... loading ...
ب نقاب/ایم آر ملک
جمود ہے ،تعطل ہے اور زندگی اس کا شکار ہے!!
عوام کا بنیادی حق جبر اور ظلم کے خلاف پر امن احتجاج ہوا کرتا ہے،مگر موجودہ عوام دشمن حکمرانی نے عوام سے یہ بنیادی حق بھی اپنی ریاستی پولیس ،تشدد،ناجائز مقدمات کے بعد چھین لیا ہے ،یہ اندر کا خوف ہے جس سے ہمارے حکمران نکل نہیں پارہے۔
آمرانہ اندازِ حکمرانی سے جب عوام کے بنیادی حقوق معطل کردیے جائیں تو ریاستوں کے اندرونی تضادات کھل کر سامنے آتے ہیں۔فارم 47کی حکومت کی حالت اتنی نازک ہوچکی ہے کہ وہ اس جمہوری طرز کو بھی برداشت نہیں کر پارہی جو عوام کی نفرت اور غصے کو تحلیل کررہی تھی۔ ماضی کے تمام آمروں کو اپنی تابعداری کا حلف دینے والی عدلیہ آمریت کے تسلسل کو تحفظ دینے کے لیے ہمیشہ سیفٹی والو کاکردار ادا کرتی رہی ، عوام کے حق خود ارادیت پر حملہ دراصل اس بحران زدہ ریاست کے حکمرانوں کا اپنے آپ پر وار ہے ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ عمومی حالات میں اس عدلیہ نے حکمران طبقات کے مفادات کے تحفظ کے لیے ہمیشہ معاون ادارے کاکام کیا۔بوقت ضرورت آمر بڑی مہارت سے عدلیہ آئینی ماہرین کروڑ پتی وکلاء وقت کے نامی گرامی دانشوروں کے ساتھ ساز باز کرکے سول حکمرانی کالبادہ اوڑھنے میں کامیاب ہوتے چلے آرہے ہیں اور باآسانی سول صدر اور سربراہ مملکت قرار پاتے ہیں ۔ ایوب دور آمریت کاباب اٹھا کر دیکھ لیں وہ واحد آمر تھا جس نے صرف 2سال سے کم عرصہ کے لیے اپنا جابرانہ تسلط قائم کیا ۔ بعدازاں اس نے 1960ء میں ایک نیا آئین تشکیل دیااورسویلین سربراہ بن گیا ۔ یہاں تک کہ 27اکتوبر1958ء کی فوجی بغاوت کے بعد بھی اس نے سول کابینہ اور سویلین وزراء کو اپنے ساتھ ملائے رکھا ۔ یہ وزارتی ٹیم دائیں بازو کی پارٹیوں کے افرادپر مشتمل تھی ۔
ضیاء نے بھی یہی کچھ کیا ۔اے کے بروہی اور شریف الدین پیر زادہ جیسے ماہرین قانون وآئین کو اپنی آمریت کے قانونی و آئینی جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا ۔ مشرف آمریت میں اپنے پیش رو آمروں سے مختلف کام دکھلایا اور 2000ء میںغیر جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی جمہو ریت متعارف کرائی۔12اکتوبر1999ء کا خود ساختہ ڈرامہ بھی مشرف نے شریف برادران کی گرتی ہوئی عوامی مقبولیت کو دوبارہ زندگی دینے ،سابقہ نہج پر لانے کیلئے رچایا جس کا ثبوت وہ این او آر تھا جو غداری میں ملوث ایک مودی کے یارکو ملا ، مشرف نے وطن عزیز کو دہشت گردی جیسے ناسور میں مبتلا کرنے کے بعداس منافع بخش صنعت سے اپنا بینک بیلنس اربوں روپے تک بڑھایا ۔ مہنگائی اس دوران اتنی بڑھی کہ محنت کش لوگ خود کشیاں کرنے لگے ، بیروزگاری کی اذیت میں ایک پوری نسل مبتلا ہوگئی ، بیماریاں بڑھیں اور علاج سکڑ گیا۔بلدیات کے نئے نظام نے بدعنوانی کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ وطن عزیز میںمچے اس سنگین کہرام کو دیکھتے ہوئے میاں محمد نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے 14 مئی 2006ء کا چارٹرڈ آف ڈیموکریسی تشکیل پایا۔جو دراصل مشترکہ مفادات کو لگنے والی ٹھیس کے خلاف ایک دستاویز تھی جس میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی غیر آئینی طریقوں سے ایک دوسرے کو کمزور یا نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کرینگے، جبکہ ایک شق جس پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف نااہل قرار پائے یہ تھی کہ عدلیہ کی آزادی اور وقار کے شایان شان اعلیٰ ججوں کی تقرری کی غرض سے ہر قسمی غلطیوں سے مبرا اور غیر جانبدار طریقہ کار قائم کرنا ۔مگر کیا میاںبرادران نے اپنے ماضی سے سبق سیکھا ،اپنے لے پالک صدر رفیق تارڑ جس نے جسٹس سجاد علی شاہ کیس میںنوٹوں کے بریف کیس لیکر ججوں کے ضمیر خریدے کے ایک غیر منتخب قریبی عزیز کووزیر قانون بنادیا گیا جو قانون کی شریفوں کی حسب منشا ،حسب خواہش تشریح کرتا ہے ، چاہیے تو یہ تھا کہ مشرف کااحتساب ہوتا اس کی لوٹ مارکرنیوالی باقیات سے تمام شعبوں کو پاک کیاجاتا ۔ اس کی ہر پالیسی کا تحفظ یقینی بنایاگیا 94ارب روپے کی کرپشن کے ضلعی نظام کو تحفظ فراہم کیاگیا جس کے بارے میں میاں شہباز شریف چیخ چیخ کر اظہار کرتے رہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ 8فروری 2024 کے بعد ایک نئے پاکستان کی تشکیل ہوئی ۔ پہلے والا پاکستان نہیں جب چند ہی لوگ باہر نکلنے کی جرأت کرتے ،ایک بڑی عوامی جماعت پاکستان تحریک انصاف سے اس کا انتخابی نشان چھین جانے کے بعد بھی لوگوں کے ایک سیلِ رواں نے دہلیز پار کی،پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ امیدواروں کے نشانات ڈھونڈھ ،ڈھونڈھ کر ٹھپے لگائے ۔8فروری ایک ایسا روز تھا جب وطن عزیز دراصل ایک انقلابی کیفیت سے گزر رہا تھا جس کی پہچان حکمرانوں پر عدم اعتماد ، مڈل کلاس میںبے چینی ،بیزاری ، محنت کش طبقات میں جدو جہد کرنے کے حوصلے اور اظہار سے ہوئی ۔یہ سارے فیکٹر شہروں میں نکلنے والے عوام کے اشتعال اور غصے سے نظر آرہے تھے ۔میثاق جمہوریت کے پیروکاروں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا جعلسازی سے عوام کے ووٹ پر بھی ڈاکہ مارا گیا۔
نپولین نے ایک دفعہ کہا تھا کہ جنگ میں بعض اوقات ایسے لمحات آتے ہیں جب آپ جو بھی کرتے ہیں وہ غلط ہوتا ہے۔ کیاموجود بحران نے عمران خان کو ہیرو اور پیپلز پارٹی ،ن لیگ کی قیادت کو ولن نہیں بنادیا؟ تاریخ کا یہی سبق ہے کہ جو تاریخ سے نہیں سیکھتا وہ تاریخ کو دُہرانے پرمجبور ہوجاتاہے۔ آج یہ تاریخ کا سچ اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ ہم سب کے سامنے کھڑا ہے ۔
فیکٹریاں بند ہورہی ہیں مزدور بے روز گار ہورہے ہیں۔ جب روز گار کے دروازے بند ہوجائیں گھر میں چولھا جلانے کے لیے گیس ہو نہ ہی سوداسلف کے پیسے، انسان بھوک سے مررہے ہوں تو محبت تجارت خاندان دین آرٹ حب الوطنی حقائق نہیں محض الفاظ کے سائے ہوتے ہیں۔بھوکے پیٹ کے کان نہیں ہوتے ۔وہ زندہ ہے بی بی اور جئے بھٹوجیسے نعروں پر ہنستا ہے۔ بھوک بڑی خطرناک چیز ہے۔ جنگ زلزلوں سے زیادہ خوفناک ایٹم بم سے زیادہ تباہ کن۔ حضرت سعدی کا کہنا ہے کہ جب دمشق میں قحط پڑا تو لوگ عشق کرنا بھول گئے ۔بنگال میں قحط کے دوران صرف ایک مٹھی چاول کے حصول کے لیے ایک ماں نے اپنی بچی بیچ دی۔ لینن گراڈ کے محاصرے میں20لاکھ روسیوں کی ہلاکتوں کے دوران لوگوں نے اپنے جوتے ابا ل کر کھائے ۔ چوہے سانپ اور بچھو بھوکے انسانی درندوں کو دیکھ کر چھپ جاتے ۔ آج وطن عزیز کی حالت بھی یہی ہے کہ رو ز گار کے دروازے بند ہورہے ہیں ۔گھروں میں چولھا جلانے کے لیے گیس نہیں۔ سودا سلف لانے کے لیے پیسے نہیں۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں 148بیرل سے گر کر37ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئیں۔ لیکن وطن عزیز میںیہ قیمتیں بدستوربڑھتی جارہی ہیں۔ ایسے میں قومیں حکمرانوں کے خلاف سوچناشروع کردیتی ہیںاور کچھ کرنے کی خواہش جنم لیتی ہے۔اس خواہش کااظہار شروع ہوجاتا ہے۔اس کو روکنا مشکل اور پھر ناممکن ہوتا ہے ایسا ہماری تاریخ میں پہلے بھی ہوا۔ جب ایوب آمریت کے خلاف چینی کے نرخ بڑھنے سے تحریک کا آغاز ہوا۔ اور انجام کار پاکستان میں اس آمر کے تمام ڈھونگوں ترقی کے دعوئوں کو سڑکوں بازاروں شہروں اور دیہی علاقوں میں رسوا کن شکست ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔