... loading ...
ریاض احمدچودھری
بھارتی ریاست گجرات میں کرکٹ میچ کے دوران مسلمان نوجوان کو مشتعل ہجوم نے بلے، لاتوں اور گھونسوں سے مار مار کر قتل کردیا۔ بھارتی ریاست گجرات کے شہر آنند میں کرکٹ ٹورنامنٹ کا فائنل میچ کھیلا جا رہا تھا۔ اس دوران 15 سے 20 افراد کا مشتعل ہجوم میدان میں داخل ہوگیا۔میچ کے دوران ڈنڈوں، لاٹھیوں اور راڈوں سے لیس مشتعل ہجوم نے شعیب نامی نوجوان پر حملہ کردیا۔ شعیب کو بچانے کے لیے ٹیم کا ایک اور کھلاڑی سلمان نے اپنے دوست شعیب کو بچانے بیچ میں آگیا۔ مشتعل ہجوم نے شعیب اور سلمان کو بری طرح مارنا پیٹنا جاری رکھا اور دونوں کو نیم مردہ حالت میں چھوڑ کر فرار ہوگئے۔شعیب اور سلمان کوہسپتال لے جایا گیا جہاں سلمان نے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ دیا جب کہ شعیب کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے۔دونوں نوجوان کے والدین اور اہل محلہ پولیس اسٹیشن کے چکر کاٹ رہے ہیں لیکن جنونی حملہ آوروں کے خلاف اب تک مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔ملک میں رہنے والے 20 کروڑ سے زائد مسلمانوں کیلئے زمین تنگ کی جا رہی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف سرکار اور انتہا پسند ہندو ایک ہیں۔ غریب اور بے قصور مسلمانوں کو اتنا تنگ کیا جاتا ہے کہ وہ جان و مال دونوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ مودی کے پہلے دور 2014 سے لے کر اب تک مسلمانوں کو تنگ کرنے کے بہت سے بہانے گھڑے گئے۔ کبھی گھر واپسی مہم ، کبھی لو جہاد، کبھی سی اے اے تو کبھی این آر سی کے ذریعے انہیں تنگ کیا گیا۔ اب مسلمانوں کے خلاف ایک اور ہتھکنڈہ ہجوم زنی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔اب تک تقریباً 250 مسلمان اسی ہجوم زنی اور ہجومی دہشت گردی کا شکار ہو چکے ہیں مگر قانون بے بس ہے اور ایسے سماجی مجرمان کو سزا دینے سے قاصر ہے۔ اگر آپ مسلمان ہیں تو کبھی بھی اور کسی بھی وقت آپ پر جھوٹا الزام لگا کر آپ کو ہجوم زنی کا شکار بنا لیا جائے گا اور آپ اپنی جان گنوا بیٹھیں گے۔ کوئی پولیس، کوئی قانون ان مجرموں ، درندوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اگر قانون اپنا کام مؤثر طریقے سے کرتا تو ماب لنچنگ کا سلسلہ کب کا ختم ہو چکا ہوتا۔
بھارتی شہر گڑگاؤں میں گائے کے تحفظ کی نام نہاد تنظیم کے درجنوں شدت پسند کارکنوں نے بھینس کا گوشت لے جانے والے مسلمان نوجوان لقمان کو اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا کہ وہ وہ سدھ بدھ کھو بیٹھا۔جب لقمان کو بے دردی سے تشدد کا نشانہ بنایا جارہا تھا اس وقت سکیورٹی اہلکاربھی وہاں موجود تھے تاہم دیگر لوگوں کی طرح وہ بھی خاموش تماشائی بنے رہے۔نہتے لقمان کو اس کی گاڑی سے اتار کر ہتھوڑے مارے گئے اور پھر لاتوں اور گھونسوں سے اس کو اذیت دی گئی۔ جب اس کی حالت غیر ہوگئی تو پولیس نے مداخلت کی اور اسے ہسپتال منتقل کردیا اور ایک بار پھر نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرکے شدت پسندی کو ریاستی تحفظ فراہم کردیا۔ تریلوکپوری دہلی کے رہنے والا آفتاب اپنی ٹیکسی سے سواری کو چھوڑکر واپس گھر لوٹ رہا تھا تو راستے میں تھانہ بادلپور، ضلع گوتم بدھ نگر میں کچھ لوگوں کی بھیڑ نے اسے پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا۔ مقتول ڈرائیور کے بیٹے نے اپنی تحریری شکایت میں پولیس کو بتایا کہ اس نے اپنے والد کے قتل کے وقت تھوڑی سی بات ریکارڈ کر لی تھی جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے ہجومی قتل کے وقت جے شری رام کے نعرے لگانے کے لئے گالی گلوچ کی جا رہی تھی۔بھارتی ریاست ہریانہ میں ایک شخص کا ہاتھ صرف اس لئے کاٹ دیا گیا کہ اس پر 786 لکھا ہواتھا۔ پولیس ملزمان کی گرفتاری کیلئے لیت و لعل سے کام لے رہی ہے۔
شدت پسند بی جے پی کی انتہا پسند پالیسیوں نے بھارت میں اقلیتوں خصوصا مسلمانوں پرجھوٹے الزامات اور وحشیانہ تشدد بھارت میں معمول بن چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بھارت میں جو مسلمان ہجومی تشدد کا شکار ہوئے اور اپنی جان سے گئے، کیا ان کے وارثان کو اب تک کوئی انصاف ملا؟ کیا بھارت کا انصافی سسٹم بالکل اپاہج ہو چکا ہے؟ بھارت کے مہذب اور عزت دار شہریوں کے ساتھ بدسلوکی، ناانصافی، ظلم اور تشدد کب تک کیا جائے گا اور یہ کس کے اشارے یا شہ پر کیا جا رہا ہے ۔ مجرموں کے خلاف ایمانداری سے منصفانہ کاروائی کا جو حلف برسراقتدار لوگوں اور پولیس اور انتظامیہ کے لوگوں نے لیا ہوا ہے اس کی خلاف ورزی کب تک ہوتی رہے گی؟
ہندوستان جس تیزی سے نفرت و عداوت، بے روزگاری، لاقانونیت، شدت پسندی اور خوف و ہراس کی طرف بڑھ رہا ہے یہ نہ صرف انتہائی افسوسناک ہے بلکہ اس کے بقا کیلئے بھی خطرناک ہے۔ مودی اور اس کے گماشتوں نے پورے ملک میں نفرت کا زہر گھول دیا ہے۔ یہاں ہر شخص خوف و ہراس کی فضا میں سانس لے رہا ہے۔ دن بدن حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔