... loading ...
ماجرا/ محمدطاہر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حالیہ چند دہائیوں کے واقعات میں بنگلہ دیش کی طلبہ تحریک تاریخ کا اہم ترین موضوع رہے گی۔ تاریخ کے بہاؤ میں طلبہ کا ایسا والہانہ کردار، حالت ِقائمہ کی مجاور قوتوں کے لیے سنگین خطرات کی دلدوز دستک ہے۔
ماضی گزیدہ فکر کے تعفن زدہ تھپیڑوں میں زندگی کرنے والے پاکستانی دانشوروں نے قے کی تھی کہ ابھی تو شیخ حسینہ مستعفی ہوئی ہے، کچھ توقف کیجیے! فوج متحرک ہو چکی ہے اور عبوری حکومت کے قیام کے بعد طلبہ تحریک سے ”بہت کچھ ”برآمد ہوگا۔یہ” بہت کچھ” کیا ہے؟ پاکستان کے منحوس سیاسی اقتدار کا بدبودار طرزِ فکر۔ ہر تبدیلی کو پس پردہ قوتوں کی عینک سے دیکھنے کی بے فیض روش۔ گویا حریت ِفکراور آزادیٔ عمل کوئی شے ہی نہیں۔ کیا یہ معاہدۂ عمرانی،یہ آزادی کی طویل تاریخ اور اس میںجانیں نچھاور کرنے والے کروڑوں انسانوں کا مشترکہ ورثہ ، خراب و خستہ ہے؟ کیا خلیفہ ثانی حضرت عمر کا وہ لہکتا فقرہ ” تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنا رکھا ہے ، حالانکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا ہیں، محض الفاظ ہی ہیں؟ جدوجہد کو مذاق بنانے والی اس مخلوق کو فارم 47 کی یُبوست و نحوست ساز گار ہے۔یہ طاقت پرستی کے دائمی مریض ہیں، جنہیں حشرات الارض کی طرح رینگتی سازشوں کو حُب الوطنی کے لباس میں پیش کرنے کے عادت پڑ چکی ۔ جعلی اقتدار کے منحوس گرداب میں جھولتا، جھونجھتا پاکستانی دانشوروں کا یہ طبقہ سرزمینِ بنگلہ دیش میں طلبہ تحریک کو لے پالک مسلم لیگ نون کی طرح کوئی حاشیہ بردار مخلوق سمجھتا تھا جس کی کل حرکت کا انحصار کسی جنبشِ ابرو پر منحصر ہو۔ وہ 1971 کو ہی نہیں، تاریخ کے سارے سبق بھولتے ہیں۔ یہ نیوز ویک کا دسمبر1971 ء کا ہفت روزہ ہے جس میں بنگالی قوم کو ”پارہ صفت”کہا گیا تھا،حرکت ، حرارت جن کی زندگی کا حصہ ہے۔ طلبہ تحریک اپنی تاریخ اور نفسیات سے اُبھری ہے۔
طلبہ تحریک میں” عسکری ہلاشیری” ڈھونڈنے والے تاریخ کے حرکیاتی عوامل پر غور نہیں کرتے۔ پہلاسوال مکافاتِ عمل اور شیخ حسینہ کے انجام کا ہے۔ تاریخ باربار ہمیں جھنجوڑ رہی ہے۔ شیخ حسینہ 5 اگست کو جب اگرتلہ کے لیے اڑی تو یہ خطے میں تیسرا واقعہ تھا۔ 15 اگست 2021ء کو اشرف غنی کے طیارے نے تاجکستان کے لیے اڑان لی تھی۔13 جولائی 2022ء کو سری لنکا کے صدر گوتابایا راجاپکشے ایک فوجی طیارے پر پہلے مالدیپ ، پھرسنگاپور فرار ہو ئے تھے ۔5اگست کو شیح حسینہ کا بھارت فرار، اس تاریخ کو تاریخ کے دیگر عوامل سے بھی زیادہ سبق آموز بنا رہا ہے۔ شیخ حسینہ جس قسم کے جبر کے باعث عوامی غیض و غضب کا ہدف بنی ، اُس سے کہیں زیادہ بھیانک انداز پاکستان کی ہر نوعی اشرافیہ نے اختیار کر رکھا ہے۔اس جبر وستم کا ہدف عمران خان بھی ہیں۔ عمران خان کو زنداں میں ایک برس اسی تاریخ کو مکمل ہوا۔ شیخ حسینہ نے یہی سلوک بنگلہ دیش میں اپنے” حریفوں” کے ساتھ روا رکھا۔یہی تاریخ یوم استحصال کشمیر کے حوالے سے زیادہ معنی خیز ہو جاتی ہے۔ گویا ظالموں کے ظلم کو بھی یہ تاریخ عیاں کرتی ہے اور اس کے انجام کی حشرسامانیاں بھی یہ تاریخ دکھاتی ہے۔
شیخ حسینہ کے وزیراعظم ہاؤس ہی میں نہیں، اشرف غنی کے ایوان صدر میں بھی طالبان داخل ہو گئے تھے، جہاں طالبان نے کنٹرول سنبھالنے کے بعد جم خانے میں ورزش کی ۔ یہی کچھ گوتا بایا راجا پکشے کے ساتھ بھی ہوا، وہ جب ملک سے فرار ہو رہے تھے تو عوام اُن کے گھر اور وزیراعظم ہاؤس پر دھاوا بول چکے تھے۔ انقلاب نشانیوں کو مٹاتا ہے۔ نقشِ کہن کو روندتا ہے۔ غصہ قانون کا چہرہ بعد میں دیکھتا ہے، پہلے اُسے نوچتا ہے۔شیخ مجیب الرحمان کا مجسمہ گرادیا گیا اور شیخ حسینہ کے زیر جامہ ملبوسات وزیراعظم ہاؤس سے نکال کر ہوا میں لہرادیے گئے۔ شیخ حسینہ کس انجام سے دوچار ہوئی؟ نکتہ یہ ہے کہ آمریت ہو یا جمہوری لبادے میں آمرانہ روش ہو، انسانی نفسیات گوارا نہیں کرتی۔ آمریت جمہوریت کے التباس میں بھی بے لباس رہتی ہے۔شیخ حسینہ نے 6 جنوری 2009 ء سے5 اگست 2024ء تک مسلسل15 سال212 دنوں تک مسلسل حکومت کی۔ قبل ازیں وہ 23 جون 1996ء سے15 جولائی 2001ء تک پانچ سال 22 دنوں تک سریر آرائے اقتدار رہ چکی تھیں۔اس طرح شیخ حسینہ20 سال اور 234دنوں تک کوس لمن الملک بجاتی رہیں ۔ وہ بنگلہ دیش کی تاریخ کاسب سے طویل اقتدار پانے والی وزیر اعظم تھیں۔ دنیا کی تاریخ میں بھی وہ سب سے زیادہ عرصۂ اقتدار پر رہنے والی خاتون سربراہ تھیں۔جریدے فوربس نے دنیا کی طاقت ور خواتین کی فہرست 2017ء کے لیے مرتب کی تو شیخ حسینہ 30ویں نمبر پر تھیں۔ طاقت جوابدہ نہ ہو تو یہ سفاکیت کا روپ دھارتی ہے ۔ سفاکانہ طاقت ، بہیمانہ نتائج پیدا کرتی ہے اور ہموار اجتماعیت میں بارود بھر دیتی ہے۔ طاقت اگر انکساری پیدا نہ کرے تو یہ طاقت ور کے لیے خود ایک سزا بن کر ظاہر ہوتی ہے۔ شیخ حسینہ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ خالدہ ضیاء سے 1991ء کے انتخابات میں شکست سے دوچار ہونے والی شیخ حسینہ نے اُسے ممکنہ حد تک کھدیڑ اور اُدھیڑ کر رکھ دیا۔ یہاں تک کہ بی این پی (بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی)کی خالدہ ضیاء کو 8 فروری 2018 ء کو ایک مقدمے میں جیل بھیج دیا گیا ۔آدم بو کی نفسیات رکھنے والی شیخ حسینہ نے جماعت اسلامی کے رہنماؤں کی گردنوں میں پھندے ڈال دیے۔ یکے بعد دیگرے نصف درجن رہنماؤں کو پھانسی دی گئی جن میں72سالہ مطیع الرحمان نظامی، اظہرالاسلام ، ابو صالح محمد عبدالعزیز،عبدالقادر ملا، قمر الزماں،علی احسان محمد مجاہد بھی شامل ہیں۔ 2013میںجماعت اسلامی کے سابق امیر 90سالہ غلام اعظم کو 90سال قید کی سزا سنائی گئی تھی ان کا انتقال 2014ء میں ہوا۔جبر اور غضب کی یہ تاریخ بے احتساب کیسے رہ سکتی تھی؟ طلبہ تحریک نے شیخ حسینہ واجد کا نہیں جبرکا تعاقب کیا تھا۔ طلبہ کے نعروں میں صرف کوٹہ سسٹم کے خلاف غصہ نہیں ، اس میں بیس سالہ جبر ِمسلسل کے خلاف انتقام کا دل دہلا دینے والا خروش بھی تھا۔ شیخ حسینہ طلبہ کے وزیراعظم ہاؤس بڑھتے قدموں کی آہٹوں سے نہیں بھاگی۔ وہ اپنے اعمال کی سیاہ کاریوں کے خوف سے فرار ہوئی۔ یہ خوف اُس کی باقی زندگی میں بھی اس کا تعاقب کرے گا۔ وہ جس بھارت کا اثاثہ تھی، اس کے لیے بوجھ بن جائے گی ، بھارت زیادہ دیر اپنی حاشیہ برادر کی میزبانی نہ کر سکے گا۔یہی ماجرا باقی ممالک کا بھی ہے۔ برطانیہ نے سیاسی پناہ دینے سے انکار کر دیااور امریکا نے ویزا منسوخ کردیا۔سیاست دان اگر عوام کے لیے زندگی نہیں گزارتے تو اُن کی زندگی کا ناپاک وجود کوئی اور بھی نہیں اُٹھاتا۔ وہ بھی نہیں جن کے لیے یہ زندگی گزار دیتے ہیں۔
پاکستان کے ستم رسیدہ ماحول میںذرائع ابلاغ ابھی اشرافیہ کی سرپرستی میںزندگی کرتے ہیں۔ پروپیگنڈا اور سچ کو جھوٹ بنانے کی دُکان بڑھاتے ہیں۔فارم 47کے اقتدار کو آبرو دینے کے لیے اپنے چمچوں، کرچھوں کو حرکت میں رکھتے ہیں۔ یہی نہیں اپنے گردو پیش میں رونما ہونے والے واقعات کی تشریح بھی اپنی من مرضی سے کرتے ہیں۔ بنگلہ دیش سیاسی بیداری کے حوالے سے اپنے پیش رو ملک سے زیادہ زندہ علاقہ تھا۔ آج بھی ہے۔ طلبہ تحریک نے شیخ حسینہ کو راہِ فرار پر ہی مجبور نہیں کیا بلکہ اپنے وطن میں عبوری حکومت کی تشکیل کا اختیار بھی عسکری اشرافیہ کو نہیں دیا۔ پاکستان کے حاشیہ بردار دانشوروں نے طلبہ تحریک کو پاکستانی نفسیات سے دیکھا اور اس میں پس پردہ قوتوں کے کردار کی چھاپ لگانے کی کوشش کی۔ مگر طلبہ تحریک نے عبوری حکومت کی تشکیل میں بنگلہ دیش کے آرمی چیف کے کردار کو مسترد کر دیا تو ان دانشوروں نے دوسرے پہلوؤں سے قے کرنا شروع کردی۔
مولانا روم نے کہا تھا :ریشم کا کیڑا ریشم میںاور تعفن کا کیڑا تعفن میں جیتا ہے۔ انہیں اپنے ماحول میں جینے دیں۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ آمروں اور آمر نما جمہوریت کے نام نہاد سربراہوں کا انجام یہی ہوتا ہے ۔حسینہ واجد کو اپنے مقرر کردہ ،رشتے دار آرمی چیف نے تقریر ریکارڈ کرانے کی مہلت بھی نہ دی۔ اُنہیں اپنا بوریا بستر گول کرنے کے لیے صرف45 منٹ کا وقت دیا گیا۔یہ ان لوگوں کے لیے ایک تنبیہ ہے جو انقلاب کی چاپ سننے کو تیار نہیں۔ جن کا ظلم ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ جن کو اپنے اقتدار پر بھروسہ بہت ہے ۔ افسوس تاریخ کا یہ مبرہن چکر تمام ظالموں کے لیے یکساں طور پر چلتا ہے، اور انہیں اپنے گرد وپیش سے سبق لینے سے بھی عاجز کیے رکھتا ہے۔ پاکستانی حکمران بھی ایسے ہی گرداب میں ہے۔ مگر بنگلہ دیش میں زمین و آسمان کچھ اور ہی ماحول دکھا رہے ہیں۔ فوج کے اندر بڑے پیمانے پر تبدیلیاں جاری ہیں۔ مگر یہ تبدیلیاں 12 جون 2024کو بننے والے آرمی چیف وقار الزماں کے لیے نئے نظام میں اعتماد پیدا کرنے کا باعث بن پائے گی یا نہیں، یہ سوال ابھی برقرار ہے۔ مگر بنگلہ دیش کے آرمی چیف وقار الزماں کی تعیناتی حسینہ واجد کے سب سے قابل اعتماد فوجی سربراہ کے طور پر ہوئی تھی کیونکہ وہ اُن سے دُہری رشتے داری رکھتے تھے۔ وہ ایک طرف شیخ حسینہ کے رشتے میں چچا اور سابق فوجی سربراہ جنرل مستفیض الرحمان (24دسمبر 1997ء سے 23دسمبر2000ئ) کے داماد ہیں۔ اس طرح وہ شیخ حسینہ کی کزن کے شوہر بھی ہیں۔مگر یہ رشتے داری شیخ حسینہ کے اقتدار کو تحفظ نہ دے سکی۔ یقینا شیخ حسینہ جب اگر تلہ کے لیے فوجی ہیلی کاپٹر میں اڑی ہونگیں تو اُن کے ذہن میں اپنے رشتے دار آرمی چیف کے حوالے سے جو خیالات بھی رہے ہوںگے، وہ کچھ اس سے ملتے جلتے ہوںگے کہ
سہارا آپ کا بے شک بڑا سہارا ہے
مگر حضور سہاروں کا اعتبار نہیں