... loading ...
جاوید محمود
آپ کو یہ جان کر افسوس ہوگا کہ پاکستان کا عدالتی نظام عالمی رینکنگ میں 142ممالک میں 130پر ہے جبکہ پریس فریڈم میں پاکستان کا نمبر عالمی رینکنگ میں 152 نمبر پہ آتا ہے جب کہ پاکستان کو دنیا کے 10ممالک میں صحافیوں کے لیے خطرناک ملک قرار دیا گیا ہے ۔ارشد شریف اکتوبر 2022میں کینیا کے دارالحکومت نیروبی سے 110کلومیٹر کے فاصلے پر فائرنگ کے ایک واقعہ میں شہید ہو گئے تھے۔ ارشد شریف کی شہادت کے بعد صحافتی حلقوں میں انتہائی بے چینی پائی گئی اور مقامی پولیس کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق پولیس اہلکاروں نے شناخت میں غلط فہمی پر اس گاڑی پر گولیاں چلائی تھی جس میں ارشد شریف سوار تھے تاہم اب کینیا میں کاجیا دو ہائی کورٹ نے پولیس اہلکاروں کی فائرنگ کو دانستہ غیر ضروری اور غیر قانونی قرار دیا ہے۔ عدالت نے پبلک پروسیکیوشن اور پولیسنگ اور سائٹ اتھارٹی دونوں کو یہ حکم دیا ہے کہ ارشد شریف کی ہلاکت پر تحقیقات مکمل کی جائیں اور اس میں اگر پولیس اہلکار قصور وار ثابت ہوتے ہیں تو ان کو سزائیں دی جائیں۔
اس مقدمہ کی درخواست گزار ارشد شریف کی بیوہ نے یک انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ انصاف کے حصول کے لیے اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی فورمز سے رابطے کریں گی۔ اس مقدمے میں کینیا یونین آف جرنلسٹ اور کینیا کی ایک اور صحافتی تنظیم بھی درخواست گزار تھی جن کے وکیل کے مطابق یہ فیصلہ پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ کینیا کے شہریوں کے لیے بھی اتنا ہی اہم ہے جو پولیس کے تشدد کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ کینیا کی عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ پولیس کے جنرل سروس یونٹ کے دو اہلکاروں کی جانب سے ارشد شریف کو سر پہ گولی مارنے کا فیصلہ دانستہ، غیر ضروری، غیر قانونی اور غیر آئینی تھا۔ عدالت کے فیصلے کے مطابق معروف پاکستانی صحافی ارشد شریف کی ہلاکت میں ملوث پولیس اہلکاروں نے نہ صرف انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی کی بلکہ انہوں نے اپنے قواعد و ضوابط کو بھی نظر انداز کیا۔ عدالت نے حکومت کو ارشد شریف کی بیوہ کو ایک کروڑ کینین شیلنگ تقریبا 78 ہزار ڈالر ادا کرنے کا حکم دیا۔ فیصلے کے مطابق رقم کی مکمل ادائیگی تک اس پر واجب سود بھی ادا کیا جائے گا۔ ارشد شریف کی اہلیہ نے اس فیصلے کے بعد ایک انٹرویو میں کہا کہ میں اپنے ملک میں اپنے شوہر کے لیے انصاف حاصل نہیں کر پا رہی۔ میرے شوہر کو پاکستان میں دھمکیاں ملیں تھیں ان پر غداری کے جعلی مقدمات تھے کیونکہ وہ بلا خوف صحافت کرتے تھے ۔اپنی زندگی بچانے کے لیے ارشد شریف نے کینیا میں عارضی طور پر پناہ لی تھی۔ یہ میرے لیے دردناک تھا کہ کینیا انہیں تحفظ دینے میں ناکام رہا اور انہیں کینیا کی پولیس نے قتل کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ میرے لیے یہ حیران کن ہے اور میں کینیا کی عدلیہ کی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میری بات سنی اور مجھے انصاف دیا۔ارشد شریف کا قتل کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے پہلے بھی درجنوں صحافی بے دردی کے ساتھ قتل ہو چکے ہیں لیکن قاتل گرفتار کیوں نہیں ہوتے۔ المیہ یہ ہے کہ ان واقعات کو بنیاد بنا کر پاکستان کو صحافیوں کے لیے خطرناک ملک قرار دیا جاتا ہے اور اس سے پاکستان کی ساکھ خراب ہوتی ہے۔ پاکستان میں صحافیوں کو گالی دینا اور گولی مارنا بہت آسان ہے ۔یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں بڑے بڑے سیاستدان صحافیوں کا نام لے کر انہیں لفافہ قرار دیتے ہیں اور کوئی ثبوت بھی پیش کرنا گوارا نہیں کرتے ۔پاکستان میں طاقتور لوگوں کی مرضی کے خلاف سچ لکھنے والے صحافیوں کو صرف طاقتوروں سے نہیں بلکہ ان کے پروردہ صحافیوں سے بھی خطرہ رہتا ہے ،جنہوں نے اہلِ صحافت کے اتحاد کو پارہ پارہ کر کے آزادی صحافت کے دشمنوں کو اتنا بے باک کر دیا ہے کہ وہ چاہیں کسی صحافی کو غدار قرار دے ڈالتے ہیں اور جب چاہیں کسی صحافی کو گولی مار دیتے ہیں۔ آزادیٔ صحافت کے لیے خطرات میں اضافے کی ایک وجہ مختلف صحافتی تنظیموں کی وہ مفاد پرست قیادت بھی ہے جو کارکن صحافیوں کے مفادات کے بجائے مختلف ریاستی اداروں اور میڈیا مالکان کے مفا دات کا تحفظ کرتی ہیں ۔صحافتی تنظیمیں کئی ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہیں، جب کوئی ارشد شریف قتل ہوتا ہے تو یہ تنظیمیں چند نمائشی بیانات سے آگے نہیں بڑھتیں۔پچھلے دس سال میں قتل ہونے والے صحافیوں کے مقدمات اٹھا کر دیکھ لیں کسی ایک صحافی کے قاتل کو سزا نہیں ملی۔
آج کل یوٹیوب سے ڈالر کمانے والوں کے لیے سلیم شہزاد کا نام اجنبی ہوگا ۔سلیم شہزاد نے 27مئی 2011کو ایشیا ٹائمز میں ایک مضمون لکھا تھا جس کے صرف تین دن بعد 30 مئی 2011کو سلیم شہزاد کو اسلام آباد میں اغوا کر لیا گیا اور پھر ان کی لاش منڈی بہاء الدین کے قریب ایک نہر سے ملی۔ سلیم شہزاد کے قتل کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے ججوں پر مبنی ایک کمیشن بنا۔ کمیشن کی رپورٹ آئی تو اس میں آئیں بائیں شائیں کے سوا کچھ نہ تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ صحافی اپنی جان پہ کھیل کر بے خبر لوگوں کو باخبر کرتے ہیں۔ کچھ لوگ یہ سوال پوچھتے ہیں کہ بغیر ثبوت کے ارشد شریف کے قتل کا الزام ریاستی اداروں پر کیوں لگایا جاتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور ظلم کیا ہو سکتا ہے کہ ایک صحافی کے قتل پر سیاست کی جائے۔ موجودہ صورتحال میں حکومت پاکستان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عدالتی نظام میں بہتری لائیں تا کہ عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ بحال ہو سکے اور ارشد شریف کے قتل کی انکوائری ایسے کمیشن سے کرائی جائے جس پر اس کے خاندان کو اعتماد ہو۔ ورنہ افواہوں کا سلسلہ بند نہ ہوگا۔ اس مرتبہ ارشد شریف کو انصاف نہ ملا تو آئندہ کسی پاکستانی صحافی کو انصاف نہیں ملے گا اور پاکستان میں بار بار صحافیوںکا قتل ہوتا رہے گا۔