... loading ...
حمیداللہ بھٹی
کیابھارت،برطانیہ اور فرانس کے بعد امریکی انتخابات بھی تبدیلی کا باعث بنیں گے؟ اِس سوال کا جواب معلوم کرنے کے لیے نہ صرف سیاسی نبض شناس اندازوں کے تیر چلا نے میں مصروف ہیں بلکہ مختلف اِدارے بھی عوامی رائے معلوم کرنے کے لیے سروے کررہے ہیں بھارتی انتخابات سے وقتی طورپر کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی اور تیسری مدت کے لیے مودی چاہے کمزور سی حکومت بنانے میں کامیا ب ہو گئے ہیں مگراِس میں کوئی شائبہ نہیں رہا کہ ہندوتواکی علمبرداربی جے پی کانشہ اب اُترنے لگاہے برطانیہ میں کنزرویٹوکا چودہ سالہ اقتدار تو ایسے تحلیل ہوا ہے کہ لیبر پارٹی بھاری اکثریت سے ایک مضبوط حکومت بناچکی ہے یہ تبدیلی کچھ زیادہ حیران کُن نہیں کیونکہ سبکدوش وزیرِ اعظم رشی سوناک کی احمقانہ پالیسیوں کی وجہ سے نہ صرف امیر برطانوی اپناسرمایہ محفوظ کرنے کے لیے دوسرے ممالک کا رُخ کرنے پر مجبور ہوئے بلکہ مسلم ووٹرنے اسرائیلی حمایت پر نفرت ظاہرکی جبکہ فرانس تبدیلی کے ایسے دوراہے پر کھڑاہے جہاں معلق پارلیمنٹ وجود میں آنے سے کسی ایک جماعت کے لیے حکومت بنانا مشکل ہوگیا ہے جس سے ترقی کا عمل سبوتاژ ہونے کے ساتھ فسادات ہونے کاخدشہ جنم لے چکا ہے دنیا کے تین ممالک میں عوامی مزاج میں آنے والی یہ تبدیلی ایک ایسی دستک ہے جو دنیا کے منظرنامے میں کسی حدتک تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے رواں برس نومبر کے آغازپر امریکہ میں صدارتی انتخابات کامعرکہ متوقع ہیں اگر یہاں بھی تبدیلی اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ سامنے آتی ہے توعالمی منظرنامے میں کسی حدتک تبدیلی کوخارج از امکان قرارنہیں دیا جا سکتا ۔
صدارتی انتخابات کے دونوں امیدواروںکے لیے وائٹ ہائوں(صدرکا گھر)اجنبی نہیں البتہ اِتنا فرق ضرورہے کہ جوبائیڈن موجودہ صدر ہونے کی وجہ سے ابھی تک یہاں مقیم ہیں جبکہ گزشتہ صدارتی انتخابی نتائج جنھیں ابھی تک ملک کا ایک مکتبہ فکر متنازع تصورکرتاہے جن میں ٹرمپ کو ہزیمت ہوئی جس کی پاداش میں وائٹ ہائوس کوخیرباد کہنا پڑامگر اب وہ ایک بارپھر نئے عزم و اِرادے سے دوبارہ صدارتی منصب حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں اگر موجودہ حالات کی روشنی میں قیافہ لگایاجائے تو ڈونلڈٹرمپ کو جوبائیڈن پر سبقت حاصل ہے اُن کی حکمتِ عملی جارحانہ ہے وہ تابڑتوڑحملوں سے حریف بائیڈن کوزچ کررہے ہیں ایک زوردار صدارتی مباحثے میں ثابت کر چکے کہ اگر امریکہ نے کھویا وقار دوبارہ حاصل کرنا ہے تو کمزور فیصلے نہیں بلکہ دوٹوک اندازاپنانا ہوگا اور یہ کام بائیڈن کے بس سے باہر ہے بائیڈن اپنی جماعت کی طرف سے بھی دھچکوں کی زد میں ہیںڈیموکریٹ فنڈریزر اورمعرف اداکار جارج کلونی نے صدربائیڈن کو انتخابی دوڑ سے دستبردار ہونے کامشورہ دیاہے اسی طرح سرتوڑ کوششوں کے باوجود سابق امریکی اسپیکرپارلیمنٹ اور بائیڈن کی سب سے بڑی حمایتی نینسی پیلوسی کو ہنوز حمایت کرنے پربھی قائل نہیں کیا جا سکا اسی لیے امریکہ کے صدارتی انتخابات میں چاہے تین ماہ باقی ہیں لیکن ابھی سے ہی حالات و واقعات سے ماہرین تبدیلی کی دستک محسوس کرنے لگے ہیں۔
انتخابات کوعوامی رائے جاننے اور سیاسی استحکام کازریعہ تصور کیا جاتا ہے لیکن کچھ عرصہ سے ایسے ممالک میں بھی نتائج کی شفافیت پر اعتراضات ہونے لگے ہیں جو اپنے انتخابی نظام اور طریقہ کار کو قابلِ فخر قراردیتے ہیں گزشتہ انتخابی نتائج سے ڈونلڈ ٹرمپ ابھی تک ناخوش ہیں اور شکوک و شبہات کاجاری صدارتی انتخابی مُہم میں بھی اظہار کرتے رہتے ہیں واضح الفاظ میں کہتے ہیں کہ اگر وہ نومبرکے انتخاب میں کامیاب نہ ہوئے تویہ فیصلہ ملک کے لیے خونریز ثابت ہو سکتا ہے نیز اُن کے نہ جتنے سے ملک میں دوبارہ انتخابات نہیں ہو ں گے یادرہے کہ گزشتہ انتخابی نتائج کی روشنی میں اقتدار کی تبدیلی کامرحلہ آسان نہیں رہا تھابلکہ انتشاروافراتفری کے سائے میں تکمیل کو پہنچااب بھی رواں برس نومبرکے صدارتی انتخابی نتائج جو بھی ہوں ایسے خدشات کومکمل طورپررَد نہیں کیا جا سکتا ۔ امریکی ریاست اوہائیو میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ٹرمپ نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ وہ مجھے خاموش کرانا چاہتے ہیں یہ بیانیہ اسٹیبلشمنٹ پر تنقیدسمجھا جارہا ہے ٹرمپ نے تو2020میں بھی ڈیموکریٹس پر دھاندلی کا الزام لگایا مگراب 2024میں پُرعزم اور پُرامید ہیں کہ ماضی کی طرح وہ کسی کو دھاندلی نہیں کرنے دیں گے۔
بائیڈن خود کو کُھلے عام اسرائیل کا حمایتی قرار دیتے ہیں غزہ پر حملوں کے لیے مسلسل دفاعی امدادبھی دے رہے ہیں جو جارحیت کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے اِس وجہ سے ملک بھر میں تنقید کی زدمیں ہیں مسلمان اور امریکی دونوں ہی صدرکی موجودہ پالیسی کو افسوسناک قرار دیتے ہیں لیکن بائیڈن کواِس پر کوئی پشیمانی نہیں ڈونلڈ ٹرمپ اِس پالیسی کے خلاف ہیں اسرائیلی رویے اور فلسطینیوںپر مظالم کی ہدفِ تنقیدبناتے ہیں یادرہے کہ بھارت،برطانیہ اور اب فرانس میںغیر مقبول ہونے والی قیادت بھی غزہ پر ہونے والی جارحیت میں اسرائیل کی حمایت میں پیش پیش رہی جس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ امریکی صدارتی انتخابی نتائج پر اسرائیل کی حمایت اور مخالفت اثرانداز ہو سکتی ہے یہ اِس بنا پر ایک خوشگوار دستک ہے کہ دنیامیں ظالم اور مظلوم کے حوالے سے ایک مشترکہ سوچ پنپ رہی ہے جسے امن کے حوالے سے ایک اہم تبدیلی کہہ سکتے ہیں دوچارممالک میں مزید ایسی عوامی رائے سامنے آئی تو جارحیت کی اندھا دھند حمایت سے عالمی طاقتوں کو باز رکھناآسان ہوجائے گا اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ کے صدارتی انتخاب کے نتائج کیا ہوتے ہیں اگر بھارت،برطانیہ اور فرانس کے بعد امریکی ووٹربھی اسرائیل کی حمایتی قیادت کو رَد کردیتا ہے تو یہ عمل امن کے حوالے سے بہت اہم ثابت ہو سکتاہے۔
دنیا اِس وقت تبدیلی کے ایک ایسے دوراہے پر ہے جو امریکہ سے ایک متوازن ،امن پسند اورماحول دوست پالیسی کی متقاضی ہے نومبر میں ٹرمپ صدر منتخب ہوں یابائیڈن، انھیں درپیش خارجی مسائل کا حقیقی حل تلاش کرنا ہوگا روس اور یوکرین جنگ،چین کی طرف سے اقتصادی وتجارتی چیلنجز،تشددوخونریزی کا شکارمشرقِ وسطٰی،بھارت میں پرورش پاتی جنونیت، افغانستان ،کشمیر ،برما اور تائیوان جیسے مسائل کا ایساحل تلاش کرنا ہوگا جس سے امن قائم کرنے میں مدد ملے اُسے اختلافِ رائے رکھنے والے ممالک کو جھکانے کے لیے پابندیوں جیسے ہتھیارسے دستبردارہوناگا البتہ یہ جوکچھ جذباتی لوگوں میںخوش فہمی پائی جاتی ہے کہ فلسطین بارے امریکہ پالیسی بدل سکتاہے میں صداقت نہیںبلکہ اسرائیل بارے ٹرمپ اور بائیڈن کے کردار میں کچھ زیادہ فرق کی توقع نہیںکیونکہ صدر جو بھی منتخب ہو اُسے دنیاکے امن سے زیادہ اپنے ملک کا مفاد دیکھنا ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔