... loading ...
ماجرا/محمد طاہر
۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا زمین وآسمان نہ روئے ہوں گے؟سرکار دوعالمۖ اُس روز بہت روئے!آپ کی گود میں تب جنتی جوانوں کے سردارحضرت حسین بیٹھے تھے، وہ اُنہیںدردِ محبت سے بھینچے اور روئے جاتے تھے۔ ام المومنین ام سلمہ نے آواز سنی تو آپۖ کے پاس تشریف لے گئیں، آقاۖنے درد والم سے ڈوبی آواز میں تب فرمایا: جبریل میرے پاس اس گھر میںتھے، مجھ سے پوچھا:آپ ان سے محبت کرتے ہیں؟ میں نے کہا اس دنیا میں ہاں۔ تو جبریل نے کہا آپ کی امت انہیں قتل کر دے گی”۔ پھر کربلا پر وہ وقت طاری ہوا جب باغِ نبوت کا یہ پھول مسل دیا گیا۔ وہ کیسے شقی القلب ہوں گے جنہوں نے سینے سے پاؤں تک محسن انسانیتۖ کے مشابہ بدن کو نیزوں پر لے لیا تھا۔یہ خالی حادثہ نہ تھا، حادثۂ کبریٰ تھا، یہ سادہ شہادت نہ تھی، شہادتِ عظمیٰ تھی ۔ اس کا تذکرہ ، تذکرہ نہیں، درس ہے۔ درسِ مسلسل۔
اب چودہ صدیاں اس پر بیتتی ہیں، کرب کی چیخیںختم نہیں ہوتیں، اضطراب کی فریادیں تھمتی نہیں، سوزش کی بے قراریوں کو قرار نہیں آتا۔ آبھی جاتا! اگر یہ حادثہ ٔ کبریٰ ماضی ہوتا۔ یہ تو ہمارے حال کا حصہ ہے۔ کربلا اب کسی مخصوص زمین کے ٹکڑے کا نام نہیں رہا۔ اسلامیان پاکستان اپنے کربلا میں ہیںاور فلسطینی اپنے معرکۂ کرب وبلا میں ۔ ماضی حال کا تجربہ ہے۔ سب کی اپنی اپنی صفیں اور اپنے اپنے معرکے ہیں۔ ایک طرف میدان میں ٹوٹی طنابیں اور رات کی وہی عبادتیں ہیں۔دوسری طرف جاہ پرستی کی وہی باریک وارداتیں ہیں۔معرکہ حق و باطل میںسمتوں کی کوئی الہٰی منطق تو ہوگی، اس کو نہ سمجھا گیا تو پھر غم والم کی شدت وکثرت کے اعتراف سے کیا حاصل ہوگا؟کیاآہوں کی صدا ،بے قراری کی فضاء اور اضطراب کا سما بن کر میدان کربلا کے تقاضے پورے ہوتے ہیں؟ اپنے اپنے میدان کربلا کے لیے اپنے اپنے امام چاہئے۔ جو روچکی وہ آنکھیں نہیں، جو روسکے وہ سچی آنکھیں درکار ہیں۔تھک چکے وہ نہیں بلکہ تڑپنے پھڑکنے کی توفیق پانے والے وجودِ بامعنی مطلوب ہیں۔ بجھ گئے وہ نہیں بلکہ جو سلگ رہے ہیں وہ حقیقی دل ضروری ہیں۔ اگر مستعار زمین وآسمان کو پھونکنے والے ہاتھ نہیں تو پھرماضی کے لیے فغاں سنج زبانوں کی بھی کوئی حاجت نہیں۔ رسم ِماتم پورا بھی ہو جائے تو تقاضائے ماتم کبھی پورا نہ ہو سکے گا۔ ہنگامۂ الم اور گریۂ پیہم نے ابھی اس حادثہ کبریٰ کی دعوتِ اشک و حسرت ختم نہیں کی۔ ابھی تک اپنی اپنی کر بلاؤں کی زمینیںحضرت حسین کی دعوتِ درد سے کراہ رہی ہیں،ابھی تک جنتی جوانوں کے سردار کی صفیں لبیک کے سچے استقبال کی منتظر ہیں۔
پاکستان کا منظر بھی کچھ مختلف نہیں۔ ایک کرب و بلا کا معرکہ مسلسل برپا ہے۔ طاقت کا اعلان ہے کہ وہ حق ہے۔ انصاف کی بارگاہوں پر پہرے ہیں، اقتدار کی راہداریاں مقبوضہ ہو چکیں۔ ابن زیاد کی نفسیات بروئے کار ہے۔حق کو اپنے اظہار کا موقع تک میسر نہیں۔ جھوٹ کا ننگا ناچ ہر طرف جاری ہے۔ قانون کے پہرے داروں نے لاقانونیت شعار کر لی۔ عدل گاہوں کی مصلحت قاتلوں کی وکیل بن گئی، خانقاہوں کی منزلت بزدلی میں ڈھل گئی۔ یہاں مول تول کرنے والے اب آبرومند ہیں۔ بھاؤ تاؤ کرنے والے ایوانوں میں سربلند ہیں۔ یہ فیصل واوڈاؤں، زرداریوں ، شریفوں ، کمالوں، راناؤں، عونوں، ڈاروں ، خواجاؤں اور علیم خانوں کا عہد ہے۔ قوموں کی آبرو کے نیلام گھر میںیہ منڈی سجاتے ہیں۔ قاتلوں کی بندوقوں سے بڑھ کر ان کی زبانوں سے بارود نکلتا ہے۔ انسانی قسمتوں سے کھیلنے کو یہ سیاست کہتے ہیں۔ خاندانوں کو بے آبرو کرنا ان کے اقتدار کا شیوہ ہے۔ یہ رشتوں کو تولتے ہیں۔ نکاحوں کو کھنگالتے ہیں۔ اس عہد کی شرمناک تاریخ میں یہ بھی شامل ہے کہ انہوں نے عورتوں کے مخصوص دنوں کے لیکھے جو کھے بنائے۔ ایسے ذلیل بھی اس دور کے حصے میںآئے جنہوں نے اپنی بے آبرو صحافت سے اس کا دفاع کیا۔ ایسے گھٹیا بھی اسی عہد کے حصے میںآئے جنہوں نے ان رسوائیوں کو منہ کا ذائقہ بنایا۔ چٹخارے لیے۔ یہ کیسی صحافت ہے جو صنم جاوید اور عالیہ حمزہ کے نام تک زبان پر نہیں لاتیں،یہ کیسی رکاکت، رزالت اور خباثت ہے کہ عورتوں پر ظلم کے دفاع میں حیلے تراشے جاتے ہیں۔ یہ کیسی صحافت ہے جو جبرو تشدد، کذب و افترا، اور ہنگامہ وفساد کو مخالفین کے لیے روا رکھنے کے جواز دیتی ہے۔ یہ کیسی صحافت ہے جو حرص کے لیے اپنی آزادی یعنی اپنی زندگی سے دستبردار ہو گئی۔ ہمارے معرکۂ کرب وبلا میں ضلالت ِ انسانی کا یہ مہلک ترین دور ہے۔ اب زیاد کے حواریوں کو تو شاید یہ دھڑکا بھی تھا کہ وہ غلط کر رہے ہیں۔ مگر ہمارے دور تک آتے آتے یہ دھڑکا بھی جاتا رہا۔ یہاں ظلم کو حق کے طور پر برتا جاتا ہے۔ جھوٹ کو حکمت عملی کا ورق چڑھا کر سچ کی فضیلت کے ہم پلہ رکھا جاتا ہے۔الامان والحفیظ باطل کے حق میں قرآن پڑھا جاتا ہے۔
ضلالت ِ انسانی اور خطرناک گمراہی کے عہد ِ تیرہ وتار میں اب دو ہی راستے ہیں۔ مصائب و آلام کے اس ہجوم میںیا تو مایوس ہو کر ماتم کناں رہ جائیں۔ یا پھر امید کا دامن تھام کر کربلا کی سرزمین سے اُٹھنے والی مسلسل دعوت ِ درد پر لبیک کہتے ہوئے اٹھیں اور اپنا وطن بچائیں۔ اپنا پیارا وطن ان زرداریوں، شریفوں ، واوڈاؤں ، کمالوں، راناؤں، عونوں، ڈاروں ، خواجاؤں اور علیم خانوں سے بازیاب کرائیں۔ اپنے مینڈیٹ کو فارم 47 کے آسیب سے چھڑائیں۔ جعلی حق وباطل کے دعوے داروں کو ردی ٹوکری میں ڈالیں۔ حُب الوطنی کو ایک بدمعاش کی آخری جائے پناہ کے طور پر استعمال کرنے والے بے ضمیروں کو وطن کی حقیقت سمجھائیں۔ حب الوطنی کا حقیقی مفہوم سکھائیں۔یہ تب ہی ممکن ہو گاجب معرکہ کربلا کا حقیقی سبق ماتم کے شور سے زیادہ ہم پر اثر کرسکتا ہو۔ یہ آنسوؤں کو آنکھوں سے نہیں دلوں سے ٹپکاتا ہو۔ حقیقت شناسی کی ٹیسیں اُٹھاتا ہو۔ عبرت کی ٹپک محسوس کراتا ہو۔ بصیرت کی تڑپ دیتا ہو۔ احساسِ حق کا اضطراب جگائے رکھتا ہو۔
طوفان نوح لانے سے اے چشم فائدہ
دو اشک بھی بہت ہیں اگر کچھ اثر کریں