... loading ...
ریاض احمدچودھری
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے بھارت میں مذہبی آزادی کے مسائل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت میں مسلم اور مسیحی برادری کے ساتھ ناروا سلوک کیا جارہا ہے۔ بھارت میں مسیحی اور مسلمانوں کو زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر پابندی کے قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا۔بھارت میں اقلیتی گروہوں کے اراکین کو جھوٹے، من گھڑت الزامات پر ہراساں کیا گیا۔ بھارت میں مسیحی برادری کے خلاف پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ بی جے پی کے اراکین کے اقدامات اور بیانات حکومتی عہدیداروں کے مثبت بیانات سے متصادم رہے۔ بھارتی حکومت کو اقلیتی گروپوں کے خلاف تشدد کے ذمہ داروں کی تحقیقات اور قانونی کارروائی کرنی چاہیے۔اقوام متحدہ کے انسانی نسل کشی کی روک تھام کے مشیر نے بھارت میں اقلیتوں سے امتیازی سلوک پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت اقلیتوں کے حوالے سے عالمی قوانین کی پاسداری یقینی بنائے۔ بھارت میں مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کا تحفظ نہ ہونے پر تشویش ہے۔ بھارت میں اقلیتوں سے ناروا سلوک عالمی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ بھارت اقلیتوں کے تحفظ کے لیے اپنی ذمہ داری پوری کرے۔مشیر یو این سیکریٹری جنرل نے بھارتی رکن پارلیمنٹ کے بیان پر انتہائی تشویش کا اظہار کیا جس میں اس نے کہا تھا کہ مسلمان برابری والی کیٹگری میں نہیں آتے اور تمام انسان برابر نہیں۔ ہندوستان میں کورونا وبا کے دوران اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف حملے بڑھ گئے ۔ ایسے وقت میں نفرت اور تقسیم کے پھیلاؤ کے بجائے اتحاد اور یکجہتی کا فروغ ضروری ہے۔اسی لئے انسانی حقوق کی امریکی تنظیم نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں ہندو انتہا پسندانہ سوچ خطے میں امن کے لیے خطرہ ہے اور ہندوتوا نظریہ دیگر اداروں کو متاثر کر رہا ہے۔بھارتی انتہا پسند جماعتوں بی جے پی اور آر ایس ایس کا ریکارڈ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے بھرا پڑا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف روا رکھے جانے والے غیر انسانی سلوک، تشدد اور قتل جیسے واقعات کے بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ سمیت کئی عالمی تنظیمیں تشویش کا اظہار کرچکی ہیں۔بھارت میں لاکھوں افراد کو بھوک اور مصائب میں پھنسانے والی مودی سرکار اپنی ناکام پالیسیوں کو چھپانے کے لیے نت نئے سماجی اور مذہبی مسائل پیدا کررہی ہے۔ نریندر مودی کے دوسری بار وزیر اعظم بننے کے بعد بھارت میں موجود اقلیتوں پر تشدد، دھمکانا، ان کو ہراساں کرنا اور ہجوم کے تشدد میں بہت اضافہ ہوا ہے اور یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ ہندو مذہبی انتہا پسندوں کو مودی سرکار کی حمایت حاصل ہے۔
مسلمان تو ایک طرف ، صرف ایک گائے کو جواز بناکر دلت اوردیگر اقلیتوں کو زدوکوب کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ انہیں جان سے مار دیا جاتا ہے۔ ہندو غنڈوں کا ہجوم اکٹھا ہوکر اقلیتی افراد کو مارتا ہے اور ان کو جے شری رام کے نعرے لگانے پر مجبور کرتا ہے۔ خواتین اور بچوں پر جنسی حملوں میں اضافہ ہوا ہے ۔ مذہبی عدم رواداری، منافرت اور انتہا پسندی کے بعد یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس وقت بھارت میں اقلیتوں سے زیادہ گائے محفوظ ہے۔یہ اس ملک کی منظر نگاری ہے، جو سیکولر ملک ہونے پر ناز کرتا تھا، اب ایک متعصب ریاست کا روپ دھار چکا ہے ، جہاں اقلیتوںپر عرصہ حیات تنگ کیا جاچکا ہے۔بھارت کی حکمراں جماعت بی جے پی اور اس سے منسلک ہندو انتہا پسند تنظیمیں بھارت میں نفرت کی دیواریں تعمیر کررہی ہیں۔ بھارت کی تعمیر و ترقی میں مسلمانوں کی کوششوں اور کاوشوں کو دنیا کی کوئی طاقت نظر انداز نہیں کرسکتی۔ بھارتی مسلمان بڑے صبر و تحمل کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں حالانکہ ان سے ان کی ترقی اور پیشرفت کے اسباب کو سلب کرنے کی تلاش کی جاری ہے۔ بھارتی حکومت کو اپنے رویہ میں تبدیلی پیدا کرنی چاہیے ،ورنہ اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔بھارت میں بی جے پی کے پہلے اقتدار سے ہی معاشرے میں نفرت اور مذہبی منافرت پھیلائی جارہی ہے۔گزشتہ برسوںکی طرح اس برس بھی اونچی ذات کے ہندوؤں کی جانب سے نچلی ذات کے ہندوؤں، مسیحوں اور مسلمانوں کے خلاف تعصب اور بدسلوکی کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔ مسلمان بھارت میں سب سے بڑی اقلیت ہیں جو تقسیم ہند سے قبل ہندوستان میں سینکڑوں برس حکمران بھی رہے۔تاہم تقسیم ہند کے بعد سے بھارت میں مسلمانوں کو تعصب کا سامنا رہا اور بھارت کے بانی رہنماؤں میں سب سے معروف موہن داس کرم چند گاندھی کو ہی 1948 میں ہندو مسلم اتحاد کی حمایت کرنے پر ایک ہندو انتہا پسند نتھورام گوڈسے نے قتل کردیا تھا۔ہندو مسلم اتحاد کی حمایت کرنے پر ہندو انتہا پسندوں کی اکثریت مہاتما گاندھی کو ” غدار” قرار دیتی ہے حالانکہ وہ خود ایک کٹر ہندو تھے، اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے گاندھی کے قاتل گوڈسے کو ہیرو قراردیا جارہا ہے۔
بھارت بہت خطرناک راستے پر چل پڑا ہے۔ بھارت نے جو راستہ چنا ہے، اس کی واپسی بہت مشکل ہے۔ بھارت نے جو نسل پرستانہ اور فاشسٹ نظریہ اپنایا ہے ادھر سے واپسی انتہائی مشکل ہے۔ شہریت ترمیمی قانون کے انتہا پسند ہندوں آر ایس ایس کا نظریہ اپنایا اور اب بھارت میں فسادات کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔اس کا منطقی انجام ہے خونریزی ہے۔ انتہاپسندی اور قومیت پسندی کی بنیاد پر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) بھارتی اقلیتوں پر ظلم اٹھا رہی ہے اور اگر بی جے پی نے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی تو یہ ہی انتہا پسندی اور قومیت پسندی انہیں پیچھے ہٹنے نہیں دے گی۔