... loading ...
جاوید محمود
عالمی تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ماحولیات کا تعلق براہ راست صحت سے ہوتا ہے۔ پاکستان میں جیسے ہی گرمی کی شدت عروج پر پہنچتی ہے تو اکثر لوگ یہ کہتے ہیں نظر آتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں تاکہ گرمی کی شدت میں کمی ہو۔ واضح رہے کہ 2021 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صرف 5فیصد جنگلات باقی رہ گئے تھے۔ ایسے میں جب عوام اپنی مصروف زندگی سے وقت نکال کر درخت لگانے کا سوچتے ہیں تو انہیں کئی سوالات کا سامنا ہوتا ہے۔ ان میں سے کچھ ایسے سوالات جو سب سے پہلے ذہن میں آتے ہیں کہ کون سا درخت لگایا جائے، کہاں لگایا جائے، پرورش کیسے کی جائے وغیرہ وغیرہ کیونکہ کہیں درخت لگانے کی جگہ نہیں ہوتی تو کہیں پودا زیادہ دن تک زندہ نہیں رہتا۔ کہیں درخت بڑے ہو کر بجلی کی لٹکی تاروں میں الجھ جاتے ہیں یا ان کی جڑیں زمین کے نیچے گزرتی سیوریج یا دیگر سروس لائنوں کو جکڑ کر انہیں نقصان پہنچاتی ہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ پاکستان میں لوگ درخت نہیں پودا لگاتے ہیں۔ نرسری میں اکثر بیجوں یا قلموں سے پودا اگایا جاتا ہے اور جب وہ ایک یا دو سال کا ہو جاتا ہے تو اسے فروخت کیا جاتا ہے۔ لیکن صرف پودے لگانے سے گرمی کم نہیں ہوتی اس بات کا خیال رکھنا ہوتا ہے کہ یہ ایک سایہ دار درخت بن جائے شہروں میں ایسی جگہ درخت لگانا چاہیے جہاں حکام سے اجازت لینے کا مسئلہ نہ ہو۔ سب سے زیادہ آسان یہی ہے کہ اپ اپنے گھر میں یا گھر کے ارد گرد درخت لگائیں جس کے لیے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں۔ اگر اپ اسکولوں اور ہسپتالوں یا پارکس وغیرہ میں پودا لگانا چاہتے ہیں تو ہمیشہ انتظامیہ سے پوچھ کر لگائیں اور اس کی دیکھ بھال کی ذمہ داری لیں ۔علاقے کی جغرافیائی صورتحال کو مد نظر رکھ کر درخت لگائیں ۔درختوں میں مختلف سائز ہوتے ہیں۔ سڑک کے کنارے یا گلیوں میں پیپل کا درخت نہ لگائیں۔ کیونکہ وہ پھیل جاتا ہے اور بہت بڑا ہو جاتا ہے۔ آخر میں وہ بیچارہ درخت کاٹ دیا جاتا ہے۔ آپ واپس زیرو پر آ جاتے ہیں بلکہ مائنس میں چلے جاتے ہیں ۔ماہرین کے مطابق مقامی درخت لگانے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس سے الرجی کا خطرہ نہیں ہوتا اور باہر سے آیا کوئی دوسری قسم کا درخت مقامی درختوں کو نقصان بھی نہیں دیتا۔ آپ جتنا بڑا درخت لگائیں گے وہ اتنی جلدی بڑا ہوگا اور چھاؤں دے گا۔ کم سے کم چار فٹ کا پودا لگانا چاہیے تاکہ اس کی دیکھ بھال میں آسانی ہو۔ پودے کا کم از کم تین سال خیال رکھنا ہوتا ہے کیونکہ چار فٹ کے پودے کو درخت بننے میں کم از کم تین سے پانچ سال لگتے ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی رواں برس گرمی کی یکے بعد دیگر آنے والی لہروں کی لپیٹ میں رہا ہے۔ شہر والے ایک لہر کے اثرات سے نکلنے نہیں پاتے کہ گرم موسم کی دوسری لہر سر پر کھڑی ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں گرمی شدید بڑھنے کی وجہ موسمیاتی تبدیلی ہے جس کا ایک عنصر درختوں کی کٹائی اور نئے درخت نہ لگائے جانا ہے۔ اس صورتحال میں شہر بھر میں درخت لگاؤ مہم کا آغاز ہو اور سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر شہریوں کو ہر گھر کے سامنے ایک درخت یا پودا لگانے کی تجویز دی جائے۔ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ شہر میں گرمی میں اضافے کی وجہ غلط اقسام کے درخت لگائے جانا بھی بنی ہے، جہاں حکومت اربوں روپے خرچ کر رہی ہے۔ وہیں کراچی کے ماسٹر پلان کی پرانی دستاویزات دیکھ لی جائیں تو کافی مدد ہو سکتی ہے ۔
ماسٹر پلان کے مطابق کراچی کے ساتھ زون بنائے گئے تھے اس پلان میں ساتوں علاقوں کی مٹی کے مطابق ان علاقوں کے لیے مختلف جھاڑیاں کون سی ہونی چاہیے، پھول کون سے ہونے چاہیے ،بیل کون سی ہونی چاہیے اور درخت کون سے ہونے چاہیے۔ یہ تمام باتیں پلان میں موجود ہیں اگر حکومت خود اس پر عمل نہیں کر سکتی تو مقامی سطح پر کام کرنے والے اداروں کے ذریعے ان پر عمل درآمد کروا سکتی ہے۔ اس حوالے سے یہ بات بھی نوٹس میں آئی کہ بہت سے لوگ ماحولیاتی عناصر اور موسمیاتی تبدیلی میں تفریق نہیں کر پا رہے۔ کراچی میں گرمی کی شدت میں اضافے کے پیچھے صرف موسمیاتی نہیں تعمیراتی وجوہات بھی ہیں۔ یہ بھی سوچنا چاہیے کہ پرانے گھر کیوں ٹھنڈے ہوتے تھے کیوں آج کی نسبت پہلے گرمی میں شرح اموات کم ہوتی تھیں۔ اس میں ایک قابل ذکر بات یہ بھی بار بار سامنے آتی ہے کہ 1960 کی دہائی میں کراچی میں درخت آج کے مقابلے میں کم تھے لیکن چونکہ اس وقت آبادی کا تناسب کم تھا اور افق کی ترقی ہو رہی تھی تو اس کمی کے غیرمثبت نتائج سامنے نہیں آئے جتنے آج دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ گرمی کی شدت میں ہونے والی اموات میں ایک پہلو اکثر بحث و مباحثے میں کھو جاتا ہے ۔ وہ ہے زیادہ تر خواتین کا گھر کے اندر یا فیکٹریوں میں کام کرنا ،مردوں کو تو پھر بھی یہ سہولت حاصل ہے کہ وہ گھر سے باہر جا کر بیٹھ سکتے ہیں لیکن اب بھی بہت سے علاقوں میں خواتین یہ نہیں کر سکتی جس کے بارے میں گھروں میں گفتگو ہونا ضروری ہے۔ پاکستان میں چند ماحولیاتی دن یکجا کر لیے ہیں جن میں لوگ اہم شخصیات کو بلا کر ان سے پودا لگواتے ہیں۔ تصویریں بنوا لیتے ہیں لیکن اس کے بعد اس پودے کو کیا ہوتا ہے کسی کو نہیں پتہ چلتا ۔
کراچی میں درختوں کی تعداد میں کس حد تک کمی ہوئی۔ اس بارے میں ماہرین صرف تخمینہ لگا رہے ہیں ۔ڈائریکٹر پارکس کی طرف سے ایک اخبار کو دیا گیا انٹرویو جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پہلے کراچی کے رقبے کے مطابق کوئی چھ فیصد پودوں کا لینڈ کور تھا جو 2012 اور 2013 کی بیچ میں تین فیصد رہ گیا۔ ترقیاتی کاموں کی وجہ سے حال ہی میں یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شاید اب یہ تین فیصد بھی نہ رہا ہو گرمی اور درختوں کا براہ راست تعلق اس لیے نہیں ہے کیونکہ گرمی کی شدت موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہو رہی ہے لیکن بالواسطہ طور پر درخت گرمی کی شدت کو کم کرنے میں کارگر ثابت ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ اس سے درخت کے سائے میں کھڑے ہو کر درجہ حرارت میں کمی محسوس ہوتی ہے۔ ان سب باتوں سے دور تقریبا دو سال پہلے اس وقت کی حکومت نے کراچی اور پاکستان میں شہری جنگل کی بنیاد رکھی تھی۔ ماہرین کے مطابق اس میں ایک چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کے اندر جنگل اُگایا جا سکتا ہے جس کو تین سال کے اندر کسی قسم کی دیکھ بھال کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ یہ جنگل مقامی اور آبائی درختوں کے ساتھ بنتا ہے جن کے اندر اس دائرے میں رہتے ہوئے اس سسٹم کو ٹھیک کرنے کی صلاحیت اور طاقت ہوتی ہے۔ ماہرین لوگوں تک یہ حل پہنچا دیں تاکہ لوگ اپنے طور پر اپنے گھروں کے اندر یا باہر اسکولوں، مساجد،
فیکٹریوں میں خود یہ جنگل لگا سکیں ۔ ساتھ ہی شہری حکومتوں کو بھی آمادہ کیا جا سکے کہ ان تمام کھلے بڑے علاقوں میں ان جنگلوں کو آباد کیا جائے۔ ماہرین کے مطابق نہ صرف یہ تین سال کے اندر ایک گھنے جنگل کی شکل اختیار کر لے گا بلکہ اس جنگل کے 30گنا زیادہ فوائد مل سکیں گے۔ گھنے درخت اور پودے اللہ کی بڑی نعمتوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ترقیافتی ممالک میں ان پر بھرپور توجہ دی جاتی ہے کیونکہ ماحولیات اچھی ہوگی تو اس کے صحت پر مثبت اثرات پڑتے ہیں۔