وجود

... loading ...

وجود

بھارت میں نئے فوجداری قوانین نافذ

هفته 13 جولائی 2024 بھارت میں نئے فوجداری قوانین نافذ

ریاض احمدچودھری

بھارتی اقلیتیں ہمیشہ سے مودی سرکار کو کٹھکتی رہی ہیں جس کی بناء پر انھیں بھارتی حکومت کے عتاب کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ مودی سرکارکے اقتدار میں آنے کے بعدگزشتہ ایک دہائی سے بھارت میں اقلیتیں خود کو غیرمحفوظ سمجھتی ہیں۔ مودی نے حالیہ انتخابات میں بھی اس بات کوواضح کر دیا ہے کہ مودی بھارت کو اقلیتوں سے پاک کرکے صرف ہندوتوا ریاست کے قیام کو یقینی بنائے گا۔ بھارت میں آئے روز مودی سرکارکی جانب سے اقلیتوں پر ہونے والے مظالم اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ بھارت میں اقلیتوں کے لئے کوئی جگہ نہیں،انتخابات سے قبل مودی نے دیگر اقلیتوں کو نشانے پر رکھتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف بھی شدید زہر اگلا۔ انتہا پسند مودی سرکار نے ناصرف مسلمانوں کو ناسور سے تشبیہ دی بلکہ ان کے گھروں، دکانوں حتی کہ مساجدکو بھی مسمارکر دیا، بھارتی انتخابات میں مسلمان مخالف کارڈ کامیابی سے کھیلنے کے بعد اب مودی سرکار عملی اقدامات پر اتر ائی ہے۔
مودی سرکار نے بھارتی مسلمانوں، آدیواسیوں اور دلتوں کے خلاف نئے فوجداری قوانین متعارف کروا دئیے، مودی سرکار کی جانب سے متعارف کروائے گئے ان فوجداری قوانین میں بھارتیہ نیا سنہیتیا، بھارتیہ ساکشیہ دھینیم اور بھارتیہ نگاری سرکشہ سنہیتا شامل ہیں۔بی این ایس، بی ایس اے اور بی این ایس ایس قوانین کا اطلاق یکم جولائی سے کیا جا چکا ہے۔آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی کا کہنا تھا کہ مودی سرکار کی جانب سے نافذ کیے گئے یہ ظالمانہ قوانین اب بھارت میں مسلمانوں، دلتوں اور دیگر متوسط طبقات کے خلاف استعما ل ہوں گے۔ بھارتیہ نیا سنہیتیا(BNS)، بھارتیہ ساکشیہ دھینیم(BSA) اور بھارتیہ نگاری سرکشہ سنہیتا(BNSS) سے کمزور طبقات کے حقوق مزید سلب کرتے ہوئے بھارتی پولیس کو ان کے خلاف کارروائیوں کے لیے وسیع تر اختیارات حاصل ہوں گے۔رکن پارلیمنٹ حیدر آباد کا کہنا تھا کہ ان قوانین میں کہیں بھی اس با ت کا ذکر نہیں کیا گیا کہ اگر بھارتی پولیس سے کوئی جرم سرزد ہو جاتا ہے تواْس کے خلاف کیا کارروائی عمل میں لائی جائے گی؟ یہ یکطرفہ قوانین ہیں۔ یہ نئے قوانینUAPAکے قانون سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔مودی حکومت نے عام انتخابات سے چند ہفتے قبل مودی سرکار نے مسلمانوں کے خلاف ایک اور اقدام کرتے ہوئے متنازع شہریت ترمیمی ایکٹ نافذ کر دیا۔ شہریت ترمیمی ایکٹ کا نفاذ بی جے پی کے 2019 کے انتخابی منشور کا لازمی حصہ تھا۔ قانون کے تحت بھارت کے پڑوسی ممالک سے آنے والے غیر مسلموں کو بھارت کی شہریت دی جائیگی جو31 دسمبر 2014 سے پہلے بھارت آئے تھے۔
مسلمان گروپوں، انسانی حقوق تنظیموں، سول سوسائٹی نے قانون کو مسلم دشمن قرار دیا ہے۔ مسلمان گروپوں کے مطابق قانون بھارت کے 20 کروڑ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیلئے نافذ کیا گیا ہے۔ حکومت اس کے مسلم مخالف ہونے کی تردید کرتے ہوئے کہتی ہے کہ مسلمان اکثریتی ملکوں میں ظلم و ستم کا سامنا کرنے والی اقلیتوں کی مدد کے لیے اس قانون کی ضرورت ہے۔مودی حکومت نے 2019 میں شہریت کے متنازع قانون کی منظوری دی تھی۔ متنازع بل کی منظوری کے بعد بھارت میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کیے گئے تھے، جن میں درجنوں افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے تھے۔مسلم گروپوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون، شہریوں کی ایک مجوزہ قومی رجسٹریشن کے ساتھ مل کر، بھارت کے 20 کروڑ مسلمانوں کے ساتھ، جو دنیا کی تیسری سب سے بڑی مسلم آبادی ہے، تعصبانہ سلوک کر سکتا ہے۔ انہیں ڈر ہے کہ حکومت کچھ سرحدی ریاستوں میں ان مسلمانوں کی شہریت ختم کر سکتی ہے جن کے پاس قانونی دستاویزات موجود نہیں ہیں۔
یہ قانون اس تصور کی بنیاد پر مذہبی اقلیتی باشندوں کو بھارتی شہریت دیتا ہے کہ انہیں ان تینوں مسلم اکثریتی ممالک میں اپنے مذہبی اقلیت ہونے کی وجہ سے ظلم و ستم کا سامنا رہتا ہے۔ اس ایکٹ میں مذہبی وابستگی کی بنیاد پر مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا، جو بھارتی آئین کے تحت مساوات اور سیکولرزم کے بنیادی اصول کی خلاف ورزی ہے۔ یوں اس قانون کے ساتھ مساوی سلوک کا اصول بھی مجروح ہوتا ہے۔ یہ امتیازی قانون سازی ملک کے سماجی تانے بانے کے لیے خطرہ ہے، جو شمولیت اور تنوع کے بنیادی اصولوں کو ختم کر رہی ہے۔”
ملکی اپوزیشن جماعت کانگریس پارٹی اور دیگر علاقائی پارٹیوں نے بھی اس قانون کے نفاذ پر شدید تنقید کی ہے اور اس اقدام کو ”عام انتخابات سے قبل عوام کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش” کا نام دیا ہے۔جنوبی ریاستوں کیرالہ، تامل ناڈو اور مغربی بنگال کے وزرائے اعلیٰ نے بھی اس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان یونین ریاستوں میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے نفاذ کی اجازت نہیں دیں گے۔یہ قانون اس تصور کی بنیاد پر مذہبی اقلیتی باشندوں کو بھارتی شہریت دیتا ہے کہ انہیں ان تینوں مسلم اکثریتی ممالک میں اپنے مذہبی اقلیت ہونے کی وجہ سے ظلم و ستم کا سامنا رہتا ہے۔ابتدا سے ہی اس قانون پر سخت تنقید ہوتی رہی ہے اور اسے جانبدارانہ قرار دیا گیا۔ اس قانون کے خلاف پورے ملک میں زبردست مظاہرے بھی ہوئے تھے۔ حکومت نے تاہم ان مظاہرین کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں جیلوں میں ڈال دیا تھا، جن میں سے متعدد اب بھی قید میں ہیں۔سوال یہ ہے کہ آخر کب تک مودی سرکار کی ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف انسانی حقو ق کی تنظیمیں خاموش رہیں گی؟ کیا مودی کے اقتدار میں رہتے ہوئے بھارت کی مظلوم اقلیتوں کو کبھی انصاف ملے گا؟


متعلقہ خبریں


مضامین
قائد اعظم کی خوش لباسی و نفاست وجود جمعرات 19 ستمبر 2024
قائد اعظم کی خوش لباسی و نفاست

بحران یا استحکام وجود جمعرات 19 ستمبر 2024
بحران یا استحکام

اقبال:تصوروطنیت وقومیت وجود جمعرات 19 ستمبر 2024
اقبال:تصوروطنیت وقومیت

آئینی ترمیم اور گدھوں کا کاروبار وجود منگل 17 ستمبر 2024
آئینی ترمیم اور گدھوں کا کاروبار

بھارت میں سیاسی حقوق اور شہری آزادیاں سلب وجود منگل 17 ستمبر 2024
بھارت میں سیاسی حقوق اور شہری آزادیاں سلب

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر