... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
اسماعیل عبدالسلام احمد ہنیہ ایران کی سرزمین پر شہید کردیے گئے جہاں پر وہ بطور ایک مہمان کے ایرانی صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے گئے تھے ۔ایک انتہائی اہم شخصیت ایک اہم ترین موقع پر بطور مہمان شریک ہو اور پھر یقیناً ان کے قیام کا انتظام بھی کسی محفوظ ترین مقام پر ہوگا ،اس کے باوجود ایک مہمان کا یوں قتل ہوجاناایک سوالیہ نشان ہے۔ اس صورتحال سے واضح ہوتا ہے کہ ایران مکمل طور سے غیر محفوظ ملک ہے ۔اسی تقریب میں شرکت کے لیے پاکستان کے وزیراعظم میاں شہباز شریف بھی مدعو تھے جن کا دورہ طبیعت کی خرابی کی وجہ سے ملتوی کردیا گیا۔ اس سے قبل بھی ایران میں ہی ملا ا ختر منصور بھی قتل کیے جاچکے ہیں۔ ایران کے صدر ایک ہیلی کاپٹر حادثہ میں چل بسے تھے جس کے بعد ایران میں یہ ایک اہم ترین موقع تھا جس پر سیکورٹی انتظامات کا غیر معمولی ہونا یقینی تھا لیکن اس کے باوجود اسماعیل ہنیہ کو آسانی سے شہید کردیا گیا۔
اسماعیل ہنیہ کا قیام، ہجرت اور شہادت اللہ کے لیے تھی ۔اسماعیل ہنیہ نے دنیا کی ظالم ترین طاقتوں کا بے جگری سے مقابلہ کیا ۔پہلے اپنے خاندان کو راہ خدا میں قربان کیا پھر خود بھی جنت کا مسافر بن گیا۔ شہادت ایک مسلمان کی زندگی کا اختتام نہیں بلکہ راحتوں بھری نئی زندگی کا آغاز ہے ۔اسماعیل ہنیہ خاندان کے31لوگ شہید ہوچکے ہیں ۔اسماعیل ہنیہ ایک سمندر کی طرح دل رکھتے تھے، مسکراتے رہتے تھے اسماعیل ہنیہ عالم اسلام کی بہت بڑی شخصیت تھی ۔سب جانتے ہیں یہ یہودی اور اسرائیلی کارروائی ہے کیونکہ اسرائیل نے اعلان کیا تھا کہ اسماعیل ہنیہ کو زندہ نہیں چھوڑیں گے جبکہ غزہ جنگ کے دوران اسماعیل ہنیہ کے خاندان کے درجنوں افراد شہید ہو چکے ہیں ۔اسماعیل ہنیہ 1962 میں غزہ کے شہر کے مغرب میں شطی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے ۔انہوں نے 16 سال کی عمر میں اپنی کزن امل ہانیہ سے شادی کی جن سے ان کے 13 بچے پیدا ہوئے جن میں 8 بیٹے اور 5 بیٹیاں شامل ہیں ۔اکتوبر 2023 میں غزہ شہر میں ان کے گھر پر اسرائیلی فضائی حملے میں خاندان کے چودہ افراد شہید ہوگئے جن میں ایک بھائی اور بھتیجا شامل تھے۔ نومبر 2023 میں ان کی ایک پوتی غزہ شہر میں اسرائیلی فضائی حملے میں شہید ہوگئی اور پھر اسی ماہ کے آخر میںان کا سب سے بڑا پوتا اسرائیلی حملے میں شہید ہوگیا ۔اسماعیل ہنیہ کے تین بیٹے اور تین پوتے 10 اپریل 2024 کو غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فضائی حملے میں شہید ہوگئے تھے ۔25 جون 2024 کواسماعیل ہنیہ کے خاندان کے دس افراد بشمول ان کی 80 سالہ بہن الشطی پناہ گزین کیمپ میں اسرائیلی فضائی حملے میں شہید کردیے گئے۔
اسماعیل عبدالسلام احمد ہنیہ مصر کے مقبوضہ غزہ کی پٹی کے الشطی پناہ گزین کیمپ میں مسلمان فلسطینیوں کے خاندان میں پیدا ہوئے تھے انہوں نے اقوام متحدہ کے زیر انتظام ا سکولوں میں تعلیم حاصل کی اور غزہ کی اسلامی یونیورسٹی سے 1987 میں عربی ادب میں ڈگری حاصل کی یونیورسٹی میں رہتے ہوئے وہ حماس سے وابستہ ہو گئے۔ 1985 سے 1986 تک وہ اخوان المسلمون کی نمائندگی کرنے والی طلبہ کی کونسل کے سربراہ رہے اسماعیل ہنیہ نے پہلی بار انتفاضہ میں مظاہروں میں حصہ لیاجسکے بعد اسرائیلی فوجی عدالت نے انہیں مختصر قید کی سزا سنائی ۔اسماعیل ہنیہ کو اسرائیل نے 1988 میں دوبارہ حراست میں لیا اور چھ ماہ تک قید رکھابعد میں 1989 میں انہیں تین سال کے لیے قیدکردیا گیا ۔1992 میں ان کی رہائی کے بعد اسرائیلی فوجی حکام نے انہیں حماس کے سینئر رہنماؤں عبدالعزیز الرنتیسی، محمود ظہار، عزیز دوائیک سمیت400 کارکنوں کے ساتھ لبنان جلاوطن کر دیا ۔یہ کارکن جنوبی لبنان کے مرج الظہور میں ایک سال سے زائد عرصے تک رہے جس کے بعد وہ غزہ واپس آئے اور اسلامی یونیورسٹی کے ڈین مقرر ہوئے۔ اسرائیل نے احمد یاسین کو 1997 میں جیل سے رہا کیا تو اسماعیل ہنیہ ان کے دفتر کے سربراہ مقررہوگئے۔ حماس کے اندر ان کی اہمیت بڑھی تو انہیں فلسطینی اتھارٹی کا نمائندہ مقررکردیا گیا۔ 2003 میں یروشلم میں ایک خودکش بم حملے میں حماس کی قیادت کو ختم کرنے کی کوشش کے دوران اسماعیل ہنیہ کے ہاتھ پر معمولی زخم بھی آئے تھے ۔دسمبر 2005 میں اسماعیل ہنیہ کو حماس کا سربراہ کے لیے منتخب کرلیا گیا جس کے بعد انہوں نے قانون ساز کونسل کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ 25 جنوری 2006 کو حماس کی “تبدیلی اور اصلاحات کی فہرست” کی فتح کے بعداسماعیل ہنیہ کو 16 فروری 2006 کو وزیر اعظم کے طور پر نامزد کیا گیا اور 29 مارچ 2006 کو بطور وزیر اعظم حلف اٹھایا تو اس کے بعد اسرائیل نے فلسطین کے خلاف اقتصادی پابندیوں سمیت تعزیری اقدامات کا ایک سلسلہ نافذکردیا ۔اسماعیل ہنیہ نے پابندیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حماس نہ تو غیر مسلح ہوگی اور نہ ہی اسرائیل کو تسلیم کرے گی۔
اسماعیل ہانیہ کی شہادت سے محض ایک دن قبل اسرائیلی فوج نے لبنان کے دارالحکومت بیروت پر ڈرون حملے میں حزب اللہ کے سینئر کمانڈر فواد شْکرکو شہید کیا تھا فواد شْکْر کی شہادت سے خطے میں عدم استحکام کی نئی لہر دوڑنے کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا اور اب اسماعیل ہنیہ کو شہید کردیا گیا اس شہادت کے بعد اسرائیل کی طرف سے جس نوعیت کا ردِعمل سامنے آیا ہے۔ اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُسے امریکا اور یورپ کی بھرپور پشت پناہی حاصل ہے اور امریکا کا یہ کہنا محض آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ہے کہ وہ اسرائیل کو کنٹرول کرکے مشرقِ وسطیٰ میں کسی بڑی جنگ کی راہ روکنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ اُس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پہلے سے اچھی خاصی تیاری کرکے بیٹھے ہوئے تھے اگر امریکا اور یورپ نے اس مرحلے پر اسرائیل کی پشت پناہی سے ہاتھ نہ کھینچا تو خطے میں ایک ایسی جنگ چھڑسکتی ہے جو بہت سے ممالک پر محیط ہوسکتی ہے اور اس جنگ میں کسی بھی فریق کے لیے نقصان سے بچنے کی گنجائش نہ ہوگی اسکے ساتھ ساتھ اسرائیل پر حماس، حزب اللہ اور حوثی ملیشیا کے حملوں میں شدت بھی آسکتی ہے جبکہ اسرائیل کے بارے میں تصور کیا جاتا ہے کہ دنیا کے جدید ترین ہتھیار اُسے میسر ہیں تاہم بڑی جنگ چھوٹے سے رقبے والے اسرائیل کے لیے بہت بڑے نقصان کا سبب ہو سکتی ہے جس سے بچنا کسی بھی طور ممکن نہ ہوگا۔ اب یہ مسئلہ ڈائیلاگ کا نہیں رہا بلکہ اب اس کا ایک ہی حل ہے کہ اسرائیل مسلمانوں کے علاقے سے نکل جائے ۔اسرائیل ایک دہشت گردہے اس نے اسلامی سرزمین پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ اسرائیل نے معاملات کو ایک جامع جنگ کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت سے ظاہرہوتا ہے کہ اسرائیل امن نہیں چاہتا ۔