وجود

... loading ...

وجود

خدا کی پکڑ

جمعه 09 اگست 2024 خدا کی پکڑ

ب نقاب /ایم آر ملک

حسینہ واجد کے استعفے کے بعد بنگلہ دیش کے عوام اور نوجوان خطے کے عوام کے رول ماڈل بن چکے،پاکستان کے شریف ڈکٹیٹر حسینہ واجد سے کہیں آگے جاچکے ،بند گلی کی ایک ایسی جنگ جس میں شریف اور زرداری خاندان اور اس کے حواریوں کیلئے واپسی کا کوئی رستہ نظر نہیں آتا ، شریفوں نے پاکستان کے عوام سے اپنی ناجائز حکمرانی کے دوران احتجاج تک کا حق چھین لیا ،چادر اور چاردیواری کے تقدس کی دھجیاں بکھر گئیں ،12ہزار نوجوانوں کو ایک جھوٹے بیانیہ کی بنیاد پر پابند سلاسل کردیا گیا ،ان کے قانونی حق کو سلب کردیا گیا ،فسطائیت کی وہ مثالیں قائم کی گئیں کہ چنگیز خان کی روح کانپ اُٹھی ،بنگلہ دیش کی ڈکٹیٹر نے بھی یہی کچھ کیا ،وہ 2008 میں الیکشن جیت کر وزیراعظم بنیں، اس کے بعد سول ڈکٹیٹر کا روپ دھار لیا، اپوزیشن پر مکمل کریک ڈاؤن کیا، اپوزیشن رہنماؤں کو نااہل کیا، قید کیا، پھانسیاں لگائیں، نظربند کیا۔ 2014 کے الیکشن میں بھرپور دھاندلی کی، 2018 میں اپوزیشن جماعت بی این پی نے بائیکاٹ کیا، 2024 میں اپوزیشن بی این پی کو حصہ ہی نہیں لینے دیا گیا، کاغذاتِ نامزدگی چھینے، لوگوں کو گھروں سے اٹھایا، 20 ہزار اپوزیشن کارکن گرفتار کیے۔
بنگلہ دیش میں حسینہ حکومت کے خلاف تقریباً 16 سال سے نفرت موجود تھی، نفرت کا وہ لاوا اب پھٹ گیا۔ اب لوگ کسی اپوزیشن رہنما کے بغیر نکلے ہیں، مظاہرین کو لیڈ کرنے والا کوئی نہیں۔ سول وار کی کیفیت ہے۔ آوازوں کو لمبے عرصے کیلئے دبایا جائے تو یہی صورتحال بنتی ہے۔ڈھاکہ کے وزیر اعظم ہاؤس پر نوجوانوں کا قبضہ۔ پاکستان میں اس ماڈل کا خواب دیکھنے والی آل شریف اور ان کے سہولت کار ہوش کے ناخن لیں۔ سہیل وڑائچ کے ماڈل کو بنگلہ دیشی عوام نے جوتے کی نوک پر رکھ دیا۔ شیخ مجیب کے مجسموں کو عوام نے توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔ مجسمے اور تصویریں نذر آتش کی جا رہی ہیں۔ مجسمے اور تصویریں نہیں انسانی حقوق کی حرمت زیادہ ہوتی ہے۔
عوام جب ہر بڑا کر اٹھتے ہیں تو وزیر اعظم ہاؤس پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ اسے وہ اپنا حق جانتے ہیں۔ وہ بطخیں تک بھی اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ عوام دشمن وزیر اعظم کو چھپنے کی جگہ نہیں ملتی۔ اسے صرف 45 منٹ کی مہلت ملتی ہے۔ ایسے میں حسینہ واجد ایسے حکمران ٹانگیں سر پر رکھ کر بھاگتے اور فوجی ہیلی کاپٹر میں اشرف غنی کی طرح نا معلوم منزلوں کی طرف بھاگ جاتے ہیں۔ ان کے اقتدار کے خاتمے پر لاکھوں عوام سڑکوں پر شکرانے کے نوافل پڑھتے ہیں۔ فاشسٹ حکمران کا اپنا چنیدہ چیف آف آرمی سٹاف وقار الزماں بے بس ہوجاتا ہے۔ جونیئر آفیسر اسے خط لکھتے ہیں کہ وہ سراپا احتجاج شہریوں پر گولی نہیں چلائیں گے۔ پھر آج یہی جونیئر اسٹاف سرکاری دفاتر میں فاشسٹ حسینہ واجد کے پورٹریٹس توڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
جب فرانس دنیا کی سب سے بڑی طاقت برطانیہ کو شکست دے رہا تھا تو فرانس کی دولت کے ذخائر میں کمی آنے لگی مگر فرانس کے لوگ فرانس کی فتح سے لاتعلق ہوگئے اور انہوں نے روٹی کی مانگ کی اور روٹی کیلئے نعرے لگائے، حکومت فرانس پریشان ہو گئی۔اس صورت حال سے نمٹنے کیلئے فرانس حکومت نے اشرافیہ پر اٹھنے والے اخراجات آدھے کر دیئے یہاں تک کے شاہی اصطبل میں کھڑے گھوڑوں کی تعداد بھی آدھی کر دی۔اس پر فرانس کے والٹیئر (1694–1778) (Voltaire) جو ایک روشن خیال فرانسیسی فلسفی تھا۔ انسانی حقوق کے شعور اور انقلاب فرانس کے لیے اس کا کردار بہت اہم ہے۔ وہ ایک شاعر، ناول نگار، ڈرامہ نگار اور تاریخ دان بھی تھا، اس نے اس فیصلے پر اپنا احتجاج کچھ یوں ریکارڈ کروایا کہ ”گھوڑوں کے بجائے اگر محل میں موجود گدھوں کی تعداد کم کر دی جاتی تو زیادہ بہتر ہوتا”۔
والٹیئر کے ساتھ فرانس کے عوام کھڑے ہو گئے۔
اس وقت سے ڈریں جب 83 وزیروں مشیروں کی فوج پر کروڑوں روپوں کے اخراجات پر خاموشوں نے اپنی خاموشی توڑ دی اور اُٹھ کھڑی ہو، جن کا معیشت پر کوئی خاص کام نہیں سوائے تقریر کرنے اور بیان دینے کے، ان کی وجہ سے معیشت پر کوئی مثبت اثر نہیں پڑ رہا ہے بلکہ وہ معیشت پر صرف بوجھ ہیں۔
ڈریں اس وقت سے جب 25کروڑ لوگوں کا ہجوم شریفوں کے حمایتیوں جن کی زبان پر فالج گرا ہوا کے گھروں کا رخ کرکے نکل کھڑے ہوئے ،انسانوں کا سیلاب جس کے حقوق سلب ہوچکے یہ نہیں دیکھے گا کہ اس کے رستے میں ریاستی پولیس کی طاقت ہے یا اقتدار کا نشہ ،جہاں خواب و خیال چھین لیے جاتے ہیں وہاں قدرت کا کوڑا حرکت میں آتا ہے ،قدرت کی پکڑ بڑی سخت ہوتی ہے اس کے شکنجے سے ظالم کو نجات کا کوئی رستہ نہیں ملتا ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر