... loading ...
رفیق پٹیل
پاکستان اس وقت تاریخ کے بدترین سیاسی، معاشی اور انتظامی بحران سے گزر رہا ہے۔ برسراقتدار سیاسی جماعتیں اقتدار ہاتھ سے نکلتا ہوا دیکھ کر بے بسی اور خوف کی تصویر بنی ہوئی ہیں ۔ان جماعتوں کو یہ احساس پہلے سے تھا کہ وہ عوام میں اپنی ساکھ اور حمایت کو مسلسل کھو رہے ہیں۔ پاکستان کے بعض صحافی یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ برسر اقتدار جماعتوں کے بعض اہم افراد اپنی نجی محفلوں میںاس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ان کا تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتما د لانے کا فیصلہ صحیح نہیں تھا اور اپریل 2022 میں تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد تحریک انصاف نے نہ صرف اپنی گرتی ہوئی ساکھ بحال کی بلکہ وہ ملک بھر کے عوام میں مزید مقبول ہوتی چلی گئی اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ دوسری جانب تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد خراب حکمرانی کے نتیجے میں مسلم لیگ ن ،پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پر مزید منفی اثرات ہوئے اور وہ مسلسل اپنی عوامی حمایت سے محروم ہوتی چلی گئیں ۔اس کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ عوام کو مہنگائی ،بجلی کے بھاری بلوں اور صحت کی سہولتوں میں کمی کا سامنا رہا۔ صنعتی اور تجارتی سرگرمیا ں ماند پڑ گئیں۔ بین الاقوامی سطح پر بھی حکومت کو کسی قسم کی پزیرائی نہیں ملی خصوصاًاس سال فروری کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کو دنیا کے تمام اہم میڈیا نے بے نقاب کردیااور موجودہ حکومت کے اہم افراد کو دنیا کے طاقتور ممالک میں اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جارہاہے۔
اقوام متحدہ،امریکا ،یورپی یونین اور برطانیہ کی جانب سے بانی تحریک انصاف کی رہائی اور فروری کے انتخابات کی تحقیقات کے مطالبات کردیے گئے جس دن سے سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کو سیاسی جماعت تسلیم کرتے ہوئے اسے مخصوص نشستیں دینے کا فیصلہ کیا ہے، اس کے بعد سے ملک کا سیاسی منظر تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے اور میڈیا میں موجودہ حکومت کے خاتمے کے آثار کے اشارے اعلانیہ دیے جارہے ہیں ۔ملک کی بر سر اقتدا ر جما عتوں کی ناکامی کی وجوہات کے کئی عوامل میں تین اہم عوامل شامل ہیں۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ۔خصوصاً طاقتور سوشل میڈیاکے استعمال میں بہت پیچھے ہے جبکہ ایم کیو ایم اور پی پی کے اتحاد کو سندھ کے شہری علاقوں کے عوام نے یکسر مسترد کردیا ہے اور ایم کیو ایم عوامی سطح پر انتہائی کمزور ہوچکی ہے۔ تینوں جماعتیں اپنے نظریاتی پروگرام کو پس پشت ڈال کر گروہی اور ذاتی مفادات کو اولیّت دے چکی ہیں اب وہ عوامی فلاحی منصوبوںسے بہت دور ہیںاور تحریک انصاف کی بڑھتی ہوئی عوامی طاقت سے خوفزدہ ہوکر ایک دوسرے کا سہارا تلاش کر رہی ہیں یا غیر سیاسی قوتّوں کے زیر دست رہنے میں ہی اپنی بقا سمجھ رہی ہیں جس کی وجہ سے اپنے کارکنوں کو بھی خود سے دور کررہی ہیں ۔ان کے کارکن قطع تعلق کر رہے ہیں یا دوسری جماعتوں میں شامل ہورہے ہیں ،جب سے سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کا فیصلہ سنایا ہے مسلم لیگ ن نے تحریک انصاف پر الزام لگانا شروع کردیا ہے کہ وہ پس پردہ طاقتور حلقوں سے اپنے معاملات طے کرکے اقتدار میں آنے کی راہ ہموار کر رہی ہے۔ مسلم لیگ ن کے لیے یہ بیان اس بات کا اعتراف ہے کہ وہ طاقتور حلقوں کا اعتماد بھی کھو چکے ہیں ۔اگر کسی معاملے پر پارلیمنٹ میں پی پی اور ایم کیوایم حکومت سے دور ہوئے تو وزیر عظم شہباز شریف کے پاس مستعفی ہونے کے علاوہ کوئی راستہ باقی نہیں بچے گا۔ ایم کیو ایم اور پی پی نے پراسرار خاموشی اختیار کرلی ہے جیسے وہ مسلم لیگ سے دور رہنے کی کوشش کر ہے ہوں۔
سفارتی محاذ پر بھی حکومت مکمل ناکام رہی امریکا ، چین، روس، یورپی یونین اور خلیجی ممالک سے نہ کوئی بڑی حمایت ملی نہ ہی سرمایہ کاری کے لیے کسی قسم کا تعاون مل سکا اور آئی ایف کا معاہدہ بھی ایسی سخت شرائط کے ساتھ سامنے آیاجس کا بوجھ براہ راست عوام پر آیا۔مہنگائی اور بجلی کے بھاری بلوں نے عوام کی زندگی کو جہنم بنادیا۔تحریک انصاف کی مقبولیت کی ایک وجہ عمران خان کی قید اور تحریک انصاف کے خلاف پولیس فورس کا غیر منصفانہ استعمال بھی ہے۔ عوام کی نظر میں پی ٹی آئی ظلم کا شکار اور ظلم کا مقابلہ کرنے والی قوت بن کر سامنے آتی رہی اور اب تک مسلسل عوام کی ہمدردیا ں حاصل کرتی جارہی ہے ۔اس کا کھلا ثبوت فروری کے عام انتخابات تھے جس میںبڑے پیمانے پر گرفتاریاں ، چھاپے،تحریک انصاف پر غیر اعلانیہ پابندی، امیدواروں کو آزاد حیثیت سے حصّہ لینے پر مجبور کرنے کے اقدامات،ان کے امیدواروں کو جوتا ،بیگن،چارپائی سمیت عجیب و غریب انتخابی نشانات جاری کرناعمران خان کو تین مقدمات میں انتخابات سے چند روز قبل دو مقدمات میں مجموعی طورپر چوبیس سال قید کی سزا سناناشامل تھا، اس موقع پر سوشل میڈیا پر بعض پابندیوں کے باوجود پی ٹی آئی نے اپنے امیدوار آزاد حیثیت سے میدان میں اتار دیے اور جب نتائج آنا شروع ہوئے تو پی ٹی آئی کے امیدوار بھاری اکثریت سے جیت رہے تھے اچانک رات گیارہ بجے کے بعد نتائج کا سلسلہ رک گیااور جو نتائج بارہ بجے تک آنے تھے وہ تیسرے دن جاکر مکمل ہوئے انٹرنیٹ کی سروس معطّل کردی گئی۔ ریٹرننگ افسران نے حکمران جماعتوں کے جن امیدواروں کو فارم 47جاری کرکے کامیاب قرار دیا تھا۔اس کی گنتی فارم 45 کی مجموعی گنتی سے مختلف تھی جسے مختلف پولنگ اسٹیشنوں پر پریزائیڈنگ افسران نے جاری کیا تھا اور دستخط شدہ نقول تمام مختلف جماعتوں کے پولنگ ایجنٹوں کو دی تھی ۔پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے 180 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے خود مسلم لیگ ن اورایم کیو ایم کے اراکین کی بھاری اکثریت اور کراچی سے جیتنے والے پی پی کے امیدوار اپنے فارم 45 منظر عام پر نہ لا سکے۔ البتّہ وہ حکومتی اراکین جو حقیقت میں جیتے ہیں وہ اپنے فارم 45منظر عام پر لانے کو ہمیشہ تیار رہتے ہیں اور پی ٹی آئی بھی انہیں جعلی فارم 47 پر کامیاب ہونے کا طعنہ نہیں دیتی لیکن ایسے اراکین کی تعداد بہت کم ہے۔ بغیر اشتہاری مہم،جلسے جلوس کارنر میٹنگ، پوسٹرز ،بینرزاور مختلف پابندیوں پر مشتمل سوشل میڈیا کے سہارے چلائی گئی انتخابی مہم کے یہ نتائج انتہائی حیران کن تھے اور اس سے واضح ہو رہا تھا کہ حکومت کی کارروائیوں کے منفی اثرات ہوئے ۔الیکشن کمیشن کے جاری کرد ہ انتخابی نتائج پر عالمی ذرائع ابلاغ میں زبردست تنقید ہوئی ۔دنیا بھر کے ممالک پر اس تنقید کے گہرے اثرات ہوئے۔ پاکستان کے مخصوص جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے بڑی عالمی طاقتوں کی اس میں دلچسپی فطری امر ہے ایک بڑی سرحد افغانستان،بھارت،ایران اور چین کے ساتھ پاکستان کو ملاتی ہے۔ اس لیے عالمی سطح پر پاکستان کا عدم استحکام سر حد سے ملحقہ ممالک اور اس خطے میں کسی جنگ کا خطرہ پیدا کرسکتا ہے۔ اس بات کے اشارے سامنے آرہے ہیں کہ دنیا کے اہم ممالک پاکستان میں استحکام پر زور دے رہے ہیں۔پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں تبدیلی کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے پاکستان کو جمہوریت ،آئین اور قانون کی حکمرانی کے ذریعے ہی مستحکم ہو سکتاہے ۔