... loading ...
ب نقاب /ایم آر ملک
ماضی کے اوراق میں سانحہ ماڈل ٹائون کو ہم طاقت کی وحشت کا زوال کہہ سکتے ہیں جس میں اصل کرداروں نے اقتدار کی کھال میں چھپ کر 14بے گناہوں کی لاشیں گرائیں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس سانحے میں خوفزدگی کی سیاست کو اجاگر کرنے کی سعی کی گئی۔ ذمہ داروں کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج تک نہ ہونے دیا گیا ، جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے ،فروری 2024کے الیکشن میں شریف خاندان کو ملنے والی شکست کے اثرات آئے روز گہرے ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ امریکی ایوانِ نمائندگان کی قرارداد،اقوام متحدہ کا رد ِ عمل واضح کر رہا ہے کہ عوام کے شعور پر فتح کے جھوٹ کو مسلط کرنے کی سرتوڑ کوشش کی جارہی ہے۔ زر خرید ایک ”میر جعفر ” کے ٹی وی چینل نے جس جشن کا سماں باندھا، وہ در اصل عوام کے حق ِ خود ارادیت کے چرائے جانے کا تماشا تھا ،بکائو میڈیا پر ایک سرمایہ دار حکمران کی جس مبینہ جیت کو عوامی حمایت قرار دیا جارہا تھا محض ایک فریب تھا ،ایک دھوکہ تھا یہ انتخابی نتائج فائز عیسیٰ ،الیکشن کمیشن کی طرف سے کئے گئے بے ہودہ فراڈ کو عیاں کرنے کیلئے کافی ہیں۔ ایک ایسی جمہوریت کا ناٹک جو خود ساختہ تخلیقی اعداد و شمار کا گورکھ دھندا ہے۔
اقتدار اور فسطائیت کا موجودہ دورانیہ میاں برادران کے حواریوں ،قلم بیچ کر نقش خیال مرتب کرنے والے اور جمہور نامے لکھنے والے عرفان صدیقی جیسے میر منشیوں کیلئے کھو کھلی اُمید کا آخری موقع ہے۔ حکمران لاکھ وضاحتیں کریں کہ بجلی بلز کی ڈکیتی آئی ایم ایف کی چال ہے عوام اس دھول کو اپنی آنکھوں میں پڑنے نہیں دیں گے ۔ وہ اس سچ پر جھوٹ کی تہہ نہیں چڑھنے دیں گے کہ ٹک ٹاکر وزیر اعلیٰ نے الیکشن کے دوران تین سو یونٹ اور نواب شاہ کے زرداری کے بیٹے نے دو سو یونٹ استعمال کرنے والوں کو ہر جلسہ میں مفت بجلی فراہمی کی، جھوٹی خوشخبریاں سنائیں عوام کے خلاف انتقام کی جو خونی فصل موجودہ حکمرانوں نے بوئی وہ اُنہی کے ہاتھوں کٹے گی ،لذت گریاں سے وہی محظو ظ ہوں گے ۔
خاندانی شہنشاہی آمریت کیلئے ناکام خواہشات کا تسلسل ہے جو ٹوٹنے میں نہیں آرہا ،شہر قائد کے لوگ نہیں بھولے کہ نواز شریف کی طرف سے قوم پر مسلط آمر مشرف کی طرح جس نے 12مئی 2007کو کراچی میں بے گناہوں کے لہو سے خون کی ہولی کھیلی اور خود شہر اقتدار میں مُکا لہرا لہراکر عوامی حمایت کا ڈھنڈورا پیٹا ۔یقینا رائے ونڈ کے حکمرانوں کوشہر اقتدار میں جلسہ کو بے تکی منطق سے روکنے پر تحریک انصاف کے لاکھوں جانبازوں اور سیاسی کارکنوں کو جوابدہی کا سامنا ہے جو 8فروری 2024کو اپنی زندگی میں حقیقی تبدیلی کیلئے سچی اور سر گرم جدوجہد کے جاں سوز مرحلے سے گزرے ،اُنہوں نے الیکشن جیت کر دکھایا ۔آپ اسے عمران کے پرستاروں کے انقلابی جوش و جذبے کا ہی نتیجہ کہہ سکتے ہیں کہ رائے ونڈ کے شریفوں کے ہاتھ سے لاہور بھی نکل گیا۔ یہی کچھ کراچی نے دیکھا کہ تمام نشستیں تحریک انصاف کی دسترس میں چلی گئیں جس کی انتہائی معتبر گواہی موجودہ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے اپنی نشست سے دست بردار ہوکر دی۔
بھٹو مرحوم نے کہا تھا وطن عزیز میں سیاست کا آغاز جس نے لاہور سے نہیں کیا اُس کی سیاست نامکمل ہے اور جس کے ہاتھ سے لاہور نکل گیا اُس کے ہاتھ سے سیاست نکل گئی ۔المیہ یہ ہے کہ بھٹو مرحوم اور محترمہ بے نظیر کے بعد اپنے دور کی سب سے بڑی سیاسی جماعت (تب اب نہیں )پر مسلط ہونے والی حادثاتی قیادت نے رجیم چینج کے بعد بجائے عوامی حقوق کی جنگ لڑنے والی اپوزیشن کے ،عوام کو متحرک کرنے کے ”ایک وفادار ”کا فریضہ انجام دینے پر اکتفا کیا اس طرح بھٹو مرحوم کی پارٹی نے اُن کو قتل کرنے والی آمریت کی کوکھ سے جنم لینے والی مسلم لیگ ن کو وہ طاقت فراہم کی جو عوام کی جدوجہد کو روکنے اور کچلنے کے کام آتی ہے چنانچہ اس بات پر حیران ہونے کی کوئی وجہ نہیں کہ پی پی پی کا مضبوط ووٹ بنک ایک عوامی جماعت کا کردار نہ ہونے کی بنا پر تاش کے پتوں کی طرح بکھر چکا ہے۔ پی پی نے دانستہ خاندانی شہنشاہی حکومت کی باقاعدہ فوج بننے کا عمل کیا۔
موجودہ حکمران طبقات اور اُن کی حلیف پارٹیوں کے معیارات صرف اور صرف اس نکتے پر جمے ہوئے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ منافعوں کو ممکن بنانے والی پالیسیاں ہی سوچی اور عمل میں لائی جائیں۔ یہ پالیسیاں اس نظام ِسرمایہ داری میں محنت کشوں کی ناکامی کا باعث بنتی چلی آرہی ہیں جو کسی طور پر مسائل کی حقیقی وجوہات کا نہ تعین کرتی ہیں اور نہ مداوا اور ہو بھی کیوں کہ یہ بھی تو ہمارے مسائل کا ہی ایک حصہ ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں منافع بنانے کے اپنے طریقے ہوتے ہیں جس میں سرمایہ دار حکمران محنت کشوں کا استحصال اُنہیں منافعوں اور روز گار کے حقوق سے محروم کرنے کی صورت میں کرتے ہیں ۔اقتدار کی ہوس کیلئے یہ بھی ایک ناکام خواہش کا تسلسل ہے کہ مسلم لیگ ن نے اپنی انتخابی مہم میں توانائی کے بحران کو بطور خاص استعمال کیا اور اس سلسلے میں 300یونٹ استعمال کرنے والوں کو مفت استعمال کے خوشنما وعدے عوام سے کئے گئے لیکن اقتدار پر قبضہ کے بعدیہ لفاظی بھی مبہم ہو کر ماند پڑ گئی۔
جسٹس طارق کے خلاف جعلی سند کا ریفرنس بھی انہی ناکا م خو اہشات کا نتیجہ ہے جو شخصی آمریت کو دام بخشنے کیلئے کی جارہی ہیں یہ بھی ”طوفانِ بد تمیزی ”ہے جس کا ہراول جوڈیشل کونسل کو بنایا گیا ہے اور پشتیبانوں نے اپنے خلاف ایک اور محاذ کھول لیا ہے ۔کارل مارکس نے بہت پہلے لکھا تھا
”قدر زائد کیلئے اندھا بے قابو جنون اور درندوں جیسی بھوک سرمائے کو نہ صرف اخلاقی بلکہ جسمانی مشقت بھی پار کرنے پر مجبور کر دیتی ہے یہ انسانی جسم کی نشو و نما ،بڑھوتری ،صحت مندی کے حالات کو غضب کر لیتا ہے یہ تازہ ہوا اور سورج کی روشنی سے لطف اندوز ہونے کا وقت بھی چرا لیتا ہے صرف ایک مقصد باقی بچتا ہے کہ ایک دن میں زیادہ سے زیادہ قوت محنت کیسے حاصل کی جائے یہ مقصد مزدور کی زندگی میں کمی کر کے حاصل کیا جاتا ہے بالکل ایسے ہی جیسے ایک لالچی کسان زیادہ پیداوار حاصل کرنے کیلئے زمین کی زرخیزی ختم کر دیتا ہے ” ۔