... loading ...
حمیداللہ بھٹی
فلسطین پر اسرائیل کے ناجائز اور غاصبانہ قبضے کے خلاف ناقابلِ شکست مزاحمت کی علامت اسماعیل ہنیہ کو ایسے حالات میں شہید کردیا گیا ہے جب وہ جنگ بندی کے لیے جاری مذاکرات میں حماس کے نمائندے تھے اور ایران کے نومنتخب صدرکی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے خصوصی دعوت پر بطورمہمان تہران میں بظاہرمحفوظ سمجھے جانے والے ایک مہمان خانے میں مقیم تھے جہاں اِس بطلِ حریت کو31 جولائی رات دوبجے کے قریب محافظ سمیت ماردیا گیا۔اِس حملے میں استعمال کی گئی ٹیکنالوجی کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ اِس کے زیادہ تر تجربات افغانستان میں کیے گئے۔ شہادت سے چند گھنٹے قبل تہران کی شاہراہوں پر گھومنے پھرنے کے دوران ہی ہنیہ بھی نظروں میں آئے۔ مذاکراتی نمائندے کی حیثیت سے ایک اہم گروپ کی بین الاقوامی سفارت کاری کاچہرہ اور پھر دنیابھر کے حکومتی نمائندوں کی موجودگی میں فلسطینی رہنما کو نشانہ بناناثابت کرتا ہے کہ اِس طرح اسرائیل نے جان بوجھ کر امن اور جنگ بندی کا راستہ روکا ہے۔ سفاک وزیرِ اعظم نیتن یاہونے بدھ کی شام ٹی وی بیان میں ہنیہ کانام لیے بغیر کہا کہ اسرائیل نے چاہے دیر سے سہی لیکن ایرانی پراکسیوں بشمول حماس اور حزب اللہ کو زبردست دھچکا پہنچایا ہے اوریہ کہ اگر اُس پر حملہ کیا گیا توکسی بھی منظر نامے کے لیے تیار اور ہر حملے کا بھرپورجواب دیں گے ۔یہ بیان جنگ سے دلچسپی کو ظاہرکرتاہے کرہ ارض پر جنگ کی آگ بھڑکانے جیسی مذموم کارروائیوں پریقین رکھنے والی صیہونی ریاست کو اگر بروقت روکنے میں اقوامِ عالم نے تساہل سے کام لیا تو مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل کا کم اور جنگ وجدل کا امکان بڑھ سکتا ہے ،اب عالمی طاقتوںپرمنحصرہے ۔یہ طے ہے کہ اسرائیل کی سرپرستی کے ساتھ اُسے جنگ وجدل سے روکناازحدمشکل ہے۔
کسی آزاد و خود مختار ملک کے اندر کاروائی بین الاقوامی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہے جس کی کوئی بھی آزاد و خود ملک اجازت نہیں دے سکتا ۔ایران کے دارالحکومت میں ایک مہمان کی قیام گا ہ کو نشانہ بنانا ثابت کرتاہے کہ اسرائیل بے لگام ہوچکاہے اور وہ کسی بھی وقت کسی بھی ملک کی آزادی وخود مختاری پامال کرسکتا ہے ۔قیام سے لیکر مصر،اُردن،لبنان،شام کے علاقے ہتھیانے کے ساتھ وہ پورے فلسطین پر قابض ہو چکا ہے ۔وہ کئی ممالک میں سائنسدانوں کومارنے میں ملوث رہاہے۔ ایسے حالات میں جب عالمی عدالت انصاف اسرائیل کو ناجائز ریاست اور غزہ پر جاری حملوں کو فلسطینیوں کی نسل کشی قرار دے چکی اسرائیل کی دیدہ دلیری بہت حیران کُن ہے۔ ظاہرہے یہ سب کچھ عالمی طاقتوں کی سرپرستی کے بغیرممکن نہیں ۔اب تووہ ہمسایہ ممالک کے خلاف جارحانہ کارروائیوں کے ساتھ دہشت گردی کوبھی بطور ہتھیار استعمال کرنے لگاہے جس سے خطے کاامن تہہ و بالاہونے کا خدشہ ہے ۔اِس میں کوئی دورائے نہیں کہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کھلم کھلا دہشت گردی ہے۔ کاش عالمی طاقتیں اپنے طرزِ عمل پر نظرثانی کریں اور عرب خطے کو کنٹرول کرنے کے لیے کسی غاصب ریاست کی غلط طرفداری نہ کریں ۔
اسماعیل ہنیہ کی شہادت سے پیداہونے والے خطرات واثرات غیر معمولی ہو سکتے ہیں ۔اِس واقعہ سے غزہ جنگ بندی سوالیہ نشان بن گئی ہے۔ قطری وزیرِ اعظم عبدالرحمن الثانی نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے صاف کہہ دیاہے کہ جب مذاکرات کارکو ہی قتل کردیاجائے تو ثالثی کیسے کامیاب ہو سکتی ہے؟ امریکہ نے بظاہر کارروائی سے لاتعلقی ظاہر کی ہے لیکن ساتھ یہ عزم دہرایا ہے کہ اسرائیل کا دفاع کریں گے۔ ایران اور لبنا ن میں حملوں سے پیداہونے والی کشیدگی کے تناظر میں اُس نے چارہزارتازہ دم فوجیوں اورچھ لڑاکا طیاروں کے ساتھ جنگی بحری بیڑہ خلیج فارس بھیج دیاہے ۔اسرائیلی دیدہ دلیری امریکی تھپکی کے بغیر ممکن نہیں۔ اسرائیل تو عرصہ سے امریکی اعانت سے خطے میں نئے محاذ کھولنے، ہمسایہ ممالک کی آزادی و خود مختاری پامال کرنے اور اپنی حدود کو وسعت دینے کے لیے کوشاں ہیں۔ ایرانی سپریم لیڈرآیت اللہ علی خامنہ ای نے ہنیہ حملے پر کہہ دیاہے کہ ہم خون کابدلہ لینااپنا فرض سمجھتے ہیں۔ نو منتخب صدر مسعودپیزشکیان کا کہناہے صیہونی رجیم اپنی بزدلانہ اور دہشت گردانہ کارروائیوں کے نتائج جلد دیکھیں گے ۔حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈز کی طر ف سے بھی کہا گیا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کا قتل جنگ کونئی سطح پر لے جائے گا۔اسرائیل کی طرح ایران ،حماس ،حزب اللہ اور حوثیوں کی طرف سے جوابی کارروائی کے اعلانات نے خطے کو درپیش خطرات کو یک دم بڑھادیاہے ۔ضرورت اِس امر کی ہے کہ اسرائیل کا دفاع کرنے کی بجائے عالمی طاقتیں اُسے عالمی قوانین کا پابندبنائیں تاکہ خطے میں امن رہے۔
کوئی لاکھ اختلاف کرے مگر غزہ کے موجودہ حالات کاذمہ دار کوئی ایک نہیں بلکہ کئی ہیں۔ اگر اسرائیل ایک غاصب ریاست ہے جوکسی عالمی ضابطے کی پاسداری پر یقین نہیں رکھتی مگریہ بھی سچ ہے کہ غزہ حالات کے ذمہ داروں کا تعین کرتے ہوئے حماس کو بری الزمہ قرار نہیں دے سکتے جس نے بغیر تیاری اور ممکنہ صورتحال کاادراک کیے بغیر احمقانہ کارروائی سے فلسطینیوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔اگر حملے نہ کیے جاتے تو اسرائیل کو غزہ پر حملوں کاہرگز جواز نہ ملتا۔ اب تو امریکی بھی یہ اعتراف کرنے لگے ہیں کہ غزہ پردس ماہ سے جاری فضائی حملوں میںپچاسی ہزارٹن بارودبرساکر اب تک ایک لاکھ کے قریب فلسطینی شہید کردیے گئے ہیں ، جبکہ نوے فیصد ہسپتال ،رہائشی عمارتیں اور اسکول تباہ کردیے گئے ہیں ۔مظلوم اور نہتے غزہ مکینوںکوپناہ گزین کیمپوں میں بھی فضائی حملوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ پانی اور خوراک کی قلت سے الگ انسانی المیہ جنم لے چکا ۔اگر حماس بے وقوفی نہ کرتی تو آج حالات مختلف ہوتے اور اسرائیل ہمسایہ ممالک کی خودمختاری پامال نہ کررہاہوتا ۔ایک محدود کارروائی کے جواب میں اسرائیل نے سارے غزہ کوکھنڈرات بنا دیا ہے۔ جنگ چھیڑنا آسان ہے البتہ روکنا مشکل ہوجاتا ہے۔ کاش حماس کے ذمہ داران کارروائی سے قبل اِس نکتے کو ذہن میں رکھتے۔
اسماعیل ہنیہ کی شخصیت کا جائزہ لیا جائے توجنگجوکی بجائے ادیب ،سیاستدان اور کھلاڑی زیادہ محسوس ہوتے ہیں وہ29 جنوری 1962 کوغزہ کی پٹی پر واقع الشطی پناہ گزین کیمپ میں پیداہوئے یہاں 1948میں اُن کے والدین فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کے دوران عسقلان سے آکر آباد ہوئے ابتدائی تعلیم اقوامِ متحدہ کے بنائے اِ داروں سے حاصل کی غزہ کی اسلامی یونیورسٹی سے عربی ادب میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی لی وہ حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کے معاون مقرر ہوئے اُن کایونیورسٹی کے بہترین فٹ بالرمیں شمار ہوتا تھا حماس میں آنے سے قبل کچھ عرصہ اخوان المسلمون کی ایک طلبا کونسل کے سربراہ بھی رہے اُنھیں کئی بار قید اور جلاوطنی کابھی سامنا کرنا پڑا۔ 2006 کے انتخابات میں حماس کی کامیابی پر فلسطینی اتھارٹی کے وزیرِ اعظم رہے لیکن جلد ہی صدر محمود عباس نے عہدے سے ہٹاد یا ،خیال کیا جاتا ہے کہ محمود عباس نے یہ فیصلہ اسرائیلی ایما پر کیا۔انھوں نے 2017میں حماس کے سیاسی شعبے کی سربراہی سنبھالی۔ اسی برس انھیں امریکہ کی طرف سے عالمی دہشت گرد قراردے دیا گیا۔ آج کل بھی جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے تمام ترسختیوں کے باوجود ثابت قدم رہے۔ انھوں نے اپنی زندگی فلسطینیوں کے لیے وقف کررکھی تھی۔ خاندان کے ساٹھ افراد کی شہادت کے امین اسماعیل ہنیہ خود بھی شہیدہوگئے آج ساراعالمِ اسلام اُن کی وفات پر سوگوار ہے۔ اللہ غریقِ رحمت کرے عجب آزاد مردتھا۔