وجود

... loading ...

وجود

شدید تشنج میں مبتلا

جمعرات 11 جولائی 2024 شدید تشنج میں مبتلا

سمیع اللہ ملک
”میں کل خصوصی طورپرآپ سے ملنا چاہتاہوں،لندن میں میراقیام صرف آٹھ گھنٹے کاہوگا،کیا آپ کے پاس وقت ہوگا کہ چند گھنٹہ ہم اکٹھے مگراکیلے گزارسکیں”۔میں اس آواز کولاکھوں میں پہچان سکتاتھا۔”کیوں نہیں،میں آپ کوخود لینے کیلئے ائیرپورٹ پہنچ جاؤں گا۔میں نے اس کی فلائٹ کی تفصیلات ایک کاغذکے ٹکڑے پرلکھ کرمحفوظ کرلیں۔اس کا بچپن اورجوانی امریکی ریاست ایریزونامیں بسرہوئی۔یہ ریاست بے آب وگیاہ پہاڑوں،ریگستانوں اورتھوڑے سے باغات کی وجہ سے بالکل ایسے لگتی ہے جیسے بلوچستان ہے۔اگران وادیوں کے درمیان ایک شاندارموٹروے نہ گزررہی ہواورجگہ جگہ خوبصورت ہوٹل اورپیٹرول پمپ نہ ہوں توایسے لگے جیسے سوراب سے پنجگور جا رہے ہیں یاپھرکاکڑ خراسان سے لورالائی جارہے ہیں۔
میساچوسٹس یونیورسٹی سے اس نے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی اورایک عام امریکی کی طرح زندگی گزارنے لگا۔چونکہ ایک ایسی ریاست سے اس کا تعلق تھاجہاں پانی کی کمی کامسئلہ تھا،اس لئے اس نے اپنے علم کوپانی کی تلاش اورترسیل کیلئے مخصوص کرلیا۔اکثرپڑھے لکھے امریکیوں کی طرح اسے بھی عالمی اداروں اوربڑی بڑی عالمی کمپنیوں میں ملازمت ملنا مشکل نہیں تھی۔اسے بھی ایک ایسی ہی ایک انٹرنیشنل کمپنی میں ملازمت مل گئی جس کی وجہ سے اسے افریقہ کے ایسے ممالک میں کام کرنے کا موقع ملاجہاں قحط ،خشک سالی،غربت اورمحکومیت ہرجگہ نظرآتی تھی۔یہاں اس امریکی کے سامنے اس کے اپنے ملک اوراپنے ہم مذہب لوگوں کادہرامعیارپہلی دفعہ نظرآیا۔صومالیہ میں اس کی پوسٹنگ نے جلتی پرتیل کاکام کیا۔ اس نے قحط زدہ لوگوں کی امدادکے نام پرآئے ہوئے امریکیوں کوایک خاص تعصب کے ساتھ مسلمانوں پرگولیاں برساتے دیکھا ۔ اس نے سوڈان میں کیمیائی ہتھیار تباہ کرنے کے نام پروہاں کی سب سے بڑی دوائیوں کی فیکٹری تباہ ہوتے دیکھی،جس کے بعد وہاں کے مسلمان عام اسپرین کی گولی کیلئے بھی ترسنے لگے اوریہاں تک کہ9 جولائی2011 کواس ملک کے دوٹکڑے کرکے ایک حصہ پرعیسائی حکومت قائم کردی گئی،اس کے ساتھ ہی براعظم افریقہ کااب تک کاسب سے بڑا معدنیات سے مالامال ملک دوحصوں میں یعنی شمالی اورجنوبی سوڈان میں تقسیم کردیاگیاجبکہ مئی2011کے آخرمیں شمالی افریقاکی حکومت نے تیل سے مالامال علاقے”ابئی”پراستعمارکی درپردہ مددسے قبضہ کرلیاتھاجس پراب تک شمال اورجنوب دونوں اپنادعویٰ کررہے ہیں۔
میری اس سے ملاقات آج سے25سال پہلے جنوری1999میں ایشین ڈیولپمنٹ بینک کے ہیڈکوارٹر”ماندایولونگ منیلا”میں ہوئی۔ مجھے وہ اپنے مسلمان ہونے کے انتہائی دلچسپ واقعہ سے بھی آگاہ کرچکاتھا۔ہزاروں کمروں کی اس عمارت میں اس صرف اس کے کمرے کے باہربسم اللہ الرحمن الرحیم کی خوبصورت گولڈن تختی لگی ہوئی تھی۔ یوں تومنیلاکے شہرمیں ہزاروں مسلمان رہتے ہیں اور ایشین بینک میں بھی کئی مسلمان کام کرتے ہیں جن میں پاکستانی بھی ہیں لیکن جس کمرے کے دروازے سے اس بات کا اظہارہوکہ وہ مسلمان ہے،وہ جوزف کاکمرہ تھاجواب اپنے آپ کویوسف کہتاتھا۔ایک قدآورگوراامریکی جسے اللہ تعالی نے ہدایت دی تواس نے صومالیہ کی ایک کالی مسلمان لڑکی سے شادی کرلی۔ہدایت کانوربھی عجب ہے،آدمی کے اردگرداپناہالہ بنالیتاہے۔ منیلاکے مسلمان بھی اس ہالے سے متاثرہوئے بغیرنہیں رہ سکے۔وہ دیکھتے تھے کیاعجیب امریکن ہے،انگریزی بول رہاہوتو ہمیشہ اللہ کے ذکرپر”اللہ سبحانہ تعالیٰ” پڑھتا ہے ”گاڈ”کالفظ قطعا استعمال نہیں کرتااورپیارے محمدۖکانام آئے توپورادرود شریف پڑھتاہے۔وہ تمام الفاظ جومسلمان کی پہچان ہیں،جیسے اسلام علیکم،بسم اللہ،سبحان اللہ اورالحمد اللہ،سب اسی طرح بولتاہے۔ کبھی اس نے”ہائے،تھینکس گاڈ،گڈلک”نہیں کہا۔ اتنے بڑے ادارے میں کام کے دوران ہزاروں تقریبات ہوتی ہیں،کسی کی بات پسندآ جائے توتالی نہیں بجاتا،زورسے اللہ اکبرکہہ دیتاہے۔
اس کے گھرمیں ایک عجیب عالم تھاجومیں نے دیکھا۔حجاب میں ملبوس ایک بیوی اورایک سات سالہ بیٹی فاطمہ،میں جس دن اس کے گھر گیا تویوسف نے بتایاآج کے دن یہ پیدا ہوئی تھی لیکن اس گھرمیں کوئی سالگرہ کاسماں نہیں تھا۔میں نے پوچھاتوفاطمہ نے خودکہامیں سالگرہ نہیں مناتی۔میں نے کہا:اس میں دوست آتے ہیں،تمہیں تحفے ملتے ہیں۔اس نے بڑی معصومیت سے کہا”میرے ماں باپ ہی میرے بڑے گہرے اوراچھے دوست ہیں اورمیری اچھی باتوں سے خوش ہوکرتحفے دیتے ہیں،پھراس رسم کی کیا ضرورت ہے۔ میں نے تحفے کی تفصیلات پوچھیں تواس نے بڑی سادگی سے جواب دیاکہ”آپ کوشائدعلم نہیں کہ میری والدہ حافظِ قرآن ہیں اورمیں نے بھی اپنی والدہ کی مددسے پچھلے ہفتے مکمل قرآن کریم حفظ کیاہے،بھلااس سے بڑاتحفہ اورکیاہوسکتاہے”۔ یوسف کی بیوی نے کہا”ہم لوگ یہاں کسی کلب وغیرہ میں نہیں جاتے،ڈانس نہیں کرتے لیکن ایک دفعہ ہم تینوں بے اختیارخوشی سے ناچ اٹھے جب پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کیاتھا”۔
لیکن جس بات نے مجھے حیرت اورشرمندگی میں ڈال دیاوہ شائدہم سب کوبحیثیت مسلمان حیرت میں ڈال دے۔میں اس کے ساتھ ایشین بینک کے ایک کمرے میں جسے لوگوں نے نمازپڑھنے کیلئے مخصوص کیاتھا،نمازپڑھنے گیا۔میں قصرکی آدھی نمازپڑھ کرتھوڑی دیرمیں باہر آگیا،لیکن اسے وہاں سے باہرآنے میں پون گھنٹہ لگ گیا۔میں حیران تھاکہ یہ شخص میرااتنابھی خیال نہیں کرتاکہ میں باہرکھڑااس کاانتظارکررہاہوں۔میں یہ سوچ رہا تھااورکڑھ بھی رہاتھاکہ وہ میرے پاس آیااوربڑی شرمندگی اورانتہائی عاجزی سے کہنے لگا کہ”اصل میں تم لوگوں نے بچپن سے رب کریم کاذکرسناہوتاہے،مسلمان گھرمیں پیداہوتے ہو،اس لئے تم نمازپڑھتے ہوئے اللہ تعالی کاتصورذہن میں لانے میں کتنی آسانی ہوتی ہے،مجھے اس کیفیت کوخودپرطاری کرنے میں اورذہن کویکسو کرنے میں توآدھ گھنٹہ لگ جاتاہے کہ میں رب ذوالجلال کے حضورکھڑاہوں جومیرے دل ودماغ کے چھپے ہوئے خیالات سے بھی واقف ہے۔آپ مہربانی کرکے کوئی ایسا طریقہ بتائیںکہ میں جلدی سے اللہ تعالی کے تصورمیں اپنے آپ کویکسوکرسکوں”۔اس جملے کوسن کرمیں لرزاٹھااور میری آنکھوں سے یک دم آنسو چھلک پڑے،شرم سے میرا سر جھک گیا۔میرے دامن میں ایمان کی کمتری کے سوا کچھ نہ تھااورچندمنٹ قبل میں بلڈنگ کی جس بلندی پرکھڑانیچے گاڑیوں اورانسانوں کے اژدھام جو معمولی نقطوں کی طرح نظرآرہے تھے،یوں محسوس ہواکہ کسی نے مجھے یہاں سے نیچے دھکادے دیاہے۔یوسف میری یہ حالت دیکھ کرپریشانی میں افسوس کااظہارکررہاتھاکہ اس نے نجانے کوئی دل دکھانے والی بات کہہ دی ہے لیکن وہ اب تک نہیں جان سکاکہ مجھے جوآئینہ اس نے دکھایا،میں اس میں خودکودیکھ کرنڈھال ہو گیاہوں۔
میں شرمندہ کیوں نہ ہوتا،ہم تواپنے رب کے سامنے جاتے ہوئے اتنابھی خوف نہیں کھاتے جتناایک پٹواری یاتھانیدارکے سامنے جاتے ہوئے کھاتے ہیں۔ہم انگلش میڈیم میں چارجماعت پڑھ لیں توہمیں اتنی دیرتک سکون نہیں ملتاجب تک تھوڑامنہ ٹیڑھاکرکے ”وش یوگڈلک،اوہ گاڈ”نہ کہہ لیں۔میری آنکھوں میں آنسوؤں کی جھڑی دیکھ کریوسف مجھ سے متاثرہورہاتھاکہ میں اللہ تعالی کے خوف اورخشیت کی وجہ سے رورہاہوں،حالانکہ میں تو اپنے ایمان کی کمزوری،اپنے عمل کی کمتری اورشرمندگی کی وجہ سے رورہاتھا۔صحیح تھا، تھانیدار،پٹواری،وزیر،چیف سیکریٹری،گورنراوروزیراعلیٰ ایسے کئی خداؤں کے سامنے خوف سے کانپنے والے مجھ جیسے مسلمان ایک ان دیکھے اللہ کے سامنے کیسے خوف سے کانپ سکتے ہیں؟
قارئین!مجھے اس کی آمدکاسن کرایک خوف طاری ہوگیاہے کہ اگراس نے اپنایہ سوال دہرادیاکہ آخرمسلمان اس قدرذلیل ورسوا کیوں ہورہے ہیں تواس کامیں کیاجواب دوں گا؟ تمہارے کہنے پرمیں نے اکتوبر2007میں اپنے کیریئرکوداؤپرلگاکراس وقت کے فوجی آمرپرویزمشرف سے ملاقات کرکے ان کی خواہش پرپانچ نکاتی فارمولہ دیاتھااورساتھ ہی یہ کہاتھاکہ اگرآپ اپنے موجودہ وزیراعظم (شوکت عزیز) کی مالیاتی پالیسیوں پرعملدرآمدفوری طورپرروک دیں تویہ ملک کے حق میں بہترہوگا،اس نے بلا جھجک یہ مشورہ بھی دیا کہ اگراس پرعمل نہ کیا گیاتواگلے بیس سال میں ایٹمی پاکستان کاکیاحشرہوگا۔میں جب آج کاپاکستان دیکھتاہوں تواس کے بتائے ہوئے سارے خدشات کوسامنے دیکھ کردل بیٹھنے لگتاہے۔ رہے نام میرے رب کا جو دلوں کے بھید جانتا ہے!
بہت شدید تشنج میں مبتلالوگو!
یہیں قریب،محبت کاایک قریہ ہے
یہاں دھوئیں نے مناظرچھپارکھے ہیں
مگرافق بقاکاوہاں سے دکھائی دیتاہے
یہاں تواپنی صداکان میں نہیں پڑتی
وہاں خداکاتنفس دکھائی دیتاہے


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر