... loading ...
جاوید محمود
عمران خان کی حکومت کی جانب سے ان کی حکومت بدلنے کے پیچھے امریکی ہاتھ کی موجودگی میں سچ کتنا ہے اور جھوٹ کتنا اس کا تصفیہ تو آنے والا وقت کرے گا تاہم یہ حقیقت ہے کہ امریکہ نے سرد جنگ کے دوران دنیا کے مختلف ممالک میں 72بار حکومتیں بدلنے کی کوشش کی ہے اور اس کا پہلی بار انکشاف وکی لیکس میں سامنے آیا تھا۔ امریکہ نے جن حکومتوں کے تختے اُلٹے ان میں سے شاید سب سے معروف واقعہ ایران میں ڈاکٹر مصدق کی منتخب حکومت کی معزولی ہے۔ اس آپریشن کی سربراہ کرمٹ روزویلٹ نے جب اپنے مشن کی کامیابی کی خبر امریکی صدر آئزن ہاورکو دی تو صدر جو دوسری جنگ عظیم میں متحدہ فوج کے سپریم کمانڈر تھے حیرت زدہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ انہوں نے روزویلٹ سے کہا کہ جو کام فوجیں بے پناہ جانی و مالی نقصان اٹھا کر کرتی ہیں وہ سی آئی اے نے ایک بھی امریکی جانی نقصان کے بغیر صرف چند ملین ڈالرز میں کر دکھایا ہے۔ ایسا نہیں کہ ہر بار امریکہ فاتح رہاہو ۔وکی لیکس کے مطابق 72 میں سے صرف 26 حکومتوں کو بدلنے میں امریکہ کو کامیابی ملی جب کہ 40میں وہ ناکام رہا۔ امریکہ کی جانب سے 36 حکومتیں گرانے کی کوشش مختلف عسکری و سیاسی گروپوں کی مدد سے کی گئی۔ سیاسی طور پر صرف پانچ میں کامیابی ملی جب کہ براہ راست فوج کی مدد سے اسے 14 حکومتیں گرانے میں بھی ملی حکومتیں گرانے کے 16 واقعات ایسے تھے جہاں انتخابات کے ذریعے من پسند پارٹیوں کو فنڈ دے کر اور مخالف حکومتوں کے خلاف پروپیگنڈا کر کے انہیں ختم کیا گیا ۔ تاہم یہ کہنا کسی حد تک درست ہے کہ اگر امریکہ ان امیدواروں کی بروقت امداد نہ کرتا تو وہ انتخابات جیت پاتے۔ اس حوالے سے سی آئی اے کے ڈائریکٹر رے ایس کلائن نے ایک موقع پر کہا تھا کہ حکومتیں بدلنے میں کامیابی کا انحصار صحیح وقت اور درست حکمت عملی پر ہے۔
مختار مسعود جب آر سی ڈی کے سیکریٹری جنرل تھے تو وہ تنظیم کے ہیڈ کوارٹر واقع تہران میں ان دنوں تعینات رہے جب شاہ ایران کا تختہ الٹا جا رہا تھا۔ انہوں نے ایران میں اپنے قیام کی یادداشتوں پر مشتمل ایک کتاب لوح ایام لکھی ۔اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں کہ آر سی ڈی کے سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے انہیں شہنشاہ ایران نے ایک بار خصوصی دعوت پر اپنے خاص جزیرے پرمدعو کیا۔ تہران سے جو جہاز انہیں جزیرے پر لے کر جا رہا تھا، اس کا پائلٹ پاکستانی ایئر فورس کا سابق افسر تھا۔ اس نے راستے میں مجھے اس جزیرے کی خاصیت اور یہاں ٹھہرائے جانے والے خاص مہمانوں کے بارے میں بتانا شروع کیا کیونکہ یہ اس کے فرائض منصبی کا حصہ تھا ،جب وہ یہ سب کچھ بتا چکا تو کہنے لگا سر اس جزیرے پر شہنشاہ کے پچھلے مہمان سی آئی اے کے چیف تھے، جب میں انہیں یہ ساری باتیں بتا رہا تھا تو ان کے منہ سے نکل گیا کہ اب یہ شان و شوکت تھوڑی دیر کی ہے۔ پائلٹ نے کہا سر بظاہر شاہ مضبوط ہے اور ابھی تو اس نے اپنی شہنشاہیت کا ڈھائی ہزار سالہ جشن بھی منایا ہے، پھر سی آئی اے چیف یہ کیوں کہہ رہا تھا لیکن بعد کے واقعات تاریخ کا حصہ ہیں کہ ایران میں شاہ کا تختہ الٹ دیا گیا اور وہاں ایک اسلام پسند حکومت برسر اقتدار آگئی۔ لیکن یہ سوال بہر حال موجود ہے کہ امریکہ کا شہنشاہ کی حکومت ختم کرانے میں اگر کوئی کردار تھا تو اس کے بعد جو حکومت برسر اقتدار آئی اس نے تو ہر جگہ امریکہ کو چیلنج ہی کیا ہے۔ امریکہ کے معروف جریدے فارن پالیسی میگزین نے اپنی ایک اشاعت میں لکھا کہ امریکہ نے حکومتیں بدلنے کی روش کا آغاز ایران سے کیا جو بعد میں رکا نہیں بلکہ اب تک جاری ساری ہے۔ اگرچہ اس سے پہلے شام میں 1949 میں فوجی حکومت کے قیام کے پیچھے بھی امریکی ہاتھ ہی بتایا جاتا ہے تاہم ایرانی وزیراعظم ڈاکٹر مصدق سرد جنگ کے دوران امریکہ کا پہلا نشانہ بنے۔ 1953میں جب ایران کے وزیراعظم ڈاکٹر مصدق نے شاہ کی اتھارٹی کو چیلنج کرتے ہوئے ایران کی تیل کی صنعت جس کا انتظام پہلے برطانوی کمپنیاں چلا رہی تھیں اس سے قومیا لیا تو انہیں نہ صرف حکومت سے بے دخل کر دیا گیا بلکہ گرفتار بھی کر لیا گیا جہاں ان کی باقی زندگی نظر بندی میں گزری۔ بعد ازاں اس کے حوالے سے امریکہ نے جو خفیہ دستاویزات افشا کی ان میں کہا گیا تھا کہ اگر اس وقت یہ قدم نہ اٹھایا جاتا تو ایران روسی بلاک میں چلا جاتا۔ یہ وقت تھا جب سرد جنگ عروج پر تھی اور امریکہ کوریا میں روسی اور چینی فوجوں کے ساتھ ایک غیر اعلانیہ جنگ میں شریک تھا ۔امریکہ ابتدا میں گوئٹے مالا کے صدر جیکب اربنز ا کی مدد کر رہا تھا۔ تاہم جب گوئٹے مالا کے صدر نے زرعی اصلاحات کی تو امریکی کمپنیوں کے مفادات کو خطرہ لاحق ہو گیا۔ اس کے بعد امریکہ نے گوئٹے مالا کے صدر کے مخالف باغیوں کو اسلحہ فراہم کیا گیا گوئٹے مالا کی بندرگاہ کی ناکہ بندی کر دی گئی جس پر صدر اربنز اپنا عہدہ چھوڑنے پر مجبور کر دیے گئے۔
انڈونیشیا میں سوئیکارنو کی حکومت کو اس وقت مشکلات پیش آئیں جب اس کے کئی علاقائی کمانڈروں نے جکارتہ سے خودمختاری کا مطالبہ کر دیا۔ فروری 1958 میں سمارٹر اورسلا ویسی نے سوئیکارنو کے خلاف اتحاد قائم کر لیا جس میں کئی سیاسی رہنما شامل ہو گئے۔ امریکہ نے کمیونسٹ پارٹی کے خلاف اس اتحاد کو اسلحہ فراہم کیا۔ سوئیکارنو کے حامی اور مخالفین میں جنگ چھڑ گئی۔ اس دوران ایک امریکی جہاز بھی مار گرایا گیا ۔سوئیکارنو نے 1958 تک بغاوت کو کچل دیا جس کے بعد صدر جان ایف کینیڈی نے سوئیکارنو کو واشنگٹن بلایا اور اسے اربوں ڈالر کی امداد دی۔ امریکہ نے کیوبا میں فیڈرل کاسترو کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کئی بار کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ امریکی صدر آئزن ہاوراور کینیڈی نے کیوبا کے صدر فیڈرل کاسٹرو کے مخالف رہنماؤں کو اسلحہ اور مالی مدد فراہم کی تاکہ وہ کاسٹروکی آمریت کے خلاف جدوجہد کر سکیں۔ سی آئی اے نے فیڈرل کاسٹرو کو مارنے کے لیے کئی بار کوشش کی مگر اسے ہر بار ناکامی ہوئی ۔کانگو کی آزادی کے بعد جب وہاں کے وزیراعظم پیٹرس لمبوبیا کی جانب سے بیلجیئم کے معاشی مفادات کو خطرہ لاحق ہوا تو کانگو کے صدر نے وزیراعظم کو عہدے سے ہٹا دیا جس پر برطرف وزیر اعظم نے روس کی طرف رجوع کر کے فوجی مدد حاصل کرنے کی کوشش کی تو انہیں سی آئی اے نے نشانہ بنایا۔ اسے پہلے زہر دے کر ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ناکامی پر انہیں پہلے گرفتار کیا گیا اور بعد ازاں مار دیا گیا ۔
عراقی وزیراعظم عبدالکریم قاسم نے دو سال پہلے مغربی حمایت یافتہ عراقی آمر فیصل دوئم کو نکال باہر کیا تھا ان کی حکومت میں کمیونسٹ پارٹی کا اثر و رسوخ بڑھ رہا تھا اور وہ کویت پر حملہ کرنے کی دھمکیاں بھی دے رہے تھے ۔جس پر عراق اور برطانیہ کے درمیان جنگ کی صورتحال پیدا ہو گئی تھی۔ امریکہ نے قاسم کو قتل کرنے کی کوشش کی جو ناکام ہو گئی۔ قاسم کی کابینہ کے 16 ممبران میں سے 12 بعث پارٹی کے ارکان تھے۔ جب قاسم نے جمال عبدالناصر کی جانب سے متحدہ عرب ببلک قائم کرنے کی تجویز کی حمایت نہیں کی گئی تو وہ اس کے خلاف ہو گئے۔ اور آٹھ فروری 1963 کو قاسم کو بعث پارٹی کے ایک ا سکواڈ نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ امریکہ نے نئی حکومت کے سا تھ اتحاد بنا لیا مگر جلد ہی احمد حسن البکر نے امریکی حمایت یافتہ صدر عبدالسلام کو نکال باہر کیا۔ رافعل ترا جیلوں کی آمریت کے دوران ڈومینیکن ریپبلک میں ہیٹی کے ہزاروں باشندوں کو نسل پرستانہ فسادات کے دوران مار دیا گیا اور وینزویلا کے صدر کو بھی ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی جس پر اسے سیاسی مخالفین کی جانب سے قتل کر دیا گیا ۔اگرچہ اس کے قاتل نے بیان دیا کہ اس نے یہ قتل کسی کے کہنے پر نہیں کیا مگر بعد ازاں معلوم ہوا کہ اسے تین پستول اور گولیاں امریکہ کی جانب سے فراہم کی گئیں تھیں۔
امریکہ جنوبی ویتنام میں کافی اثرورسوخ حاصل کر چکا تھا کہ وہاں کے صدر ناگوون نے بدھ مت سے تعلق رکھنے والے مخالفین پر عرصۂ حیات تنگ کرنا شروع کر دیا جس پر امریکہ اور اس کے درمیان تناؤ پیدا ہو گیا۔ پینٹاگون پیپرز کے مطابق 23اگست 1963کو جنوبی ویتنام کے کچھ جرنیلوں نے ایک پلان امریکی حکام کے سامنے رکھا، جس کے بعد جرنیلوں نے اسی سال یکم نومبر کو صدر کو ہلاک کر دیا۔ اس کے لیے سی آئی اے فنڈز سے 40ہزار ڈالر کی ادائیگی کی گئی۔ امریکہ کے برازیل میں سفیر لینکین گورڈن نے لکھا کہ برازیلی صدر جاؤ گو لارڈ برازیل کو چین کے طرز پر آگے لے جا رہے ہیں جس پر امریکہ نے برازیل کی فوج کے سربراہ کاسٹیوبرا نگو کے ذریعے 1964میں برازیل کے صدر کا تختہ الٹ دیا۔ اس دوران سی آئی اے نے صدر کے خلاف مظاہرین کو پیسہ اور اسلحہ دیا۔ اس وقت کے امریکی صدر لنڈن بی جانسن نے حکم دیا تھا کہ برازیلی صدر کو اس کے عہدے سے ہٹانے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا جائے جس کے بعد 1985تک برازیلی فوج نے ملک پر حکومت کی۔
1970میں جب ایک سوشلسٹ رہنما سالواڈور انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے صدر بن گئے تو صدر ریچرڈ نکسن نے سی آئی اے کو ہدایت کی کہ چلی کی معیشت کو تباہ کر دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے سی آئی اے نے چلی کے تین گروہوں کے ساتھ کام کیا اور انہیں اسلحہ فراہم کیا مگر یہ سازش کامیاب نہیں ہو سکی۔ اس کے بعد جنرل اگسیتو پنوشے کے ذریعے صدر کے خلاف 1973میں بغاوت کروائی گئی ۔ اس نے اپنے مخالفین کو چن چن کر قتل کیا مگر سی آئی اے نے نئی حکومت کی مدد جاری رکھی۔ اپریل 1978 میں کمیونسٹ نظریات رکھنے والی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان اقتدار میں آگئی جس کے خلاف مشرقی افغانستان میں بغاوت شروع ہو گئی۔ جلد ہی اس بغاوت نے خانہ جنگی کی صورت اختیار کر لی۔ روس نے حکومت کی مدد کے لیے اپنی فوجیں بھیج دیں ۔دوسری جانب امریکہ نے پاکستان میں باغیوں کی مدد کے لیے تربیتی کیمپ قائم کر لیے ستمبر 1979میں صدر نور محمد ترکئی کو حفیظ اللہ امین کے لوگوں نے قتل کر دیا، بعد میں حفیظ امین کو روسی فوج نے قتل کر دیا۔ آنے والے سالوں میں افغانستان امریکہ اور روس کے درمیان میدان جنگ بن گیا۔ امریکہ نے پاکستان کے ذریعے افغان مجاہدین کو اربوں ڈالر دیے جس کی وجہ سے سرخ فوج کو افغانستان میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ترکی میں 12ستمبر 1980کی فوجی بغاوت سے ایک روز پہلے تین ہزار امریکی فوجی ترکی پہنچے۔ 1981کے اختتام پر امریکن ترکش ڈیفنس کونسل کا قیام عمل میں آ چکا تھا۔ ترکی میں کامیاب فوجی بغاوت کے بارے میں انقرہ میں سی آئی اے کے اسٹیشن چیف پارلر ہنزے لے تسلیم کیا کہ ترکی کی حکومت کا تختہ الٹنے کا کارنامہ ہمارے لوگوں نے سر انجام دیا ہے
پولینڈ میں جب روسی افواج حرکت میں آئیں تو امریکہ نے پولینڈ کے ساتھ اظہار یکجہتی اورعوامی رابطہ مہم چلائی اور روسی مداخلت کے خلاف حکومت کی مدد کی سی ائی اے نے سیند نسحتاکی حکومت کو ختم کیا ۔نکارا گوا کی بندرگاہ کو تباہ کر دیا اور حکومت مخالف عسکری گروہوں کو اسلحہ فراہم کیا ۔عالمی عدالت انصاف نے نکارا گوا کی منتخب حکومت کے خلاف باغیوں کی مدد کرنے پر امریکہ کے خلاف فیصلہ دیا جس کے بعد 1984 کے عام انتخابات میں سند نیستا کی جماعت جیت گئی لیکن امریکہ نے وہاں مخالف جماعتوں کی مدد جاری رکھی جس کی وجہ سے 1990 میں سند نیستہ کی حکومت ختم ہو گئی اور ان پر جنگی جرائم کے مقدمات قائم کر دیے گئے۔ امریکہ نے کمبوڈ یا میں روسی مخالفین کو مدد فراہم کی ۔اس دوران خانہ جنگی میں چار لاکھ 60 ہزار لوگ مارے گئے۔ کمیونسٹ حکومت کو کمبوڈیا کے 20لاکھ لوگوں کے قتل کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے ۔انگولا میں کیوبا کی حمایتی حکومت اور جنوبی افریقہ کی حمایت یافتہ عسکری گروہوں کے درمیان خانہ جنگی میں 10لاکھ سے زائد لوگ مارے گئے ۔ریگن انتظامیہ نے کمیونسٹ مخالف باغی گروہوں کو مدد فراہم کی جنہوں نے حکومت کو بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا اور اقتدار حاصل کر لیا۔ تاہم امریکی حمایت یافتہ رہنمائی کو فوج نے قتل کر دیا۔ اس کے بعد انگولا دو متحارب گروہوں میں تقسیم ہے۔ امریکہ نے کئی دہائیوں تک صدر مارکوس کی حمایت کی لیکن پھر اچانک اس نے مارکوس کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا اور ایکی ہینوں کے حق میں دستبردار کروایا۔ امریکہ نے 11ستمبر کے حملوں کو جواز بناتے ہوئے طالبان کی حکومت ختم کر کے اقتدار شمالی اتحاد اور دیگراتحادی رہنماؤں کے سپرد کیا۔ تاہم 2021میں افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد طالبان نے دوبارہ اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کو جواز بنا کر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے صدام حکومت کا خاتمہ کر دیا اور بعد ازاں صدا حسین کو نئی عراقی حکومت کی جانب سے پھانسی دے دی گئی۔ ہیٹی کے صدر جین برنر ٹرینڈ جب دوسری بار صدر منتخب ہوئے تو ان کے خلاف بغاوت کروائی گئی اور انہیں گرفتار کروا کر امریکی جہاز میں ملک سے باہر بھیج دیا گیا۔ 2016میں فلسطین میں ہونے والے انتخابات میں حماس اور الفتح نے کامیابی حاصل کر کے متحدہ حکومت بنائی جس کی سربراہی اسماعیل ہنیہ کر رہے تھے۔ 2017میں حماس نے غزہ کا کنٹرول سنبھال لیا اور الفتح کے حکام کو برطرف کر دیا جس میں ہونے والی جھڑپوں میں 118افراد مارے گئے۔ اسی سال امریکہ نے الفتح کے رہنما صدر عباس کو 8.4 کروڑ ڈالر فراہم کیے تاکہ وہ اپنی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کر سکے۔ امریکہ نے حماس کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے فلسطینی اتھارٹی کی مدد کی۔ امریکہ 2016سے صومالیہ کے اسلام مخالف جنگی سرداروں کی مدد کر رہا ہے۔ صومالیہ میں اگرچہ اسلامک کورٹ یونین کی عمل داری ہے تاہم اس پر خواتین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام ہے۔ امریکہ ایرانی حکومت کے خلاف کام کرنے والی سیاسی جماعتوں اور ان کے لوگوں کو سالانہ 30 لاکھ ڈالر دے رہا ہے جو ایران اور ایران سے باہر حکومت کے خلاف سماجی میڈیا اور دیگر ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے کام کر رہے ہیں ۔امریکی کانگریس نے ایرانی حکومت مخالف گروہوں کی مدد کے لیے فریڈم اینڈ سپورٹ ایکٹ منظور کیا جس کے تحت انہیں سالانہ ایک کروڑ ڈالر کی امداد دی جا رہی ہے ۔امریکی چینل اے بی سی نیوز نے انکشاف کیا تھا کہ 2017میں صدر بش نے ایران میں بغاوت کے لیے 40کروڑ ڈالر خرچ کرنے کی منظوری دی تھی ۔سی آئی اے نے سنی تنظیم جنداللہ کی مدد بھی کی، اسی طرح امریکہ ایران میں برسر پیکار تنظیموں کی مدد بھی کر رہا ہے تاکہ وہاں حکومت بدلی جا سکے۔ عرب بہار کے دوران جب لیبیا میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے تو امریکہ نے وہاں اپوزیشن کی مدد کے لیے اسلحہ فراہم کیا اور قذافی کی فوجوں پر بمباری کی جس کی وجہ سے کرنل قذافی حکومت ختم ہو گئی اور انہیں ہلاک کر دیا گیا ۔صدر اوباما نے شام میں حکومت کی تبدیلی کے لیے اپنے اداروں کو احکامات دیے 2012 میں فری شام نام کی ایک فوجی تنظیم کی بنیاد رکھی گئی اور انہیں ہتھیاروں اور دیگر امداد کی مد میں ایک ارب ڈالر سے زائد کی مدد فراہم کی گئی۔ باغیوں کو سی آئی اے نے ہر طرح کی مدد فراہم کی تاہم امریکی حمایت یافتہ باغی گروہ شان کی خانہ جنگی میں مسلسل شکست سے دوچار ہیں لیکن امریکہ ان کی مدد مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے ۔پاکستان امریکہ کا اتحادی رہا ہے۔ روس کی افغانستان میں مداخلت سے لے کر 11ستمبر کے حملوں کے بعد سے افغانستان میں امریکی مفادات کو جب جب خطرہ ہوا پاکستان نے ہمیشہ صف اول کا کردار ادا کیا۔ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد سے پاک امریکہ تعلقات سرد مہری کے شکار ہیںلیکن روس یوکرین جنگ کے بعد سے پاکستان پر امریکہ کا شدید دباؤ ہے کہ وہ اس جنگ میں مغرب کا ساتھ دے۔ اسی پس منظر میں عمران خان نے اپنی حکومت کو گرائے جانے کے پیچھے امریکی ہاتھ کی موجودگی کا الزام عائد کیالیکن عمران خان کا الزام ابھی تک ہوا میں معلق ہے جبکہ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کا تختہ الٹنے کے بعد قیاس آرائیاں عروج پر ہیں کہ بنگلہ دیش میں جو انقلاب برپا ہوا ہے اس کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے ۔یہ بھی آنے والا وقت ہی ثابت کرے گا کہ اس میں کتنی صداقت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔