... loading ...
بے لگام / ستارچوہدری
ہر طرف بے یقینی اور ابہام کا موسم۔۔۔ ساتھیوں کی زمانہ سازی اور چھپی نفرتوں کا اظہار۔۔۔افسوس،شرمندگی۔۔ مشکل وقت وہ پیمانہ ہے جو دوستوں اور دشمنوں کے اصل رویوں کا تعین کرتا ہے۔۔
کیسی چلی ہے اب کے ہوا تیرے شہر میں
بندے بھی ہو گئے ہیں خدا تیرے شہر میں
ایک شخص نے بچھڑا ذبح کیا اور اسے آگ پر پکا کر اپنے بھائی سے کہا کہ ہمارے دوستوں اور پڑوسیوں کو دعوت دو تاکہ وہ ہمارے ساتھ مل کر اس کو کھائیں۔اس کا بھائی باہر گیا اور پکار کر کہا۔
اے لوگو!!
ہماری مدد کرو میرے بھائی کے گھر میں آگ لگی ہوئی ہے، کچھ ہی دیر میں لوگوں کا ایک مجمع نکلا اور باقی لوگ کام میں لگے رہے جیسے انہوں نے کچھ نہ سنا ہو،وہ لوگ جو آگ بجھانے میں مدد کو آئے تھے انہوں نے سیر ہوکر کھایا پیا۔ جب تمام لوگ چلے گئے تو وہ شخص اپنے بھائی کی طرف تعجب سے دیکھ کر کہنے لگا۔۔!!یہ جو لوگ آئے تھے میں تو انہیں نہیں پہچانتا اور نہ میں نے پہلے ان کو دیکھا ہے پھر ہمارے دوست احباب کہاں ہیں؟بھائی نے جواب دیا کہ یہ لوگ اپنے گھروں سے نکل کر ہمارے گھر میں لگی آگ بجھانے میں ہماری مدد کو آئے تھے، ناں کہ دعوت میں،اس لیے یہی لوگ مہمانی اور مہربانی کے مستحق ہیں، یہی ہمارے دوست ہیں، جومدد کرنے کی آواز پرنہیں آئے وہ کیسے ہمارے دوست ہوسکتے ہیں؟ برا وقت تو ایسی لیب ہے جو اپنے اور بیگانوں کی پہچان کرا دیتا ہے۔
نومئی جہاں تحریک انصاف کیلئے بربریت کی آندھی،زیادتی کاطوفان،لاقانونیت کا سیلاب،ظلم وستم کی داستانیں،جبر کے قصے لیکر آیا، وہاں ایک بھلا بھی ہوا،لشکر عمرانی سے بزدل،کمزور،موقع پرست،لالچی افراد نکل گئے۔پارٹی کو کیا فرق پڑا؟ کپتان توجس پر ہاتھ رکھے وہ پتھر بھی ہیرا بن جائے،شیر افضل مروت کا کسی نے نام سناتھا؟جب ماؤزے تنگ نے لانگ مارچ شروع کیا،تعداد لاکھوں میں تھی،اختتام تک چند ہزار افراد باقی رہ گئے تھے،سیکریٹری سے پوچھا،کیا ہم کامیاب ٹھہرے یا ناکام؟ سیکریٹری بولا!! جب ہم چلے تھے لاکھوں میں تھے،اب ہزاروں میں ہیں،کامیاب کیسے ہوئے؟ماؤزے مسکرائے،کہا!! ہم کامیاب ہوئے ہیں،اب ہمارے ساتھ بہادر لوگ رہ گئے ہیں، سب بزدل اور کمزور لوگ بھاگ گئے۔
تحریک انصاف اور اس کا کپتان نو مئی کے بعد ناکام نہیں،کامیاب ہوئے ہیں،پارٹی بزدلوں،کمزوروں،موقع پرستوں سے پاک ہو گئی۔ ہاں!! اب بھی پارٹی میں کچھ رانگ نمبر ہیں،لیکن اتنا مارجن تو ہوتا ہے،آخر سب انسان ہیں،کچھ بشری کمزوریاں تو ہوتی ہیں، فرشتے تو نہیں۔بات ہمیشہ اکثریت کی،کی جاتی ہے۔اصل موضوع کی طرف آتے ہیں،پارٹی کے بھگوڑے اچانک منظر عام پر آگئے ہیں،فواد چوہدری، عمران اسماعیل،علی زیدی وغیرہ وغیرہ،شیخ رشید بھی میدان میں آگئے ہیں۔شیری مزاری نے بھی جھلک دکھا دی ہے۔پارٹی کی موجودہ قائم مقام قیادت پر شدید تنقید اور اپنی صلاحیتوں اور قربانیوں کا ذکرکررہے ہیں۔ پتا نہیں،یہ لوگ خود بدھو ہیں یا دوسروں کو بنانے کی کوشش کررہے ہیں؟ کیا کپتان اتنا بے خبر ہے کہ انہیں معلوم نہیں،فواد چوہدری کونسی اور کیسی جیل میں رہا،کونسا اس پر تشدد ہوا؟سب جانتے ہیں،ایسا ہی علی زیدی کے بارے میں۔ یہ لوگ توکمپنی کے جاسوس اور مخبر تھے،آنے والے دنو ں میں ساری تفصیلات منظر عام پر آجائینگی۔ ان لوگوں کو کبھی بھی پارٹی میں واپس نہیں لیا جاسکے گا،کپتان چاہے بھی تو انہیں واپس نہیں لے سکتا،کارکن اور فالورزتو ان کے کپڑے پھاڑ ڈالیں گے،انہیں قبو ل کون کرے گا؟دیکھا نہیں،جب بہاؤلنگر سے امتیاز عالم کو ٹکٹ دیا گیا تھا،کیا ہوا تھا؟ 24گھنٹے میں ٹکٹ واپس لینا پڑا تھا۔حال ہی میں ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں جب ”عزم استحکام” آپریش کا فیصلہ ہوا تھا،اجلاس میں گنڈا پور بھی شامل تھے،چند گھنٹوں بعد علی امین اپنی صفائیاں دینے پرمجبورہوگئے تھے۔پچھلے دنوں عمر ایوب اسلام آبادمیں کارکنوں کے ہاتھوں پٹتے پٹتے رہ گئے تھے۔پی ٹی آئی کی طاقت نوجوان ہیں،انہیں پر عمران خان کا اعتماد اور یقین ہے۔پارٹی کے فیصلے ان کی مرضی سے ہی چلیں گے۔کپتان کی وہی طاقت ہیں،جنہیں کبھی ختم نہیں کیا جائے گا،یہی پالیسی عمران خان کو شہرت کے آسمان پر بٹھائے ہوئے ہے۔فواد وغیرہ بات کرتے وقت کم از کم عالیہ حمزہ،یاسمین راشد،صنم جاوید،اعجاز چوہدری،محمود الرشید،سرفراز چیمہ کے چہرے ہی چشم تصور میں دیکھ لیا کریں،حرف آخر یہی ہے، انہیں بس ایسے ہی مصروف رکھا جائے گا جبکہ ان لئے پارٹی کے دروازے بند ہوچکے ہیں،جنہیں کھولنے والے بھی نہیں کھول سکیں گے۔ان لوگوں نے سیاسی خودکشی کی ہوئی،یہ مردے ہیں۔دنیا زندہ انسانوں کی ہوتی ہے،مردوں کی نہیں۔