... loading ...
ریاض احمدچودھری
بھارت میںمسلمان خواتین کے ساتھ بڑھتے ہوئے نفرت انگیز واقعات سامنے آرہے ہیں۔ دلی میں برقعہ پہنی مسلم خواتین کو کیفے میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ نفرت انگیز جرائم کے باعث حجاب پہننے والی خواتین و طالبات کو بھارت میں اکثر ہراساں کیا جاتا ہے اور ایسے واقعات کو مودی کی سرکردگی میں بی جے پی کی نسل پرست ہندتوا سرکار پروان چڑھا رہی ہے۔انتہا پسند بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارت میں مسلم دشمنی اور اسلامو فوبیا کے واقعات میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور پورا بھارت ان واقعات کی لپیٹ میں آ رہا ہے۔بھارت میں اقلیتوں سے نفرت کے اظہارکیلئے فسادات کی آڑ میں یا کسی اور بہانے غیر ہندو خواتین سے اجتماعی زیادتی بھارت میں کوئی نئی بات نہیں بلکہ مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کو دبانے کیلئے وہاں تعینات بھارتی فوج نے اس گھناؤنے فعل کو حکومتی پالیسی کے طور پر نافذ کر رکھا ہے’ لیکن اب لگتا ہے کہ ہندو انتہا پسندوں نے اس پالیسی کی پورے بھارت میں مسلمانوں و دیگر اقلیتوں کیخلاف لاگو کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
بھارتی ریاست کرناٹک کے سرکاری کالج میں حجاب پہننے والی طالبات پر تعلیمی ادارے کے دروازے بند کردیے گئے۔ ہوا کچھ یوں کہ سرکاری کالج میں حجاب پہننے والی طالبات کا داخلہ بند کرکے ان باپردہ طالبات کو کالج سے نکال دیا گیا، کالج انتظامیہ کا کہنا ہے کہ با پردہ طالبات کے خلاف ایکشن حکومت کے کہنے پر لیا جارہا ہے، وہ حجاب اتاریں گی تو انہیں کلاس میں بیٹھنے دیا جائے گا۔ حالانکہ حجاب لینا طالبات کا بنیادی حق ہے اور بھارت میں ایسا کوئی قانون نہیں ہے جو مذہبی لباس پر پابندی عائد کرے۔ بھارت میں حجاب تنازع شروع ہونے کے بعد کچھ سیاسی جماعتوں نے مبینہ طور پر طلبا میں زعفرانی شالیں تقسیم کی ہیں اور وہ اس تنازعے کو ہوا دے رہے ہیں۔ کیا بھارتی حکومت سکھوں کی پگڑی یا مسیحی افراد کے گلے میں صلیب ڈالنے یا پیشانی پر تلک لگانے پر پابندی عائد کر سکتی ہے؟ اگر سکھوں کیلئے پگڑی کا انتخاب کیا جاسکتا ہے تو پھر حجاب کیوں نہیں اوڑھا جاسکتا! حکومت کی جانب سے مسلمانوں کو کیوں ہراساں کیا جا رہا ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ باحجاب لڑکیوں کو اس لیے کلاسوں میں داخلے سے روکا جائے کہ وہ حجاب پہنتی ہیں؟ وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد اترپردیش کے وزیراعلیٰ کا پالیسی بیان ہی اس پالیسی سے متعلق تھا اس نے ”مدر ٹریسا” کے اترپردیش میں بنائے گئے مجسمے اکھاڑنے اور اسکے افکار کی بھارت میں ترویج کو بھی خلاف قانون قراردیاتھا جس پر نیویارک ٹائمز نے اپنے ادارئیے میں ادیتے ناتھ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جس کی بھارت میں ذرا بھی پرواہ نہیں کی گئی کیونکہ یہی امریکی میڈیا اور امریکی حکمران ہی تھے جنہوں نے وزارت عظمی کا حلف اٹھانے کے بعد نہ صرف نریندر مودی کے گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام جیسے سارے جرائم معاف کر دئیے تھے بلکہ آج وہی مودی امریکہ کا ہردلعزیز دوست ہے۔ بھارت میں زندہ اور مردہ خواتین کی عزت کو ہندو انتہا پسندوں سے بچانے کیلئے پاکستان سمیت تما م دیگر مسلمان ممالک کو آگے آنا ہو گا اور بھارت میں اس گھناؤنے کھیل کو روکنے کیلئے بھارت کو انتباہ کرنا ہو گا ۔
بھار ت میں امتیازی اور متنازع ‘شہریت ترمیمی قانون’ کی منظوری کے خلاف جب شاہین باغ میں مسلم خواتین نے تحریک برپا کی تو اس نے مسلم خواتین کے حوالے سے رائج متعدد مفروضوں کو دفن کر دیا۔ ان خواتین نے اتنا تو ثابت کر دیا کہ بھارتی مسلم عورتیں سیاسی اعتبار سے خاصی بیدار مغز ہیں۔ اس تحریک کی روح رواں بلقیس دادی کو تو مشہور امریکی جریدے ٹائم میگزین نے طاقتور خواتین کی فہرست میں شامل کیا۔ لیکن اس سیاسی شعور کے باوجود مسلم خواتین کو حکومتی سطح پر اور مسلم اداروں میں مناسب نمائندگی کیوں نہیں مل پاتی، کیا وہ صرف احتجاجی مظاہروں میں بیٹھنے کے لیے ہیں؟
یہ تلخ حقیقت ہے کہ مسلم خواتین کی قومی، صوبائی اور نچلی سطح پر قانون ساز اداروں میں نمائندگی ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ ان کی آبادی سات آٹھ کروڑ سے زائد یا تقریبا سات فی صد ہے لیکن آزادی کے بعد سے تشکیل پانے والی سترہ لوک سبھاؤں (پارلیمنٹ کا ایوان زیریں) میں پانچ لوک سبھائیں مسلم خاتون ارکان سے خالی رہیں۔ آج بھی یہ تصویر نہیں بدلی ہے۔ آپ یہ سن کر یقین نہیں کریں گے کہ موجودہ 17ویں لوک سبھا میں محض تین مسلم خواتین ہیں۔ وہ بھی ایک ہی صوبہ یعنی مغربی بنگال سے منتخب ہوئی ہیں، جو وہاں کی حکمراں جماعت ترنمول کانگریس سے تعلق رکھتی ہیں۔ملک کی بقیہ اٹھائیس ریاستوں میں ان کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ اسی طرح راجیہ سبھا یا ایوان بالا کے 245 ارکان میں فقط دو مسلم خاتون ارکان ہیں۔ اس سے بھی زیادہ خراب تصویر صوبائی اسمبلیوں کی ہے۔ حالانکہ یوپی، بہار، آسام اور کیرلا جیسی ریاستوں میں مسلم آبادی کا تناسب قومی اوسط کے دوگنا اور تین گنا ہے۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے منجملہ 783ارکان میں خواتین کی مجموعی تعداد 103 ہے اور ان میں صرف پانچ مسلم خواتین ہیں۔
بھارت میں مسلمانوں کا ملک کی مجموعی آبادی میں تناسب سن دوہزار گیارہ کی مردم شماری کی رو سے 14.4فی صد ہے، جس میں تقریباً نصف حصہ سات فیصد خواتین ہیں۔ لیکن مسلم خواتین سیاست کے علاوہ تعلیم، معاشی اور دیگر شعبوں میں بھی پسماندگی کا شکار ہیں۔ صوبائی قانون ساز اداروں میں بھی یہ تصویر زیادہ مختلف نہیں ہے۔ صوبائی اسمبلیوں میں تمام خواتین کی نمائندگی نو فی صد سے کم ہے جبکہ مسلم خواتین کی نمائندگی تقریبا برائے نام ہے۔ مثلا ً آسام قانون ساز اسمبلی میں 14 خواتین ممبران ہیں، جن میں سے صرف ایک مسلمان خاتون ہے۔ حالانکہ ملک کے اس شمال مشرقی صوبہ میں جموں و کشمیر کے بعد مسلم آبادی کا تناسب سب سے زیادہ ہے، جو 36 فیصد بنتا ہے۔اسی طرح لوک سبھا کی 36 مشاورتی کمیٹیوں کی کسی بھی کمیٹی کی سربراہ کوئی مسلم خاتون نہیں ہے۔ راجیہ سبھا کی 12 اسٹینڈنگ کمیٹیاں میں بھی یہی معاملہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔