... loading ...
ریاض احمدچودھری
ایسے محسوس ہوتا ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ دہشت گرد اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے رہتے ہیں، شروع شروع میں انہوں نے مدارس کے غریب طلباء کو اپنا ہدف بنایا،خاص طور پر اْن مدارس میں طلباء پر توجہ دی گئی جو غریب علاقوں میں واقع ہیں اور بہت سے والدین اپنے بچوں کو اِن مدارس میں اِس لئے داخل کرا دیتے ہیں کہ اْنہیں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ روٹی اور کپڑے کی سہولت بھی مفت حاصل ہو جائے گی، ایسے غریب طلباء کو معمولی رقم کا لالچ دے کر گمراہ کیا جا سکتا ہے، اِس لئے ان پر توجہ مرکوز رکھی گئی جب یہ بات واضح ہو گئی کہ کئی مدارس کے طلباء دہشت گردی میں ملوث ہیں تو سیکیورٹی حکام نے تفتیش کا سلسلہ وسیع کر دیا اور بعض ایسے مدرسے بھی چھاپوں کی زد میں آ گئے جن کا کوئی تعلق دہشت گردی سے ثابت نہ ہوا۔ تاہم اِس سارے عرصے میں دینی مدارس ہی مرکزِ نگاہ ٹھہرے۔دہشت گردوں نے جب یہ محسوس کیا کہ وہ اپنے حلیے کی وجہ سے جلد ہی نگاہوں میں آ جاتے ہیں تو انہوں نے اپنی حکمت ِعملی تبدیل کر لی اور کلین شیو دہشت گرد بھی سامنے آنے لگے۔اب آگے بڑھ کر یونیورسٹیوں اور کالجوں کے جدید تعلیم یافتہ لوگوں کو دہشت گردی کے نیٹ ورک میں شامل کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔
ہمارے نوجوان لڑکے جوقوم کی امید ہوتے ہیں وہ دہشت گردوں کے ہا تھوں شکار ہو رہے ہیں۔دہشت گرد اپنے مکروہ عزائم کیلئے ان کی معصومیت کو استعمال کرتے ہیں۔ انہیں جنت میں جانے اور خدا سے قربت کے جھانسے دیتے ہیں۔ دہشت گردی کی کارروائیوں کے بارے تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ دہشت گرد جماعتیں بے روزگار نوجوانوں کا برین واش کرکے ان کو ملک دشمنی اور دہشتگردی کے لیے استعمال کررہی ہیں۔ بے روزگار ، کم تعلیم یافتہ نوجوانوں کا مظاہروں میں انتخاب کیا جاتا ہے اوران کی مجبوریوں اور دیگر مسائل کا پتہ لگا کر اسی طریقے سے ان کو کو اپنا حصہ بنایا جاتا ہے۔ نوجوانوں کے انتخاب اور انہیں مائل کرنے کیلئے دہشت گردوں کے سہولت کار سوشل میڈیا نیٹ ورک کے ذریعے رابطے کرتے ہیں۔دہشت گردوں نے جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اپنا ہدف بنا لیا ہے اور وہ انٹرنیٹ کے ذریعے اْن تک رسائی کر کے انہیں گمراہ کرتے، اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے اور راستے سے بھٹکاتے ہیں۔ بعض اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ گمراہی کے اس راستے پر چل پڑے ہیں اور نوجوان نسل کو بچانے کے لئے صوبائی حکومتوں کو کالجوں اور یونیورسٹیوں کی انتظامیہ کے ساتھ مل کر مربوط حکمتِ عملی بنانا ہو گی۔
عسکری قیادت کی طرف سے خبردار کیا جا چکا ہے کہ دشمن کی نگاہ اب اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں پر ہے، جنہیں وہ برین واشنگ کے ذریعے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے،اِسی سے اندازہ ہو گیا تھا کہ آرمی چیف نے بہت بروقت ایک مرض کی نشاندہی کر دی ہے جس کے ثبوت بھی مل رہے ہیں اِس لئے پورے مْلک میں ایک کریش پروگرام کے تحت تعلیمی اداروں پر دہشت گردوں کے اِس منظم حملے کو ناکام کرنے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی نقصان کا راستہ ہے، مساجد میں دہشت گردی غیر اسلامی فعل ہے۔ اسلام لوگوں کی زندگیاں بچانے کا درس دیتا ہے، ملک میں کرکٹ سمیت ہر شعبہ زندگی دہشت گردی کا شکار بنا ہے۔ ہم سب کو اپنے آپ کو مسلمان سمجھنا چاہئے علمائے کرام دوریاں اور نفاق پیدا کرنے والی باتوں سے احتراز برتیں۔ دہشت گردی نے ملک کو نقصان پہنچایا، معاشرہ تباہ کیا۔ اسلام لوگوں کی زندگیاں بچانے کا درس دیتا ہے۔ قرآن کریم کی تعلیمات میں بھی امن و محبت کا درس ملتا ہے۔ ہم نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم کیا ہوا ہے۔ حضور اکرمۖ کو دونوں جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے، حضور اکرمۖ رحمت، محبت، ایثار اور احسان کا نمونہ تھے، ہم اگلی نسل کو محفوظ پاکستان دینا چاہتے ہیں، مشکل میں پھنسی انسانیت کی خدمت ہی اسلام کی اصل تعلیم ہے، اسلام کا راستہ کسی کی زندگی لینے کا راستہ نہیں ہے۔ہم دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں تاکہ دہشت گردوں کے بچے بھی دہشت گردی سے محفوظ ہوں۔ مسلمانوں کو چاہئے وہ نبی اکرمۖ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر انسانیت کی خدمت کریں ۔ دہشت گردوں کے بچوں کو بھی دہشت گردی سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔زندگی اللہ کی امانت ہے اور اس میںخیانت کرنا اللہ اور اس کے رسولۖۖۖ کے نزدیک ایک بڑا جرم ہے۔ سورة النساء میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (اور اپنی جانیں قتل نہ کرو، بیشک اللہ تم پر مہربان ہے اور جو ظلم اور زیادتی سے ایسا کرے گا تو عنقریب ہم اسے آگ میں داخل کریں گے اور یہ اللہ کو بہت آسان ہے) ۔جہاں اللہ نے خود کشی کے بارے میں اتنی کڑی سز ا رکھی ہے وہاں آپ خود اندازہ لگائیں کہ ایک خود کش بمبار نہ صرف اپنی جان ضائع کرتا ہے بلکہ بیسیوں بے گناہ افراد کی جان بھی لیتا ہے اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا کیا فرمان ہوگا؟ کیا ان دہشت گردوںکے بقول وہ سینکڑوں افراد کی جان لے کر جنت میں جائیں گے؟
اسلام مذہبی رواداری کی تعلیم دیتا ہے قرآن کریم نے بنیادی طورپر ہر شخص جو چاہے وہ کوئی عقیدہ رکھتا ہو اس سے دین کے معاملہ میں قتال کا حکم نہیں دیا بلکہ اس سے حسن سلوک کر نے کی تعلیم دی ہے اسلام نے اختلاف مذہب یا اختلاف عقیدہ کی بناء پر کسی بھی شخص سے اخلاقی برتاؤ یا معاشرت میں کسی سلوک میں کوئی فرق نہیںکیا۔ قرآن کریم کی سورة النحل میں بلا امتیاز مذہب و ملت عدل اور احسان کا حکم دیا اور بے حیائی نا پسندیدہ باتوں سے اور بغاوت سے منع کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔