... loading ...
ریاض احمدچودھری
بھارتی اقلیتیں ہمیشہ سے مودی سرکار کو کٹھکتی رہی ہیں جس کی بناء پر انھیں بھارتی حکومت کے عتاب کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ مودی سرکارکے اقتدار میں آنے کے بعدگزشتہ ایک دہائی سے بھارت میں اقلیتیں خود کو غیرمحفوظ سمجھتی ہیں۔ مودی نے حالیہ انتخابات میں بھی اس بات کوواضح کر دیا ہے کہ مودی بھارت کو اقلیتوں سے پاک کرکے صرف ہندوتوا ریاست کے قیام کو یقینی بنائے گا۔ بھارت میں آئے روز مودی سرکارکی جانب سے اقلیتوں پر ہونے والے مظالم اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ بھارت میں اقلیتوں کے لئے کوئی جگہ نہیں،انتخابات سے قبل مودی نے دیگر اقلیتوں کو نشانے پر رکھتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف بھی شدید زہر اگلا۔ انتہا پسند مودی سرکار نے ناصرف مسلمانوں کو ناسور سے تشبیہ دی بلکہ ان کے گھروں، دکانوں حتی کہ مساجدکو بھی مسمارکر دیا، بھارتی انتخابات میں مسلمان مخالف کارڈ کامیابی سے کھیلنے کے بعد اب مودی سرکار عملی اقدامات پر اتر ائی ہے۔
مودی سرکار نے بھارتی مسلمانوں، آدیواسیوں اور دلتوں کے خلاف نئے فوجداری قوانین متعارف کروا دئیے، مودی سرکار کی جانب سے متعارف کروائے گئے ان فوجداری قوانین میں بھارتیہ نیا سنہیتیا، بھارتیہ ساکشیہ دھینیم اور بھارتیہ نگاری سرکشہ سنہیتا شامل ہیں۔بی این ایس، بی ایس اے اور بی این ایس ایس قوانین کا اطلاق یکم جولائی سے کیا جا چکا ہے۔آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی کا کہنا تھا کہ مودی سرکار کی جانب سے نافذ کیے گئے یہ ظالمانہ قوانین اب بھارت میں مسلمانوں، دلتوں اور دیگر متوسط طبقات کے خلاف استعما ل ہوں گے۔ بھارتیہ نیا سنہیتیا(BNS)، بھارتیہ ساکشیہ دھینیم(BSA) اور بھارتیہ نگاری سرکشہ سنہیتا(BNSS) سے کمزور طبقات کے حقوق مزید سلب کرتے ہوئے بھارتی پولیس کو ان کے خلاف کارروائیوں کے لیے وسیع تر اختیارات حاصل ہوں گے۔رکن پارلیمنٹ حیدر آباد کا کہنا تھا کہ ان قوانین میں کہیں بھی اس با ت کا ذکر نہیں کیا گیا کہ اگر بھارتی پولیس سے کوئی جرم سرزد ہو جاتا ہے تواْس کے خلاف کیا کارروائی عمل میں لائی جائے گی؟ یہ یکطرفہ قوانین ہیں۔ یہ نئے قوانینUAPAکے قانون سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔مودی حکومت نے عام انتخابات سے چند ہفتے قبل مودی سرکار نے مسلمانوں کے خلاف ایک اور اقدام کرتے ہوئے متنازع شہریت ترمیمی ایکٹ نافذ کر دیا۔ شہریت ترمیمی ایکٹ کا نفاذ بی جے پی کے 2019 کے انتخابی منشور کا لازمی حصہ تھا۔ قانون کے تحت بھارت کے پڑوسی ممالک سے آنے والے غیر مسلموں کو بھارت کی شہریت دی جائیگی جو31 دسمبر 2014 سے پہلے بھارت آئے تھے۔
مسلمان گروپوں، انسانی حقوق تنظیموں، سول سوسائٹی نے قانون کو مسلم دشمن قرار دیا ہے۔ مسلمان گروپوں کے مطابق قانون بھارت کے 20 کروڑ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیلئے نافذ کیا گیا ہے۔ حکومت اس کے مسلم مخالف ہونے کی تردید کرتے ہوئے کہتی ہے کہ مسلمان اکثریتی ملکوں میں ظلم و ستم کا سامنا کرنے والی اقلیتوں کی مدد کے لیے اس قانون کی ضرورت ہے۔مودی حکومت نے 2019 میں شہریت کے متنازع قانون کی منظوری دی تھی۔ متنازع بل کی منظوری کے بعد بھارت میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کیے گئے تھے، جن میں درجنوں افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے تھے۔مسلم گروپوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون، شہریوں کی ایک مجوزہ قومی رجسٹریشن کے ساتھ مل کر، بھارت کے 20 کروڑ مسلمانوں کے ساتھ، جو دنیا کی تیسری سب سے بڑی مسلم آبادی ہے، تعصبانہ سلوک کر سکتا ہے۔ انہیں ڈر ہے کہ حکومت کچھ سرحدی ریاستوں میں ان مسلمانوں کی شہریت ختم کر سکتی ہے جن کے پاس قانونی دستاویزات موجود نہیں ہیں۔
یہ قانون اس تصور کی بنیاد پر مذہبی اقلیتی باشندوں کو بھارتی شہریت دیتا ہے کہ انہیں ان تینوں مسلم اکثریتی ممالک میں اپنے مذہبی اقلیت ہونے کی وجہ سے ظلم و ستم کا سامنا رہتا ہے۔ اس ایکٹ میں مذہبی وابستگی کی بنیاد پر مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا، جو بھارتی آئین کے تحت مساوات اور سیکولرزم کے بنیادی اصول کی خلاف ورزی ہے۔ یوں اس قانون کے ساتھ مساوی سلوک کا اصول بھی مجروح ہوتا ہے۔ یہ امتیازی قانون سازی ملک کے سماجی تانے بانے کے لیے خطرہ ہے، جو شمولیت اور تنوع کے بنیادی اصولوں کو ختم کر رہی ہے۔”
ملکی اپوزیشن جماعت کانگریس پارٹی اور دیگر علاقائی پارٹیوں نے بھی اس قانون کے نفاذ پر شدید تنقید کی ہے اور اس اقدام کو ”عام انتخابات سے قبل عوام کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش” کا نام دیا ہے۔جنوبی ریاستوں کیرالہ، تامل ناڈو اور مغربی بنگال کے وزرائے اعلیٰ نے بھی اس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان یونین ریاستوں میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے نفاذ کی اجازت نہیں دیں گے۔یہ قانون اس تصور کی بنیاد پر مذہبی اقلیتی باشندوں کو بھارتی شہریت دیتا ہے کہ انہیں ان تینوں مسلم اکثریتی ممالک میں اپنے مذہبی اقلیت ہونے کی وجہ سے ظلم و ستم کا سامنا رہتا ہے۔ابتدا سے ہی اس قانون پر سخت تنقید ہوتی رہی ہے اور اسے جانبدارانہ قرار دیا گیا۔ اس قانون کے خلاف پورے ملک میں زبردست مظاہرے بھی ہوئے تھے۔ حکومت نے تاہم ان مظاہرین کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں جیلوں میں ڈال دیا تھا، جن میں سے متعدد اب بھی قید میں ہیں۔سوال یہ ہے کہ آخر کب تک مودی سرکار کی ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف انسانی حقو ق کی تنظیمیں خاموش رہیں گی؟ کیا مودی کے اقتدار میں رہتے ہوئے بھارت کی مظلوم اقلیتوں کو کبھی انصاف ملے گا؟