وجود

... loading ...

وجود

پاکستان میں صحافیوں کو قتل ہوتا رہے گا!

جمعه 12 جولائی 2024 پاکستان میں صحافیوں کو قتل ہوتا رہے گا!

جاوید محمود

آپ کو یہ جان کر افسوس ہوگا کہ پاکستان کا عدالتی نظام عالمی رینکنگ میں 142ممالک میں 130پر ہے جبکہ پریس فریڈم میں پاکستان کا نمبر عالمی رینکنگ میں 152 نمبر پہ آتا ہے جب کہ پاکستان کو دنیا کے 10ممالک میں صحافیوں کے لیے خطرناک ملک قرار دیا گیا ہے ۔ارشد شریف اکتوبر 2022میں کینیا کے دارالحکومت نیروبی سے 110کلومیٹر کے فاصلے پر فائرنگ کے ایک واقعہ میں شہید ہو گئے تھے۔ ارشد شریف کی شہادت کے بعد صحافتی حلقوں میں انتہائی بے چینی پائی گئی اور مقامی پولیس کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق پولیس اہلکاروں نے شناخت میں غلط فہمی پر اس گاڑی پر گولیاں چلائی تھی جس میں ارشد شریف سوار تھے تاہم اب کینیا میں کاجیا دو ہائی کورٹ نے پولیس اہلکاروں کی فائرنگ کو دانستہ غیر ضروری اور غیر قانونی قرار دیا ہے۔ عدالت نے پبلک پروسیکیوشن اور پولیسنگ اور سائٹ اتھارٹی دونوں کو یہ حکم دیا ہے کہ ارشد شریف کی ہلاکت پر تحقیقات مکمل کی جائیں اور اس میں اگر پولیس اہلکار قصور وار ثابت ہوتے ہیں تو ان کو سزائیں دی جائیں۔
اس مقدمہ کی درخواست گزار ارشد شریف کی بیوہ نے یک انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ انصاف کے حصول کے لیے اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی فورمز سے رابطے کریں گی۔ اس مقدمے میں کینیا یونین آف جرنلسٹ اور کینیا کی ایک اور صحافتی تنظیم بھی درخواست گزار تھی جن کے وکیل کے مطابق یہ فیصلہ پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ کینیا کے شہریوں کے لیے بھی اتنا ہی اہم ہے جو پولیس کے تشدد کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ کینیا کی عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ پولیس کے جنرل سروس یونٹ کے دو اہلکاروں کی جانب سے ارشد شریف کو سر پہ گولی مارنے کا فیصلہ دانستہ، غیر ضروری، غیر قانونی اور غیر آئینی تھا۔ عدالت کے فیصلے کے مطابق معروف پاکستانی صحافی ارشد شریف کی ہلاکت میں ملوث پولیس اہلکاروں نے نہ صرف انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی کی بلکہ انہوں نے اپنے قواعد و ضوابط کو بھی نظر انداز کیا۔ عدالت نے حکومت کو ارشد شریف کی بیوہ کو ایک کروڑ کینین شیلنگ تقریبا 78 ہزار ڈالر ادا کرنے کا حکم دیا۔ فیصلے کے مطابق رقم کی مکمل ادائیگی تک اس پر واجب سود بھی ادا کیا جائے گا۔ ارشد شریف کی اہلیہ نے اس فیصلے کے بعد ایک انٹرویو میں کہا کہ میں اپنے ملک میں اپنے شوہر کے لیے انصاف حاصل نہیں کر پا رہی۔ میرے شوہر کو پاکستان میں دھمکیاں ملیں تھیں ان پر غداری کے جعلی مقدمات تھے کیونکہ وہ بلا خوف صحافت کرتے تھے ۔اپنی زندگی بچانے کے لیے ارشد شریف نے کینیا میں عارضی طور پر پناہ لی تھی۔ یہ میرے لیے دردناک تھا کہ کینیا انہیں تحفظ دینے میں ناکام رہا اور انہیں کینیا کی پولیس نے قتل کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ میرے لیے یہ حیران کن ہے اور میں کینیا کی عدلیہ کی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میری بات سنی اور مجھے انصاف دیا۔ارشد شریف کا قتل کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے پہلے بھی درجنوں صحافی بے دردی کے ساتھ قتل ہو چکے ہیں لیکن قاتل گرفتار کیوں نہیں ہوتے۔ المیہ یہ ہے کہ ان واقعات کو بنیاد بنا کر پاکستان کو صحافیوں کے لیے خطرناک ملک قرار دیا جاتا ہے اور اس سے پاکستان کی ساکھ خراب ہوتی ہے۔ پاکستان میں صحافیوں کو گالی دینا اور گولی مارنا بہت آسان ہے ۔یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں بڑے بڑے سیاستدان صحافیوں کا نام لے کر انہیں لفافہ قرار دیتے ہیں اور کوئی ثبوت بھی پیش کرنا گوارا نہیں کرتے ۔پاکستان میں طاقتور لوگوں کی مرضی کے خلاف سچ لکھنے والے صحافیوں کو صرف طاقتوروں سے نہیں بلکہ ان کے پروردہ صحافیوں سے بھی خطرہ رہتا ہے ،جنہوں نے اہلِ صحافت کے اتحاد کو پارہ پارہ کر کے آزادی صحافت کے دشمنوں کو اتنا بے باک کر دیا ہے کہ وہ چاہیں کسی صحافی کو غدار قرار دے ڈالتے ہیں اور جب چاہیں کسی صحافی کو گولی مار دیتے ہیں۔ آزادیٔ صحافت کے لیے خطرات میں اضافے کی ایک وجہ مختلف صحافتی تنظیموں کی وہ مفاد پرست قیادت بھی ہے جو کارکن صحافیوں کے مفادات کے بجائے مختلف ریاستی اداروں اور میڈیا مالکان کے مفا دات کا تحفظ کرتی ہیں ۔صحافتی تنظیمیں کئی ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہیں، جب کوئی ارشد شریف قتل ہوتا ہے تو یہ تنظیمیں چند نمائشی بیانات سے آگے نہیں بڑھتیں۔پچھلے دس سال میں قتل ہونے والے صحافیوں کے مقدمات اٹھا کر دیکھ لیں کسی ایک صحافی کے قاتل کو سزا نہیں ملی۔
آج کل یوٹیوب سے ڈالر کمانے والوں کے لیے سلیم شہزاد کا نام اجنبی ہوگا ۔سلیم شہزاد نے 27مئی 2011کو ایشیا ٹائمز میں ایک مضمون لکھا تھا جس کے صرف تین دن بعد 30 مئی 2011کو سلیم شہزاد کو اسلام آباد میں اغوا کر لیا گیا اور پھر ان کی لاش منڈی بہاء الدین کے قریب ایک نہر سے ملی۔ سلیم شہزاد کے قتل کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے ججوں پر مبنی ایک کمیشن بنا۔ کمیشن کی رپورٹ آئی تو اس میں آئیں بائیں شائیں کے سوا کچھ نہ تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ صحافی اپنی جان پہ کھیل کر بے خبر لوگوں کو باخبر کرتے ہیں۔ کچھ لوگ یہ سوال پوچھتے ہیں کہ بغیر ثبوت کے ارشد شریف کے قتل کا الزام ریاستی اداروں پر کیوں لگایا جاتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور ظلم کیا ہو سکتا ہے کہ ایک صحافی کے قتل پر سیاست کی جائے۔ موجودہ صورتحال میں حکومت پاکستان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عدالتی نظام میں بہتری لائیں تا کہ عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ بحال ہو سکے اور ارشد شریف کے قتل کی انکوائری ایسے کمیشن سے کرائی جائے جس پر اس کے خاندان کو اعتماد ہو۔ ورنہ افواہوں کا سلسلہ بند نہ ہوگا۔ اس مرتبہ ارشد شریف کو انصاف نہ ملا تو آئندہ کسی پاکستانی صحافی کو انصاف نہیں ملے گا اور پاکستان میں بار بار صحافیوںکا قتل ہوتا رہے گا۔

 


متعلقہ خبریں


مضامین
بھارت میں مساجد غیر محفوظ وجود جمعه 20 ستمبر 2024
بھارت میں مساجد غیر محفوظ

نبی کریم کی تعلیمات اور خوبصورت معاشرہ وجود جمعه 20 ستمبر 2024
نبی کریم کی تعلیمات اور خوبصورت معاشرہ

کشمیر انتخابات:جہاں بندوں کو تولا جائے گا ! وجود جمعه 20 ستمبر 2024
کشمیر انتخابات:جہاں بندوں کو تولا جائے گا !

قائد اعظم کی خوش لباسی و نفاست وجود جمعرات 19 ستمبر 2024
قائد اعظم کی خوش لباسی و نفاست

بحران یا استحکام وجود جمعرات 19 ستمبر 2024
بحران یا استحکام

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر