... loading ...
ب نقاب /ایم آر ملک
سابقہ چیف جسٹس گلزار کے یہ ریمارکس ریکارڈ پر ہیں کہ قاضی فائز عیسیٰ اس بینچ کا حصہ نہیں بن سکتے جو عمران خان کے متعلقہ ہو مگر توسیع کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے ،جسٹس منیر کی روح بھی شرمندہ ہے ،دھاندلی کی راکھ پر جشن منانے والے فاتح نہیں شکست خوردہ ہوا کرتے ہیں ۔
نظریۂ ضرورت کے تحت فیصلے ایسے ہی ہوا کرتے ہیں ایک اکثریت مایوس ہے مگر مایوسی گناہ کے زمرے میں آتی ہے اور کون سے منصف وہ منصف جو اپنی ذاتی خواہشات کے تابع انصاف کا قتل کرتے رہے ۔کسی آمر کے ہاتھ پر بیعت کر کے اُس کے ہر غیر آئینی اقدام کو آئینی اقدام دینے پر تلے رہے پھر 40سالہ عدلیہ کی تاریخ اس امر کی غماز ہے کہ رائے ونڈ کے حکمرانوں کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں آیا ۔عوامی رد ِ عمل یہ ہے کہ ا سٹیٹس کو کی وہ ساری قوتیں عمران اور عوام کے خلاف متحد ہو چکیں اور انسان دشمن نظام جو ان کی بد معاشی کا محافظ ہے اسے بچانے کیلئے وہ کسی بھی حد تک جانے کے لیے گر چکی ہیں کہ اسی میں اُن کی بقا ہے ۔ٹک ٹاکراور جعلی وزیر اعلیٰ نے ایک خوف کے تحت عمران اور اس کی پارٹی کے خلاف اپنی ناجائز اور جعلی کابینہ کا اکٹھ کر کے من مانی تشریح کی ،یہ فیصلہ 25کروڑ عوام کے خلاف فرد جرم ہے ۔ عمران نے انصاف کے جس مندر کا دروازہ کھٹکھٹایا اُس کے تقدس کا بھرم تو اُسی روز ٹوٹ گیا تھا جس روز انصاف کے مندر میں بیٹھے ایک لے پالک جج نے حدیبیہ پیپر مل کے کیس پر جانبداری کی لکیر کھینچ دی ۔کیا ایک ایسی عدالت جس کے دروازے سے بدنام زمانہ منی لانڈرنگ کیس کی سر غنہ ایان علی تین ماہ بعد جرم ِ بے گناہی کی کلین چٹ لیکر باہر نکلی ۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے فرنگی کی عدالت میں کھڑے ہوکر ایک بار کہا تھا ” عدالت کی ناانصافیوں کی فہرست بڑی طولانی ہے تاریخ آج تک اس کے ماتم سے فارغ نہ ہو سکی ۔ ہم اس میں حضرت مسیح جیسے پاک انسان کو دیکھتے ہیں جو اپنے عہد کی اجنبی عدالت کے سامنے چوروں کے ساتھ کھڑے کئے گئے ،ہم کو اس میں سقراط نظر آتا ہے جس کو صرف اس لیے زہر کا پیالہ پینا پڑا کہ وہ اپنے ملک کا سب سے سچا انسان تھا ”۔
سیاست کے میدان میں نئی اُڑان بھرنے کیلئے انصاف کے دیوتا کا جو کردار ہے عوام آج اُس پر تھو تھو کرتے ہیں۔ اُس نے انصاف کی سب سے بڑی عدالت کو ”شریفوں کا اڈہ ”بناڈالا ۔میرے ایک لکھاری دوست کے بقول” ہمارے معاشرے میں موصوف کے تابناک ماضی کی شاندار لافانی کہانیاں رقص کرتی ہیں توہین عدالت کی تلوار سے جو گردن ِ زنی کا شوق پوراکرنے کے درپے ہے ،پی ٹی آئی کے وکیل نیاز نیازی کا یہ موقف مبنی بر حق ہے کہ ہمیں آپ پر اعتراض ہے آپ اس بینچ سے علیحدہ ہوجائیں کیا موصوف کو یہ بتانا پڑے گا کہ کہ اُس نے فروری 2024کے انتخابات میں فرائض ادا کرنے والے آر او صاحبان کا بیورو کریسی انتخاب کرکے،ملک کی ایک بڑی جماعت سے اس کا انتخابی نشان چھین کر الیکشن میں کس کو فائدہ پہنچایا محض اس لئے کہ انصاف کے اس دیوتا کو ریٹائرمنٹ کے بعد تاریخ کی انوکھی مراعات ملیںگی ، کیا یہ حقیقت نہیں کہ اصاف کے دیوتاانسانی حقوق کی پامالی پر آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں ،کیا اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز کے معاملے پر وہ خاموش تماشائی کا کردار ادا نہیں کر رہے ،سچ کی فائلیں ہمیشہ کیلئے انہوں نے اپنے ” نظریہ ضرورت ”کے نیچے دبا دیں ۔جو عدالتی نظام عوام سے اس کا حق خودارادیت چھیننے پر مصر تھا وہ الیکشن میں دھاندلی کیا ڈھونڈتا؟
کہیں بک گئی یہاں منصفی ،کہیں سوئے دار چلی خودی
کہیں زر خریدوں کے فیصلے ،کہیں اندھی بہری عدالتیں
ریمنڈ ڈیوس نے بھر ے بازار میں پاکستانی شہریوں کو گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اُتار دیامگر سموسوں اور پکوڑوں پر سو موٹو ایکشن لینے والے اسی عدالت میں بیٹھے افتخار چوہدری کا انصاف سویا رہا ۔پنجاب جہاں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی نے بدنام زمانہ سی آئی اے امریکہ کے ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس پر غیر قانونی اسلحہ کی دفعہ اس لئے نہ لگائی کہ اُس کی رہائی میں یہ دفعہ آڑے نہ آجائے۔
خود منصفوں کی تحریر 2013کے الیکشن پربھی کراس کا نشان لگاتی ہے کہ
{an election could be organized in an unfair manner but may still represent the over all mandate and vice versa}
یعنی” ایک الیکشن کا انعقاد غیر شفاف ہو سکتا ہے لیکن پھر بھی وہ لوگوں کے مینڈیٹ کی عکاسی کرتا ہے” عمران کی ان باتوں سے اتفاق کئے بنا چارہ نہیں کہ ‘ ‘میاں صاحب نے کہا وہ جیت گئے ،میاں صاحب آپ ہارے کب ہیں ؟اصغر خان کیس سپریم کورٹ میں پڑا ہے۔جس میں آئی ایس آئی چیف کہتا ہے کہ ہم نے 1990میں نواز شریف کو پیسے دیئے ،مہران بنک کو پیسے دیئے کیس ابھی تک عدالت میں ہے اور آپ جیت گئے ،اسحاق ڈار نے حلف نامہ لکھ کر دیا کہ اُس نے آپ کیلئے منی لانڈرنگ کی پھر بھی آپ جیت جاتے ہیں۔ مشرف دور میں حدیبیہ پیپر ملز ،ہائی جیک کیس ،ٹیکس چوری کیس پھر این آر او ہو جاتا ہے میاں صاحب سعودی عرب چلے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کوئی معاہدہ نہیں ہوا ، شہزادہ آکر بتاتا ہے کہ معاہدہ ہوا تھا مگر آپ جیت جاتے ہیں پھر آپ ساڑھے تین ارب کے ڈیفالٹر ہوتے ہیں ۔ڈیفالٹر الیکشن نہیں لڑ سکتا لیکن آپ کو کوئی روک نہیں سکتا اور آپ جیت جاتے ہیں،اربوں کے اثاثے ملک سے باہر پڑے ہیں ایک جمہوری ملک میں ڈیکلیئر نہیں مگر میاں صاحب آپ جیت جاتے ہیں ”۔
ہم اُس نظام پر کیسے اعتبار کریں جس نظام کے تحت عمران انصاف کے حصول کی خاطر انصاف کی ہر دہلیز پر پہنچا مگر ہر دروازے پر دستک کے بعد اُسے اپنی ہی آواز سنائی دی ۔جس ملک میں ادارے کرپشن کی نذر ہوکر بکنے لگیں ،تمام سیاسی جماعتیں خاموش ہو جائیں ،صحافی سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ لکھنے کی جزا پاکر عہدوں پر بیٹھنے لگیں اُس ملک میں محب ِ وطن لوگوں کی خاموشی جُرم تصور ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔