وجود

... loading ...

وجود
هفته 21 ستمبر 2024

بنگلہ دیش ایک نئے موڑ پر

بدھ 31 جولائی 2024 بنگلہ دیش ایک نئے موڑ پر

حمیداللہ بھٹی

بنگلہ دیش کی نئی نسل حقیقت پسندہے ،اُسے آزادی کی کہانیاں سُننے سے زیادہ انصاف ،شخصی آزادی اور جمہوریت سے دلچسپی ہے مگر وزیرِ اعظم شیخ حسینہ اب بھی ماضی کی کہانیوں کے سہارے اقتدارمیں رہنا چاہتی ہیں جو بگاڑ کاموجب ہے ۔جولائی کے تیسرے ہفتے بنگلہ دیشی طلبانے کوٹہ سسٹم کے خلاف پُرامن احتجاج شروع کیا جس کی ابتدا توڈھاکہ اور چٹاگانگ سے ہوئی لیکن جلدہی یہ احتجاج ملک گیر ہوگیا۔ عام شہریوں اور سیاسی کارکنوں کی شمولیت سے احتجاجی لہرمیںشدت آئی۔ پُرامن مظاہروں کو حکومت نے جب سختی سے کچلنے کاحکم دیا تویہ سختی ہلاکتوں کا باعث بنتی گئی۔ مظاہرین کی طرف سے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی وجہ سے کچھ پولیس اہلکار بھی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے مگر ہلاکتوں کی زیادہ ذمہ دارحکومت ہے جس نے وحشیانہ طریقے سے عوامی احتجاج کوکچلنے کی کوشش کی ایک ہفتہ تک ہونے والے پُرتشدد مظاہروں میں 205افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوگئے، نیز دس ہزار سے زائد جیلوں میں بند ہیں جن میں نصف درجن اہم طلبا رہنمابھی شامل ہیں۔
اب حالات قدرے پُر سکون ہیں لیکن کسی بھی وقت یہ سکون غارت ہوسکتاہے کیونکہ گرفتارافراد رہا نہ کرنے کی صورت میں طلبا رہنمائوں کی طرف سے دوبارہ احتجاجی مظاہرے شروع کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں لیکن حکومتی حلقوں میںکسی قسم کی نرمی یارحمدلی کے آثار مفقود ہیں ۔ہزاروں کی تعداد میں تعینات فوجی نہیں ہٹائے گئے۔ شاہراہوں پر فوجی گشت میں کوئی کمی یا وقفہ نہیں آیا جبکہ ملک گیر کرفیوکا نفاذ ایک ہفتہ سے زیادہ عرصے کے بعد بھی تمام تر سختی کے ساتھ برقرار ہے۔ زیرِ علاج زخمیوں کو ہسپتالوں سے زبردستی ڈسچارج کرایا جارہا ہے۔ یہ طریقہ کار بے رحمانہ ہے۔ دراصل آمرانہ ذہنیت والی شیخ حسینہ واجد کے لیے اقتدار و اختیار سب سے اہم ہے لیکن اگر وہ اپنے طرزِ عمل تبدیلی نہیں لاتیں تو بنگلہ دیش جس نئے موڑپر پہنچ گیاہے ،اُس میں اُن کا سیاسی کردارختم ہو سکتاہے ۔
شیخ حسینہ واجد اپنے والد شیخ مجیب الرحمن کو ایک ہیرو یا دیوتا ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور جو ایسا سمجھنے سے انکار کرتاہے اُس پر عرصہ حیات تنگ کردیا جاتاہے ۔انھیں جمہوری اقدار کی بجائے ملک کو اپنی سوچ و فکر کے مطابق اِس اندازمیں چلاناپسند ہے جس میں اپوزیشن کا کوئی کردار نہ ہو۔ وہ اختلافِ رائے رکھنے والے کوملک دشمن اور اغیارکا طرفدار کہتی ہیں جس سے دیگر سیاسی جماعتوں کا کردار کم ہونے کے باوجود حکومت سے نفرت کی لہریں بلندہونے لگی ہیں۔ 1948 میں عوامی لیگ کے قیام سے ہی ایسے خدشات ظاہرکیے جانے لگے کہ یہ جماعت بھارت کے بارے نرم گوشہ رکھتی ہے جنھیں وقت نے درست ثابت کردیا۔ اگر مقبولیت کی بات کریں تو 1970کے عام انتخابات میں عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کی162میں سے 160نشستیں جیت لیں مگر اِس کامیابی پر غیر جانبدار تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جیت میں شیخ مجیب کی شخصیت کا کرشمہ یا سیاسی سوچ وفکر کا کردار کم اور مغربی پاکستان کی حماقتوں کازیادہ حصہ ہے۔ علیحدگی کے بعد ضرورت اِس امر کی تھی کہ افہام وتفہیم کی فضابنائی جاتی لیکن ایسا کرنے کی بجائے بدترین آمریت قائم کردی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بنگلہ دیش بطورآزادملک تومعرض وجود میں آگیالیکن ملک بننے کے صرف تین برس بعد ہی فوج کے ایک گروپ نے اگست 1975ء میں شیخ مجیب کو خاندان سمیت قتل کردیا، اُن کی صاحبزادی شیخ حسینہ بیرونِ ملک ہونے کی وجہ سے محفوظ رہیں اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا۔ وہ1996میں پہلی بار ملک کی وزیرِ اعظم منتخب ہوئیں ۔اِ س دوران مختلف الزامات لگا کر حریفوں سے نہ صرف بدلے لینے شروع کیے بلکہ مخالف سیاستدانوں کوبے اثربنانے کے لیے عدلیہ اور فوج کا بے دریغ استعمال کرنے لگیں۔
2009میں دوسری بارشیخ حسینہ واجدنے وزیرِ اعظم کا منصب سنبھال کر اخلاق ،قانون اور جمہوریت کی جی بھر کر مٹی پلید کی جماعت ِ اسلامی کے اہم رہنمائوں سمیت کئی افراد پر ملک دشمنی کا الزام لگا کر پھانسی کی سزائیں دیں۔ اِس دوران عمررسیدہ اور بیمار افراد کو بھی بڑی بے رحمی سے تختہ دار پر چڑھایاگیا ۔حالانکہ جنرل ضیاالرحمن کابھی بنگلہ دیش کے قیام میں اہم کردار ہے جن کی بیوہ خالدہ ضیا ء جوملک کی وزیر اعظم رہ چکی ہیں۔ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی یہ سربراہ اِس وقت عمررسیدہ اور بیمار ہیں ۔وہ بھی حسینہ واجد کا تختہ مشق بننے سے بچ نہیں سکیں۔ بے بنیاد الزامات پر انھیں قیدمیں رکھ کر اِس حدتک پریشان کردیاگیا کہ وہ تنگ آکر انتخابات کا بائیکاٹ کر نے پرہی مجبور ہو گئیں۔ اِیسے حربوں سے شیخ حسینہ نے تیسری بار دوتہائی اکثریت حاصل کرلی ۔رواں برس 2024کے عام انتخابات بھی جیتنے کی بجائے عوامی لیگ نے لوٹ کر حسینہ واجدکو چوتھی بار وزیرِ اعظم بنایاہے ۔ دنیا انھیں کس طرح بے رحم ،ظالم اور غیر جمہوری قرار دیتی ہے اِس پروہ قطعی پشیمان نہیںہوتیں اسی بناپر نفرت کرنے والوں کی تعداد حمایت کرنے والوں سے زیادہ ہوگئی ہے۔ رواں برس فروری کے عام انتخابات سے قبل بی این پی کی طرف سے غیر جانبدار نگران حکومت بنا نے کے مطالبے پر اِس قدر سختیاں کی گئیں کہ وہ انتخابی عمل سے ہی الگ ہوگئی لیکن حسینہ واجد پھربھی مطمئن نہ ہوئیں ۔جماعت اِسلامی پر پابندی لگا کر اُسے بھی انتخابی عمل سے باہر کر دیا۔ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ وزیر اعظم حسینہ کی نظرمیں اقتدار سے زیادہ اصول یا اخلاق اہم نہیں ۔جمہوریت یا ملک کمزور ہو یا عوام پر عرصہ حیات تنگ ،اُنھیں کوئی پرواہ نہیں۔اسی بناپر معاشی ترقی کے باوجود ملک میں بے چینی ہے۔ مہنگائی میں اضافہ اور تعلیم یافتہ بے روزگار ا فراد کی تعداد بڑھتی جارہی ہے مگر عوامی لیگ ماضی کے حوالے سے ووٹ لینے پربضد ہے جو نئی نسل کو ناگوار ہے کیونکہ اُسے کہانیوں سے زیادہ اپنا بہترمعاشی مستقبل عزیز ہے ۔اسی لیے اپوزیشن جماعتوں کی خاموشی کے باوجود ملک میں انتشار وافراتفری ہے۔
بڑھتی کرپشن اور اقرباپروری سے آج بنگلہ دیش کاہر نوجوان پریشان ہے وہ بہتر مستقبل کے لیے اب جانی و مالی قربانی دینے پر بھی آمادہ ہے مگر شیخ حسینہ کوصرف اقتدارمیں رہنے سے غرض ہے۔ 1972میں اعلیٰ سرکاری ملازمتوں کی تقسیم کا ایک طریقہ کاربنایا گیا جسے کوٹہ سسٹم کہا جاتا ہے۔ اِس کے تحت ملازمتوں کا تیس فیصد 1971کی تحریکِ آزادی میں جانیں قربان کرنے والوں اور اُن کی اولاد کے لیے مختص کرنے کے ساتھ عورتوں ،معذوروں اوراقلیتوں کے لیے بھی حصہ رکھاجاتا ہے، اس کوٹہ سسٹم کی وجہ سے ذہین ترین طلبا سخت محنت کے باوجود بھی ملازمتیں حاصل کرنے میں اکثر ناکام رہتے ہیں ۔کوٹہ سسٹم ہی رواں ماہ ملک میں بغاوت کی راہ ہموار کرنے کا موجب بنا۔ نئی نسل جنگ آزادی کی کہانیاں سننے سے اِس حدتک بے زارہوچکی ہے کہ ڈھاکہ میں سرکاری ٹی وی کی عمارت کونذرِ آتش کرنے کے ساتھ عمارت کی اِس انداز میں توڑ پھوڑ کی گئی کہ آزادی کے ہیروشیخ مجیب کی تصاویر کو بھی مسخ کرنے کے بعد کوڑے میں پھینک دیاگیا۔ممکن ہے یہ سب کچھ وزیرِ اعظم حسینہ کے لیے صدمے کا باعث ہو مگر ناانصافی پر ایساردِ عمل کسی غیر جانبدارکے لیے حیران کُن نہیں۔ اب جبکہ جنگ آزادی میں مرنے والوں کا کوٹہ سپریم کورٹ نے کم کرتے ہوئے پانچ فیصد جبکہ خواتین اور معذوروں کا ایک ایک فیصد کردیا ہے۔ احتجاج اور مظاہروں میں کچھ ٹھہرائو آچکا ہے لیکن ایسا کب تک رہے گا یقین سے کچھ کہنامشکل ہے کیونکہ حکومتی حماقتوں سے ہونے والے جانی ومالی نقصان کے اثرات جلدی ختم ہونے والے نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
بھارتی حکومت سکھوں کے قتل میں ملوث وجود هفته 21 ستمبر 2024
بھارتی حکومت سکھوں کے قتل میں ملوث

بابری مسجد سے سنجولی مسجد تک وجود هفته 21 ستمبر 2024
بابری مسجد سے سنجولی مسجد تک

بھارت میں مساجد غیر محفوظ وجود جمعه 20 ستمبر 2024
بھارت میں مساجد غیر محفوظ

نبی کریم کی تعلیمات اور خوبصورت معاشرہ وجود جمعه 20 ستمبر 2024
نبی کریم کی تعلیمات اور خوبصورت معاشرہ

کشمیر انتخابات:جہاں بندوں کو تولا جائے گا ! وجود جمعه 20 ستمبر 2024
کشمیر انتخابات:جہاں بندوں کو تولا جائے گا !

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر