... loading ...
جاوید محمود
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ پانچ نومبر کا صدارتی انتخاب لڑنے اور اپنے حریف ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دینے کے لیے ذہنی اور جسمانی طور پر فٹ ہیں جبکہ زمینی حقائق کچھ اور کہہ رہے ہیں۔ صدر بائیڈن گزشتہ 50برسوں سے سیاست میں ہیں اور اپنے عہدے کی دوسرے مدت کے لیے نومبر میں ہونے والا صدارتی مقابلہ جیتنے کے لیے انتخابی مہم چلا رہے ہیں لیکن دوسری جانب واشنگٹن میں کچھ ڈیموکریٹ قانون ساز پرائیویٹ طور پر اور عوامی حلقے بڑے پیمانے پران خدشات کا اظہار کر چکے ہیں کہ 81سالہ صدر بائیڈن کے پاس ٹرمپ کا مقابلہ کرنے کے لیے ذہنی صلاحیت اور جسمانی قوت موجود نہیں اور انہیں صدارتی انتخاب کی دوڑسے نکل جانا چاہیے۔ اس کے برعکس جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ اگر خدا زمین پر آ کر کہے کہ اس دوڑ سے نکل جاؤ تو میں اس سے نکل جاؤں گا لیکن خدا نیچے نہیں آ رہا۔
صدر بائیڈن اپنے صدارتی حریف ٹرمپ کے ساتھ پہلی صدارتی بحث کے دوران جھجکتے ہوئے دکھائی دیے اور کئی موقعوں پر وہ اپنے خیالات کی ترتیب کھو بیٹھے تھے۔ اس مباحثے میں صدر بائیڈن ٹرمپ پر مسلسل وار کرنے یا اپنے عہدے کے ساڑھے تین سال کے عرصے کا دفاع کرنے میں ناکام رہے تھے۔ بائیڈن نے صدارتی مباحثے کی رات کا ذکر کرتے ہوئے ایک موقع پر کہا کہ وہ تھکے ہوئے تھے اور ان کی طبیعت بہت خراب تھی۔ اپنی خراب کارکردگی کے بارے میں ان کا مزید کہنا تھا کہ اس میں کسی کی غلطی نہیں۔ میرا وقت خراب تھا۔ ایک انٹرویو کے دوران جب صدر بائیڈن سے پوچھا گیا کہ آیا انہوں نے کبھی اپنا اعصابی ٹیسٹ کروایا ہے جس پر بائیڈن نے جواب دیا کہ وہ عالمی اور قومی مسائل سے نمٹنے کے لیے ہر روز ایک مکمل اعصابی ٹیسٹ سے گزرتے ہیں ۔ان سے پوچھا گیا کہ ان کی سمجھ بوجھ کا ٹیسٹ ہوا ہے، بائیڈن کا کہنا تھا کہ کسی نے نہیں کہا کہ مجھے اس کی ضرورت ہے۔ بائیڈن نے وسکانسن کے علاقے میڈیسن میں ایک ریلی کے دوران اپنے حامیوں کو یقین دلایا کہ میں انتخابی دوڑ میں شامل ہوں اور میں دوبارہ جیتنے جا رہا ہوں۔ انہوں نے پرجوش حامیوں سے با آواز بلند کہا کہ میں نے ٹرمپ کو شکست دی تھی۔ میں اسے دوبارہ ہراؤں گا ۔امریکہ کے تین بڑے اخبارات نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اور وال اسٹریٹ جرنل نے حالیہ دنوں میں اپنی اشاعتوں میں لکھا ہے کہ حالیہ مہینوں کے دوران بائیڈن کی یادداشت کی خرابی اور بھولنے کے زیادہ واقعات ہوئے ہیں۔ جبکہ کچھ مغربی عہدے دار یہ کہہ رہے ہیں کہ اٹلی میں ہونے والی جی سیون کے حالیہ سربراہی اجلاس میں بھی اس حوالے سے بائیڈن میں تنزلی محسوس کی گئی تھی۔ زیادہ تر ڈیموکریٹس بائیڈن اور ان کی انتخابی ساتھی نائب صدر کاملہ ہیرس کی بھرپور حمایت کر رہے ہیں جبکہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بائیڈن کا انتخابی دوڑ سے باہر ہونا پارٹی کے لیے بہتر ہوگا۔
ڈیموکریٹ پارٹی اگست میں اپنا قومی کنونشن منعقد کر رہی ہے جس میں صدارتی امیدوار کو نامزد کیا جائے گا۔ لیکن اب صدارتی امیدوار کے متعلق طے کرنے کے لیے بہت کم وقت باقی رہ گیا ہے۔ ایوان نمائندگان میں کم از کم تین ڈیموکریٹس نے صدر بائیڈن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ نامزدگی سے دستبردار ہو جائیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ صرف خدا ہی انہیں دوبارہ انتخاب میں حصہ لینے کی دوڑ سے باہر نکلنے کے لیے راضی کر سکتا ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ جو بائیڈن نے صدارتی انتخاب لڑنا اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا ہے جس کے اثرات امریکہ پر منفی پڑسکتے ہیں۔ جو بائیڈن نے اتحادیوں کی جانب سے صدارتی دوڑ سے باہر نکلنے کی تجاویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔بائیڈن ان دنوں زور شور سے اپنے اس اعتماد کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جسے وہ ریپبلکن حریف ڈونلڈ ٹرمپ سے بحث کے بعد کھو رہے تھے۔ ریلی میں اسٹیج کی جانب جاتے وقت بائیڈن ایک ووٹر کے پاس سے گزرے جس کے پاس ایک پوسٹر پر کچھ یوں لکھا تھا کہ آپ شمع کسی اور کو دے دیں۔ پنڈال کے باہر کھڑے ایک اور ووٹر نے پلے کارڈ پر لکھا تھا اپنی میراث بچاؤ میدان چھوڑ دو ۔ جو بائیڈن نے یہ اعتراف کیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ صدارتی بحث میں بہتر کارگردی کا مظاہرہ نہیں کیا مگر اس کے باوجود انہوں نے اپنے حامیوں کو یقین دلایا ہے کہ وہ صدارتی دوڑ کاحصہ رہیں گے۔ انہوں نے مباحثے کے دوران اپنی کارکردگی کو ایک غلطی قرار دیا تاہم انہوں نے ووٹرز پر زور دیا کہ وہ انہیں ووٹ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ وائٹ ہاؤس مین گزاری ان کی صدارتی مدت کے مطابق کریں۔ کچھ رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ بائیڈن صدارتی دوڑ کے حوالے سے اپنے مستقبل کا جائزہ لے رہے ہیں ۔تاہم ان افواہوں کے دوران وہ ریاستی گورنرز اور مہم کے عملے سمیت سینئر ڈیموکریٹس کو پرسکون رکھنے کے لیے کام کرتے رہے ۔بائیڈن نے مہم کے دوران کہا کہ میں ڈیموکریٹ پارٹی کا نامزد امیدوار ہوں، کوئی مجھے باہر نہیں نکال رہا اور میں کہیں نہیں جا رہا ہوں۔ اس دوران ان کے ساتھ نائب صدر کملا ہیرس بھی تھی جنہوں نے صدر کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کیا۔ اب تک ایسی قیاس آرائیاں بھی عروج پر ہیں جن کے مطابق نائب صدر کملا ہیرس نومبر کے انتخابات سے قبل پارٹی کی امیدوار کے طور پر صدر بائیڈن کی جگہ لے سکتی ہیں۔ بائیڈن اور ہیرس کی انتخابی مہم کے بعد بھیجی گئی فنڈ ریزنگ ای میلز میں بھی بائیڈن نے کہا مجھے واضح اور آسان الفاظ میں یہ کہنے دیں میں صدارتی دوڑ میں حصہ لے رہا ہوں۔ صدارتی بحث میں آنے والے ابتدائی چند موضوعات میں معیشت اور امیگریشن جیسے اہم مسائل شامل تھے۔ یہ ایسے موضوعات ہیں جن پر بیشتر امریکی جو بائیڈن سے زیادہ ڈونلڈ ٹرمپ پر اعتماد کرتے ہیں اور اس بات نے امریکی صدر کے لیے مسئلے کو مزید گمبھیر بنا دیا ہے۔ ٹرمپ نے بائیڈن کے ایک اور جواب کے بعد طنز کرتے ہوئے کہا کہ مجھے نہیں سمجھ آئی کہ انہوں نے اس جملے کے آخر میں کیا کہا اور میرے خیال میں شاید یہ خود بھی نہیں جانتے ۔تازہ ترین سروے کے مطابق 77فیصد امریکن بائیڈن کے صدارتی دوڑ میں حصہ لینے کے خلاف ہیں ۔ بظاہر لگتا ہے کہ امریکن صدارتی دوڑ انا پرستی کی بھینٹ چڑھ سکتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔