... loading ...
حمیداللہ بھٹی
بنگلہ دیش کی نئی نسل حقیقت پسندہے ،اُسے آزادی کی کہانیاں سُننے سے زیادہ انصاف ،شخصی آزادی اور جمہوریت سے دلچسپی ہے مگر وزیرِ اعظم شیخ حسینہ اب بھی ماضی کی کہانیوں کے سہارے اقتدارمیں رہنا چاہتی ہیں جو بگاڑ کاموجب ہے ۔جولائی کے تیسرے ہفتے بنگلہ دیشی طلبانے کوٹہ سسٹم کے خلاف پُرامن احتجاج شروع کیا جس کی ابتدا توڈھاکہ اور چٹاگانگ سے ہوئی لیکن جلدہی یہ احتجاج ملک گیر ہوگیا۔ عام شہریوں اور سیاسی کارکنوں کی شمولیت سے احتجاجی لہرمیںشدت آئی۔ پُرامن مظاہروں کو حکومت نے جب سختی سے کچلنے کاحکم دیا تویہ سختی ہلاکتوں کا باعث بنتی گئی۔ مظاہرین کی طرف سے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی وجہ سے کچھ پولیس اہلکار بھی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے مگر ہلاکتوں کی زیادہ ذمہ دارحکومت ہے جس نے وحشیانہ طریقے سے عوامی احتجاج کوکچلنے کی کوشش کی ایک ہفتہ تک ہونے والے پُرتشدد مظاہروں میں 205افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوگئے، نیز دس ہزار سے زائد جیلوں میں بند ہیں جن میں نصف درجن اہم طلبا رہنمابھی شامل ہیں۔
اب حالات قدرے پُر سکون ہیں لیکن کسی بھی وقت یہ سکون غارت ہوسکتاہے کیونکہ گرفتارافراد رہا نہ کرنے کی صورت میں طلبا رہنمائوں کی طرف سے دوبارہ احتجاجی مظاہرے شروع کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں لیکن حکومتی حلقوں میںکسی قسم کی نرمی یارحمدلی کے آثار مفقود ہیں ۔ہزاروں کی تعداد میں تعینات فوجی نہیں ہٹائے گئے۔ شاہراہوں پر فوجی گشت میں کوئی کمی یا وقفہ نہیں آیا جبکہ ملک گیر کرفیوکا نفاذ ایک ہفتہ سے زیادہ عرصے کے بعد بھی تمام تر سختی کے ساتھ برقرار ہے۔ زیرِ علاج زخمیوں کو ہسپتالوں سے زبردستی ڈسچارج کرایا جارہا ہے۔ یہ طریقہ کار بے رحمانہ ہے۔ دراصل آمرانہ ذہنیت والی شیخ حسینہ واجد کے لیے اقتدار و اختیار سب سے اہم ہے لیکن اگر وہ اپنے طرزِ عمل تبدیلی نہیں لاتیں تو بنگلہ دیش جس نئے موڑپر پہنچ گیاہے ،اُس میں اُن کا سیاسی کردارختم ہو سکتاہے ۔
شیخ حسینہ واجد اپنے والد شیخ مجیب الرحمن کو ایک ہیرو یا دیوتا ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور جو ایسا سمجھنے سے انکار کرتاہے اُس پر عرصہ حیات تنگ کردیا جاتاہے ۔انھیں جمہوری اقدار کی بجائے ملک کو اپنی سوچ و فکر کے مطابق اِس اندازمیں چلاناپسند ہے جس میں اپوزیشن کا کوئی کردار نہ ہو۔ وہ اختلافِ رائے رکھنے والے کوملک دشمن اور اغیارکا طرفدار کہتی ہیں جس سے دیگر سیاسی جماعتوں کا کردار کم ہونے کے باوجود حکومت سے نفرت کی لہریں بلندہونے لگی ہیں۔ 1948 میں عوامی لیگ کے قیام سے ہی ایسے خدشات ظاہرکیے جانے لگے کہ یہ جماعت بھارت کے بارے نرم گوشہ رکھتی ہے جنھیں وقت نے درست ثابت کردیا۔ اگر مقبولیت کی بات کریں تو 1970کے عام انتخابات میں عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کی162میں سے 160نشستیں جیت لیں مگر اِس کامیابی پر غیر جانبدار تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جیت میں شیخ مجیب کی شخصیت کا کرشمہ یا سیاسی سوچ وفکر کا کردار کم اور مغربی پاکستان کی حماقتوں کازیادہ حصہ ہے۔ علیحدگی کے بعد ضرورت اِس امر کی تھی کہ افہام وتفہیم کی فضابنائی جاتی لیکن ایسا کرنے کی بجائے بدترین آمریت قائم کردی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بنگلہ دیش بطورآزادملک تومعرض وجود میں آگیالیکن ملک بننے کے صرف تین برس بعد ہی فوج کے ایک گروپ نے اگست 1975ء میں شیخ مجیب کو خاندان سمیت قتل کردیا، اُن کی صاحبزادی شیخ حسینہ بیرونِ ملک ہونے کی وجہ سے محفوظ رہیں اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا۔ وہ1996میں پہلی بار ملک کی وزیرِ اعظم منتخب ہوئیں ۔اِ س دوران مختلف الزامات لگا کر حریفوں سے نہ صرف بدلے لینے شروع کیے بلکہ مخالف سیاستدانوں کوبے اثربنانے کے لیے عدلیہ اور فوج کا بے دریغ استعمال کرنے لگیں۔
2009میں دوسری بارشیخ حسینہ واجدنے وزیرِ اعظم کا منصب سنبھال کر اخلاق ،قانون اور جمہوریت کی جی بھر کر مٹی پلید کی جماعت ِ اسلامی کے اہم رہنمائوں سمیت کئی افراد پر ملک دشمنی کا الزام لگا کر پھانسی کی سزائیں دیں۔ اِس دوران عمررسیدہ اور بیمار افراد کو بھی بڑی بے رحمی سے تختہ دار پر چڑھایاگیا ۔حالانکہ جنرل ضیاالرحمن کابھی بنگلہ دیش کے قیام میں اہم کردار ہے جن کی بیوہ خالدہ ضیا ء جوملک کی وزیر اعظم رہ چکی ہیں۔ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی یہ سربراہ اِس وقت عمررسیدہ اور بیمار ہیں ۔وہ بھی حسینہ واجد کا تختہ مشق بننے سے بچ نہیں سکیں۔ بے بنیاد الزامات پر انھیں قیدمیں رکھ کر اِس حدتک پریشان کردیاگیا کہ وہ تنگ آکر انتخابات کا بائیکاٹ کر نے پرہی مجبور ہو گئیں۔ اِیسے حربوں سے شیخ حسینہ نے تیسری بار دوتہائی اکثریت حاصل کرلی ۔رواں برس 2024کے عام انتخابات بھی جیتنے کی بجائے عوامی لیگ نے لوٹ کر حسینہ واجدکو چوتھی بار وزیرِ اعظم بنایاہے ۔ دنیا انھیں کس طرح بے رحم ،ظالم اور غیر جمہوری قرار دیتی ہے اِس پروہ قطعی پشیمان نہیںہوتیں اسی بناپر نفرت کرنے والوں کی تعداد حمایت کرنے والوں سے زیادہ ہوگئی ہے۔ رواں برس فروری کے عام انتخابات سے قبل بی این پی کی طرف سے غیر جانبدار نگران حکومت بنا نے کے مطالبے پر اِس قدر سختیاں کی گئیں کہ وہ انتخابی عمل سے ہی الگ ہوگئی لیکن حسینہ واجد پھربھی مطمئن نہ ہوئیں ۔جماعت اِسلامی پر پابندی لگا کر اُسے بھی انتخابی عمل سے باہر کر دیا۔ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ وزیر اعظم حسینہ کی نظرمیں اقتدار سے زیادہ اصول یا اخلاق اہم نہیں ۔جمہوریت یا ملک کمزور ہو یا عوام پر عرصہ حیات تنگ ،اُنھیں کوئی پرواہ نہیں۔اسی بناپر معاشی ترقی کے باوجود ملک میں بے چینی ہے۔ مہنگائی میں اضافہ اور تعلیم یافتہ بے روزگار ا فراد کی تعداد بڑھتی جارہی ہے مگر عوامی لیگ ماضی کے حوالے سے ووٹ لینے پربضد ہے جو نئی نسل کو ناگوار ہے کیونکہ اُسے کہانیوں سے زیادہ اپنا بہترمعاشی مستقبل عزیز ہے ۔اسی لیے اپوزیشن جماعتوں کی خاموشی کے باوجود ملک میں انتشار وافراتفری ہے۔
بڑھتی کرپشن اور اقرباپروری سے آج بنگلہ دیش کاہر نوجوان پریشان ہے وہ بہتر مستقبل کے لیے اب جانی و مالی قربانی دینے پر بھی آمادہ ہے مگر شیخ حسینہ کوصرف اقتدارمیں رہنے سے غرض ہے۔ 1972میں اعلیٰ سرکاری ملازمتوں کی تقسیم کا ایک طریقہ کاربنایا گیا جسے کوٹہ سسٹم کہا جاتا ہے۔ اِس کے تحت ملازمتوں کا تیس فیصد 1971کی تحریکِ آزادی میں جانیں قربان کرنے والوں اور اُن کی اولاد کے لیے مختص کرنے کے ساتھ عورتوں ،معذوروں اوراقلیتوں کے لیے بھی حصہ رکھاجاتا ہے، اس کوٹہ سسٹم کی وجہ سے ذہین ترین طلبا سخت محنت کے باوجود بھی ملازمتیں حاصل کرنے میں اکثر ناکام رہتے ہیں ۔کوٹہ سسٹم ہی رواں ماہ ملک میں بغاوت کی راہ ہموار کرنے کا موجب بنا۔ نئی نسل جنگ آزادی کی کہانیاں سننے سے اِس حدتک بے زارہوچکی ہے کہ ڈھاکہ میں سرکاری ٹی وی کی عمارت کونذرِ آتش کرنے کے ساتھ عمارت کی اِس انداز میں توڑ پھوڑ کی گئی کہ آزادی کے ہیروشیخ مجیب کی تصاویر کو بھی مسخ کرنے کے بعد کوڑے میں پھینک دیاگیا۔ممکن ہے یہ سب کچھ وزیرِ اعظم حسینہ کے لیے صدمے کا باعث ہو مگر ناانصافی پر ایساردِ عمل کسی غیر جانبدارکے لیے حیران کُن نہیں۔ اب جبکہ جنگ آزادی میں مرنے والوں کا کوٹہ سپریم کورٹ نے کم کرتے ہوئے پانچ فیصد جبکہ خواتین اور معذوروں کا ایک ایک فیصد کردیا ہے۔ احتجاج اور مظاہروں میں کچھ ٹھہرائو آچکا ہے لیکن ایسا کب تک رہے گا یقین سے کچھ کہنامشکل ہے کیونکہ حکومتی حماقتوں سے ہونے والے جانی ومالی نقصان کے اثرات جلدی ختم ہونے والے نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔