... loading ...
ب نقاب /ایم آر ملک
حسینہ واجد کے استعفے کے بعد بنگلہ دیش کے عوام اور نوجوان خطے کے عوام کے رول ماڈل بن چکے،پاکستان کے شریف ڈکٹیٹر حسینہ واجد سے کہیں آگے جاچکے ،بند گلی کی ایک ایسی جنگ جس میں شریف اور زرداری خاندان اور اس کے حواریوں کیلئے واپسی کا کوئی رستہ نظر نہیں آتا ، شریفوں نے پاکستان کے عوام سے اپنی ناجائز حکمرانی کے دوران احتجاج تک کا حق چھین لیا ،چادر اور چاردیواری کے تقدس کی دھجیاں بکھر گئیں ،12ہزار نوجوانوں کو ایک جھوٹے بیانیہ کی بنیاد پر پابند سلاسل کردیا گیا ،ان کے قانونی حق کو سلب کردیا گیا ،فسطائیت کی وہ مثالیں قائم کی گئیں کہ چنگیز خان کی روح کانپ اُٹھی ،بنگلہ دیش کی ڈکٹیٹر نے بھی یہی کچھ کیا ،وہ 2008 میں الیکشن جیت کر وزیراعظم بنیں، اس کے بعد سول ڈکٹیٹر کا روپ دھار لیا، اپوزیشن پر مکمل کریک ڈاؤن کیا، اپوزیشن رہنماؤں کو نااہل کیا، قید کیا، پھانسیاں لگائیں، نظربند کیا۔ 2014 کے الیکشن میں بھرپور دھاندلی کی، 2018 میں اپوزیشن جماعت بی این پی نے بائیکاٹ کیا، 2024 میں اپوزیشن بی این پی کو حصہ ہی نہیں لینے دیا گیا، کاغذاتِ نامزدگی چھینے، لوگوں کو گھروں سے اٹھایا، 20 ہزار اپوزیشن کارکن گرفتار کیے۔
بنگلہ دیش میں حسینہ حکومت کے خلاف تقریباً 16 سال سے نفرت موجود تھی، نفرت کا وہ لاوا اب پھٹ گیا۔ اب لوگ کسی اپوزیشن رہنما کے بغیر نکلے ہیں، مظاہرین کو لیڈ کرنے والا کوئی نہیں۔ سول وار کی کیفیت ہے۔ آوازوں کو لمبے عرصے کیلئے دبایا جائے تو یہی صورتحال بنتی ہے۔ڈھاکہ کے وزیر اعظم ہاؤس پر نوجوانوں کا قبضہ۔ پاکستان میں اس ماڈل کا خواب دیکھنے والی آل شریف اور ان کے سہولت کار ہوش کے ناخن لیں۔ سہیل وڑائچ کے ماڈل کو بنگلہ دیشی عوام نے جوتے کی نوک پر رکھ دیا۔ شیخ مجیب کے مجسموں کو عوام نے توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔ مجسمے اور تصویریں نذر آتش کی جا رہی ہیں۔ مجسمے اور تصویریں نہیں انسانی حقوق کی حرمت زیادہ ہوتی ہے۔
عوام جب ہر بڑا کر اٹھتے ہیں تو وزیر اعظم ہاؤس پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ اسے وہ اپنا حق جانتے ہیں۔ وہ بطخیں تک بھی اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ عوام دشمن وزیر اعظم کو چھپنے کی جگہ نہیں ملتی۔ اسے صرف 45 منٹ کی مہلت ملتی ہے۔ ایسے میں حسینہ واجد ایسے حکمران ٹانگیں سر پر رکھ کر بھاگتے اور فوجی ہیلی کاپٹر میں اشرف غنی کی طرح نا معلوم منزلوں کی طرف بھاگ جاتے ہیں۔ ان کے اقتدار کے خاتمے پر لاکھوں عوام سڑکوں پر شکرانے کے نوافل پڑھتے ہیں۔ فاشسٹ حکمران کا اپنا چنیدہ چیف آف آرمی سٹاف وقار الزماں بے بس ہوجاتا ہے۔ جونیئر آفیسر اسے خط لکھتے ہیں کہ وہ سراپا احتجاج شہریوں پر گولی نہیں چلائیں گے۔ پھر آج یہی جونیئر اسٹاف سرکاری دفاتر میں فاشسٹ حسینہ واجد کے پورٹریٹس توڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
جب فرانس دنیا کی سب سے بڑی طاقت برطانیہ کو شکست دے رہا تھا تو فرانس کی دولت کے ذخائر میں کمی آنے لگی مگر فرانس کے لوگ فرانس کی فتح سے لاتعلق ہوگئے اور انہوں نے روٹی کی مانگ کی اور روٹی کیلئے نعرے لگائے، حکومت فرانس پریشان ہو گئی۔اس صورت حال سے نمٹنے کیلئے فرانس حکومت نے اشرافیہ پر اٹھنے والے اخراجات آدھے کر دیئے یہاں تک کے شاہی اصطبل میں کھڑے گھوڑوں کی تعداد بھی آدھی کر دی۔اس پر فرانس کے والٹیئر (1694–1778) (Voltaire) جو ایک روشن خیال فرانسیسی فلسفی تھا۔ انسانی حقوق کے شعور اور انقلاب فرانس کے لیے اس کا کردار بہت اہم ہے۔ وہ ایک شاعر، ناول نگار، ڈرامہ نگار اور تاریخ دان بھی تھا، اس نے اس فیصلے پر اپنا احتجاج کچھ یوں ریکارڈ کروایا کہ ”گھوڑوں کے بجائے اگر محل میں موجود گدھوں کی تعداد کم کر دی جاتی تو زیادہ بہتر ہوتا”۔
والٹیئر کے ساتھ فرانس کے عوام کھڑے ہو گئے۔
اس وقت سے ڈریں جب 83 وزیروں مشیروں کی فوج پر کروڑوں روپوں کے اخراجات پر خاموشوں نے اپنی خاموشی توڑ دی اور اُٹھ کھڑی ہو، جن کا معیشت پر کوئی خاص کام نہیں سوائے تقریر کرنے اور بیان دینے کے، ان کی وجہ سے معیشت پر کوئی مثبت اثر نہیں پڑ رہا ہے بلکہ وہ معیشت پر صرف بوجھ ہیں۔
ڈریں اس وقت سے جب 25کروڑ لوگوں کا ہجوم شریفوں کے حمایتیوں جن کی زبان پر فالج گرا ہوا کے گھروں کا رخ کرکے نکل کھڑے ہوئے ،انسانوں کا سیلاب جس کے حقوق سلب ہوچکے یہ نہیں دیکھے گا کہ اس کے رستے میں ریاستی پولیس کی طاقت ہے یا اقتدار کا نشہ ،جہاں خواب و خیال چھین لیے جاتے ہیں وہاں قدرت کا کوڑا حرکت میں آتا ہے ،قدرت کی پکڑ بڑی سخت ہوتی ہے اس کے شکنجے سے ظالم کو نجات کا کوئی رستہ نہیں ملتا ۔