وجود

... loading ...

وجود

حسینہ واجد کے دور کا خاتمہ

بدھ 07 اگست 2024 حسینہ واجد کے دور کا خاتمہ

ریاض احمدچودھری

بنگلہ دیش میں ایک ماہ سے جاری پرتشدد مظاہروں اور ان میں سینکڑوں ہلاکتوں کے بعد بنگلادیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد استعفیٰ دے کر ملک سے فرار ہوگئیں۔شیخ حسینہ واجد بھارتی شہر اگرتلہ پہنچی ہیں اور بھارت انہیں محفوظ راستہ فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔بنگلادیشی فوج نے وزیراعظم حسینہ واجد کو مستعفی ہونے کے لیے 45 منٹ کی ڈیڈ لائن دی تھی۔ شیخ حسینہ واجد نے محفوظ مقام پر منتقلی سے قبل تقریر ریکارڈکرانے کی کوشش کی مگر انہیں تقریر ریکارڈ کرانے کا موقع نہیں دیا گیا۔بنگلہ آرمی چیف نے قوم سے اپنے خطاب میں کہا کہ ملک میں امن واپس لائیں گے، شیخ حسینہ واجد نے استعفیٰ دے دیا ہے اور اب عبوری حکومت کے قیام کیلئے بات چیت جاری ہے اور اس حوالے سے عوامی لیگ کے سوا تمام سیاسی جماعتوں سے بات چیت ہوئی ہے۔بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) سمیت بڑی سیاسی جماعتوں سے بات چیت جاری ہے۔
شیخ حسینہ واجد کے استعفے کی خبر سنتے ہیں دارالحکومت ڈھاکا میں بڑی تعداد میں طلبہ نے جشن منایا۔ بنگلادیش میں اس وقت 4 لاکھ افراد سڑکوں پر موجود ہیں۔مظاہرین شیخ حسینہ کی سرکاری رہائش گاہ میں گھس گئے۔ڈھاکا میں شیخ مجیب کے مجسمے توڑ دیے گئے، بڑا مجسمہ رسیوں سے کھینچ کر گرا دیا گیا، شیخ مجیب کی تصویروں پر بھی سنگ باری کی گئی، بھارتی پرچموں پر بھی ڈنڈے برسائے گئے۔یاد رہے کہ بنگلادیش میں 1971 کی جنگ لڑنے والوں کے بچوں کو سرکاری نوکریوں میں 30 فیصد کوٹہ دیے جانے کے خلاف گزشتہ ماہ کئی روز تک مظاہرے ہوئے تھے جن میں 200 افراد ہلاک ہوئے جس کے بعد سپریم کورٹ نے کوٹہ سسٹم کو ختم کردیا تھا مگر طلبہ نے اپنے ساتھیوں کو انصاف نا ملنے تک احتجاج جاری رکھنے اور سول نافرمانی کی کال دے تھی۔بنگلادیش میں کوٹہ سسٹم مخالف طلبہ کی جانب سے سول نافرمانی کی تحریک کے اعلان کے بعد پرتشدد احتجاج میں مجموعی ہلاکتوں کی تعداد 300 تک جا پہنچی ہے جب کہ طلبہ نے دارالحکومت ڈھاکا کی طرف لانگ مارچ کی کال دی تھی۔شیخ حسینہ واجد 19 سالہ اقتدار کے نتیجے میں ملک کی طویل ترین وزیراعظم رہیں، وہ اسی سال چوتھی مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئی تھیں جب کہ حسینہ واجد پر سیاسی مخالفین کے خلاف اقدامات کے الزامات بھی لگائے جاتے ہیں اور حال ہی میں ان کی حکومت نے بنگلادیشی جماعت اسلامی پر پابندی لگائی تھی۔بنگلادیش کے صدر محمد شہاب الدین نے شیخ حسینہ کے ملک چھوڑنے کے چند گھنٹوں بعد ہی جنوری 2024 کے انتخابات کے بعد تشکیل پانے والی پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
بنگلہ دیش میں بغاوتوں اور شورشوں کی ایک طویل تاریخ رہی ہے اس کی ٹائم لائن پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ سب سے پہلی بغاوت حسینہ واجد کے والد اور ملک کے پہلے وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمن کیخلاف ہوئی تھی۔اسی سال میں مزید دو اور بغاوتیں ہوئیں جن کے نتیجے میں نومبر میں جنرل ضیا الرحمٰن نے اقتدارسنبھال لیا تھا۔ 1981میں جنرل ضیا الرحمٰن کو چٹاگانگ میں سرکاری گیسٹ ہائوس کے اندر قتل کردیا تھا۔یہ کارروائی فوجی افسران کے ایک گروپ نے کی تھی۔1982میں جنرل ضیاالرحمٰن کے جانشین عبدالستار کو فوج نے جنرل محمد ارشاد کی فوجی بغاوت کے ذریعے نکال دیا تھا، جنرل ارشاد نے مارشل لا منتظم کی حیثیت سے اقتدار سنبھالا اور بعد میں صدربن گیا۔ 2007میں آرمی چیف نے پھرایک بغاوت کی اور اس نے دوسالہ عبوری حکومت بنائی جس کے بعد2009میں شیخ حسینہ اقتدار میں آئیں۔ 2009میں کم تنخواہوں پر بغاوت کرنے والے نیم فوجی دستوں نے ڈھاکا میں 70 افراد کو قتل کردیا جن میں زیادہ تر فوجی افسران تھے۔ یہ غدردرجن بھر شہروں تک پھیل گیا اور 6 دن جاری رہا جس کے بعد نیم فوجی دستوں نے مذاکرات کے ایک طویل سلسلے کے نتیجے میں ہتھیار ڈال دیے۔ 2012 میں بنگلہ دیشی فوج کے بقول اس نے حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی افسران کی جانب سے شریعہ انقلاب لانے کیلئے بغاوت ناکام بنادی۔ 2024 بنگلہ دیشی آرمی چیف وقار الزماں نے کہا کہ حسینہ واجد نے کوٹا مخالف احتجاج کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔صرف بنگلہ دیش ہی نہیں پاکستان میں بھی ہونے والے حالیہ انتخابات شفاف نہیں تھے۔ سروے کے مطابق دو تہائی پاکستانی شہریوں نے آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات کی شفافیت اوراس کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ پاکستانی شہریوں میں معاشی، سیاسی اور ملکی سلامتی کو در پیش سیکیورٹی چیلنجز سے متعلق مایوسی میں اضافہ ہوا ہے اور انتخابات کے بعد ان میں پائی جانے والی بے چینی عروج پر ہے۔ ملک میں سیاسی اور معاشی ماحول یکساں طور پر پریشان کْن ہے اور 10 میں سے سات پاکستانیوں نے انتخابات کی شفافیت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ایک بڑی جماعت کو انتخابات سے قبل ہی انتخابی نشان سے محروم کر دیا گیا۔یوں جیتنے والی اکثریت کو مختلف حیلوں بہانوں سے اقلیت میں تبدیل کیا گیا۔ رائے دہی سے محرومی کی وجہ سے عوامی سطح پر بڑھنے والی بے چینی کے باعث کچھ عرصے کے لیے عدم استحکام میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ یہ عدم استحکام پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری اور معیشت پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔
بنگلہ دیش کی موجودہ صورتحال میں جہاں خراب معاشی صورتحال نے اہم کردار ادا کیا وہیں اپوزیشن جماعتوں بی این پی اور جماعت اسلامی نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ احتجاج میں بنیاد پرست اور پاکستان کی حامی جماعت اسلامی بہت سرگرم رہی اور اس نے سڑکوں پر طاقت کا مظاہرہ کیا اور احتجاج میں تشدد کا عنصر شامل ہونے کا باعث بنی۔ شیخ مجیب کو تو پاکستان سے غداری کی عبرتناک سزا خود فطرت نے دی، مگر قدرت نے اس کے قریبی ساتھیوں کو بھی نہ بخشا کہ جو پاکستان توڑنے میں اس کے ساتھ ملوث تھے۔حسینہ واجد پاکستان توڑنے والے شیخ مجیب کے خاندان کی آخری سپوت تھی جو آخرکار اپنے انجام سے دوچار ہوئی۔


متعلقہ خبریں


مضامین
بھارت میں مساجد غیر محفوظ وجود جمعه 20 ستمبر 2024
بھارت میں مساجد غیر محفوظ

نبی کریم کی تعلیمات اور خوبصورت معاشرہ وجود جمعه 20 ستمبر 2024
نبی کریم کی تعلیمات اور خوبصورت معاشرہ

کشمیر انتخابات:جہاں بندوں کو تولا جائے گا ! وجود جمعه 20 ستمبر 2024
کشمیر انتخابات:جہاں بندوں کو تولا جائے گا !

قائد اعظم کی خوش لباسی و نفاست وجود جمعرات 19 ستمبر 2024
قائد اعظم کی خوش لباسی و نفاست

بحران یا استحکام وجود جمعرات 19 ستمبر 2024
بحران یا استحکام

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر