وجود

... loading ...

وجود

بھارتی خواتین سے امتیازی سلوک

اتوار 28 جولائی 2024 بھارتی خواتین سے امتیازی سلوک

ریاض احمدچودھری

بھارت میںمسلمان خواتین کے ساتھ بڑھتے ہوئے نفرت انگیز واقعات سامنے آرہے ہیں۔ دلی میں برقعہ پہنی مسلم خواتین کو کیفے میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ نفرت انگیز جرائم کے باعث حجاب پہننے والی خواتین و طالبات کو بھارت میں اکثر ہراساں کیا جاتا ہے اور ایسے واقعات کو مودی کی سرکردگی میں بی جے پی کی نسل پرست ہندتوا سرکار پروان چڑھا رہی ہے۔انتہا پسند بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارت میں مسلم دشمنی اور اسلامو فوبیا کے واقعات میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور پورا بھارت ان واقعات کی لپیٹ میں آ رہا ہے۔بھارت میں اقلیتوں سے نفرت کے اظہارکیلئے فسادات کی آڑ میں یا کسی اور بہانے غیر ہندو خواتین سے اجتماعی زیادتی بھارت میں کوئی نئی بات نہیں بلکہ مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کو دبانے کیلئے وہاں تعینات بھارتی فوج نے اس گھناؤنے فعل کو حکومتی پالیسی کے طور پر نافذ کر رکھا ہے’ لیکن اب لگتا ہے کہ ہندو انتہا پسندوں نے اس پالیسی کی پورے بھارت میں مسلمانوں و دیگر اقلیتوں کیخلاف لاگو کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
بھارتی ریاست کرناٹک کے سرکاری کالج میں حجاب پہننے والی طالبات پر تعلیمی ادارے کے دروازے بند کردیے گئے۔ ہوا کچھ یوں کہ سرکاری کالج میں حجاب پہننے والی طالبات کا داخلہ بند کرکے ان باپردہ طالبات کو کالج سے نکال دیا گیا، کالج انتظامیہ کا کہنا ہے کہ با پردہ طالبات کے خلاف ایکشن حکومت کے کہنے پر لیا جارہا ہے، وہ حجاب اتاریں گی تو انہیں کلاس میں بیٹھنے دیا جائے گا۔ حالانکہ حجاب لینا طالبات کا بنیادی حق ہے اور بھارت میں ایسا کوئی قانون نہیں ہے جو مذہبی لباس پر پابندی عائد کرے۔ بھارت میں حجاب تنازع شروع ہونے کے بعد کچھ سیاسی جماعتوں نے مبینہ طور پر طلبا میں زعفرانی شالیں تقسیم کی ہیں اور وہ اس تنازعے کو ہوا دے رہے ہیں۔ کیا بھارتی حکومت سکھوں کی پگڑی یا مسیحی افراد کے گلے میں صلیب ڈالنے یا پیشانی پر تلک لگانے پر پابندی عائد کر سکتی ہے؟ اگر سکھوں کیلئے پگڑی کا انتخاب کیا جاسکتا ہے تو پھر حجاب کیوں نہیں اوڑھا جاسکتا! حکومت کی جانب سے مسلمانوں کو کیوں ہراساں کیا جا رہا ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ باحجاب لڑکیوں کو اس لیے کلاسوں میں داخلے سے روکا جائے کہ وہ حجاب پہنتی ہیں؟ وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد اترپردیش کے وزیراعلیٰ کا پالیسی بیان ہی اس پالیسی سے متعلق تھا اس نے ”مدر ٹریسا” کے اترپردیش میں بنائے گئے مجسمے اکھاڑنے اور اسکے افکار کی بھارت میں ترویج کو بھی خلاف قانون قراردیاتھا جس پر نیویارک ٹائمز نے اپنے ادارئیے میں ادیتے ناتھ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جس کی بھارت میں ذرا بھی پرواہ نہیں کی گئی کیونکہ یہی امریکی میڈیا اور امریکی حکمران ہی تھے جنہوں نے وزارت عظمی کا حلف اٹھانے کے بعد نہ صرف نریندر مودی کے گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام جیسے سارے جرائم معاف کر دئیے تھے بلکہ آج وہی مودی امریکہ کا ہردلعزیز دوست ہے۔ بھارت میں زندہ اور مردہ خواتین کی عزت کو ہندو انتہا پسندوں سے بچانے کیلئے پاکستان سمیت تما م دیگر مسلمان ممالک کو آگے آنا ہو گا اور بھارت میں اس گھناؤنے کھیل کو روکنے کیلئے بھارت کو انتباہ کرنا ہو گا ۔
بھار ت میں امتیازی اور متنازع ‘شہریت ترمیمی قانون’ کی منظوری کے خلاف جب شاہین باغ میں مسلم خواتین نے تحریک برپا کی تو اس نے مسلم خواتین کے حوالے سے رائج متعدد مفروضوں کو دفن کر دیا۔ ان خواتین نے اتنا تو ثابت کر دیا کہ بھارتی مسلم عورتیں سیاسی اعتبار سے خاصی بیدار مغز ہیں۔ اس تحریک کی روح رواں بلقیس دادی کو تو مشہور امریکی جریدے ٹائم میگزین نے طاقتور خواتین کی فہرست میں شامل کیا۔ لیکن اس سیاسی شعور کے باوجود مسلم خواتین کو حکومتی سطح پر اور مسلم اداروں میں مناسب نمائندگی کیوں نہیں مل پاتی، کیا وہ صرف احتجاجی مظاہروں میں بیٹھنے کے لیے ہیں؟
یہ تلخ حقیقت ہے کہ مسلم خواتین کی قومی، صوبائی اور نچلی سطح پر قانون ساز اداروں میں نمائندگی ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ ان کی آبادی سات آٹھ کروڑ سے زائد یا تقریبا سات فی صد ہے لیکن آزادی کے بعد سے تشکیل پانے والی سترہ لوک سبھاؤں (پارلیمنٹ کا ایوان زیریں) میں پانچ لوک سبھائیں مسلم خاتون ارکان سے خالی رہیں۔ آج بھی یہ تصویر نہیں بدلی ہے۔ آپ یہ سن کر یقین نہیں کریں گے کہ موجودہ 17ویں لوک سبھا میں محض تین مسلم خواتین ہیں۔ وہ بھی ایک ہی صوبہ یعنی مغربی بنگال سے منتخب ہوئی ہیں، جو وہاں کی حکمراں جماعت ترنمول کانگریس سے تعلق رکھتی ہیں۔ملک کی بقیہ اٹھائیس ریاستوں میں ان کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ اسی طرح راجیہ سبھا یا ایوان بالا کے 245 ارکان میں فقط دو مسلم خاتون ارکان ہیں۔ اس سے بھی زیادہ خراب تصویر صوبائی اسمبلیوں کی ہے۔ حالانکہ یوپی، بہار، آسام اور کیرلا جیسی ریاستوں میں مسلم آبادی کا تناسب قومی اوسط کے دوگنا اور تین گنا ہے۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے منجملہ 783ارکان میں خواتین کی مجموعی تعداد 103 ہے اور ان میں صرف پانچ مسلم خواتین ہیں۔
بھارت میں مسلمانوں کا ملک کی مجموعی آبادی میں تناسب سن دوہزار گیارہ کی مردم شماری کی رو سے 14.4فی صد ہے، جس میں تقریباً نصف حصہ سات فیصد خواتین ہیں۔ لیکن مسلم خواتین سیاست کے علاوہ تعلیم، معاشی اور دیگر شعبوں میں بھی پسماندگی کا شکار ہیں۔ صوبائی قانون ساز اداروں میں بھی یہ تصویر زیادہ مختلف نہیں ہے۔ صوبائی اسمبلیوں میں تمام خواتین کی نمائندگی نو فی صد سے کم ہے جبکہ مسلم خواتین کی نمائندگی تقریبا برائے نام ہے۔ مثلا ً آسام قانون ساز اسمبلی میں 14 خواتین ممبران ہیں، جن میں سے صرف ایک مسلمان خاتون ہے۔ حالانکہ ملک کے اس شمال مشرقی صوبہ میں جموں و کشمیر کے بعد مسلم آبادی کا تناسب سب سے زیادہ ہے، جو 36 فیصد بنتا ہے۔اسی طرح لوک سبھا کی 36 مشاورتی کمیٹیوں کی کسی بھی کمیٹی کی سربراہ کوئی مسلم خاتون نہیں ہے۔ راجیہ سبھا کی 12 اسٹینڈنگ کمیٹیاں میں بھی یہی معاملہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر