وجود

... loading ...

وجود

کامیڈی کا زوال؟

اتوار 30 جون 2024 کامیڈی کا زوال؟

علی عمران جونیئر

دوستو،آج کاموضوع ہمارا پسندیدہ ترین ہے، لیکن اس پر بات شروع کرنے سے پہلے انتہائی پھٹا پرانا اور گھسا پٹا جوک سن لیں، کسی نے پوچھا۔۔ لطیفہ کسے کہتے ہیں۔۔ بتانے والے نے جلدی سے جواب دیا۔۔ لطیف کی بہن کو۔۔ یہ ایک بہت پرانا جوک تھا، لیکن یہ کچھ کچھ حقیقت بھی ہے۔۔ کیوں کہ شیخا لطیفہ۔۔عرب امارات کی شہزادی ہے اور ایک اہم وزارت بھی چلارہی ہیں۔۔لیکن یہ لطیف کی بہن تو بالکل بھی نہیں۔۔ آج کے گھٹن زدہ ماحول میں جب کہ ہرشخص کسی نہ کسی ٹینشن میں مبتلا ہے تو پہلے سے کہیں زیادہ اب ہم سب کو ہنسنے کی ضرورت ہے لیکن کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہم مذاق کرسکتے ہیں یا کسی کا مذاق برداشت کرسکتے ہیں؟؟
کسی نے کیا خوب صورت بات لکھی تھی۔۔ ہم کبھی خوش حال قوم نہیں بن سکتے۔۔۔ کیوں کہ ہم کبھی اپنے حال میں خوش نہیں رہتے۔۔۔سرسید احمد خان تو بہت پہلے لکھ گئے۔۔ انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا۔۔ سائیکل والا چاہتا ہے کسی طرح موٹرسائیکل خرید لے۔۔ موٹرسائیکل والا کار کے چکر میں خوار پھر رہا ہے۔۔ کار والا چاہتا ہے کہ کسی طرح پچارو یا پراڈو کا مالک بن جائے۔۔زندگی کے اسی سائیکل یعنی چکر میں سب گھن چکر بنے ہوئے ہیں، حالانکہ سب کے پاس سب کچھ ہوتا ہے لیکن پھر بھی سب یہی چاہتے ہیں کہ اس کے پاس سب کچھ ہو۔۔اور یہی سب ، سب ، سب۔۔ ٹینشن کا سبب بنا ہوا ہے۔۔
کامیڈی کا اگر مطالعہ کریں تو دنیا میں صرف دو طرح کی ہی کامیڈی مقبول ہے۔۔ ایک وہ کامیڈی جو صرف لفظوں کے ہیر پھیر سے کی جائے، دوسری کامیڈی اوٹ پٹانگ حرکتوں سے کی جاتی ہے۔۔ لفظوں سے کامیڈی کی بات کی جائے تو اس میں منور ظریف۔۔لہری۔۔ننھا۔۔ علی اعجاز۔۔ معین اختر، عمرشریف ،امان اللہ وغیرہ نے بہت نام بنایا۔۔۔ اوٹ پٹانگ کامیڈی میں رنگیلے کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا۔۔ ویسے آج کے سیاست دان بھی کچھ اسی طرح کی کامیڈی کرتے ہیں یعنی کچھ بھی بولیں لوگ ان پر ہنستے ہی ہیں۔۔ جب کہ حکومت کی حرکتیں رنگیلے کی کامیڈی جیسی ہے۔
ٹی وی، فلم اور اسٹیج کی کامیڈی میں فرق ہوتا ہے۔۔ اسٹیج پر ہونے والی کامیڈی کا فوری رسپانس سامنے آجاتا ہے۔۔ ٹی وی پر رات کو ہونے والے سیاسی ٹاک شوز میں ہونے والی کامیڈی کا اگلے دن اخبار میں پتہ لگتا ہے اور فلموں میں اب کیا کامیڈی ہوتی ہے۔۔ اب تو یہ بات بھی کامیڈی ہی لگتی ہے کہ کسی زمانے میں ہمارے یہاں بھی سینکڑوں فلمیں ہرسال بناکرتی تھیں۔
دوستو، بات کامیڈی کی ہورہی ہے،، تو اچھی کامیڈی کرنے یا لکھنے کیلئے ایک مفید ٹپ بھی آپ کو دیتے چلیں۔۔ آپ کسی بھی بڑے سے بڑے کامیڈین یا مزاح لکھنے والے سے متعلق چھان پھٹک کرلیں، ان کی آٹوبائیوگرافی پڑھیں۔۔ان میں ایک بات مشترک پائی جائے گی۔۔ اچھے کامیڈین اور اچھے مزاح نگار کا مشاہدہ اور مطالعہ بھی اچھا ہوگا۔۔جو باتیں آپ کی نظروں کے سامنے ہوتی ہیں اور آپ ان پر کوئی توجہ نہیں دیتے۔۔ لیکن کامیڈین یا مزاح نگار انہی باتوں کو اپنے مشاہدے میں لے آتا ہے۔۔ پھر اسے اس انداز میں پیش کرتا ہے کہ آپ لوگ قہقہے لگانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔مزاح کی چند اچھی لائنیں آپ کی خدمت میں مثال کے لئے پیش کررہا ہوں، ان کے الفاظ پر جتنا غور کریں گے آپ اتناہی انجوائے کریں گے،یہ سب وہ باتیں ہیں جو روز ہمارے آس پاس کسی نہ کسی شکل میں ہوتی ہیں لیکن ہم اسے نظر انداز کردیتے ہیں۔۔
ایک زمانہ تھا جب کہتے تھے اپنی عزت اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے، لیکن اب موبائل فون کے میموری کارڈ میں ہوتی ہے۔۔۔ شیشہ جانتے تو ہیں ناں۔۔ آج کل یہ نشہ نوجوانوں میں بہت مقبول ہے اور کراچی میں تو پولیس شیشہ بارز کے خلاف آپریشن بھی کررہی ہے۔۔ شیشہ لڑکوں کے ہاتھ میں ہو تو صحت کیلئے خطرہ، اور شیشہ لڑکیوں کے ہاتھ میں ہوتو بجٹ کیلئے خطرہ۔۔۔کل میری سالگرہ میں کیوں نہیں آئے آپ؟ پچھلے ہفتے بھی نہیں آئے تھے۔۔چائے چلے گی؟، ہاں چلاکے دکھاؤ، کبھی چائے کو چلتے ہوئے نہیں دیکھا۔۔۔اقبال نے ساری عمر “خودی” کا سبق دیا, اب یوں کریں ہرنونومبر(اقبال کایوم پیدائش)پر خود کو خودی کا سبق پڑھائیں اور “خودی” چھٹی کرلیں ۔۔کوئی والدین کو یہ بات ہی سمجھا دے کہ جوتے پہننے کے لئے ہوتے ہیں . وقت بے وقت ہمیں چپکانے کے لئے نہیں ۔۔۔” اقوالِ زریں ” وہ غلطیاں ہیں جو بڑوں نے خود تو انجوائے کر لیں ہمیں بچانا چاہتے ہیں ۔۔۔دنیا میں سات ارب انسان ہیں اور ہم پھر بھی اس کو اپنے لیے چنتے ہیں جس نے ہماری ایک نہیں سننی ہوتی۔۔۔پارک میں ہرروز چند خواتین اکھٹی ہوتی تھیں اورخوب باتیں کرتی تھیں،ایک دن سب خواتین کوچپ دیکھاگیاپوچھنے پرپتا چلا کہ اس دن سب خواتین حاضرتھیں۔۔ہمارے نوجوانوں کا یہ حال ہے کہ ہاتھ میں گٹار، کچھ کے ہاتھ میں ہتھیار، باقی سب کے سب بیروزگار۔۔۔
ہمارا معاشرہ بھیڑ چال کا شکار ہے، کامیڈی میں ایک زمانہ تھا، منورظریف، ننھا، علی اعجازچھائے ہوئے تھے، پھر رنگیلے کا زمانہ آیا اور اس کے ساتھ ہی فلموں میں کامیڈی کا زور بھی ٹوٹ گیا۔۔۔ اسٹیج پر معین اختر۔۔ عمرشریف۔۔ خالدعباس ڈار۔۔ امان اللہ۔۔سہیل احمد وغیرہ نے دنیا پر ثابت کیا کہ ہم زندہ دل قوم ہیں۔۔ پھر ٹی وی پر سٹ کام کی بھیڑ چال چلی۔۔ ایک ہی کمرے میں پورے پورے ڈرامے ہونے لگے۔۔ بھارت سے موازنہ کیا جائے تو ہماری کامیڈی کا شعبہ کافی جاندار ہے۔۔ ہمارے یہاں کے کامیڈینز وہاں کے ٹی وی چینلز پر ہونے والے کامیڈی کے کئی مقابلے جیت کر واپس آئے اور ملک کا نام روشن کیا۔۔ مزاح نگاروں میں ہمارے یہاں انور مقصود۔۔ مشتاق یوسفی۔۔ ڈاکٹر یونس بٹ وغیرہ عالمی شہرت رکھتے ہیں۔۔ مزاحیہ شاعری میں ضمیرجعفری۔۔ دلاور فگار۔۔ انورمسعود سمیت کئی شعرا کرام کا مزاحیہ کلام ایسی پھلجڑیاں چھوڑتا ہے کہ لوگ مسکرانے اور ہنسنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔۔مزاح اور پھکڑ پن میں ایک باریک سے لائن کا فرق ہوتا ہے، ان دنوں ہمارے تھیٹر پر ہونے والی کامیڈی پھکڑ پن کے سوا کچھ نہیں، بہت معذرت کے ساتھ کہ ہمارے کامیڈینز اب لافٹر کے چکر میں ذومعنی جملے بولنے اور ولگریٹی کے لیول پر آنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔۔۔ٹی وی پر آج بھی سٹ کام کی شکل میں صاف ستھرا مزاح دکھایاجارہا ہے۔۔ کامیڈیز شوز میں وہی بھیڑ چال ہے۔۔ تین چار کامیڈینز، ایک میزبان، ایک دو خوب صورت چہرے، کوئی ایک آدھ گیسٹ اور کامیڈی شو تیار۔۔ یہ لوگ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ اردو ہماری قومی زبان ہے۔۔ کم سے کم اردو میں ہی کامیڈی کرلیا کریں۔۔ بات ٹی وی کی ہورہی ہے تو یہ یہ بات بھی کرتے چلیں کہ جب ہمارے ملک میں ایک چینل تھا تو ہر ڈرامے کا کوئی نہ کوئی ایک کردار عوام میں ضرور مقبول ہوتا تھا۔۔ چوہدری حشمت۔۔ گلو بادشاہ۔۔ قباچہ۔۔ حسنات بھائی۔۔ وغیرہ تو شاید آپ کو یاد ہوں۔۔ سوال یہ ہے کہ اب پہلے سے زیادہ چینلز ہیں۔۔ پہلے سے زیادہ ٹیلنٹ ہے۔۔ پہلے سے زیادہ کام ہورہا ہے پھر کیا وجہ ہے برسوں میں کوئی ایک کردار ہی نکھر کر سامنے آتا ہے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ہر موٹا انسان اکثر یہی سوچتا ہے کہ ایسا کیا کھاؤں کہ میں پتلا ہو جاؤں لیکن سوچتا وہ پھر کھانے کا ہی ہے ۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر