... loading ...
ریاض احمدچودھری
دفتر خارجہ نے مشرقی غزہ میں التابعین اسکول پر اسرائیلی حملے کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کو جنگی جرائم اور غزہ میں نسل کشی کیلئے جوابدہ ہونا چاہیے۔ اسرائیلی حملے کے نتیجے میں 100 سے زائد شہری جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ بے گھر افراد کو پناہ دینے والے اسکول پر نماز فجر کے دوران حملہ غیرانسانی اور بزدلانہ فعل ہے۔ اسرائیل کا شہری آبادیوں کو اندھا دھند نشانہ بنانا بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی اور جنگی جرم ہے۔ عالمی برادری بالخصوص اقوام متحدہ اور اسرائیل کے حامی، غزہ کی نسل کشی کے خاتمے کیلئے فوری اقدامات کریں۔ گزشتہ برس اکتوبر سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں اب تک39 ہزار 700 سے زائد فلسطینی شہید اور 91 ہزار 700 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔
ترکیہ نے اقوام متحدہ کے سربراہ سے کہا ہے کہ اسرائیل بین الاقوامی برادری کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بے شرمی کے ساتھ بین الاقوامی قانون، جنگی قوانین اور بین الاقوامی انسانی قانون کو پامال کر رہا ہے۔اسرائیل کو جنگی جرائم کے لیے جوابدہ ہونا چاہیے۔مسلح جھڑپوں میں شہریوں کے تحفظ’ کے زیرِ عنوان منعقدہ اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی نشست میں غزہ میں غذائی عدم تحفظ کے پیدا کردہ خطرات پر بحث کرتے ہوئے ادارے کی تنظیم برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ماوریزیو مارٹینا نے کہا ہے کہ اس وقت جھڑپوں کی وجہ سے غزہ کے عوام کو خوفناک سطح پر غذائی عدم تحفظ اور شدید پیمانے پر قحط کا خطرہ درپیش ہے۔9 اکتوبر سے جاری اسرائیلی محاصرے کی وجہ سے علاقے کے لیے غذائی مصنوعات، بجلی اور ایندھن کی ترسیل یا تو مکمل بند ہے یا پھر انتہائی محدود ہو گئی ہے اور یہی نہیں علاقے کا پانی بھی کاٹا جا رہا ہے۔ علاقے میں جھڑپوں کے آغاز یعنی 7 اکتوبر سے قبل کے مقابلے میں پانی کی ترسیل 7 فیصد کم ہو گئی ہے۔غزہ کے زیرِ زمین پانی کا بھی 97 فیصد انسانی استعمال کے لیے موزوں نہیں ہے۔ علاقے میں قحط کے سدباب کے لیے جھڑپوں کا فوری طور پر خاتمہ اور انسانی امداد کی ترسیل انتہائی ضروری ہے۔
فلسطین کے معصوم بچوں کے خلاف قتل و گرفتاری سمیت مجرمانہ اور بہیمانہ اقدامات کی پاداش میں اقوام متحدہ نے غاصب صیہونی ٹولے کو اپنی بلیک لسٹ میں شامل کر دیا ہے۔ یہ فہرست، جسے لسٹ آف شیم بھی کہا جاتا ہے، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کے آفس کی طرف سے پیش کی گئی ایک سالانہ رپورٹ سے منسلک ہے جس میں مسلح تنازعات میں بچوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو درج کیا گیا ہے۔اس بلیک لسٹ میں روس، افغانستان، صومالیہ، شام، یمن، داعش اور بوکو حرام بھی شامل ہیں۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کی رپورٹ جون کے آخر تک شائع کردی جائے گی۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ غزہ کے ہر پانچ بچوں میں سے کم از کم چار بچے بہتر گھنٹوں میں سے پورا ایک دن بھوکے اور خوراک کے بغیر رہے ہیں۔ فلسطینی حکومت کے مطابق، کم از کم 32 افراد، جن میں سے بیشتر تعداد بچوں کی ہے، غزہ میں جنگ کے آغاز سے اب تک خوراک کی قلت سے جان سے جا چکے ہیں۔دوسری جانب یو این انسانی حقوق کی عہدیدار نے صیہونی ٹولے کو یو این بلیک لسٹ میں شامل کیے جانے کا خیر مقدم کیا ہے۔فرانسسکا البانیز نے کہا کہ غزہ میں صیہونی حملوں میں پندرہ ہزار فلسطینی بچے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ بچوں کیخلاف سنگین جرائم پر اسرائیل کو بلیک لسٹ میں لے جانے کا اقدام تاخیر سے ہوا ہے۔ اس سے قبل “ہیومن رائٹس واچ” سمیت متعدد انسانی حقوق کی عالمی قانونی تنظیموں نے صیہونی حکومت کو بلیک لسٹ میں ڈالنے سے گریز کرنے پر اقوام متحدہ پر کڑی نکتہ چینی کی تھی اور اس بات پر زور دیا تھا کہ اس حکومت کو بلیک لسٹ الگ رکھنے سے فلسطینی بچوں کو بڑا نقصان پہنچے گا۔
اسرائیل کے پیچھے عالمی دہشت گرد امریکہ ہے۔اسرائیل کو ہر قسم کا اسلحہ اور سپورٹ امریکہ دے رہا ہے۔اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف قراردادوں کو ویٹو امریکہ کررہا ہے۔ سلام پیش کرتے ہیں فلسطینی عوام کو جو عالمی استعماری کے مقابل کھڑے ہیں۔ پوری دنیا میں اسرائیلی مظالم پر آہ و بکاہ ہو رہی ہے’ جنگ بندی کے تقاضے کئے جارہے ہیں’ اقوام متحدہ کو جھنجوڑ کر جگانے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر امریکہ اور دوسری الحادی قوتیں نہ صرف اسرائیلی ہاتھ روکنے پر آمادہ نہیں بلکہ فلسطینیوں پر مزید مظالم کیلئے اسے ہر قسم کا جنگی سازوسامان بھی فراہم کر رہی ہیں۔ یقیناً الحادی قوتوں کی اسی شہ پر اسرائیلی وزیر دفاع نے فلسطینیوں پر ایٹم بم چلانے کی دھمکی بھی دی ہے جو اسرائیل کے پاس ایٹم بم کی موجودگی کا بھی ثبوت ہے مگر ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کی پاداش میں امریکہ نے جس طرح پاکستان پر اقوام متحدہ کے ذریعے عالمی اقتصادی پابندیاں عائد کرائیں’ بھارت اور اسرائیل کیلئے ایسی پابندیوں کا کبھی سوچا بھی نہیں گیا۔ اس سے بادی النظر میں یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ الحادی قوتوں کو مسلم دنیا کی کمزوریوں کا مکمل ادراک ہے اور اسی بنیاد پر امت مسلمہ کو مزید کمزور کرکے اسے ایک ایک کرکے ختم کرنے کی سازشیں کامیاب ہوتی نظر آرہی ہیں۔