... loading ...
معصوم مرادآبادی
اترپردیش کے مظفرنگر اور سہارنپور پولیس سربراہوں نے ‘کانوڑ یاترا’کے راستے میں دکانداروں کو اپنا نام لکھنے کا جو فرمان جاری کیا تھا، اس پر وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنی مہر لگاتے ہوئے اسے پوری ریاست میں نافذ کر دیا ہے ۔پہلے یہ سمجھا گیا تھا کہ یہ حکم پولیس افسران نے اپنی جانب سے جاری کیا ہے ، لیکن اب اس پر وزیراعلیٰ کی مہرلگ جانے کے بعد واضح ہوگیا ہے کہ یہ کارروائی ان ہی کے ایماء پر کی گئی تھی۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس فرمان پر اپوزیشن پارٹیاں ہی نہیں خود مودی سرکار کے اتحادی بھی سراپا احتجاج ہیں اور اسے سماج میں انتشارپھیلانے والاقدم قرار دے رہے ہیں، لیکن بی جے پی سرکار کو ان کی بھی پروا نہیں ہے ۔اپوزیشن پارٹیوں نے اس قدم کو مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو شدید نقصان پہنچے گا، جبکہ اتحادیوں کا کہنا ہے کہ یہ انتشار پھیلانے والا قدم ہے ۔سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ مسلم ناموں والی دکانوں پر کچھ سماج دشمن اور فرقہ پرست عناصرکانوڑیوں کے بھیس میں حملہ کرکے لوٹ مار بھی کرسکتے ہیں۔سبھی جانتے ہیں کہ اس وقت اترپردیش میں بی جے پی کی حالت بہت خراب ہے ۔ عنقریب ریاست کی دس اسمبلی نشستوں پر ضمنی چناؤ ہونے والے ہیں۔ حالیہ پارلیمانی چناؤ میں بی جے پی کی جو درگت بنی ہے ، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ بی جے پی اس ایودھیا میں بھی چناؤ ہارگئی ہے جہاں اس نے پوری طاقت جھونک دی تھی۔کانوڑ یاترا کے دوران دکانوں پر نام لکھنے کا شوشہ ایک ایسے وقت میں چھوڑا گیا ہے جب پارٹی کی صوبائی یونٹ میں گھمسان جاری ہے اور بی جے پی لیڈران پارلیمانی چناؤ میں شرمناک شکست کا ٹھیکرا ایک دوسرے کے سرپھوڑ رہے ہیں۔ صوبائی صدر کی تبدیلی کی باتیں بھی ہورہی ہیں۔ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اس وقت سخت ذہنی کشمکش میں مبتلا ہیں کیونکہ مرکز ی قیادت ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے ، لہٰذا انھوں نے بی جے پی کے داخلی بحران سے توجہ ہٹانے کے لیے کانوڑ یاترا کا سہارا لیا ہے ۔ نہ صرف یہ کہ کانوڑ یاترا کے راستے میں پڑنے والے دکانداروں کو اپنا اپنا نام جلی حروف میں لکھنے کا حکم دیا گیا ہے بلکہ ان لوگوں کے خلاف بھی کارروائی کی جارہی ہے جو حلال کے سارٹیفیکٹ والی اشیاء فروخت کرتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ یہ پوری کارروائی مسلمانوں کے خلاف ہے جنھیں وہ عام انتخابات میں اپنی شکست کا ذمہ دار قراردے رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف جہاں مغربی بنگال بی جے پی لیڈر شوندھو ادھیکاری نے پارٹی سے کہا ہے کہوہ سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ ترک کرکے جو ہمارے ساتھ، ہم ان کے ساتھ کا نعرہ ایجاد کرے تو دوسری طرف آسام کے وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا شرما نے اپنی ریاست میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کا رونا رویاہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ2041 تک آسام مسلمانوں کی اکثریت والی ریاست بن جائے گی۔بی جے پی لیڈروں کی بوکھلاہٹ کا اصل سبب یہ ہے کہ انھیں انتخابی میدان میں زبردست جھٹکے لگ رہے ہیں۔ عام انتخابات میں شکست کا غم ہی کیا کم تھا کہ ضمنی انتخابات میں اسے دوسرا جھٹکا لگا۔ 13نشستوں پر ہوئے ضمنی چناؤ میں اس کے ہاتھ صرف دوسیٹیں آئیں اور وہ ہاتھ ملتی رہ گئی۔ اپنی مسلسل گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالنے کے لیے بی جے پی ایک بار پھر اسی فرقہ وارانہ ایجنڈے کی دھار تیز کررہیہے جسے حالیہ چناؤ میں عوام نے پوری طرح مسترد کردیا ہے ۔ بی جے پی نظریاتی طورپر اتنی دیوالیہ ہوچکی ہے کہ اس کے پاس نفرت اور فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلانے کے علاوہ کوئی ایجنڈا ہی نہیں ہے ۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتہ مظفرنگر اورسہارنپور پولیس نے یہ فرمان جاری کیا تھا کہ جن جن راستوں سے کانوڑیاترا گزرے گی، وہاں کے دکاندار دکانوں پر اپنا نام لکھیں تاکہ یاتریوں کو کوئی غلط فہمی نہ ہو۔اس فرمان کا واضح مقصد مسلم دکانداروں کی نشاندہی کرنا ہے تاکہ یاتری ان کی دکانوں سے سامان خرید کر اپنا عقیدہ خراب نہ کریں۔کہا جارہا ہے کہ پولیس نے یہ کارروائی مظفرنگر کے ایک نام نہاد آشرم کے کرتا دھرتا سوامی یشویر مہاراج کے مطالبے پر کی ہے اور اس کا مقصد کانوڑیاتراکے راستوں پر کاروبار کرنے والے مسلم دکانداروں کا معاشی بائیکاٹ کرنا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے نتائج بھی آنے شروع ہوگئے ہیں۔مظفرنگر کے کھتولی بائی پاس پر موجود چائے کی ایک دکان کا نام ‘لور پوائنٹ’ ہوا کرتا تھا، جس کے مالک کا نام فہیم ہے ۔ اب چائے کی دکان کا نام بدل کر وکیل احمد ٹی اسٹال کردیا گیا ہے ۔ کھتولی بائی پاس پر ہی’ساکشی ڈھابے ‘ میں کام کررہے چار مسلم ملازمین کو ہٹادیا گیا ہے ۔ ڈھابہ مالک کا کہنا ہے کہ پولیس اور انتظامیہ کے لوگ آئے تھے ، جنھوں نے مسلم ملازمین کو ہٹانے کی بات کہی تھی۔جی ہاں یہ ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش ہے جہاں سڑکوں پر عیدین کی نماز پڑھنا منع ہے لیکن کانوڑ یاترا کے لیے ایک ماہ تک قومی شاہراہ کو ٹریفک کے لیے بندکردیا گیا ہے تاکہ ہریدوار سے جل (پانی)بھر کرلانے والے پیدل کانوڑیوں کو محفوظ راستہ فراہم کیا جاسکے ۔ ہر سال ساون کے موسم میں یہی ہوتا ہے ۔کئی قومی شاہراہوں کا ٹریفک بندکردیا جاتا ہے اور ان پر کانوڑیوں کی حکمرانی ہوتی ہے ۔ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے کیونکہ حکومت کو سب کیعقیدے اور مذہب کا احترام کرنا ہے ، لیکن ایک مذہب کے احترام میں دوسرے مذہب کے ماننے والوں کا جینا حرام کرنا کہاں تک درست ہے ، یہی ہمارے آج کے مضمون کا موضوع ہے ۔
‘کانوڑ یاترا’آئندہ 22جولائی سے شروع ہورہی ہے اور اس کا سلسلہ ایک ماہ تک جاری رہے گا۔ اس دوران مغربی اترپردیش میں ٹریفک کا نظام پوری طرح درہم برہم رہے گا۔لوگ تقریباً دوگنا راستہ طے کرکے اپنی منزلوں تک پہنچیں گے ۔ اس میں زیادہ پٹرول کے علاوہ دوگنے سے زیادہ وقت بھی لگے گا، لیکن یہ سب اکثریتی فرقہ کی ناز برداری کے لیے ضروری خیال کیا جاتا ہے ۔کسی کانوڑئیے کے کھرونچ تک نہ آجائے اس کا بھی خیال رکھا جاتا ہے ۔ کانوڑ یاترا کے راستوں میں مسلمان جگہ جگہ کیمپ لگاتے ہیں تاکہ کانوڑیوں کو آرام کرنے کا موقع ملے ۔ اس کے علاوہ ان کے لیے ٹھنڈے پانی اور مشروبات کا بھی اہتمام کرتے ہیں، لیکن اب یہ سرکاری حکم جاری ہوا ہے کہ کانوڑ یاترا کے دوران راستے میں جو بھی مسلم دکاندار یا ڈھابے والے ہیں، وہ اپنی شناخت ظاہر کریں تاکہ کانوڑیوں میں کسی قسم کا ‘بھرم’ پیدا نہ ہو۔
ملک کی تاریخ میں شاید یہ پہلا موقع ہے کہ دکانداروں سے ان کی شناخت ظاہر کرنے کے لیے کہا جارہا ہے ۔ مظفر نگر کے ایس ایس پی ابھیشیک سنگھ نے اپنے حکم نامے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہاس ہدایت کا مقصد انتشار سے بچنا اور مذہبی جلوسوں کے دوران شفافیت کو
یقینی بنانا ہے ۔ واضح رہے کہ کانوڑ یاترا کا روٹ تقریباً 240 کلومیٹر ہے اور یہ بیشتر مسلم علاقو ں سے ہوکر گزرتی ہے ۔ اب تک مسلمان اس یاترا کے لیے جذبہ خیرسگالی کا اظہار کرتے رہے ہیں اور ایسا شاذ ونادر ہی ہوا ہے کہ کبھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا ہو۔ لیکن اس بار یاترا شروع ہونے سے پہلے ہی ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جو لکیر کھینچی گئی ہے اس سے حکومت اور سرکاری مشنری کی منشا ظاہر ہوتی ہے ۔
اس سرکاری فرمان کے خلاف سیاسی اور سماجی حلقوں میں شدید ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے ۔اپوزیشن پارٹیاں ہی نہیں خود حکومت کی حامی جنتادل (یو) اور لوک جن شکتی پارٹی نے بھی اعتراض درج کرایا ہے ۔ نغمہ نگار جاوید اختر کا کہنا ہے کہاس حکم نامے کا موازنہ ہٹلر کے دور کے نازی جرمنی سے کیا جاسکتا ہے ۔ نازی جرمنی میں مخصوص دکانوں اور گھروں پر نشان لگایا کرتے تھے ۔ ایم آئی ایم کے سربراہ اسدالدین اویسی کا کہنا ہے کہ یوپی سرکار چھواچھوت کو فروغ دے رہی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ یہ سب ہندو تنظیموں کے دباؤ میں کیا جارہا ہے ۔ وہ مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانا چاہتے ہیں۔بی جے پی مسلمانوں کے خلاف کھل کر سامنے آگئی ہے ۔پرینکا گاندھی نے اسے تفرقہ انگیز ذہنیت کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے اس حکم نامے کو فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے ۔انھوں نے کہا کہہمارا آئین ہر شہری کو اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ اس کے ساتھ ذات پات، مذہب،زبان یا کسی اور بنیاد پر امتیازی سلوک نہ کیا جائے ۔بہرحال مسلمانوں کو اس صورتحال پر حکمت اور دانائی سے کام لینا چاہئے اور شرپسندوں کے منصوبوں کو ناکام بنانے کے لیے صبر وتحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔