... loading ...
معصوم مرادآبادی
سرکاری ملازمین کے آرایس ایس کی سرگرمیوں میں حصہ لینے پرعائد پابندی ہٹالی گئی ہے ۔یہ پابندی گزشتہ58سال سے عائد تھی،لیکن اب سرکار نے اسے غیرضروری قرار دیتے ہوئے سرکاری ملازموں کو اس بات کی چھوٹ دے دی ہے کہ وہ جب اور جہاں چاہیں آرایس ایس کی شاکھاؤں میں شامل ہوسکتے ہیں اور اس کی دیگر سرگرمیوں میں بھی حصہ لے سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ آرایس ایس کے علاوہ جن دیگر جماعتوں کی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر سرکاری ملازمین پر پابندی تھی، ان میں جماعت اسلامی بھی شامل تھی، لیکن گزشتہ9/جولائی کو جو سرکلر جاری کیا گیا ہے ، اس میں صرف آرایس ایس کی سرگرمیوں میں شامل ہونے کی ہی چھوٹ دی گئی ہے ۔ آرایس ایس کے علاوہ دیگر جماعتوں پر جو پابندی عائد تھی وہ جوں کی توں برقرار رہے گی۔سبھی جانتے ہیں کہ موجودہ بی جے پی سرکار آرایس ایس کی ہی مرہون منت ہے ۔ بی جے پی آرایس ایس کا ہی سیاسی بازو ہے ، اس لیے چھوٹ صرف اسی کوملی ہے ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ پابندی30نومبر1966کو عائد کی گئی تھی اوراس دوران 1977 میں جن سنگھ کو جنتا پارٹی کے ساتھ اور پھر1998 میں باجپئی کی قیادت میں بی جے پی کو اقتدار میں رہنے کا موقع ملا مگر اس دوران بھی سرکاری ملازمین کے آرایس ایس کی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر پابندی عائد رہی۔ اس کے بعد 2014سے مئی 2024تک وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی مکمل اکثریت والی سرکار چل رہی تھی، لیکن اس دس برس کے عرصے میں بھی یہ فیصلہ نہیں لیا گیا، لیکن اب جبکہ پارلیمنٹ میں بی جے پی کو اپنے بوتے پر اکثریت حاصل نہیں ہے اور یہ سرکار نتیش اور نائڈو جیسے اتحادیوں کے سہارے چل رہی تو آرایس ایس پر لگی پابندی ہٹائی گئی ہے اور اس پر کسی اتحادی نے کوئی ردعمل بھی ظاہر نہیں کیاہے ۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس سلسلہ کا نوٹیفیکیشن9/جولائی کو جاری ہوچکا تھا، لیکن عوام کو اس کی اطلاع 21 /جولائی کوملی، یعنی پورے بارہ دن بعداور وہ بھی اپوزیشن رہنماؤں کے ٹویٹ کے ذریعہ۔ حکومت نے اس اطلاع کو اس لیے چھپایا کیونکہ اس پر اپوزیشن کی طرف سے شدید ردعمل کا اندیشہ تھا۔اپوزیشن نے اس پر اپنا ردعمل توظاہر کیا لیکن اس میں وہ شدت نہیں تھی جو اس قسم کے مضرفیصلے پر نظرآنی چاہئے تھی۔ میڈیا تو یوں بھی ایسی خبروں کو پس پشت ڈالنے پر یقین رکھتا ہے ۔اسی لیے میڈیا میں اس پر نہ تو کوئی مباحثہ ہوا اور نہ ہی کسی اخبار نے اس پر اداریہ لکھا۔ بعض یوٹیوب چینلوں کے سواکسی نے اس خبر کا نوٹس نہیں لیا جبکہ اس خبرکی نوعیت ایسی ضرور تھی کہ اس کے مضر اثرات کا بھرپورجائزہ لیا جاتا اور عوام الناس کویہ بتایا جاتا کہ سرکاری ملازموں کے آرایس ایس کی سرگرمیوں میں شامل ہونے پر پابندی اٹھانے کے کیا اثرات ہوں گے ۔ مزید یہ کہ پابندی کے اصل اسباب کیا تھے ؟ قابل ذکر بات یہ ہے کہ سرکاری ملازموں کے آرایس ایس کی سرگرمیوں میں شرکت کرنے پر ہی پابندی نہیں تھی بلکہ خود آرایس ایس پر بھی پابندی لگ چکی ہے ۔ یہ پابندی کسی اور نے نہیں خود اس وقت کے مرکزی وزیرداخلہ سردار پٹیل نے عائد کی تھی جو آج بی جے پی کے سب سے بڑے آئیڈیل ہیں اور جنھیں اپنا سیاسی رہنما قرار دینے کے لیے گجرات میں ان کا فلک بوس مجسمہ نصب کیاگیا ہے ۔مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد تحقیقات میں پایا گیا تھا کہ اس قتل کے پیچھے دیگراسباب کے علاوہ ایک سبب آرایس ایس کا نظریہ بھی تھا۔
گزشتہ9/جولائی کو مرکزی حکومت نے جو نوٹیفیکیشن جاری کیا ہے اس کے مطابق سرکاری ملازمین کے آرایس ایس کی سرگرمیوں میں شامل ہونے پر روک لگانے والے پرانے حکم کو بدل دیا گیا ہے ۔سرکاری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ30/نومبر1966،25/جولائی1970اور 28/اکتوبر 1980سے متعلق حکم ناموں سے آرایس ایس کا ذکر نکال دیا گیا ہے ۔آرایس ایس نے اس کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے سے ملک کا جمہوری نظام مضبوط ہوگا۔واضح رہے کہ جس وقت یہ پابندی لگی تھی تو اس وقت تنظیم کی سرگرمیوں کی نوعیت پر تشویش کا ذکر کرتے ہوئے سینٹرل سول سروسز کنڈکٹ رولز کا حوالہ دیا گیا تھا۔حالانکہ ان رولز میں آج بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے ، لیکن اس کے باوجود آرایس ایس کو پابندی سے آزاد کردیا گیا ہے ۔ 58 سال بعد اس پابندی کو ہٹانے کے فیصلے کے مضمرات پر بحث کا دروازہ کھل گیا ہے ، کیونکہ سرکاری ملازمین ملک کے سیکولر جمہوری دستور کو تحفظ فراہم کرنے کے پابند ہوتے ہیں اور وہ باقاعدہ اس کا حلف بھی اٹھاتے ہیں جبکہ آرایس ایس نہ تو سیکولرازم پر یقین رکھتی ہے اور نہ ہی وہ ملک کی جمہوریت کی پابندہے ۔ آرایس ایس کا بنیادی مقصد ملک میں ہندوازم کا احیاء ہے اور یہاں ایک مذہب، ایک زبان اور ایک کلچر کی برتری قایم کرنا ہے ۔ آرایس ایس خود کو ایک ثقافتی تنظیم قرار دیتی ہے لیکن وہ بنیادی طورپر ایک سیاسی تنظیم ہے جس کا مقصد پچھلے راستے سے ملک کے اقتدار پر قبضہ کرکے اسے ہندوراشٹر میں تبدیل کرنا ہے ۔ بی جے پی اس کا سیاسی بازو ہے اور اسی کے تربیت یافتہ لوگ وہاں بڑے عہدے حاصل کرتے ہیں۔
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ گزشتہ دس سال کے دور اقتدار میں آرایس ایس نے ملک میں اعلیٰ تعلیم کے اداروں اور ثقافتی مراکز پر قبضہ کرلیا ہے ۔ملک کی تمام دانش گاہوں میں آرایس ایس کے لوگ ہی وائس چانسلر اور چانسلر بنتے ہیں۔یہاں تک کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسے اداروں میں بھی آرایس ایس کی ذیلی تنظیم راشٹریہ مسلم منچ سے وابستہ وائس چانسلروں کی تقرری ہوتی ہے ۔پچھلے دنوں جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے سبکدوشی کے بعد باقاعدہ بی جے پی میں شمولیت اختیار کی اور وہ ایم ایل سی بنائے گئے تو یہ راز کھلا۔حدتو یہ ہے کہ جامعہ ہمدرداورمولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی جیسے اداروں میں بھی راشٹریہ مسلم منچ کے وفاداروں کی تقرری ہوئی ہے ۔یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ آرایس ایس سے وابستہ لوگوں نے ملک کے تعلیمی نظام کو پوری طرح قابو میں کرلیا ہے ۔ این سی ای آرٹی جیسے مرکزی ادارے میں جو نصابی کتابیں تیار ہورہی ہیں ان میں ملک کی تاریخ کو مسخ کیا جارہا ہے ۔مسلم حکمرانوں کے کردار کو منفی انداز میں پیش کرنے کے علاوہ ایسی تبدیلیاں کی جارہی ہیں جو ملک کے سیکولر تانے بانے کے لیے سراسر نقصان دہ ہیں۔پچھلے دنوں تاریخ کی کتابوں سے بابری مسجد کا ذکر نکال دیا گیا تھا۔
آرایس ایس کا قیام 1925میں عمل میں آیا تھا اور اس کا بنیادی مقصد ملک میں ہندوراشٹر کا قیام تھا۔ یہ تنظیم تبھی سے اپنے مقصدکو حاصل کرنے کی جستجو میں سرگرم ہے ۔1948میں بابائے قوم مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد جب آرایس ایس پر پابندی عائد کی گئی تھی تو یہ محسوس کیا گیا تھا مہاتما گاندھی کے قتل پر اکسانے کے لیے جو عوامل کارفرما تھے ان میں ایک آرایس ایس بھی تھا۔4/فروری 1948و سردار پٹیل کی قیادت والی وزارت داخلہ نے آرایس ایس کے کردار پر جو تبصرے کئے تھے ، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ آرایس ایس نے ملک کے سیکولر جمہوری دستور کبھی تسلیم نہیں کیا اور اس کی جگہ منوسمرتی کی وکالت کی۔آرایس ایس نے طویل عرصہ تک اپنے ہیڈکوارٹر پر ترنگا نہیں لہرایا، کیونکہ وہ اس پر اپنے زعفرانی جھنڈے کو فوقیت دیتی تھی۔آرایس ایس بظاہر خود کو ایک ثقافتی تنظیم قراردیتی ہے ، لیکن وہ ہر دسہرے پر ہتھیاروں کی پوجا کرتی ہے ۔آرایس ایس پر پابندی ہٹانے کا فیصلہ اس وقت لیا گیا تھا جب اس نے اپنے اچھے برتاؤ کی یقین دہانی کرائی تھی۔
سرکاری ملازمین کے آرایس ایس کے پروگراموں میں شمولیت پر لگی پابندی کو ختم کرنے پر اپوزیشن جماعتوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے ۔کانگریس صدر ملک ارجن کھڑگے کا کہنا ہے کہ ‘وزیراعظم سرکاری ملازمین پر آرایس ایس کی سرگرمیوں میں شامل ہونے پر لگی ہوئی پابندی ہٹاکر سرکاری ملازمین کو نظریات کی بنیاد پر تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔،جبکہ شیوسینا کی ممبرپارلیمنٹ پرینکا چترویدی نے کہا کہ اس حکم سے ای ڈی، انکم ٹیکس، سی بی آئی، الیکشن کمیشن سمیت دوسرے سرکاری افسران قانونی طورپر اپنی سنگھی وفاداری ثابت کرسکتے ہیں۔’ بی ایس پی سپریمو مایا وتی نے بھی اس فیصلے کو ملک کے مفاد کے خلاف قرار دیا ہے ۔یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ آرایس ایس نے بڑی چالاکی سے سرکاری محکموں میں اپنے لوگ بھرتی کررکھے ہیں، جو اس کے ایجنڈے کو پورا کرنے کا کام کرتے رہے ہیں۔ اب یہ افسران کھلے عام سرکاری دفتروں میں آرایس ایس کی شاکھائیں لگائیں گے اور سب دیکھتے رہ جائیں گے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔