... loading ...
جاوید محمود
ڈونلڈ ٹرمپ کی ریلی پر 13جولائی کو ہونے والے حملے کے بعد صدارتی انتخاب میں ان کی جیت دیوار پہ لکھی نظر آرہی ہے۔ خیال رہے کہ پنسلونیامیں اس حملے میں ایک شخص ہلاک ہوا تھا اور ایک گولی ڈونلڈ ٹرمپ کی کان کو چھوتی ہوئی گزر گئی تھی۔ امریکی کانگریس میں اس حملے کے حوالے سے تین سماعتیں ہوئیں جن میں سیکرٹ سروس ایف بی آئی اورپنسلونیاپولیس کے سربراہ نے نہ صرف بریفنگ دی بلکہ انہیں سخت سوالات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔اب یہ بات بالکل واضح ہو چکی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ریلی پر ہونے والا حملہ بغیر کسی منصوبہ بندی کے نہیں ہوا تھا بلکہ حملہ آور نے اس کی تیاری کر رکھی تھی۔ ایف بی ائی کے ڈائریکٹر نے کانگریس کی کمیٹی کو بتایا کہ 6جولائی کو کروکس نے ڈونلڈ ٹرمپ کی ریلی میں شرکت کے لیے خود کو رجسٹرڈ کروایا اور گوگل پر سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کے حوالے سے معلومات بھی اکٹھی کرتا رہا کہ حملہ آور کینیڈی سے کتنا دور تھا۔ لی ہاروے سولڈ وہ شخص تھا جس نے نومبر 1963میں اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔
ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کے مطابق یہ گوگل سرچ تھی اور اس لیے اہم ہے کہ ہمیں اس سے حملہ آور کی دماغی حالت کا پتہ چلتا ہے۔ گوگل پر دیگر سرچز سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد کروکس نے اپنی توجہ ٹرمپ پر مرکوز کر لی تھی۔ ایف بی آئی کے مطابق حملہ آور اکیلا ہی اس حملے میں ملوث تھا اور اسے کسی اور کی مدد حاصل نہیں تھی۔ اس سے قبل کروکس نے ریلی کے مقام کی ریکی بھی کی۔ ریلی کی ابتدا سے قبل کروکس نے اسٹیج سے تقریبا 200میٹر دور ایک ڈرون بھی اڑایا تھا۔ ایف بی آئی کے مطابق یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایک رائفل ماضی میں ہونے والے قتل کی معلومات دو بم اور علاقے کی پوری معلومات سے لیس ہو کر کر وکس ڈونلڈ ٹرمپ کی ریلی میں پہنچے تھے۔ اتنے سارے سامان کے ساتھ کسی صدارتی ریلی میں کسی شخص کا داخل ہونا تقریبا ناممکن ہونا چاہیے لیکن پنسلونیاکے شہر بٹلر میں کروکس نے بالکل ایسا ہی کیا اور ایک ایسی جگہ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا جہاں سے اسے ریلی کا اسٹیج صاف نظر آرہا تھا۔ یہ دراصل اے جی آر انٹرنیشنل نامی ادارے کا ایک گودام تھا جو کہ ٹرمپ کے اسٹیج سے تقریبا 400 فٹ کی دوری پر تھا۔ واضح رہے کہ سیکرٹ سروس کی ڈائریکٹر کمبرلی چیٹل اپنے عہدے سے استعفیٰ دے چکی ہیں۔ انہوں نے کانگرس کی کمیٹی کو بتایا تھا کہ انہیں نہیں معلوم کہ عمارت کی چھت کے اوپر سیکورٹی اہلکاروں کو کیوں تعینات نہیں کیا گیا؟
پولیس کمشنر کہتے ہیں کہ سب سے پہلے کروکس کی وہاں موجودگی کی اطلاع پولیس اہلکاروں کی جانب سے آئی تھی۔ باقی لوگوں کی طرح حملہ آور نے پنڈال میں داخل ہونے کی کوشش نہیں کی ۔کروکس کبھی سیکورٹی کے حصار سے گزر کے گئے ہی نہیں۔ پولیس کمشنر کہتے ہیں کہ ریلی شروع ہونے سے تقریبا 25 منٹ پہلے کروکس ایک بار پھر ایمرجنسی سروس یونٹ کو نظر آئے تھے اس مرتبہ سیکورٹی اہلکاروں نے انہیں رینج فائنڈر کے ذریعے دیکھا لیکن انہیں کروکس کے پاس بندوق نظر نہیں آئی۔ ایمرجنسی سروس یونٹ کے اہلکاروں نے کروکس کی ایک تصویر بھی آپریشن سینٹر بھیجی ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے سیکیورٹی کے ذمہ دار ایجنٹس نے اس وقت تک کروکس کو کوئی بڑا خطرہ تصور نہیں کیا تھا کیونکہ انہوں نے اس کے ہاتھ میں بندوق نہیں دیکھی تھی۔ کانگریس میں سماعت کے دوران سیکرٹ سروس کی ڈائریکٹرکمبرلی چیٹل نے یہ قبول کیا تھا کہ فائرنگ شروع ہونے سے قبل دو مرتبہ سیکرٹ سروس کے ایجنٹس کو کروکس کے بارے میں بتایا گیا تھا لیکن ان کا کہنا ہے کہ ایجنٹ کو اس خطرے کی سنگینی کا اندازہ گولیاں چلنے سے کچھ سیکنڈ پہلے ہی ہوا۔ پولیس کمشنر نے کانگریس کو بتایا کہ مقامی پولیس اور ایمرجنسی سروس یونٹ نے کروکس کو ڈھونڈنا شروع کر دیا تھا۔ بظاہر یہ لگتا تھا کہ وہ کہیں گم ہو گئے ہیں اور خطرہ بڑھتا جا رہا تھا ۔اس دوران انہوں نے عمارت کی چھت پر ایک شخص کو بندوق ہاتھ میں لیے رینگتے ہوئے دیکھا جب یہ سب ہو رہا تھا اس وقت تک ڈونلڈ ٹرمپ اسٹیج پر پہنچ چکے تھے ۔اس وقت مقامی پولیس اور ایمرجنسی سروس یونٹ نے کروکس کو دیکھ لیا تھا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ٹریفک پولیس کے ایک اہلکار نے عمارت کی چھت پر چڑھنے کی کوشش کی لیکن کروکس نے مزاحمت کی اور پولیس اہلکارزمین پر گر گئے۔ پولیس کمشنر کہتے ہیں یہ واقعہ فائرنگ شروع ہونے سے چند سیکنڈ قبل پیش آیا جیسے یہ فائرنگ شروع ہوئی سیکرٹ سروس کے ایجنٹس نے ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے حصار میں لے لیا اور اگلے دو منٹ کے اندر انہیں اسٹیج سے ہٹا دیا گیا۔ اس وقت تک کروکس کو بھی ایک ا سنائپر نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ کروکس کی لاش کے پاس سے گولیوں کے 8خول برآمد ہوئے تھے ۔ان کی فائرنگ کے سبب ایک شخص ہلاک اور دو زخمی ہوئے تھے۔ کروکس کو دیکھے جانے اور فائرنگ شروع ہونے کے درمیان تقریبا 10منٹ کا وقفہ تھا۔ اس دوران ڈونلڈ ٹرمپ اسٹیج پر موجود تھے ۔ابھی تک اس بارے میں کوئی معلومات منظر عام پر نہیں آئی ہیں کہ اس دوران سیکرٹ سروس نے کیا اقدامات کیے ۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اب تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ کس مقصد اور کس نظریے کے زیر اثر کروکس نے ڈونلڈ ٹرمپ پر حملے کا منصوبہ بنایا اور وہ کس طرح 7ہزار سیکرٹ سروس اور دیگر اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہوا۔ ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کہتے ہیں کہ ان کی تحقیقات جن مرکزی سوالات پر مرکوز ہے ان میں یہ سوال بھی شامل ہے کہ کروکس سے جڑے لوگوں کو ان کے گھر کی تلاشی اور ان کے انٹرنیٹ ہسٹری کو دیکھ کر بھی کوئی واضح تصویر نظر نہیں آتی۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ حملہ آور کے فون کا تجزیہ کیا گیا اور اس سے معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے نیوز آرٹیکل سرچ کیے تھے لیکن اس میں بھی کوئی واضح رجحان نظر نہیں آتا۔ ان کے مطابق تفتیش کار ابھی بھی کروکس کے فون میں موجود میسجز پڑھ رہے ہیں۔ کروکس نے 2021میں کیپیٹل ہل پر ہونے والے حملے کے بعد ڈیموکریٹک پارٹی کو 15ڈالر کا عطیہ دیا تھا لیکن کچھ مہینوں بعد انہوں نے اپنی رجسٹریشن بطور ریپبلکن پارٹی کے ووٹر کروائی تھی۔ کروکس کے پاس جو دو بم موجود تھے وہ اس سے کیا کرنا چاہتے تھے ؟یہ بات اب بھی غیر واضح ہے۔ تاہم ایک بات ضرور معلوم ہے کہ ان بموں کے ریسیور بند تھے اور کروکس ان بموں کو کسی ریموٹ کے ذریعے نہیں چلا سکتے تھے ۔ڈونلڈ ٹرمپ پر ہونے والا قاتلانہ حملہ اب تک ایک معمہ ہے۔ امریکہ کے تمام خفیہ ادارے اس کے سرے تک پہنچنے میں ناکام رہے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس قاتلانہ حملے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے اور جو بائیڈن موجودہ حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے صدارتی دوڑ سے فرار حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی انتخابات میں جیت دیوار پہ لکھی نظر آرہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔