... loading ...
ب نقاب /ایم آر ملک
کرپشن کی غلاظت کی کالک چہرے پر مل کر تحریر لکھنے والے ”کالم نگار ”نہیں قلمی قوال ہوا کرتے ہیں ۔
سرمائے کی غلامی کی دلدل میں کھڑے ٹوڈی اور بیہودہ نقالی کی ڈگڈگی پر ناچنے والی کٹھ پتلیوں کا ہدف انصاف کا مندر ہے ۔محب وطن عناصر اور دھرتی ایسے ”بازاری میڈیا ”کو کبھی برداشت نہیں کرتی محب وطن لکھاریوں کا کردار ایک بیرو میٹر کی مانند ہوتا ہے جو عوام کے شعور میں ہمیشہ تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے۔ ایک کرپٹ اشرافیہ کے ٹکڑوں پر پلنے والے نام نہاد دانشور یہ جان لیں کہ عدلیہ کے خلاف اب نفرت کو ابھارنا ممکن نہیں۔ ایسے چاپلوس جن کا ماضی معمول پرستی اور ذہنی کاہلی سے چپکا ہوا ہے رسوائی ان کا مقدر ہوچکی ۔
عوام جانتے ہیں یہ قلمی قوال جرائم ،لوٹ مار ،قتل و غارت ،بدمعاشی اور غنڈہ گردی کی چھتری تلے پناہ گزین سسلین مافیا اور گاڈ فادر کو جمہوریت کا دیوتا قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان کی ناکام خواہش ہے کہ عدلیہ میں جسٹس قیوم جیسے افراد کا راج ہو اور عوام کی امیدوں پر اپنے لفظوں کی چاشنی سے پانی پھیر دیا جائے۔
ہم میڈیا میں ایک ایسی وطن دشمن رجیم کو دیکھ رہے ہیں جس کے مفادات ایسی سیاست اور سرمائے سے جڑے ہیں جن کا قلم اور زبانیں کلبھوشن کے معاملے پر خاموش ہو گئیں،عمران خان جیسے عوامی ہیرو پر جن کے معتصبانہ جذبات غالب آگئے، سانحہ ماڈل ٹائون میں وحشت و بربریت کا بازار گرم کرنے والے جن کی نظروں سے اوجھل ہوگئے ،نبی آخر الزماں ۖکا نام حلف نامے سے حذف کرنے والوں کے شرمناک فعل پر شریفوں کے مٹھی بھر تربیت یافتہ ان غلام میڈیا پرسنز کو سانپ سونگھ گیا،ضیا آمریت کے بغل بچہ نے ریاستی اداروں کی تباہی کے بعد عدالت عظمیٰ کے خلاف معرکہ آرائی کا نیا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، میڈیا کی عوام دشمن رجیم کا ضمیر خرید کر اپنا ہمنوا بنا لیا ہے ۔
نام نہاد صحافت سے مرصع ضمیر ،روح ،احساس لذت سرمایہ کی شکل میں غلاف اوڑھے اس غلام میڈیا کے تناظر اور لائحہ عمل میں مجتمع ہو چکی ہے۔ گاڈ فادر اور اس کے حواریوں کی لوٹ مار ،دبئی میں کھڑے کئے گئے صنعتی ایمپائر کی غیر ملکی میڈیا میں تشہیر کے باوجود لے پالک میڈیا کے شعبدہ گر اپنے آقا کے اشارہ پر عدلیہ کی تحقیر پر تلے ہوئے ہیں، گاڈ فادر کے سیاسی خلفشار سے صاف ظاہر ہے کہ عوامی پذیرائی کا گراف روز بروز گرتا چلا جارہا ہے ،جس کا ثبوت شاہد خاقان عباسی کی سربراہی میں ایک نئی پارٹی کا جنم ہے ۔یہ محاذ آرائی پارٹی کے اندر بڑھتی ہوئی فالٹ لائنز کی طرف واضح اشارہ ہے۔
سیاسی تنہائی کو دور کرنے کیلئے ماضی میں پیسے سے سیاسی اقتدار اور مرتبہ خریدنے والا اب بازاری میڈیا کے ذریعے عوامی مقبولیت ، وفاداری اور وابستگی خریدنے کا خواہاں ہے۔
عرفان صدیقی جیسے دانشور ایک طفیلی طاقت کے سب سے بڑے محافظ ہیں۔ کالے سرمائے پر پلنے والے یہ کرائے کے جنگجو اپنے بوسیدہ خیالات ،ٹاک شوز ،تحریروں سے ٹوٹتے جمود کو سہارا دینے کے خواہاں ہیں خبروں اور تجزیوں کے یہ تمام وسائل سرمائے کے غلام ہیں جن کا ریموٹ کرپشن کے گاڈ فادر کے ہاتھوں میں ہے ۔
جب تک میڈیا کو سرمائے کی غلامی سے نجات نہیں ملتی اس وقت تک کوئی سچی خبر یاتجزیہ منظر عام پر نہیں آسکتا اپنا ضمیر بیچ کر دولت مند ہونے والے یہ قلمی قوال صفحات کے صفحات کالے کرکے ہر روز نان ایشوز عوامی اذہان پر مسلط کرنے پر لگے ہوئے ہیں عدالت عظمیٰ کا فیصلہ کیا آیا سرمایہ داری سے جڑے سارے صحافتی مفادات چیخ اُٹھے ، کیا نواز شریف اپنے آنے والے کل سے بے نیاز ہوچکا ؟
تحریک انصاف کے حق میں عدالت عظمیٰ کا مخصوص نشستوں کا فیصلہ چوری شدہ مینڈیٹ کی بازیابی ہے اور اس جرم پر عوام میں اپنی خفت مٹانے کیلئے جاتی امرا کے مکیں کا مسخرہ جعلی اسمبلی میں اپنے حواریوں کے ذریعے عدلیہ کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہے زر خرید ذرائع ابلاغ کے ذریعے ایک طوفان ِ بد تمیزی اُٹھایا جارہا ہے ۔
ن لیگ کی عوام میں ساکھ اور سکت ہی کتنی ہے کہ ایک عدالتی فیصلہ سے نااہل شخص عوام کو متحرک کرنے کے دعوے کرتا پھرے ،اور ایک جعلی وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ مجھ پر دبائو آیا تو استعفیٰ دے دوں گا ،دیوانے کی بڑ کے سوا کچھ بھی نہیں ۔اب جسٹس سجاد علی شاہ کا دور نہیں کہ بدمعاشوں کا ایک جتھہ عدلیہ پر چڑھ دوڑے گا۔ اس کے ساتھ ذرائع ابلاغ کو یہ باور کرانے میں عار نہیں کہ وہ اخلاقی کرپشن کے دیو ہیکل واقعہ کو دبانے کی مجرمانہ کوششوں سے باز آجائے ۔کرپشن کا گاڈ فادر اور اس کا لے پالک میڈیا ڈرے اس وقت سے جب 25کروڑ عوام کے جعلسازی کے خلاف اُٹھتے قدموں سے یہ دھرتی تھر تھرائے گی ،سرمائے کے ایوان لرزیں گے بازاری میڈیا اور سسلین مافیا کے خوف کی چیخ و پکار ایک طوفانی ہلچل کا پتہ دے گی اور ایسے معجزے تنگ آئی عوام کے ہاتھوں بڑی عجلت میں برپا ہوتے ہیں۔
لے پالک میڈیا کے سرخیل عرفان صدیقی سے محض اتنا کہنا ہے کہ وہ ”باز آجائے ”ورنہ کون نہیں جانتا کہ کارپوریٹ میڈیا کے پردھان منتریوں کی کرپشن کیا ہے ؟کتنے کرپٹ افراد ہیں جو اس صف میں موجود ہیں کیا بلیک میلنگ سے بد ترین بھی کوئی کرپشن ہے ؟کون نہیں واقف کہ میڈیا میں بیٹھے نام نہاد قلمکار ،صحافی ،اینکر پرسنز ،اور مالکان کتنے بڑے بڑے بدعنوان شریف ،پارسا اور نیک بنے پھرتے ہیں یہاں تو الزام تراشی اور تشہیر میں بھی کرپشن کے ملوث ہونے کو رد نہیں کیا جاسکتا ۔
محب وطن حلقے باخبر ہیں کہ گاڈ فادر کیلئے کٹھ پتلی کا کردار ادا کرنے والوں کی شریانوں ،ریشوں اور رگوں میں کرپشن کا زہر کتنا ہولناک ہے اس لئے عدلیہ پر اپنی تحریروں سے فیصلے مسلط کرنے والو ” باز آجائو” ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔