... loading ...
ریاض احمدچودھری
مودی حکومت نے جموں خطے کے ضلع سامبہ میں فرمان علی اور فرمان دین نامی دو شہریوں کے 50 لاکھ روپے سے زائد مالیت کے دو رہائشی مکان ضبط کر لیے۔بھارتی حکومت مختلف بہانوں سے کشمیری مسلمانوں کی املاک ضبط اور مسمار کر رہی ہے جسکا واحد مقصد انہیں جاری تحریک آزادی کی حمایت ترک کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ضلع کپواڑہ کے متعدد دیہات کے مکینوں نے قابض بھارتی انتظامیہ کی عوام دشمن پالیسیوں کیخلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ضلع کپواڑہ کے علاقے کنڈی کے سینکڑوں رہائشیوں نے قابض بھارتی انتظامیہ کی عوام دشمن پالیسیوں کیخلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتا یا کہ وہ ایک عرصے سے پینے کے پانی سے محروم ہیں جبکہ انتظامیہ مسئلے کے حل کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہی۔
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ وہاں بھارت سے ہندوؤں کو لا کر بسایا جائے اور یوں کشمیر کی آبادی میں مسلم اکثریت کو ختم کیا جائے۔ غیر کشمیری ہندوؤں کو کشمیر میں بسانے کیلئے زمین کی ضرورت تھی جو کہ 370 آرٹیکل کے تحت ممکن نہ تھا کیونکہ اس آرٹیکل کے تحت کوئی بھی غیر کشمیر ، مقبوضہ وادی میں جائیداد یا زمین نہیں خرید سکتا تھا۔ اسی لئے آرٹیکل کو ختم کر کے فلسطین میں یہودیوں کی بستیوں کی طرف یہاں ہندوؤں کی بستیاں بسائی جانے لگیں۔بستیاں بسانے کیلئے زمین کی ضرورت ہے جس کیلئے جموں و کشمیر پر بھارتی قبضے کے دوران بھارتی انتظامیہ جھوٹے مقدموں کے ذریعے کشمیریوں کی جائیداد ہتھیانے لگی ہے۔ قابض بھارتی فوج اور انتظامیہ” اسرائیلی ماڈل” پر عمل درآمد کرتے ہوئے کشمیریوں کی جائیدادوں پر انتہاپسند ہندوؤں کو آباد کیا جاسکے اور نسل کشی کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں مسلمان اکثریت کو اقلیت میں بدلا جائے۔بھارتی وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے مقبوضہ کشمیر میں ”اسرائیلی ماڈل”پر کام کرنے کا منصوبہ بنایا تھا جس کا اعلان بھارتی وزیراعظم کی جانب سے سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آیا تھا۔
مقبوضہ کشمیر میں پہلے ہی حریت پسندوں کی جائیداد ضبطی کا عمل جاری ہے۔کیونکہ بھارتی حکومت اسرائیلی طرز پر مقبوضہ کشمیر میں ہندوؤں کیلئے علیحدہ بستیاں بنانا چاہتی ہے تاکہ یہاں کی مسلم اکثریت اقلیت میں بدل جائے۔ اسی لئے سب سے پہلے وادی کی 9600 کنال سے زیادہ اراضی پر قبضہ کیا گیا جس پر37 نئی صنعتی سٹیٹس قائم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔جموں و کشمیر رائٹ ٹو انفارمیشن(آر ٹی آئی) موومنٹ کے چیئرمین ، ڈاکٹر راجہ مظفر بٹ کا کہنا ہے کہ 9600 کنال پر قبضہ زراعت پر مبنی کشمیر کی معیشت کے لئے تباہ کن ثابت ہوگا۔ فیکٹریاں لگانے کے بجائے 9600 کنال اراضی پر 100 زرعی فارموں کے قیام عمل میں لایا جاسکتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سری نگرمیں عمر کالونی کی عیدگاہ میں لگنے والی خوفناک آگ سے ایک مسجد شہید اور کئی مکانات جل کر خاکستر ہوگئے۔ پورا علاقہ دھوئیں سے بھر گیا’ درجنوں خاندان بے گھر ہوگئے۔ علاقہ مکینوں نے شکایت کی کہ ریسکیو ادارے تاخیر سے پہنچے۔ مسجد کو بچایا جا سکتا تھا لیکن بھارت نواز کٹھ پتلی انتظامیہ نے مذہبی منافرت کا مظاہرہ کیا اور مالی نقصان زیادہ ہوا۔ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں وکشمیر میں بھارتی فوجیوں نے اپنی ریاستی دہشت گردی کی مسلسل کارروائیوں کے دوران رواں برس جنوری سے جون تک 33 کشمیریوں کو شہید کیا۔ فورسز نے ان میں سے 16 نوجوانوں کو جعلی مقابلوں میں یا دوران حراست شہید کیا۔بھارتی فورسز نے گزشتہ چھ ماہ کے دورانحریت رہنما فردوس احمد شاہ اور معروف کشمیری وکیل اور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر میاں عبدالقیوم سمیت 2 ہزار 5سو 89 کشمیریوںکو گرفتار کیا۔فوجیوں نے محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں کے دوران کم از کم چھ مکانات اور دیگر عمارتوں کو کیمیائی مادے کا استعمال کرتے ہوئے تباہ کیا۔اس دوران جامع مسجد سری نگر اور عید گاہ سری نگر میں جمتہ الوداع ،، عیدالفطر اور عید الاضحی کی نماز کی اجازت نہیں دی گئی۔
مودی حکومت نے کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، محمد یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، آسیہ اندرابی، ناہیدہ نسرین، فہمیدہ صوفی، نعیم احمد خان، ایاز اکبر، پیر سیف اللہ، معراج الدین کلوال، شاہد الاسلام، فاروق احمد ڈار، سید شاہد یوسف شاہ، سید شکیل یوسف شاہ، بلال صدیقی، مولوی بشیر عرفانی، امیر حمزہ، ڈاکٹر عبدالحمید فیاض، عبدالاحمد پرہ، نور محمد فیاض، حیات احمد بٹ، ظفر اکبر بٹ ، محمد یوسف فلاحی، ڈاکٹر محمد قاسم فکتو، ڈاکٹر محمد شفیع شریعتی، غلام قادر بٹ، رفیق احمد گنائی، ظہور احمد بٹ، عمر عادل ڈار، سلیم ناناجی، محمد یاسین بٹ، فیاض حسین جعفری، عادل سراج زرگر، داؤد زرگر، اعزاز احمد شیخ، سرجان برکاتی، انسانی حقوق کے محافظ خرم پرویز، صحافی عرفان مجید اور سجاد احمد ڈار سمیت ہزاروں کشمیریوں کو بھارت اور مقبوضہ جموں وکشمیر کی جیلوں میں بند کر رکھا ہے۔
کل جماعتی حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈوکیٹ عبدالرشید منہاس نے سرینگر میں جاری ایک بیان میں کہا کہ ہندوؤں کی امرناتھ یاترا کیوجہ سے بھارتی ریاستی دہشت گردی کا مسلسل شکار کشمیری مزید مسائل و مشکلات سے دوچار ہو گئے ہیں۔ مودی حکومت نے امرناتھ یاتریوں کی سیکورٹی کی آڑ میں مقبوضہ علاقے میں محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں اور گھروں پر چھاپوں کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔ یاترا کے دوران مقبوضہ علاقے میں بھارتی فورسز کے ایک لاکھ کے قریب اضافی اہلکار تعینات کیے گئے ہیںجنہوں نے علاقے میں گاڑیوں ، مسافسروں اور راہگیروں کی تلاشی کا سلسلہ تیز کر دیا ہے جسکی وجہ سے عام لوگوں کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ بھارتی حکومت ایک طرف یاتریوں کو تمام سہولیات فراہم کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف اس نے کشمیری مسلمانوں کے دینی حقوق بھی سلب کر لیے ہیں اور وہ انہیں جمعہ اور عید کی نمازوں کی ادائیگی اور محرم الحرام کے جلوسوں سے روک رہی ہے۔28 جون کو شروع ہونے والی امرناتھ یاترا 19 اگست تک جاری رہے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔