... loading ...
جاوید محمود
ہندوستان کی تقسیم کے وقت جموں و کشمیر کے علاقے پونچھ میں کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف بغاوت ہوئی اوراسی دوران پاکستان میں شامل قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے مسلح افراد جموں و کشمیر میں داخل ہو گئے تھے ۔مہاراجہ ہری سنگھ اس سے قبل کشمیر کے بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق یا آزادانہ حیثیت سے متعلق کوئی فیصلہ کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھے۔ پاکستان سے قبائلیوں کی آمد کے بعد انہوں نے بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کر لیا۔ کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے 26 اکتوبر 1947کو بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیے۔ اس دستاویز کے مطابق مہاراجہ نے بھارت کی مرکزی حکومت کو خارجہ، دفاع اور مواصلات کے اختیارات دیے تھے تاہم کشمیر کی ریاست کا علیحدہ تشخص برقرار رکھا گیا تھا۔ اگلے ہی روز 27اکتوبر کو بھارت کے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے مہاراجہ کی جانب سے بھارت کے ساتھ الحاق کو تسلیم کر لیا۔ جموں و کشمیر کے بھارت سے الحاق کے اس فیصلے کے بعد پاکستان کے ساتھ یہ تنازع مسلح تصادم کی شکل اختیار کر گیا اور دونوں ممالک میں جنگ شروع ہو گئی۔ 1949 میں اقوام متحدہ کی ثالثی سے بھارت اور پاکستان میں جنگ بندی ہوئی لیکن اس کے ساتھ جموں و کشمیر دونوں ممالک کے درمیان ایک ایسے تنازع کی شکل اختیار کر گیا جسے اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کر لیا تھا۔ ادھر مہاراجہ کشمیر نے بھی الحاق میں جموں و کشمیر کے ساتھ علیحدہ ریاستی تشخص پر اصرار کیا تھا۔ اسی لیے جب بھارت میں آئین سازی ہوئی تو ملک میں شامل علاقوں کی درجہ بندی کرتے ہوئے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو مدنظر رکھا گیا۔ بھارت کا آئین 26 جنوری 1950 کو نافذ ہوا تو اس میں شامل آرٹیکل 370کے تحت بھارت کی مرکزی حکومت کو کشمیر میں صرف تین شعبوں یعنی دفاع، خارجہ ا مور اور مواصلات کے لیے قانون سازی کا اختیار دیا گیا تھا۔ آرٹیکل 370 میں کشمیر کو داخلی انتظامی امور کے لیے قانون سازی کی آزادی دی گئی تھی جبکہ صدر کو بعض امور سے متعلق جزوی اختیار بھی دیا گیا تھا۔ اس آرٹیکل میں یہ شق بھی شامل تھی کہ انتظامی امور اور خود ریاست جموں و کشمیر کی بھارت میں انتظامی حیثیت میں تبدیلی کے فیصلے کو بھی یہاں کی دستور ساز اسمبلی سے توثیق حاصل کرنا ضروری ہوگا۔
بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر ریاست کے دستور میں کسی بھی صدارتی حکم نامے کے نفاذ کو ریاستی اسمبلی کی توثیق سے مشروط کیا گیا تھا۔ 1959ء میں بھارتی سپریم کورٹ نے ریاست اسمبلی کے اس استحقاق کو تسلیم کیا تاہم 370 کے تحت جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت سے متعلقہ امور بھارتی سپریم کورٹ کے مختلف مقدمات میں زیر بحث آتے رہے، اگرچہ آرٹیکل 370 میں یہ بات شامل تھی کہ اس میں دیے گئے انتظامی امور سے متعلق خصوصی اختیار میں کوئی تبدیلی یا خود اس آرٹیکل ہی کو سرے سے ختم کرنے کے لیے ریاست اسمبلی کی توثیق ضروری ہوگی۔ قوم پرست سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی بی جے پی جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کی حامی رہی ہے۔ جماعت نے جب 2014 میں انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور نریندر مودی وزیر اعظم منتخب ہوئے تو آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے حامیوں کے مطالبات بھی زور پکڑنے لگے۔ 2018 میں جموں و کشمیر میں اس وقت سیاسی بحران نے جنم لیا جب بھارتی جنگ تک پارٹی نے وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کی قیادت میں قائم پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی حکومت کی حمایت واپس لے لی۔ اس کے بعد کشمیر کے آئین کے مطابق گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔ تاہم ریاست جموں و کشمیر کے آئین کے تحت گورنر راج چھ ماہ سے زائد عرصے تک جاری نہیں رہ سکتا ۔اس لیے 19دسمبر 2018کو کشمیر میں گورنر راج کا خاتمہ تو ہو گیا تاہم اسی روز صدر رام گوند نے کشمیر میں صدارتی راج نافذ کر دیا۔ جنوری 2019میں صدر کے اس اقدام کو پارلیمنٹ کی توثیق حاصل ہو گئی۔ صدارتی راج کی مدت ابھی ختم ہونے والی تھی کہ ریاست جموں و کشمیر کے گورنر نے جون 2019 کو ایک رپورٹ وفاقی کابینہ کوارسال کی جس میں سفارش کی گئی تھی کہ ریاست کی صورتحال کے پیش نظر صدارتی راج میں مزید توسیع کی جائے اس رپورٹ کی بنیاد پر تین جولائی 2019 کو بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں صدارتی راج میں مزید توسیع کر دی گئی۔ پانچ اگست 2019 کو صدر رام گوند نے ایک حکم نامہ جاری کیا جس میں آرٹیکل 370 کی شق 3 میں دستور ساز اسمبلی کے لفظ کو قانون ساز اسمبلی سے تبدیل کر دیا گیا۔ اس شق کے تحت چونکہ کسی بھی صدارتی حکم نامے کی توثیق دستور ساز اسمبلی سے حاصل کرنا ضروری قرار دی گئی تھی جو کہ 60برس قبل ہی تحلیل ہو چکی تھی۔ اس لیے قانون ساز اسمبلی کو اس سے تبدیل کر کے صدارتی راج کے حکم نامے کی بھارت کی پارلیمنٹ سے توثیق کو اس شق کے مطابق بنا دیا گیا۔
صدر کے اس اقدام کے ساتھ ہی بھارت کے ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا نے آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے اور کشمیر کی انتظامی حیثیت کو تبدیل کرنے سے متعلق قانون سازی کی قرارداد منظور کر لی اس کے اگلے ہی روز چھ اگست 2019 کو بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں لوک سبھا راجیہ سبھا کی قرارداد کے مطابق 370 کی منسوخی اور کشمیر میں انتظامی تبدیلیوں کے لیے مجوزہ ری آرگنائزیشن ایکٹ کی منظوری دے دی ۔اس کے بعد صدر نے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت سے متعلق آئین کے آرٹیکل 370 کی تنسیخ کا حکم نامہ جاری کر دیا مختلف درخواست گزاروں نے حکومت کے اس اقدام کے خلاف بھارت کی سپریم کورٹ سے رجوع کیا جہاں 28 اگست 2019 کو اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گو گوئی کی سربراہی میں جسٹس ایس اے بوڈے اور جسٹس عبدال نڈیا پر مشتمل تین رکنی بینچ نے ان درخواستوں کی سماعت شروع کی۔ سپریم کورٹ میں دو سماعتوں کے بعد بینچ نے فیصلہ دیا کہ اس معاملے کی سماعت پانچ یا اس سے زائد رکنی بینچ کو کرنی چاہیے۔ طویل انتظار کے بعد جولائی 2023میں ان درخواستوں کی سماعت کے لیے چیف جسٹس ڈی وائی چندر کی سربراہی میں ایک نیا پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا گیا ۔اس پانچ رکنی بینچ نے 11دسمبر 2023 کو جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کا حکومتی اقدام قانونی طور پر درست قرار دیا تھا ۔پانچ برس قبل بھارت نے ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی وہ حیثیت جس کے ہوتے ہوئے کشمیریوں کو امید تھی کہ وہ کبھی اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں گے۔ اگرچہ خصوصی حیثیت بے بنیاد جھوٹی تسلی تھی گزشتہ 77 برس میں بار بار ثابت ہوا کہ یہ ایک بے بنیاد جھوٹی تسلی ہی ہے۔ کشمیری قوم کو اس امید پہ رہتے ہوئے ابتدا میں اپنی حیثیت خود مختارانہ سی لگی لیکن پھر آہستہ آہستہ یہ نشہ ہرن ہوتا چلا گیا۔ بار بار بھارتی فوج کشمیریوں کا قتل عام کرتی رہی۔ ریاست میں ان کی اکثریت کو کم سے کم ترہوتی گئی ۔ایک اندازے کے مطابق اس وقت ریاست جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی شرح 70فیصد رہ گئی ہے۔
بھارت نے ریاست جموں کشمیر کے شہریوں کو دفعہ370 کے عنوان سے جو خود مختاری کا جھانسا دیا تھا اس کی حقیقت اسی روز کھل گئی تھی جب شیخ عبداللہ کو اٹھا کر جیل میں پھینک دیا گیا تھا۔ اب گورنر کے براہ راست تقرر کا اعلان کر کے ریاست کی خود مختاری کے خاتمے کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا۔ اس کے باوجود کچھ کشمیری اس نشے میں مدہوش رہے کہ وہ خود مختار ہیں۔ 2019 میں بھارت نے ریاست جموں کشمیر پر اپنے قبضے کو حتمی شکل دینے کے لیے دفعہ 370بھی ختم کر دی۔ یوں ریاست جموں کشمیر کو اپنے قبضے میں لینے کا جو کام جواہرلال نہرو نے شروع کیا تھا اسے مکمل کرتے ہوئے بھارتی وزیراعظم مودی پھول کے کپا ہوئے اور گردن اکڑاتے ہوئے پائے گئے کہ انہوں نے وہ کام کردکھایا جوان سے پہلی حکومتیں 70سال میں بھی نہ کر سکیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انتہا پسند مودی اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا لیکن افسوس اس پانچ اگست کو پاکستان میں کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا لیکن سرد مہری کا مظاہرہ دیکھنے میں ضرور آیا۔