... loading ...
افتخار گیلانی
پندرہ اگست 1947 کو جب نئی دہلی میں انڈیا گیٹ کے پاس ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو برطانوی یونین جیک کو اتار کر قومی پرچم لہرا کر ملک کو آزادی کی نوید سنا رہے تھے ، اسی طرح کی ایک تقریب سینکڑوں میل دور کراچی کے پیلس ہوٹل کے لان میں بھی منعقد ہو رہی تھی۔ مگر دہلی کے جم غفیر کے بجائے اس میں بس دوہی افراد شریک تھے ۔ 12 اگست کو ہی نہرو نے اپنے ایک قریبی ساتھی سری پرکاسا کو پاکستان میں ہندوستان کے پہلے ہائی کمشنر کے بطور کراچی بھیج دیا تھا اور اسی دن انہوں نے چارج لے کر ہوٹل کے ایک کمرے کو ہندوستان کا سفارت خانہ بنادیا، جبکہ ابھی سرحدوں کا تعین ہونا باقی تھا۔
انہوں نے ایک مقامی سندھی کانگریس لیڈر چھوٹو رام گڈوانی کو بینڈ باجے اور گانے والوں کا انتظام کرنے کا کام سونپا تھا۔ مگر گڈوانی سندھ کے پاکستان میں شامل ہونے پر دکھی تھے اور کانگریس لیڈروں سے سخت ناراض تھے ۔ وہ تقریب میں شامل ہی نہیں ہوئے ۔
سری پرکاسا نے اکیلے جھنڈا لہرایا اور بطور سامع اور مد د کے لیے ہوٹل کے ایک ویٹر کو آمادہ کیا۔ پرکاسا نے خود ہی اکیلے وندے ماترم گا کر جھنڈے کو سلامی دی۔ 1952 تک دونوں ممالک کے درمیان سفر کے لیے پاسپورٹ کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔مگر سفارتی مشن اجازت نامے جاری کرتے تھے ۔پاکستان میں ہندوستان کے آخری ہائی کمشنر اجے بساریہ کی 558 صفحات پر مشتمل کتاب اینگر مینجمنٹ: دی ٹروبلڈ ڈپلومیٹک ریلیشن شپ بٹوین انڈیا اینڈ پاکستان ایسے ان گنت واقعات سے بھری پڑی ہے ۔اپنی یاد داشت لکھنے کے بجائے بساریہ نے ، جو 2017 سے 2020 تک ہائی کمشنر کے عہدہ پر رہے ، پاکستان میں 1947 سے لے کر موجودہ دور تک ہندوستان کے سبھی 25 سفیروں کے تجربات کا خلاصہ بیان کیا ہے ۔ چند تضادات اور کچھ غلط تشریحات کو چھوڑ کر یہ کتاب، ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات و حالات پر نظر رکھنے والوں اور تجزیہ کاروں کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں ہے ۔انہوں نے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے پرائیویٹ سکریٹری کے طور پر بھی کام کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ واجپائی نے پاکستان کے حوالے سے جب وزارت خارجہ سے مشورہ مانگا تھا، تو ان کو بتایا گیا کہ پاکستان کے ساتھ ہندوستان کا رویہ ‘صبر، تحمل، معقولیت اور تعاون’ والا رہنا چاہیے ۔ اس کے علاوہ ان کو بتایا گیا کہ مسائل اور اختلافات کے پرامن اور دو طرفہ حل کا کوئی متبادل نہیں ہے ۔
پاک و ہند تعلقات کا المیہ ہے کہ کبھی لیڈروں کے درمیان کچھ ایسی گاڑھی چھنتی ہے کہ لگتا ہے کہ تمام مسائل اب حل ہونے والے ہیں، مگر پھر حالات واپس وہیں پہنچ جاتے ہیں۔ہندوستان کے پاور گلیاروں میں عمومی تاثر یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست اور اقتدار اعلیٰ پرفوج کے غلبہ کی وجہ سے اسی طرح کے حالات پیدا ہوجاتے ہیں۔ پاکستان میں تاثر ہے کہ ہندوستانی رہنماؤں کی تنگ نظری اور کسی بھی معاملے میں کوئی چھوٹ نہ دینے کی روش اس کی جڑ ہے ۔ہندوستان میں سوشلسٹوں کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ نہ ساتھ ساتھ رہ سکتے ہیں اور نہ ہی الگ الگ رہ سکتے ہیں۔ وہ آئے دن اتحاد بناتے ہیں اور پھر توڑ دیتے ہیں۔ یہی حال کچھ ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات کا بھی ہے ۔ آزادی کے بعد سے لے کر آج تک ہر دہائی میں کشیدگی، حتیٰ کہ جنگیں بھی ہوئی ہیں، مگر اس کے ساتھ تعلقات پھر استوار ہوئے ہیں۔
کشیدگی اور دوستی ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ شاید ہی دنیا کے کسی اور خطے میں ایسی مثال ہو۔ 1947-57 کی پہلی دہائی میں جنگ اور فسادات میں لا تعداد جانیں گئیں، مگر اسی دہائی میں نہرو لیاقت معاہدہ بھی ہوا۔ 1957-67 کی دوسری دہائی میں پھر جنگ ہوئی، مگر اسی کے ساتھ سندھ تاس آبی معاہدہ اور تاشقند معاہدہ بھی ہوا۔ 1967-77 کی تیسری دہائی میں، ایک اور جنگ جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش وجود میں آیا، لیکن پھر شملہ معاہدہ بھی ہوا۔چوتھی دہائی 1977-87 میں پنجاب میں آپریشن بلیو سٹار کے ساتھ سیاچن گلیشیر دنیا کا بلند ترین جنگی تھیٹر بن گیا، مگر اسی دوران صدر ضیائالحق نے ہندوستان کا دورہ بھی کیا۔ پانچویں دہائی 1987-97 کشمیر میں مسلح تحریک، ممبئی بم دھماکوں کو گونج سنائی دی۔ مگر اسی کے ساتھ جامع مذاکراتی عمل کا بھی آغاز ہوگیا۔ 1997-2007 کی دہائی کے دوران پوکھران اور چاغی کے صحرا ایٹمی دھماکوں سے لرز اٹھے ، کرگل جنگ بھی ہوئی، مگر پھر لاہور اور اسلام آباد میں امن کی نوید سنائی دی۔
اگلی دہائی 2007-17 میں ممبئی میں دہشت گردانہ حملے ، سرجیکل اسٹرائیکس ہوئی، مگر وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے ہم منصب نواز شریف کے گھر لاہور میں شادی کی تقریب میں شرکت کی ۔پھر اگلے چھ سالوں میں 2017-24 کے دوران پلوامہ بم دھماکوں، بالاکوٹ پر ہندوستانی فضائیہ کے حملوں اور پاکستان کے جوابی حملوں، جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی نے کشیدگی کو انتہا تک پہنچادیا۔مگر ہندوستانی فائٹر پائلٹ ابھینندن کی واپسی، لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی اور کرتار پور راہداری کے افتتاح نے اس آگ پر کسی حد تک پانی ڈالنے کا کام کیا۔
ذاتی تعلقات کے حوالے سے دونوں ممالک کے لیڈروں اور سفارت کاروں کی آپس میں خوب بنتی ہے ۔ بساریہ رقمطراز ہیں کہ جب راجیشور دیال 1958 میں سفیر تعینات ہوئے تو پاکستان فوجی آمر ایوب خان کو ان کو اپنی اسناد سونپنی تھیں۔ تقسیم سے قبل دونوں اتر پردیش کے شہر متھرا میں ڈیوٹی انجا م دے چکے تھے ۔دیال بطور ضلعی اہلکار اور ایوب خان ہندوستانی فوج میں بطور کیپٹن وہاں تعینات تھے ۔ دیال جونہی ہال میں داخل ہوئے ، ایوب خان نے پروٹوکول کی دھجیاں اڑا کر دروازہ کی طرف دوڑ لگا کر دیال کو گلے لگایا اور اس کے خاندان وغیرہ کی خیر وعافیت پوچھنے لگا۔دیال نے صدر پاکستان کو یاد دلایا کہ اس وقت وہ کچھ سنجیدہ تقریب کے لیے آئے ہیں۔ ایوب نے سنبھل کر ان کا ہاتھ چھوڑ کر تقریب شروع کرنے کا عندیہ دیا۔دہلی میں انہی دنوں، نہرو جو خود ہی وزیر خارجہ بھی تھے ، نے پاکستان کے ہائی کمشنر اے کے بروہی کے ساتھ رابطے کا ایک چینل کھولاتھا۔ جنہیں ایوب نے فروری 1960 میں دہلی بھیجا تھا۔وہ بھارت کے مشہور سندھی قانون دان، بعد میں واجپائی دور میں وزیر قانون رام جیٹھ ملانی کے سرپرست بھی رہے تھے ۔بساریہ لکھتے ہیں کہ نہرو کشمیر پر معمولی ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ اسٹیٹس کو کو برقرار رکھنے کے حامی تھے ، لیکن جب وہ کراچی میں سندھ طاس معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد مری کے تفریحی مقام پر ایوب خان کے ساتھ کشمیر و دیگر امور پر بات چیت کرنے گئے ، تو ان کا رویہ انتہائی سرد مہری کا تھا۔
ایوب خان نے بعد میں بتایا کہ جب بھی وہ کشمیر کے بارے میں بات چیت شروع کرنے کی کوشش کرتے تھے ، تو نہرو کھڑکی کے باہر کے مناظر پر تبصرہ کرتے تھے ۔جنوری 1963 کو دونوں ممالک نے کشمیر کے حوالے سے بات چیت کے کئی دو ر منعقد کیے ۔ اس میں پاکستان نے محسوس کیا کہ ہندوستان نے رائے شماری کو مسترد کرنے کے لیے ایک نیا بہانہ ڈھونڈ نکالا ہے ۔ یعنی کہ اگر کشمیری مسلمان پاکستان کے حق میں ووٹ دیتے ہیں، تو ہندوستان کے ہندو اس کو بے وفائی سے تعبیر کرکے اس کا غصہ ہندوستانی مسلمانوں پر نکال سکتے ہیں۔ جس سے فرقہ وارانہ حالات بگڑ سکتے ہیں۔ پاکستان کشمیر کی تقسیم، جس میں اس کو کشمیر وادی، ریاسی، میرپور اور پونچھ کے اضلاع کا ایک حصہ مل جاتا،پر آمادہ تھا۔ مگر ہندوستان کی تجویز تھی تقسیم سیز فائر لائن کی معمولی ایڈجسٹمنٹ کے حساب سے ہو۔ یہ مذاکرات با لآخر 16 مئی 1963 کو دم توڑ گئے ۔
کتاب کے مطابق، جب 1965 کی جنگ شروع ہوئی، تو سب سے کم معلومات ہندوستانی ہائی کمشنر کیول سنگھ کو تھیں۔ ان کو عملی طور پر گھر میں نظربند کر دیا گیا اور ریڈیو و دیگر مواصلات سے ان کا رابطہ منقطع تھا۔ ان کو 28 ستمبر کو معلوم ہوا کہ جنگ ختم ہو چکی ہے ۔ اب وہ تاشقند جانے کے لیے کمر بستہ ہو رہے تھے ۔ وہاں پہنچ کر جب انہوں نے اپنے ہم منصب ارشد حسین کو سلام کرنے کی کوشش کی، تو انہوں نے ان کو جھڑک دیا۔خیر دلبرداشتہ ہوکر وہ ہال سے باہر نکلے ، حسین نے ان کو کاریڈور میں بتایا کہ صدر ان کو تاڑ رہا تھا، اس لیے انہوں نے سرد مہری دکھائی۔ اگلے چند روز جب معاہدے کے کوئی سر و پیر نظرنہیں آرہے تھے ، تو دونوں ہائی کمشنران تاشقند ہوٹل کے سامنے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹل اسٹور پر خریداری کرنے پہنچے ۔ خریداری تو بہانہ تھا۔ حسین نے سنگھ کو سمجھایا کہ پاکستانی وفد کے لیے ایسی دستاویز کے ساتھ گھر جانا مشکل ہو گا جس میں کشمیر کا حوالہ نہ ہو۔ اسی اسٹور میں دونوں نے معاہدہ کے مندرجات کو ڈرافٹ کیا اور پھر اپنے وفود کے سربراہان کو پیش کیا۔
کتاب کے مطابق1971کی جنگ سے پہلے ، ہندوستانی ہائی کمشنر جئے کمار اٹل کو پاکستانی صدر یحییٰ خان نے پانچ نکات پر مشتمل امن مساعی کی پیشکش کی۔ یحییٰ تجویز کر رہے تھے کہ؛ ہندوستان اور پاکستان عدم جارحیت کے معاہدے پر دستخط کریں۔ ہندوستان مشرقی پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات بحال کرے ۔
نورالامین (مجیب کے مخالف ایک منتخب بنگالی سیاست دان) کو پورے پاکستان کے لیے حکومت کا سربراہ مقرر کیا جائے ؛مہاجرین کی مشرقی پاکستان واپسی؛ اور تین سال میں ریفرنڈم کرایا جائے گا تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ مشرقی پاکستان آزاد ہونا چاہتا ہے یا نہیں۔ دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر سجاد حیدر بھی ان تجاویز پر زور دے رہے تھے ۔ اندرا گاندھی نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں انتخابات ہو چکے ہیں، اور ان میں عوام نے رائے دی ہے اس لیے نورالامین کو سربراہ بنانا اور رائے شماری پر ان کو اعتراض تھا۔اس دوران اسلام آباد میں امریکی سفیر، جوزف فارلینڈ تہران میں ہندوستان، عوامی لیگ اور پاکستان کے نمائندوں کی میٹنگ کروانے کے حوالے سے پرجوش تھے ۔ ہندوستان ہائی کمشنر ان کو امیدیں دلا رہے تھے ۔ وہ ان کو بتا رہے تھے کہ پاکستان میں یحییٰ کے ذریعے فوری طور پر ایک سویلین حکومت کی تشکیل اور اقتدار کی منتقلی بروقت اقدام ہوسکتا ہے ۔امریکی سفیر جب یہ سب کچھ ہندوستانی ہائی کمشنر کے ساتھ طے کر نے کے بعد گھر پہنچا، تو اس کو معلوم ہوا کہ جنگ شروع ہو چکی ہے ۔ اسلام آباد میں سوئٹزرلینڈ نے ہندوستان کے سفارتی مفادات کی دیکھ بھال کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔اٹل کو گھر میں نظربند کر دیا گیا۔ اگلے دو ہفتوں تک وہ حالات و واقعات سے بے خبر رہے ۔
پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے سے قبل سلامتی کونسل میں قرارداد آنے سے پہلے یحییٰ خان نے بھٹو سے ٹیلی فون پر بات کی اور انہیں بتایا کہ پولینڈ کی قرارداد اچھی لگ رہی ہے اور اس کو قبول کرنا چاہیے ۔’ بھٹو نے جواب دیا تھا، ‘میں آپ کو سن نہیں سکتا’۔ جب یحییٰ نے خود کو کئی بار دہرایا تو بھٹو نے صرف اتنا کہا، ‘کیا کیا’؟ جب نیویارک میں فون آپریٹر نے مداخلت کرکے کہا کہ فون کی لائن ٹھیک ہے ، تو بھٹو نے اس کو جھڑک دیا۔واضح طور پر، بھٹو کا یحییٰ کی ہدایات پر عمل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ بھٹو نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس قرار داد کو تسلیم نہیں کرتے ہیں اور واک آؤٹ کیا۔ بساریہ کے مطابق بھٹو کے اقوام متحدہ سے واک آؤٹ کرنے کے فیصلے نے پاکستانی فوج کو ہتھیار ڈلوانے پر مجبور کردیااور ہندوستان کی فیصلہ کن فتح ہوئی۔
سن 1972 میں شملہ کے مقام پر مذاکرات ناکامی کی طرف بڑھ رہے تھے ۔ آدھی رات کے وقت جب بھٹو الوداعی ملاقات کرنے اندرا گاندھی کے پاس پہنچے ، تو ان کو بتایا ان کو وقت دیا جائے ، تاکہ وہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان میں رائے عامہ کو تیار کرکے لائن آف کنٹرول کو معمولی ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ بین الاقوامی سرحد کے طور پر تسلیم کروائیں۔ 2 جولائی کی صبح ایک معاہدہ طے پا یاگیا۔اس نے دوطرفہ ازم کے اصول پر زور دیا۔ آخر کار 1976 کے وسط میں دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات دوبارہ شروع ہوئے ۔ 24 جولائی کو کے ایس باجپائی اور سید فدا حسین سفیر نامزد کردیے گئے ۔
کتاب کے مطابق جب اٹل بہاری واجپائی نے 1978 میں بطور وزیر خارجہ پاکستان کا دورہ کیا، تو اس سے قبل انہوں نے دہلی میں اپنی اردو کو درست اور چست کرنے کے لیے کالج کے پروفیسر سے باضابطہ کلاسیں لیں۔ اسلام آباد میں تقاریب کے دوران انہوں نے اردو اشعار و نثر کا بھر پور مظاہرہ کیا۔ اس حد تک کہ پاکستان، جس کی سرکاری زبان اردو تھی،کے وزیر خارجہ آغا شاہی کو اپنی انگریزی تقریر کا اردو میں ترجمہ کرنا پڑا۔ مگر وہ اس کو اٹک اٹک کر پڑھ رہے تھے ۔ واجپائی اپنے میزبانوں کے مقابلے نہایت ہی شستہ اردو بول رہے تھے ۔ سن 1980 میں اندرا گاندھی نے ایک منجھے ہوئے سفارت کار نٹور سنگھ کو بطور ہائی کمشنر نامزد کردیا۔ صدرضیاء الحق نے ان سے ملاقات کے دوران کہا کہ’ کنور صاحب، کشمیر میرے خون میں شامل ہے ‘۔سنگھ نے جواب دیا، ‘سر، کشمیر میری ہڈیوں کے گودے میں شامل ہے ‘۔ خیر 15 ستمبر 1981 کو، ضیاء الحق نے ہندوستان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کے معاہدے کی پیشکش کی۔ اس سے قبل بھٹو ہندوستان کی طرف سے اسی طرح کی تجویز کو مسترد کر چکے تھے ۔ان کے خیال میں یہ مسئلہ کشمیر کو منجمد کرنے کی ایک سازش تھی۔ اس وقت اب ہندوستان کی باری تھی کہ اس کو مستر د کرے ۔ ہندوستانی افسران کا کہنا تھا کہ یہ پیشکش امریکہ کی ایما پر کی گئی ہے ، تاکہ پاکستان کو 3.2 بلین ڈالر کے فوجی پیکیج سے نوازا جائے اور ہندوستان کو یقین دلایا جائے کہ امداد اس کے خلاف نہیں ہے ۔
ہندوستانی سفارت کار کیول سنگھ کے مطابق، ہندوستان کا اس تجویز کو ٹھکرانا ایک فاش غلطی تھی۔مگر ہندوستان میں حکومتی افراد کی اکثریت اس معاہدے کو مزید ہتھیاروں کے لیے امریکی منظوری حاصل کرنے کے لیے ایک چال کے طور پر دیکھ رہی تھی۔اسی دوران ہندوستانی پنجاب میں سکھ علیحدگی پسندی انتہا پر تھی۔ اس معاملے پر گفت و شنید کے لیے جولائی 1984میں وزیر اطلاعات و نشریات ایچ کے ایل بھگت کو اسلام آباد بھیجا گیا ۔ضیاء الحق نے ان کی خوب آؤ بھگت کی اور اعلیٰ دودھ دینے والی ساہیوال گائے ان کو تحفہ میں دی۔ بھگت کا خاندان مغربی پنجاب کے ساہیوال ضلع سے ہی ہندوستان منتقل ہو گیا تھا۔ واپسی پر وہ ضیاء الحق کے قصیدہ پڑھ رہے تھے ۔
اسی دوران سیاچن کا قضیہ شروع ہو گیا، جس کے جواب میں پاکستان کے کچھ فوجی افسران نے ‘کرگل پلان’ کا خاکہ ضیاء الحق کے سامنے رکھا، جس کا مقصد لداخ میں کرگل کے علاقے پر قبضہ کرنا تھا، مگر ضیا نے اس تجویز کو ناقابل عمل قرار دے کر مسترد کر دیا۔اسی طرح ہندوستان میں فوجی سربراہ جنرل سندر جی 1987 کے وسط میں ایل او سی کے اس پار تقریباً 60 کلومیٹر کے فاصلے پر خپلو میں ایک ہوائی آپریشن کا منصوبے بنایا۔ آپریشن ہیمر ہیڈ کا مقصدد سیاچن گلیشیئر سے پاکستانی مواصلاتی لائنوں کو منقطع کرنا تھا۔ مگر خیر ہوئی کہ ہندوستان میں بھی اس کو غیر عملی اور خطرناک بتایا گیا اور کابینہ میں لانے سے قبل ہی اس کو دبا دیا گیا۔سیاچن کی کشیدگی کے دوران اردن کے شاہ حسین بن طلال، جو راجیو گاندھی کے ذاتی دوست تھے ، نے اپنے بھائی ولی عہد شہزادہ حسن کے صدر ضیاء کے ساتھ روابط کا استعمال کرتے ہوئے ، دونوں ممالک کو قریب لانے کی پہل کی۔جس کے نتیجے میں آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل حمید گل اوربھارتی خفیہ ایجنسی راء کے سکریٹری اے کے ورما نے عمان میں ملاقات کی۔ وزیر اعظم راجیو گاندھی نے تفصیلات پر کام کرنے کے لیے اپنے دست راست سفارت کار رونن سین کو متعین کیا۔
بساریہ کے مطابق، دو انٹلی جنس سربراہوں کی طرف سے جو حل نکالا گیا، وہ کامیاب اور عملی حل تھا۔ اس کے بعد 1992 اور پھر 2006 میں بھی دونوں ممالک نے اس سلسلے میں پہل کی، مگر کسی معاہدے پر دستخط نہیں ہوسکے ۔پاکستان میں اب ایک نئی جمہوری حکومت وجود میں آچکی تھی۔ راجیو گاندھی کے سفارتی مشیر، رونن سین، دسمبر 1988 کی ایک صبح سارک سربراہی اجلاس کے لیے اپنے باس کے دورے کی تیاری کرنے کے لیے اسلام آباد آپہنچے ۔ کراچی میں پاکستان کے نو منتخب وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے ساتھ ان کی ایسی ملاقات ہوئی، جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی ہے ۔ جب رونین سین نے کسی حساس معاملے پر بات چیت شروع کی، تو بے نظیر نے ہونٹوں پر انگلی اٹھا کر ایک کاغذ کی پرچی پر لکھا کہ کمرہ بگ ہو سکتا ہے ۔ دونوں نے کاغذ کی پرچیوں کے ذریعے گفتگو کو آگے بڑھایا۔سین پاکستان کے جوہری پروگرام کے بارے میں استفسار کر رہے تھے ۔ بے نظیر نے ان کو بتایا کہ یہ فوج کے زیر تصرف ہے اور ان کو اس بارے میں علم نہیں ہے ۔ بے نظیر نے کہا کہ سارک کے ذریعے ہندوستان کے ساتھ تعلقات رکھنا ان کے لیے زیادہ آسان ہوگا۔ جیسے ہی میٹنگ ختم ہوئی، بے نظیر نے سین سے کہا کہ وہ اپنے ریمارکس کو ریکارڈکا حصہ نہ بنائیں۔ بے نظیر نے بھی راجیو کے ساتھ ملاقات کرنے کے لیے خصوصی ایلچی اقبال آخوند اور ایک پاکستانی پارسی معتمد ہیپی من والا کودہلی بھیجا۔وہ واضح طور پر اپنے وزیر خارجہ یعقوب خان پر بھروسہ نہیں کرتی تھیں، جنہیں انہوں نے پاکستان کے صدر غلام اسحاق خان کے مشورے پر برقرار رکھا تھا۔
سن1991 کو وزیر اعظم چندر شیکھر کی نئے وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ جے این دکشت کے مطابق، نوازشریف نے چندر شیکھر کو مشورہ دیا کہ ان کی حکومت کو وادی میں رائے شماری کی اجازت دینے پر ‘سنجیدگی سے غور’ کرنا چاہیے ، تاکہ ہندوستان لداخ اور جموں کو اپنے پاس رکھ سکے ، جبکہ پاکستان اپنے حصہ والے کشمیر کو اپنے پاس رکھے ۔ وادی بعد میں پاکستان میں شامل ہو جائے گی۔ستیندر کمار لامبا جنہوں نے اب 1992 میں ہائی کمشنر کا عہدہ سنبھالا تھا، پایا کہ بے نظیر بھٹو اب ایک بدلی ہوئی شخصیت تھیں۔ وہ ہندوستان کے ساتھ تعلقات میں اب مزید دلچسپی نہیں رکھتی تھیں۔ وہ لامبا کو ملاقات کے لیے وقت بھی نہیں دیتی تھی۔بساریہ کے مطابق، وہ لامبا کو اپنے سیاسی حریف اور پیش رو نواز شریف کا دوست سمجھتی تھی۔اپنی دوسری مدت میں بے نظیر کا ہندوستان کے تئیں رویہ کیوں سخت ہوگیا تھا، ہنوز ایک معمہ ہے ۔ ستیش چندرا نے 1995 میں ہائی کمشنر کا عہدہ سنبھالا اور جلد ہی دونوں فریقوں کے درمیان خفیہ ‘بات چیت کے دور شروع ہوئے ۔ اس گفتگو میں چار سفارت کار شامل تھے : ہندوستان کے خارجہ سکریٹری سلمان حیدر اور پاکستان کے نجم الدین شیخ، ہائی کمشنر ستیش چندرا اورریاض کھوکھر۔ان کی پہلی ملاقات دہلی کے حیدر آباد ہاؤس میں دوپہر کے کھانے کے دوران ہوئی۔ان کی ملاقاتوں کے نتیجے میں 1997میں مربوط مذاکرات کے میکانزم کا قیام عمل میں آیا۔جب اٹل بہاری واجپائی نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا، تو وہ فوراً ہی یعنی اپریل 1998 میں جوہری دھماکے کرنا چاہتے تھے ۔ لیکن صدر کے آر نارائنن لاطینی امریکہ کے دورے پر جا رہے تھے ۔ یہ دھماکہ واجپائی کے لیے کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا۔ بساریہ جو واجپائی کے پرسنل سکریٹری بھی رہ چکے ہیں کا کہنا ہے کہ 11 مئی کو، واجپائی نے ریس کورس روڈ نمبر 5 کے بنگلہ کے ایک کنٹرول روم کابینہ کے اپنے چنندہ ساتھیوں کے ساتھ انتظار کر رہے تھے کہ چار بجے کے آس پاس ان کے سائنسی مشیر عبدالکلام نے فون کیا۔ اس کو واجپائی کے پرنسپل سکریٹری برجیش مشرا نے اٹھایا اور ان کو کامیاب جوہری دھماکوں کی نوید سنائی۔
ادھر اسلام آباد میں27 مئی کی رات گئے 1 بجے ہندوستانی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ میں طلب کیا گیا۔ سکریٹری خارجہ شمشاد احمد نے ان کو بتایا کہ کہ پاکستان کے پاس مصدقہ اطلاعات ہیں کہ ہندوستان پاکستان کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے والا ہے اور اس کے لیے چنئی کے ہوائی اڈے ایف سولہ طیارے تیار کرائے جا رہے ہیں۔ جب ہائی کمشنر نے نشاندہی کی کہ ہندوستان کے پاس اس طرح کے طیارے نہیں ہیں، تو احمد نے کہا کہ ہوائی جہاز اسرائیلی ہو سکتے ہیں۔ گو کہ بساریہ نے ان کے ہدف کی نشاندہی نہیں کی ہے ، مگر لگتا ہے کہ ان کا ہدف چاغی کا میدان تھا،جہاں اگلے روز پاکستان دھماکے کرنے والا تھا۔
بساریہ کا کہنا ہے کہ آگرہ کے سربراہی اجلاس کے دوسرے د ن پاکستانی صدرپرویز مشرف نے ہندوستان کے بڑے اخبارات اور ٹی وی نیکس کے ایڈیٹرز کے ساتھ ناشتے کے دوران گفتگو کی۔ اس تقریب کو این ڈی ٹی وی نے فلمایا، پاکستانی سفارت خانے کے ساتھ بظاہر سمجھوتہ تھا کہ اس پروگرام کو ٹیلی کاسٹ نہیں کیا جائے گا۔تاہم، این ڈی ٹی وی نے جلد ہی پوری گفتگو ٹیلی کاسٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ہوٹل میں ہمارے عارضی پی ایم او میں، برجیش مشرا اور میں نے اس انٹرویو کو دیکھا۔ مشرا میری طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ پی ایم کو اس پیش رفت سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے ، کیونکہ وہ میٹنگ روم کے باہر ہونے والی ہر بات سے غافل مشرف کے ساتھ بات چیت میں بیٹھے تھے ۔مشرا نے چند سطریں لکھیں۔ میں نے انہیں جلدی سے ٹائپ کیا، اور کمرے کے اندر چلا گیا۔
نوٹ میں بنیادی طور پر کہا گیا تھا کہ پرویز مشرف کی ایک پریس کانفرنس ٹیلی کاسٹ کی جا رہی تھی، جہاں انہوں نے اپنے سخت گیر موقف کو دہرایا ہے ۔اس کمرے میں واجپائی اور مشرف کے علاوہ دو نوٹ لینے والے بیٹھے تھے ۔ مشرف بات کر رہے تھے اور واجپائی بڑی دلچسپی سے سن رہے تھے ۔ بساریہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے کاغذ باس کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ کچھ اہم پیش رفت ہوئی ہے ۔ میرے کمرے سے نکلنے کے بعد، واجپائی نے کاغذ پر نظر ڈالی اور پھر اس میں سے مشرف کو پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ ان کا رویہ بات چیت میں مددگار نہیں ہے ۔
بساریہ کا کہنا ہے دسمبر 2001 کو جب پارلیامنٹ پر حملہ ہوا تو واجپائی اس کی زد میں آسکتے تھے ۔ وہ تقریباً 11.10 بجے ریس کورس روڈ سے پارلیامنٹ جانے کے لیے گاڑی میں بیٹھ رہے تھے کہ انہوں نے ٹی وی پر دیکھا کہ ہنگامہ کی وجہ سے لوک سبھا کی کارروائی ملتوی کی گئی ہے ۔ میں نے جاکر ان کو بتایا کہ پارلیامنٹ کی کارروائی ملتوی ہو گئی ہے اس لیے بہتر ہے کہ جو فائلیں کئی دنوں سے پڑی ہیں، ان کو نمٹایا جائے ۔
واجپائی گاڑی سے نیچے اترے اور فائلیں طلب کیں۔ جب ان کے ایک اور پرسنل سکریٹری آر پی سنگھ ان کو ایک ایک فائل کے بارے میں بتا رہے تھے کہ پارلیامنٹ سے فون آیا کہ وزیر اعظم کو روک دوں کیونکہ وہاں گولیاں چل رہی ہیں۔ بعد میں وزیر اعظم کی سیکورٹی نے بساریہ کا شکریہ ادا کیا۔بساریہ کا کہنا ہے آگرہ کے برعکس واجپائی کے 2004 کے دورہ اسلام آباد کی بھر پور تیاریاں کی گئیں تھیں۔ واجپائی کے دورہ کے دروان ان کے داماد رنجن بھٹاچاریہ اسلام آباد کے مشہور گولف کلب میں گولف کے ایک راؤنڈ میں حصہ لینے کے لیے پہنچے ۔ کورس میں، کوئی اور گولفرز نہیں تھا۔ اچانک، مسلح سیکورٹی اہلکار درختوں کے جھرمٹ کے پیچھے سے نمودار ہوئے اور ان کو گھیر کر کہا کہ جلدی بھاگ جاؤ۔ واجپائی کا داماد کھیلنے آ رہا ہے ۔
واجپائی نے اپنے قابل اعتماد پرنسپل سکریٹری، برجیش مشرکومئی 2003 میں اسلام آباد بھیجا تھا، جہا ں اس نے اپنے نئے نامزد ہم منصب طارق عزیزکے ساتھ ایک تعلق قائم کیا۔جب لامبا کو 2005 میں پی ایم او میں خصوصی ایلچی کے طور پر مقرر کیا گیا تھا، تو انہوں نے برجیش مشرا کی سعی کو آگے بڑھایا۔ منموہن سنگھ نے ان کو مینڈیٹ دیا تھا کہ سرحدوں کو دوبارہ کھینچنے کے بغیر انسانی بنیادوں پر جو حل نکل سکتا ہے اس کی کوششیں کی جائیں۔
جب نومبر2008 میں ممبئی میں حملہ شروع ہوا تو ہائی کمشنر ستیہ برتا پال پاکستان کے نئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ دہلی میں موجود تھے ۔ قریشی خود سی این این آئی بی این کو پاکستان کے ہائی کمشنر شاہد ملک کی رہائش گاہ، پر انٹرویو دے رہے تھے ، جو کبھی نشر نہیں ہوا۔ ویسے تو ایسے موقعوں پر بات چیت کے بعد عشائیہ میزبان دیتا ہے مگر پر اسرار طور پر وزیر خارجہ پرنب مکھرجی نے پہلے ہی اس دورہ کی تفصیلات طے کرنے کے وقت ہی عشائیہ کی میزبانی سے معذوری ظاہر کی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان وزیر کو آنے والی چیزوں کے بارے میں کوئی سن گن تھی۔
تاہم، مکھرجی نے اگلے دن چنڈی گڑھ میں قریشی کے ساتھ لنچ کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔اگلی صبح، مکھرجی نے چندی گڑھ کا اپنا دورہ منسوخ کر دیا، لیکن قریشی نے جے پور، اجمیر اور چندی گڑھ کے لیے اپنے طے شدہ پروگرام کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ دہلی کے ویمن پریس کلب میں 27 نومبر کو قریشی کی پریس کانفرنس تھی کہ پاکستانی ہائی کمشنر شاہد ملک کے فون کی گھنٹی بجی۔ یہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل کیانی تھے ، جو صدر آصف علی زرداری کے اس بیان سے ناراض تھے ، جس میں آئی ایس آئی کے سربراہ کوہندوستان بھیجنے کی پیشکش کی گئی تھی۔
میڈیا میٹنگ کے دوران ملک کو ایک اور کال موصول ہوئی۔ اس بار، یہ پرنب مکھرجی تھے ، جنہوں نے قریشی کو بتایا کہ وہ فی الفور ہندوستان چھوڑ دیں۔ اگلی صبح 4 بجے پاکستان ایئر فورس کا ایک طیارہ وزیر کو گھر لے جانے کے لیے دہلی آگیا۔شاید پہلی بار کسی ملک کے وزیر خارجہ کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہو۔
خیر جب منموہن سنگھ دفتر چھوڑنے کی تیاری کر رہے تھے ، نواز شریف تجارتی ایجنڈے کے ساتھ مضبوطی سے آگے بڑھ رہے تھے ۔ پاکستان نے مارچ 2014 میں کابینہ کے اجلاس میں ہندوستان کو ایم ایف این کا درجہ دینے کا فیصلہ بھی کیا تھا۔اس کا نیا نام این ڈی ایم اے (مارکیٹ تک غیر امتیازی رسائی)رکھا گیا۔ ایک نئے پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے مارچ میں نئی دہلی میں عہدہ سنبھالا اور یہ معاملہ ان کی میز پر آ گیا۔پاکستان کے وزیر تجارت خرم دستگیر خان نے جنوری میں نئی دہلی کا دورہ کیا تھا اور یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ پاکستان جلد ہی این ڈی ایم اے کو ہندوستان تک توسیع دے گا۔ اس مقصد کے لیے ان کے ہندوستانی ہم منصب آنند شرما جلد از جلد پاکستان کا دورہ کرنے کے لیے بے حد خواہشمند تھے ، جب ان کے دورہ پاکستان کی تاریخوں پر کام ہو رہا تھا، تو باسط کو دہلی میں آنے والے وزیر اعظم نریندر مودی کے قریبی افراد نے بتایا کہ اس قدم کو الیکشن ختم ہونے تک موخر کریں۔چونکہ اگلی حکومت بی جے پی کو بنانی ہے ، دونوں ممالک کے لیے یہ اعلان ایک اچھا اسٹارٹ ہوگا۔ 2015 میں کرسمس کے دن، اسلام آباد میں ہائی کمشنر ٹی سی اے راگھون کوخارجہ سکریٹری ایس جے شنکر کی طرف سے صبح 8 بجے ایک کال موصول ہوئی۔ ان کو بتایا گیا کہ وہ اپنے وزیر اعظم کے استقبال کے لیے تیار رہیں۔ جب راگھون نے پوچھا کہ کیا نواز شریف واقعی اس دن اپنے مہمان کا استقبال کرنے کے لیے اسلام آباد میں ہوں گے ، تو سکریٹری خارجہ نے چند منٹوں کے بعد واپس فون کیا کہ دونوں رہنما چند گھنٹوں میں لاہور میں ملاقات پر راضی ہو گئے ہیں۔صبح 10 بجے تک راگھون موٹر وے سے لاہور کی طرف رواں تھے ۔
ایئر پورٹ کے بجائے وہ سیدھے رائیونڈ شریف کی رہائش گاہ پہنچے ۔مودی نے بعد میں کہا کہ انہوں نے کابل سے نواز شریف سے فون پر بات کرنے کے بعد لاہور میں اترنے کا فیصلہ کیا تھا۔ مگر بساریہ کے اس بیان کے مطابق لگتا ہے کہ اس کی تیاری صبح دہلی میں کئی گئی تھی۔اس کتاب کا نہایت قلیل حصہ ہی اجے بساریہ کی اپنے دور کا احاطہ کرتا ہے ۔ ان کو 2017 میں بطور ہائی کمشنر نامزد کر دیا گیا۔ اس دوران پلوامہ، بالاکوٹ اور پھر کشمیر کی داخلی خود مختاری کو ختم کرنے کے واقعات ہوئے ۔ان کا کہنا ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی عاصم منیرکی طرف سے ان کو واضح پیغام تھا کہ پاکستان عسکریت پسندی کو ختم کرنے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے ، جموں و کشمیر میں مزید دہشت گردی کے واقعات نہیں ہوں گے ، سرحد پار سے دراندازی نہیں ہوگی۔ان کا کہنا ہے کہ ایک پاکستانی واقف کار، جو فوج اور سویلین حکومت دونوں کے قریب تھا، نے ان کو یقین دلایا کہ جیش محمد کے 1800 ارکان کو گرفتار کیا جائے گا۔ بساریہ کا کہنا ہے کہ ان کے واقف کار نے ان کو رات کو فون پر بتایا کہ القاعدہ کشمیر میں حملے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے ۔ انہی دنوں کشمیر کے ضلع پلوامہ کے ترال قصبے میں القائدہ سے تعلق رکھنے والے ذاکر موسیٰ کو مارا گیا تھا۔ اور القاعدہ بظاہر موسیٰ کے قتل کا بدلہ لینے والی تھی۔ اس وقت عاصم منیر آئی ایس آئی کے ڈی جی تھے ۔ پتہ چلا کہ یہ ایک سچی اطلاع اور ایک غیر معمولی ان پٹ تھا جو پاکستان ہندوستان کو دے رہا تھا۔
کشمیر میں اگست 2019 سے کے اقدامات سے قبل بساریہ سے ان پٹ لیے گئے تھے کہ پاکستان کیا کچھ کرسکتا ہے ؟انہوں نے ہندوستانی لیڈروں کو مشورہ دیا کہ پاکستان کے ردعمل سے زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہیے ۔ انہوں نے دلیل دی کہ پاکستان اس وقت سب سے کمزور پوزیشن میں ہے اور کشمیر پر کسی فوجی مہم جوئی کا خطرہ مول نہیں لے گا اور اس کا پورا زور بیان بازی پر ہی مرکوز ہوگا۔بساریہ کا کہنا ہے کہ ان کو کشمیر پر آنے والی کارروائی کا اندازہ تھا، مگر مخصوص ٹائم فریم کا علم نہیں تھا۔
بہر حال دونوں ممالک کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کے عوام کے تحفظ اور خوشحالی کا بس ایک ہی طریقہ ہے کہ دیرینہ تنازعات کو حل کریں۔جو ممالک لچک اور تخلیقی صلاحیتیں اپناتے ہیں، وہی اپنے عوام کے خیر خواہ ہوتے ہیں۔ جنوبی ایشیاء کے 2 ارب باشندوں کی خوشحالی کا ضامن ہندوستان اور پاکستان کے درمیان پائیدار رشتوں کی بقاء میں ہی ہے ۔