وجود

... loading ...

وجود

خودکشی یاخودکش بمبار،فیصلہ کن گھڑی!

بدھ 31 جولائی 2024 خودکشی یاخودکش بمبار،فیصلہ کن گھڑی!

سمیع اللہ ملک
خاموشی کی زبان آپ سمجھتے ہیں؟نہیں،تواس میں میراکیا قصور!خاموشی میں ایک چیخ پوشیدہ ہوتی ہے،ایک احتجاج، ایک طوفان، اور جب خاموشی بول پڑے توگھمسان کارن پڑتا ہے،پھرکوئی نہیں بچتاجی،کوئی بھی نہیں۔وہ جومحلات میں آسودہ ہیں اوروہ جو کھولیوں اور جھونپڑیوںمیں تڑپ رہے ہیں سب ایک جیسے ہوتے ہیں۔بس دیکھتے جا،ایک انتظار کے بعدکیاہوتاہے،حادثہ ایک دم تو نہیں ہوتا ناں! برسوں وقت اس کی پرورش کرتاہے،پالتاپوستاہے،پھرایک دن لاواپھٹ پڑتاہے،پھر وہ دہکتی آگ کچھ نہیں دیکھتی۔ مال و منال، عزت و آبرو، ذلت ورسوائی،زرداراوربے زرکچھ بھی نہیں۔
عجیب سلسلہ چل نکلاہے کہ ہمارے حکمران اوراپوزیشن دن دیہاڑے قوم کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کرکے خودکومسیحا ثابت کرنے کا سہرا اپنے سر سجانے کی کوششوں میں مگن ہیں۔ قوم کوبھیڑبکریاں سمجھ کرخطاب کیاجاتاہے،ان کے مصائب کابڑی دلسوزی سے ذکر کرکے ہیروبننے کی اداکاری کمال کی حدوں کوچھورہی ہے۔کیا آپ جانتے نہیں کہ آپ کے اعمال کے آئینے تو بکھرے پڑے ہیں اور وہ ہمیں شکل دکھانے سے باز نہیں آتے ۔آئینے کی لاکھ کرچیاں کر دیں،وہ کبھی اپنا کام نہیں چھوڑتے۔
انتخابات کو6ماہ گزرگئے،کیاقوم کے ٹیکسوں پرپلنے والے اسمبلی ممبران نے عوام کی فلاح کیلئے کوئی پروگرام دیاہے، بس ایک دھینگامشتی جاری ہے،ایک دوسرے پرالزامات کی بھرمار نے قوم کاسانس لینامشکل کردیاہے۔ہرکوئی قوم کولوٹنے کیلئے کوئی کسرنہیں چھوڑ رہا۔ کیا اپوزیشن نے بجٹ میں خودکووصول کرنے والی مراعات کوٹھکرایاہے بلکہ دودرجن سے زائدقائمہ کمیٹیوں کے سربراہوں نے اسپیکرسے اپنے لئے نئی گاڑیوں کامطالبہ کردیاہے۔دوسری طرف عدلیہ کے ہراس فیصلے کی توتوتائیدکی جاتی ہے،انصاف زندہ بادکے نعرے لگائے جاتے ہیں لیکن جونہی کوئی فیصلہ خلاف آتاہے تووہی عدلیہ مطعون ٹھہرائی جاتی ہے،گویاہرکوئی اپنی فرعونی صفات واختیارات کی حکمرانی چاہتا ہے۔ آپ کویہ خبرتومل چکی ہوگی کہ سلمان شہبازکے آئی پی پی”چنیوٹ پاور”کوتین مہینے کی63کروڑکی کیپیسٹی پیمنٹ کی گئی ہے۔یہ وہ ادائیگی ہے کہ جس کا تعلق اس بات سے ہرگز نہیں کہ چنیوٹ پاورنے کتنی بجلی پیداکی اورکتنی تقسیم کی بلکہ یہ صرف اس کیپیسٹی کی ادائیگی ہے جواس کے پلانٹ میں موجودہے۔یادرہے کہ نوازشریف جون2013میں وزیر اعظم بنے۔اسی سال نومبرمیں چنیوٹ پاورلمیٹڈنے نیپرامیں پاورجنریشن کے لائسنس کیلئے درخواست دی۔نیپراکے افسرنے لائسنس کی درخواست کاجائزہ لینے کے بعداسے منسوخ کر دیاکیونکہ کمپنی نے بجلی کی ڈسٹری بیوشن کیلئے انفراسٹرکچرلگانے سے انکارکردیاتھا۔نیپراکے اس افسرکے انکارکی کیاقیمت چکانی پڑی،وہ ایک الگ داستان ہے!
سیاں جی(نوازشریف)کوتوال ہواورسگا باپ پنجاب کاوزیراعلی،توپھرڈرکیسا،ہنگامی طورپرفیصل آبادالیکٹرک اتھارٹی کی طرف سے ایک لیٹرلیاگیاجس میں انہوں نے اس بات کی ہامی بھری کہ وہ اپنے خرچے پرچنیوٹ پاورسے ڈسٹری بیوشن لائن بچھانے کو تیار ہیں۔ چنانچہ جون2014کوسلمان شہباز کی کمپنی کالائسنس منظورکرلیاگیا۔اس لائسنس کی درخواست میں کہاگیاتھاکہ چنیوٹ پاور 62 میگاواٹ میں سے15میگاواٹ بجلی رمضان شوگرمل کوبیچے گی-رمضان شوگربھی شریف خاندان کی ملکیت ہے۔نیپراکے قواعد کے مطابق آئی پی پی ایک میگاواٹ تک کی بجلی ڈائریکٹ پرائیوٹ کنزیومرکوبیچ سکتاہے، اسے”بلک پاورپرچیز”کہتے ہیں اورسلمان شہباز کو 15 میگاواٹ بجلی بیچنے کی اجازت دے دی گئی گویااس حکم نامے کے بعدآئندہ ان تمام ایماندارآفیسرکوبھی متنبہ کردیاگیاکہ سیٹھ منشا کواستعمال کرتے ہوئے حسبِ منشاکام بہرصورت ہوکررہیں گے اورکوئی ہماری منشا کے خلاف زبان وقلم استعمال کرنے کی جرأت نہ کرے۔
کہتے ہیں کہ لالچ کی کوئی حدنہیں ہوتی۔۔۔تین ماہ بعدچنیوٹ پاورنے لائسنس میں ترمیم کی درخواست کی جس کے مطابق چنیوٹ پاؤرلمیٹڈمزیددوسری پرائیوٹ کمپنیوں کوبھی بجلی بیچناچاہتاتھا۔ان کمپنیوں میں شریف ڈیری فارمز،شریف ملک پراڈکٹس،یونیٹاس ا سٹیل، کرسٹل پلاسٹکس شامل تھیں۔ان سب کمپنیوں کی ضرورت ایک میگاواٹ سے کم تھی اس لئے وہ بلک پرچیزکی کیٹیگری میں نہیں آتے تھے لیکن اوپر تایانوازشریف بیٹھاتھا،نیپرا کے کسی افسرمیں دم نہیں تھاکہ انکارکرسکے،اس لئے یہ درخواست بھی منظورکرلی گئی۔
چنیوٹ پاورپلانٹ گنے کے بھوسے اورچینی کے خام مال کواستعمال کرکے بجلی بناتاہے۔اس پلانٹ کی قانونی اورفنی میعاد 20 سال ہوتی ہے لیکن نیپرانے چنیوٹ پاورکو20کی بجائے30سال کالائسنس عنایت کردیا۔صرف یہی نہیں،نیپراکامانناتھاکہ اس طریقے سے بجلی پیدا کرکے چنیوٹ پاوروالے ماحولیات کی زبردست خدمت کریں گے،چنانچہ انہیں کاربن کریڈٹ کابھی حقدارٹھہرایاگیاجس کی مدمیں سالانہ کروڑوں روپے مزیدحکومت نے سلمان شہباز کودینے شروع کردیئے۔وہ دن ہے اورآج کادن،چنیوٹ پاور لمیٹڈ ، رمضان شوگر کے خام مال سے بجلی تیارکرکے اپنے ہی خاندان کی فیکٹریوں کو سستی بجلی بیچتی ہے اورکیپیسٹی پیمنٹ کے نام پرعوام کے ٹیکسوں سے ہر مہینے 21 کروڑروپے مفت میں وصول کرلیتی ہے۔یہ سب باتیں ہوامیں نہیں کہی گئیں،ان سب کے دستاویزی ثبوت بھی موجود ہیں لیکن اس کے باوجودہمارے حکمرانوں کے دلوں میں شب و روزعوام کے دکھوں کادرداس زورسے اٹھتاہے کہ محسوس ہوتاہے کہ نجانے یہ رات بھی گزار پائیں گے کہ نہیں۔
ادھردوسری طرف ہمارے یہی حکمران ملکی معیشت کی بربادی اورڈوبنے پرشب وروزماتم کررہی ہے کہ قوم کواس دھوکے میں رکھاجائے کہ یہ توملک کی تقدیرسنوارنے کے اعلی اور ارفع کام کیلئے قربانیاں دے رہے ہیں اورعالمی اداروں اورامیردوست ممالک کے سامنے مدد کیلئے ہاتھ پھیلائے کھڑے فریادکررہے ہیں لیکن کیاہم جانتے ہیں کہ انہی حکمرانوں کی عیاشیوں کی بناپردنیاہمارے بارے میں کیاسوچ رہی ہے۔
دنیاپاکستان کوایک خطرناک ملک سمجھتی ہے۔جب تک آپ اس حقیقت کوقبول نہیں کریں گے،آپ الجھتے رہیں گے۔یہ توثابت ہو گیا کہ آپ معاشی طورپراس قدرکمزورہوچکے ہیں کہ بیشترمالی امورکے ماہرین اب ملک کودیوالیہ قراردے چکے ہیں،اس لیے آپ کسی بھی وقت دنیا کیلئے ایک مسئلہ بن سکتے ہیں۔آپ لوگوں کودنیاکے مشاہدے کوسنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے،ورنہ ہم ایسی کھائی میں گرنے جا رہے ہیں کہ قلم وہ منظرنامہ لکھنے سے لرزاں ہے۔اب بھی اگرہم نہ سنبھلے توخاکم بدہن تاریخ بطورعبرت آپ کویادرکھے گی۔معیشت دنیاکی سب سے بڑی سچائی ہے۔اگرآپ معاشی طورپرطاقتورہیں توآپ جوہری بم رکھ سکتے ہیں اورمیزائل بناسکتے ہیں۔ چین اورروس کے پاس بھی یہ ہیں لیکن دنیاانہیں خطرہ نہیں سمجھتی،کیوں؟کیونکہ دنیاکامانناہے کہ یہ دونوں ممالک معاشی طور پرمستحکم ہیں۔وہ کبھی بھی اس دنیاکیلئے خطرہ نہیں بنیں گے اورکسی بھی صورت اپنی اس ایٹمی اسلحے کوکسی اور کے ہاتھ فروخت نہیں کریں گے لیکن پاکستان ایک کمزورملک ہے،وہ اپنے جوہری اثاثوں کی زیادہ دیرتک حفاظت نہیں کرسکتا۔یہ انہیں پیسے کیلئے فروخت کرسکتاہے یانفسیاتی دباؤ میں استعمال کرسکتاہے،جس سے آپ دنیاکیلئے ناقابل برداشت ہوجاتے ہیں۔
میں ایک مثال کے ساتھ اس مسئلے کی وضاحت کردیتاہوں۔فرض کریں کہ آپ ایک غریب آدمی ہیں اورآپ کے پاس ایک بہت ہی مہلک اورقیمتی رائفل ہے۔آپ اس رائفل کے ساتھ کیاکرسکتے ہیں؟آپ اسے پیسے کیلئے فروخت کرسکتے ہیں،یاآپ اسے کسی کے سر پر رکھ کرانہیں لوٹ سکتے ہیں یااس کی جان لے سکتے ہیں۔دنیاسوچتی ہے کہ آپ اتنے بھوکے اورغریب رائفل بردارہیں اورآپ کسی بھی وقت ان میں سے کسی بھی آپشن کواپناسکتے ہیں۔یہ بھی یادرکھیں کہ ہمارے ایٹمی پروگرام کے مخالفین ایک لمحے کیلئے بھی ہمارے اس پروگرام کو قبول کرنے کیلئے تیارنہیں ہیں اوراقوام متحدہ جیساادارہ بھی ان کی لونڈی کے طورپرکام کررہاہے۔
برانہ منائیں اور اس حقیقت کوتسلیم کریں کہ ان حالات میں پہنچانے میں ہمارے حکمرانوں کاسب سے بڑاہاتھ ہے کہ یہ اپنے اقتدار کیلئے ہرناجائزحربے کواپنے لئے جائزقراردینے میں ماہرہیں۔پھردوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ آپ کے خلاف یہ تاثر بھارت نے اپنی پوری حکمت عملی کے ساتھ پھیلایاہے۔انڈیانے1990کی دہائی میں ان گنت طلباکو اسکالرشپ کے ساتھ امریکا،کینیڈا، برطانیہ و یورپ اورمشرق بعیدکے ممالک بھیجا۔انہوں نے اعلی اداروں سے ڈگریاں حاصل کیں اورپھرانہیں عالمی اداروں میں ملازمت دلوائی ۔یہ لوگ امریکی کانگریس مین اورسینیٹرزکے عملے کاحصہ ہیں اورمیڈیاانڈسٹری اورتھنک ٹینکس میں بھی ہیں بلکہ برطانیہ میں پہلی مرتبہ انڈین نژاد وزیراعظم بن کراپنی کابینہ کے اہم اداروں کی سربراہی بھی انڈین نژادکے سپردکرکے کئی برس انڈیاکے اس خواب کوحقیقت بھی بنا کر دکھا دیا۔ وہ وہاں بیٹھ کرہرروزآپ کے خلاف خوف پھیلاتے ہیں اوردنیااس خوف کوسچ مانتی ہے۔
آپ کا ماضی بھی اس حقیقت کی تائید کرتاہے۔دنیاجانتی ہے کہ آپ نے اکیلے ہی سوویت یونین کی طاقت کوتباہ کیا۔آپ نے ہندوستان جیسی مکارطاقت کوابھرنے نہیں دیااورتمام ترمعاشی کمزوریوں کے باوجودآپ وہ حاصل کرلیتے ہیں جوآپ چاہتے ہیں اور دنیا کو حیران وپریشان کردیتے ہیں۔یہاں تک کہ آپ نے جے ایف تھنڈربھی بنایاہے جس نے عالمی طورپرخودکومنوایاہے،آپ میزائل ٹیکنالوجی میں وہاں کھڑے ہیں جس نے ان کی نیندوں کوحرام کردیاہے لہذاعالمی پالیسی سازوں کولگتاہے کہ آپ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ لیکن عالمی طاقتیں آپ کوجنگ کاموقع نہیں دیں گی۔ان کامانناہے کہ آپ روایتی جنگ نہیں لڑسکتے۔آپ فوری طورپرحتمی ہتھیارکے ساتھ ایک جنگ شروع کریں گے،اوریہ پوری دنیا کیلئے خطرناک ہوگا،لہذاوہ آپ کواس سطح تک نہیں پہنچنے دیں گے۔
آپ کویادہوگاکہ انڈیا نے بالاکوٹ میں سرجیکل اسٹرائیک کی۔پاکستان نے شورمچایالیکن دنیاکاکوئی ملک پاکستان کی مدد کیلئے آگے نہیں آیا،کیوں؟کیونکہ دنیااس بات کااندازہ لگاناچاہتی تھی کہ آپ کس سطح پرردعمل دے سکتے ہیں۔اگلے دن آپ نے دوبھارتی طیارے
مار گرائے۔بھارت نے27فروری کی رات کوسرحدپر9میزائل تعینات کیے اورآپ نے14میزائل تعینات کرکے ایک کھلااورخطرناک پیغام دے دیاکہ پاکستان خودپرحملہ کے جواب میں کہاں تک جاسکتاہے جوکہ آپ کاحق بھی تھا۔یادرہے کہ اس سے پہلے بھی جنرل ضیاکی کرکٹ ڈپلومیسی کاواقعہ بھی ذہن میں رکھ لیں کہ کس برح جنرل ضیا نے بھارتی سرزمین پرراجیوکویہ پیغام دیاتھا کہ اگر اس نے اسرائیل کے ساتھ مل کرپاکستان پرحملہ کرنے کی کوشش کی تواس کے جواب میں دنیامیں پھربھی 55مسلم ریاستیں باقی رہیں گی لیکن صدیوں تک دنیابھرمیں ہندوریاست کانام ونشان باقی نہیں رہے گا۔
اب یہی معاملہ ایک مرتبہ پھردرپیش آگیا۔27فروری کی رات سردجنگ کے بعددنیاکی سب سے خطرناک رات تھی۔ایک چھوٹی سی شرارت پوری دنیاکوتباہ کرسکتی تھی۔لہذادنیا فوری طورپرمتحرک ہوگئی اوربڑی مشکل سے حالات کوپرسکون کردیا۔یہ پاکستان کا ایک امتحان تھا، اس ٹیسٹ سے پتہ چلاکہ آپ لوگ ہمیشہ آخری جنگ کیلئے تیاررہتے ہیں ،لہذ ا ان تمام قوتوں نے یہ فیصلہ کرلیاکہ وہ آپ کودوبارہ اس سطح تک نہیں پہنچنے دیں گے۔وہ آپ کواپنے میزائلوں کوباہرلانے کاموقع نہیں دیں گے۔وہ آپ کوسرحدوں پربھی مشتعل نہیں کریں گے۔انہوں نے اس کامتبادل یہ سوچ کرفیصلہ کرلیاہے کہ وہ آپ کومعاشی طورپرتباہ کردیں گی۔
میرے الفاظ نوٹ کرلیں۔ کبھی آپ نے سوچاہے کہ آئی ایم ایف جان بوجھ کرآپ کے پیکیج میں تاخیرکیوں کرتاہے؟تاکہ ڈالر مزید مہنگا ہو جائے جس سے افراط زربڑھتاجائے گا،قرضوں میں جہاں اضافہ ہوگاوہاں پیٹرول،گیس اوربجلی بھی مہنگی ہوجائے گی۔اس سے ترقیاتی بجٹ میں بھی کمی آئے گی۔اس سے بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔اس سے ریاست کے ذریعے کالعدم تنظیموں پراتنادبا ؤپڑے گا کہ وہ حکومت کے خلاف بغاوت کریں گے۔اس سے پاکستان کی برآمدات میں بھی اضافہ نہیں ہونے دیاجائے گا۔ٹیکسوں میں اتنااضافہ ہوگا کہ عوام اس معاشی بوجھ تلے دب جائیں گے اورحکومت اورریاست دونوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔
پاکستان کے خلاف یہ خطرناک منصوبہ شروع ہوچکاہے۔آپ نے جیک رسل نسل کے کتوں کے بارے میں ضرورسناہوگا۔یہ ایک چھوٹے سائز کاخوفناک کتاہے جوریچھ کاپیچھا کرتا ہے۔یہ سائزمیں اتناچھوٹاہے کہ ریچھ اسے پکڑنہیں سکتا۔یہ ریچھ کوپیچھے سے زخمی کرتا رہتاہے اوراسے اتنازخمی کردیتاہے کہ وہ اپنے پیروں پرکھڑانہیں ہوسکتا۔جیک رسل مکمل طورپرمطمئن ہوکراپنے مالک کومطلع کرتا ہے، اور شکاری ریچھ کوگولی ماردیتاہے۔عالمی مالیاتی ادارے بھی جیک رسل کی طرح ہیں۔جیک رسل نے پاکستان پر حملہ کردیاہے۔وہ آپ کوزخمی کر رہے ہیں۔وہ ہرآئے دن آپ کومعاشی طورپراتناکمزوربنارہے ہیں کہ آپ اپنے میزائلوں کوباہرلاناتو دورکی بات،انہیں فائرکرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔آپ کے پاس سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اداکرنے کیلئے بھی پیسے نہیں ہوں گے۔
آپ ٹیکس جمع کرنے کاکام فوج کے حوالے کرنے پرمجبورہوں گے جس طرح آپ نے بجلی چوروں کے خلاف فوج کومیدان میں اتارا تھا۔ اورجس دن ایساہوتاہے،توپھرآپ اپنے دن گننا شروع کردیں،کیونکہ ٹیکس جمع کرنے سے فوج کی ساکھ خراب ہوجائے گی۔اس کیلئے لوگوں کی محبت کم ہونا شروع ہوجائے گی،اورفوج کے خلاف آپ کے ملک کی ایک جماعت پہلے ہی سوشل میڈیاپرمحاذکھول چکی ہے۔ امریکی اداروں کی طرف سے بھی انسانی حقوق کے نام پرآپ کوانتباہ کیاجارہاہے،برطانوی پارلیمنٹ میں بھی ان کے گماشتے سرگرم ہوگئے
ہیں، اورعالمی ادارے یہی چاہتے ہیں۔انہوں نے آپ کومعاشی طورپرزخمی کرکے اورلوگوں کے دلوں سے محبت کوختم کرنے کے عمل پرتیزی سے کام کررہے ہیں۔مجھے خدشہ ہے کہ اگرحالات اسی تیزی کے ساتھ بڑھتے گئے تو خاکم بدہن ایک دن ایسانہ آجائے کہ وہ آپ کو ہندوستان کے قدموں پر بٹھا دیں۔اورآپ بھی بھوٹان اور مالدیپ بنادیں۔آپ امداد لیتے رہیں گے اوران کے احکام کے مطابق ملک چلاتے رہیں گے اور بس۔
تاہم پہلی مرتبہ میں یہ لکھنے پرمجبورہوگیاہوں کہ فوج کوآئی پی پیزنامی تباہی کی ذمہ داری لینے سے بری نہیں کرسکتے۔ بدقسمتی سے فوج ہماری معیشت کی اس سب سے بڑی ڈکیتی پر ان لوگوں کی طرف سے آنکھیں بندکررہی ہے جوایک بار پھراقتدارمیں ہیں بلکہ پی ڈی ایم کا آزمودہ شاہکارہے۔قوم سمجھتی ہے کہ فوج درپردہ خاموش توہے لیکن یہ رویہ سیاست دانوں کوانتہائی مہلک گولہ وبارود فراہم کررہاہے جواپنے مفادات کیلئے قومی خزانے پرایسابوجھ بن گئے ہیں جواس ملک کوڈبونے کے درپے ہیں۔باجوہ کے نظریے نے پاکستان کو اپنے تمام منفی اثرات کے ساتھ نشانہ بنایا،اس نے اپنے مفادات کے حصول کیلئے کشمیرکوفروخت کردیااورملک کے دودرجن صحافیوں کابلاکراپنی بزدلی کی کہانیاں سناکرقوم کومایوس کیا۔کشمیرکوانڈیاکی جھولی میں گراکرفیض حمید کے توسط سے اجیت ڈوول کے ساتھ مودی کے پاکستانی دورے کا اہتمام کرنے میں مصروف تھاتاکہ اپنے آقاؤں کوخوش کرکے جہاں نوبل پرائزکااہل قرارپائے وہاں اسے دوبارہ مدت ملازمت میں توسیع مل جائے جبکہ عمران خان نے تواسے ایسی پیشکش بھی کردی تھی جس کوخودعمران خان نے تسلیم بھی کیا۔ لیکن جب بات نہ بن سکی توعدم اعتماد کاراستہ کھول کرہمیں یہ پی ڈی ایم تحفے میں دیااورجب سے باجوہ نے عمران کے سرپرہاتھ رکھنے کاسفرشوع کیااوربعدازاں پی ڈی ایم کوہمارے سروں پرمسلط کیا ہم تب سے تیزی کے ساتھ اپنی تباہی کی طرف بگٹٹ بھاگ رہے ہیں۔میں ہمت کرکے اگریہ کہوں کہ آخر ہمیں ان بدمعاشوں کاساتھ دینے کی کیاضرورت تھی؟
ہمیں اس سوال کاجواب تلاش کرناہوگا،اپنی غلطیوں کوتسلیم کرناہوگااورپھرحالات کودرست کرنے کے طریقے تلاش کرنا ہوں گے۔آئی پی پیزکے لائسنس منسوخ کرکے ان سے قوم کی لوٹی ہوئی دولت بازیاب کی جائے اوراگراس کیلئے اگرعالمی عدالت میں بھی جاناپڑے تو اپنے مضبوط کیس کیلئے تیارہوناپڑے گا۔اس کے علاوہ ہمت کرکے باجوہ،فیض حمید اورچند دیگر سیاستدانوں اوربیوریوکریٹس کے ساتھ ساتھ ان ججزکوجو ان کے اشارے پرفیصلے سناتے رہے،سب کوکٹہرے میں لاکر صفائی کاکام شروع کرناہوگا،اس کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی چارہ نہیں۔
ہینڈڈ پیچ ورک کاسہارالینے کی بجائے ہمیں یہ کام فوری طورپراخلاص کے ساتھ شروع کرناہوگا۔یادرکھیںاگرہم غلط دشمن کے خلاف یہ غلط جنگ لڑتے رہے توحالات مزیدخراب ہوتے جائیں گے اورعین ممکن ہے کہ مہنگائی کے ہاتھوں مجبورقوم خودکشیاں کرنے کی بجائے خودکش بمبار بن جائیں؟


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر