنا،میرے باباکے فرمان ”ایمان، اتحاد،تنظیم”کی پاسداری کرنا اورجس منصب پرفائزہو،اس کوایمانداری سے انجام دینابھی میری محبت ہے۔میری پوتے نے کہا کہ پاکستان!میں نے آج صبح اسکول میں آپ اورہم سب کے باباکے احسانات پرتقریرکی تھی اورمجھے یہ دیکھ کربہت افسوس ہواکہ میں جب تقریرکررہاتھاتواسٹیج پربیٹھے بزرگ بجائے میری بات سننے کے باتوں میں مشغول ہوگئے اورمیری تقریرکے بعد جب یہ اعلان ہواکہ اب ان کی خدمت میں ایک گانااوررقص پیش کیاجائے گاتووہ خوشی کے مارے اپنی اپنی کرسیوں سے اٹھ کر کھڑے ہوگئے اورمسلسل تالیوں کے ساتھ وہ زمین پرپاؤں مارنے لگے بلکہ کچھ مردوخواتین تواس گیت پررقص بھی کرنے لگ گئے۔
پاکستان نے سردآہ بھری اورمیری پوتے کے سر پر اپنا کانپتا ہاتھ رکھ کر کہابیٹے!تم صحیح کہہ رہے ہو،ہمارے بڑوں نے اپنے مقصد ِ حیات کارخ صحیح راہ پرنہیں ڈالاجس کے نتیجے میں ہم اپناتمدن اورثقافت،آداب واطوارفراموش کربیٹھے،پھرپاکستان نے کہابیٹا!یہ میرے باباکی عظمت ہے کہ آزادی کی جنگ میں جہاں لاکھوں افرادقربان ہوتے ہیں انہوں نے ایک گولی چلائے بغیراور ایک قطرہ خوں بہائے بغیراتنی بڑی اسلامی مملکت وجود میں لے آئے،یہ الگ بات ہے کہ فرنگی اورہندوبنئے کی سازشوں نے میرے ہزاروں بچوں کو ہجرت کرتے ہوئے کاٹ دیالیکن اس کے باوجود وہ جب مجھ سے ملے تو ان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔پھر پاکستان نے میرے بیٹے کی طرف دیکھتے ہوئے کہابیٹا!تم استاد ہومگر تمہارا یہ علم اورپیشہ تمہارے لئے دولت کمانے کاذریعہ نہ بنے بلکہ تمہارے ساتھیوں اوردوسرے شہریوں کیلئے باعثِ خدمت ہو،یہی تمہاری محبت کااظہارہوگا۔پھرننھے معصوم پوتے کی طرف دیکھتے ہوئے کہاکہ یہ عمرمعصومیت کی ہے اوراس کی معصومیت کوبچانااوراس کی حفاظت کرنایہ تم بڑوں کاکام ہے۔یہ ابن الوقت لوگ جواس وقت میرے نام کی بیساکھی لیکرسیاسی میدان میں اونچااڑناچاہتے ہیں،میرے زخموں سے چورجسدکاعلاج کرنے کی بجائے مجھے نیالباس پہناکرتمہیں دھوکہ دینے کی کوشش کریں گے،وہ زیادہ عرصے تک پنپ نہیں پائیں گے۔
بچو!میں تمہیں آج ایک رازکی بات بتاتاہوں کہ تمہارے ابواورداداکی محبت جووہ مجھ سے کرتے ہیں،ایک عجیب سی محبت ہے ۔یہ دنیامیںجہاں جہاں بھی گئے میرے نام کوبلندہی کرتے رہے!ایک بات اوربتادوں کہ آج صبح تمہارے ابونے اپنے تمام ساتھیوں کوکانفرنس روم میں جمع کیااورمیرے بھائی اقبال کی لکھی ایک نظم”لب پہ آتی ہے دعابن کے تمنا میری”سب نے مل کرپڑھی، پھرہرایک نے باری باری میری تاریخِ آزادی اورلوگوں کی مجھ سے عقیدت اورمحبت کے اوپراپنے خیالات کااظہارکیا۔محبت کا یہ اظہارکسی کے زور ، کسی زبردستی،کسی لالچ کے بغیرتھا،سب ساتھیوں کے چہروں پرجذبات کی حرارت،آنکھوں میں فرطِ محبت سے امڈے ہوئے آنسواورکپکپاتے ہوئے لب اس بات کی غمازی کررہے تھے کہ یہ اوران جیسے بے شمارلوگ اب بھی مجھ سے بے غرض محبت کرتے ہیں توبچو!تم بھی اپنے ابواوران کے ساتھیوں جیسے بنوکیونکہ تم ہی سے ان کی کل اورمیری نئی صبح وابستہ ہے۔پاکستان کی آوازگلوگیرتھی اوروہ خاموش کھڑااپنے باپ سے کہہ رہاتھا!
”بابا!تم نے میراایک تشخص بنایا،تمہارے ساتھیوں نے اس میں رنگ بھرااورکچھ نادانوں نے اس رنگ کواپنی حماقتوں سے مٹانے کی کوشش کی۔اچانک رات کے وقت شب خون مارکرایک طالع آزماجواپنے آپ کوایک کمانڈوجنرل بھی کہتاتھا،تمہاری کرسی پرقبضہ جما کر بیٹھ گیا۔مسلسل آٹھ سال سے کچھ اوپراس نے مجھ پربے پناہ مظالم ڈھائے۔میرے بچوں اوربچیوں کواس نے ایک استعماری طاقت کے ہاتھوں ڈالروں کے عوض فروخت کردیا،میری بیٹی عافیہ کواس کے معصوم بچوں سمیت ان درندوں کے حوالے کردیاجوآج بھی آسمان کی طرف منہ کرکے کسی محمدبن قاسم کوبلارہی ہے لیکن اس ظالم فاسق کمانڈونے بڑے فخر سے اپنے اس اقبالِ جرم کواپنی کتاب میں تحریرکرکے خوداپنے ان تمام گناہوں کو ریکارڈکرکے اب خوداللہ کی عدالت میں پہنچ گیا ہے، بلکہ میری غیرت وحمیت کواس نے تارتارکردیااورجاتے ہوئے اپنی کھال کوبچانے کیلئے ایک رسوائے زمانہ قانون این آر او کے تحت تمہاری کرسی اورمیری تقدیروقسمت کوانہی کے سپردکرگیاجن پراس ملک کے لوٹنے کے بے شمارالزامات تھے اوراس کے بعدبدقسمتی کایہ سلسلہ اب تک چل رہاہے۔
متنازع کشمیرجس کوتم نے میری شہ رگ قراردیاتھااس کوبھی خاموشی سے ہندوبنئے کے سپردکردیاگیاہے۔خودکوکشمیرکاوکیل کہنے والے نے ڈیڑھ لاکھ سے زائدکشمیریوں کی جانی قربانیوں سے غداری کرتے ہوئے تھالی میں رکھ کرکشمیرکومودی کی جھولی میں ڈال دیا۔میری ہی بہادر فوج کاسربراہ میرصادق اورمیرجعفردردرجن صافیوں کوبلاکراپنی بزدلی اور بے بسی کارونا روتا رہا۔ہماری عدلیہ جس کاکام ایسے تمام بہروپیوں کااحتساب کرناہوتاہے،وہ بھی اپنے فیصلوں سے میرے جسم پرچھیدکرتے رہے اوران کی کارکردگی کانام عالمی انڈیکس میں سب سے نچلی سطروں میں پہنچ گیاہے۔بابا!مگراب بھی بہت سے لوگ میری محبت میں تن من دھن کی بازی لگانے کیلئے تیارہیں اورمجھے امیدہے میرانام،میری شناخت انشااللہ ختم نہیں ہوسکتی!
پھر پاکستان نے اپنا آنسوں سے ترچہرہ اٹھایا،میرااورمیرے بچوں کاہاتھ پکڑا،ہم نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کرپاکستان پائندہ باداور
قائداعظم زندہ بادکے پرجوش نعرے لگائے، قومی ترانہ پڑھ کرمزارسے باہرآئے۔سب نے باری باری پاکستان کے ساتھ ہاتھ ملایا اورتجدیدِعہدکرکے ہم لوگ اپنے گھرکو واپس ہوئے۔(پاکستان پائندہ باد)