وجود

... loading ...

وجود

''باز آجائو ''

پیر 15 جولائی 2024 ''باز آجائو ''

ب نقاب /ایم آر ملک

کرپشن کی غلاظت کی کالک چہرے پر مل کر تحریر لکھنے والے ”کالم نگار ”نہیں قلمی قوال ہوا کرتے ہیں ۔
سرمائے کی غلامی کی دلدل میں کھڑے ٹوڈی اور بیہودہ نقالی کی ڈگڈگی پر ناچنے والی کٹھ پتلیوں کا ہدف انصاف کا مندر ہے ۔محب وطن عناصر اور دھرتی ایسے ”بازاری میڈیا ”کو کبھی برداشت نہیں کرتی محب وطن لکھاریوں کا کردار ایک بیرو میٹر کی مانند ہوتا ہے جو عوام کے شعور میں ہمیشہ تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے۔ ایک کرپٹ اشرافیہ کے ٹکڑوں پر پلنے والے نام نہاد دانشور یہ جان لیں کہ عدلیہ کے خلاف اب نفرت کو ابھارنا ممکن نہیں۔ ایسے چاپلوس جن کا ماضی معمول پرستی اور ذہنی کاہلی سے چپکا ہوا ہے رسوائی ان کا مقدر ہوچکی ۔
عوام جانتے ہیں یہ قلمی قوال جرائم ،لوٹ مار ،قتل و غارت ،بدمعاشی اور غنڈہ گردی کی چھتری تلے پناہ گزین سسلین مافیا اور گاڈ فادر کو جمہوریت کا دیوتا قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان کی ناکام خواہش ہے کہ عدلیہ میں جسٹس قیوم جیسے افراد کا راج ہو اور عوام کی امیدوں پر اپنے لفظوں کی چاشنی سے پانی پھیر دیا جائے۔
ہم میڈیا میں ایک ایسی وطن دشمن رجیم کو دیکھ رہے ہیں جس کے مفادات ایسی سیاست اور سرمائے سے جڑے ہیں جن کا قلم اور زبانیں کلبھوشن کے معاملے پر خاموش ہو گئیں،عمران خان جیسے عوامی ہیرو پر جن کے معتصبانہ جذبات غالب آگئے، سانحہ ماڈل ٹائون میں وحشت و بربریت کا بازار گرم کرنے والے جن کی نظروں سے اوجھل ہوگئے ،نبی آخر الزماں ۖکا نام حلف نامے سے حذف کرنے والوں کے شرمناک فعل پر شریفوں کے مٹھی بھر تربیت یافتہ ان غلام میڈیا پرسنز کو سانپ سونگھ گیا،ضیا آمریت کے بغل بچہ نے ریاستی اداروں کی تباہی کے بعد عدالت عظمیٰ کے خلاف معرکہ آرائی کا نیا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، میڈیا کی عوام دشمن رجیم کا ضمیر خرید کر اپنا ہمنوا بنا لیا ہے ۔
نام نہاد صحافت سے مرصع ضمیر ،روح ،احساس لذت سرمایہ کی شکل میں غلاف اوڑھے اس غلام میڈیا کے تناظر اور لائحہ عمل میں مجتمع ہو چکی ہے۔ گاڈ فادر اور اس کے حواریوں کی لوٹ مار ،دبئی میں کھڑے کئے گئے صنعتی ایمپائر کی غیر ملکی میڈیا میں تشہیر کے باوجود لے پالک میڈیا کے شعبدہ گر اپنے آقا کے اشارہ پر عدلیہ کی تحقیر پر تلے ہوئے ہیں، گاڈ فادر کے سیاسی خلفشار سے صاف ظاہر ہے کہ عوامی پذیرائی کا گراف روز بروز گرتا چلا جارہا ہے ،جس کا ثبوت شاہد خاقان عباسی کی سربراہی میں ایک نئی پارٹی کا جنم ہے ۔یہ محاذ آرائی پارٹی کے اندر بڑھتی ہوئی فالٹ لائنز کی طرف واضح اشارہ ہے۔
سیاسی تنہائی کو دور کرنے کیلئے ماضی میں پیسے سے سیاسی اقتدار اور مرتبہ خریدنے والا اب بازاری میڈیا کے ذریعے عوامی مقبولیت ، وفاداری اور وابستگی خریدنے کا خواہاں ہے۔
عرفان صدیقی جیسے دانشور ایک طفیلی طاقت کے سب سے بڑے محافظ ہیں۔ کالے سرمائے پر پلنے والے یہ کرائے کے جنگجو اپنے بوسیدہ خیالات ،ٹاک شوز ،تحریروں سے ٹوٹتے جمود کو سہارا دینے کے خواہاں ہیں خبروں اور تجزیوں کے یہ تمام وسائل سرمائے کے غلام ہیں جن کا ریموٹ کرپشن کے گاڈ فادر کے ہاتھوں میں ہے ۔
جب تک میڈیا کو سرمائے کی غلامی سے نجات نہیں ملتی اس وقت تک کوئی سچی خبر یاتجزیہ منظر عام پر نہیں آسکتا اپنا ضمیر بیچ کر دولت مند ہونے والے یہ قلمی قوال صفحات کے صفحات کالے کرکے ہر روز نان ایشوز عوامی اذہان پر مسلط کرنے پر لگے ہوئے ہیں عدالت عظمیٰ کا فیصلہ کیا آیا سرمایہ داری سے جڑے سارے صحافتی مفادات چیخ اُٹھے ، کیا نواز شریف اپنے آنے والے کل سے بے نیاز ہوچکا ؟
تحریک انصاف کے حق میں عدالت عظمیٰ کا مخصوص نشستوں کا فیصلہ چوری شدہ مینڈیٹ کی بازیابی ہے اور اس جرم پر عوام میں اپنی خفت مٹانے کیلئے جاتی امرا کے مکیں کا مسخرہ جعلی اسمبلی میں اپنے حواریوں کے ذریعے عدلیہ کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہے زر خرید ذرائع ابلاغ کے ذریعے ایک طوفان ِ بد تمیزی اُٹھایا جارہا ہے ۔
ن لیگ کی عوام میں ساکھ اور سکت ہی کتنی ہے کہ ایک عدالتی فیصلہ سے نااہل شخص عوام کو متحرک کرنے کے دعوے کرتا پھرے ،اور ایک جعلی وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ مجھ پر دبائو آیا تو استعفیٰ دے دوں گا ،دیوانے کی بڑ کے سوا کچھ بھی نہیں ۔اب جسٹس سجاد علی شاہ کا دور نہیں کہ بدمعاشوں کا ایک جتھہ عدلیہ پر چڑھ دوڑے گا۔ اس کے ساتھ ذرائع ابلاغ کو یہ باور کرانے میں عار نہیں کہ وہ اخلاقی کرپشن کے دیو ہیکل واقعہ کو دبانے کی مجرمانہ کوششوں سے باز آجائے ۔کرپشن کا گاڈ فادر اور اس کا لے پالک میڈیا ڈرے اس وقت سے جب 25کروڑ عوام کے جعلسازی کے خلاف اُٹھتے قدموں سے یہ دھرتی تھر تھرائے گی ،سرمائے کے ایوان لرزیں گے بازاری میڈیا اور سسلین مافیا کے خوف کی چیخ و پکار ایک طوفانی ہلچل کا پتہ دے گی اور ایسے معجزے تنگ آئی عوام کے ہاتھوں بڑی عجلت میں برپا ہوتے ہیں۔
لے پالک میڈیا کے سرخیل عرفان صدیقی سے محض اتنا کہنا ہے کہ وہ ”باز آجائے ”ورنہ کون نہیں جانتا کہ کارپوریٹ میڈیا کے پردھان منتریوں کی کرپشن کیا ہے ؟کتنے کرپٹ افراد ہیں جو اس صف میں موجود ہیں کیا بلیک میلنگ سے بد ترین بھی کوئی کرپشن ہے ؟کون نہیں واقف کہ میڈیا میں بیٹھے نام نہاد قلمکار ،صحافی ،اینکر پرسنز ،اور مالکان کتنے بڑے بڑے بدعنوان شریف ،پارسا اور نیک بنے پھرتے ہیں یہاں تو الزام تراشی اور تشہیر میں بھی کرپشن کے ملوث ہونے کو رد نہیں کیا جاسکتا ۔
محب وطن حلقے باخبر ہیں کہ گاڈ فادر کیلئے کٹھ پتلی کا کردار ادا کرنے والوں کی شریانوں ،ریشوں اور رگوں میں کرپشن کا زہر کتنا ہولناک ہے اس لئے عدلیہ پر اپنی تحریروں سے فیصلے مسلط کرنے والو ” باز آجائو” ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
بھارت میں مساجد غیر محفوظ وجود جمعه 20 ستمبر 2024
بھارت میں مساجد غیر محفوظ

نبی کریم کی تعلیمات اور خوبصورت معاشرہ وجود جمعه 20 ستمبر 2024
نبی کریم کی تعلیمات اور خوبصورت معاشرہ

کشمیر انتخابات:جہاں بندوں کو تولا جائے گا ! وجود جمعه 20 ستمبر 2024
کشمیر انتخابات:جہاں بندوں کو تولا جائے گا !

قائد اعظم کی خوش لباسی و نفاست وجود جمعرات 19 ستمبر 2024
قائد اعظم کی خوش لباسی و نفاست

بحران یا استحکام وجود جمعرات 19 ستمبر 2024
بحران یا استحکام

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر