... loading ...
علی عمران جونیئر
دوستو،آج کاموضوع ہمارا پسندیدہ ترین ہے، لیکن اس پر بات شروع کرنے سے پہلے انتہائی پھٹا پرانا اور گھسا پٹا جوک سن لیں، کسی نے پوچھا۔۔ لطیفہ کسے کہتے ہیں۔۔ بتانے والے نے جلدی سے جواب دیا۔۔ لطیف کی بہن کو۔۔ یہ ایک بہت پرانا جوک تھا، لیکن یہ کچھ کچھ حقیقت بھی ہے۔۔ کیوں کہ شیخا لطیفہ۔۔عرب امارات کی شہزادی ہے اور ایک اہم وزارت بھی چلارہی ہیں۔۔لیکن یہ لطیف کی بہن تو بالکل بھی نہیں۔۔ آج کے گھٹن زدہ ماحول میں جب کہ ہرشخص کسی نہ کسی ٹینشن میں مبتلا ہے تو پہلے سے کہیں زیادہ اب ہم سب کو ہنسنے کی ضرورت ہے لیکن کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہم مذاق کرسکتے ہیں یا کسی کا مذاق برداشت کرسکتے ہیں؟؟
کسی نے کیا خوب صورت بات لکھی تھی۔۔ ہم کبھی خوش حال قوم نہیں بن سکتے۔۔۔ کیوں کہ ہم کبھی اپنے حال میں خوش نہیں رہتے۔۔۔سرسید احمد خان تو بہت پہلے لکھ گئے۔۔ انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا۔۔ سائیکل والا چاہتا ہے کسی طرح موٹرسائیکل خرید لے۔۔ موٹرسائیکل والا کار کے چکر میں خوار پھر رہا ہے۔۔ کار والا چاہتا ہے کہ کسی طرح پچارو یا پراڈو کا مالک بن جائے۔۔زندگی کے اسی سائیکل یعنی چکر میں سب گھن چکر بنے ہوئے ہیں، حالانکہ سب کے پاس سب کچھ ہوتا ہے لیکن پھر بھی سب یہی چاہتے ہیں کہ اس کے پاس سب کچھ ہو۔۔اور یہی سب ، سب ، سب۔۔ ٹینشن کا سبب بنا ہوا ہے۔۔
کامیڈی کا اگر مطالعہ کریں تو دنیا میں صرف دو طرح کی ہی کامیڈی مقبول ہے۔۔ ایک وہ کامیڈی جو صرف لفظوں کے ہیر پھیر سے کی جائے، دوسری کامیڈی اوٹ پٹانگ حرکتوں سے کی جاتی ہے۔۔ لفظوں سے کامیڈی کی بات کی جائے تو اس میں منور ظریف۔۔لہری۔۔ننھا۔۔ علی اعجاز۔۔ معین اختر، عمرشریف ،امان اللہ وغیرہ نے بہت نام بنایا۔۔۔ اوٹ پٹانگ کامیڈی میں رنگیلے کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا۔۔ ویسے آج کے سیاست دان بھی کچھ اسی طرح کی کامیڈی کرتے ہیں یعنی کچھ بھی بولیں لوگ ان پر ہنستے ہی ہیں۔۔ جب کہ حکومت کی حرکتیں رنگیلے کی کامیڈی جیسی ہے۔
ٹی وی، فلم اور اسٹیج کی کامیڈی میں فرق ہوتا ہے۔۔ اسٹیج پر ہونے والی کامیڈی کا فوری رسپانس سامنے آجاتا ہے۔۔ ٹی وی پر رات کو ہونے والے سیاسی ٹاک شوز میں ہونے والی کامیڈی کا اگلے دن اخبار میں پتہ لگتا ہے اور فلموں میں اب کیا کامیڈی ہوتی ہے۔۔ اب تو یہ بات بھی کامیڈی ہی لگتی ہے کہ کسی زمانے میں ہمارے یہاں بھی سینکڑوں فلمیں ہرسال بناکرتی تھیں۔
دوستو، بات کامیڈی کی ہورہی ہے،، تو اچھی کامیڈی کرنے یا لکھنے کیلئے ایک مفید ٹپ بھی آپ کو دیتے چلیں۔۔ آپ کسی بھی بڑے سے بڑے کامیڈین یا مزاح لکھنے والے سے متعلق چھان پھٹک کرلیں، ان کی آٹوبائیوگرافی پڑھیں۔۔ان میں ایک بات مشترک پائی جائے گی۔۔ اچھے کامیڈین اور اچھے مزاح نگار کا مشاہدہ اور مطالعہ بھی اچھا ہوگا۔۔جو باتیں آپ کی نظروں کے سامنے ہوتی ہیں اور آپ ان پر کوئی توجہ نہیں دیتے۔۔ لیکن کامیڈین یا مزاح نگار انہی باتوں کو اپنے مشاہدے میں لے آتا ہے۔۔ پھر اسے اس انداز میں پیش کرتا ہے کہ آپ لوگ قہقہے لگانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔مزاح کی چند اچھی لائنیں آپ کی خدمت میں مثال کے لئے پیش کررہا ہوں، ان کے الفاظ پر جتنا غور کریں گے آپ اتناہی انجوائے کریں گے،یہ سب وہ باتیں ہیں جو روز ہمارے آس پاس کسی نہ کسی شکل میں ہوتی ہیں لیکن ہم اسے نظر انداز کردیتے ہیں۔۔
ایک زمانہ تھا جب کہتے تھے اپنی عزت اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے، لیکن اب موبائل فون کے میموری کارڈ میں ہوتی ہے۔۔۔ شیشہ جانتے تو ہیں ناں۔۔ آج کل یہ نشہ نوجوانوں میں بہت مقبول ہے اور کراچی میں تو پولیس شیشہ بارز کے خلاف آپریشن بھی کررہی ہے۔۔ شیشہ لڑکوں کے ہاتھ میں ہو تو صحت کیلئے خطرہ، اور شیشہ لڑکیوں کے ہاتھ میں ہوتو بجٹ کیلئے خطرہ۔۔۔کل میری سالگرہ میں کیوں نہیں آئے آپ؟ پچھلے ہفتے بھی نہیں آئے تھے۔۔چائے چلے گی؟، ہاں چلاکے دکھاؤ، کبھی چائے کو چلتے ہوئے نہیں دیکھا۔۔۔اقبال نے ساری عمر “خودی” کا سبق دیا, اب یوں کریں ہرنونومبر(اقبال کایوم پیدائش)پر خود کو خودی کا سبق پڑھائیں اور “خودی” چھٹی کرلیں ۔۔کوئی والدین کو یہ بات ہی سمجھا دے کہ جوتے پہننے کے لئے ہوتے ہیں . وقت بے وقت ہمیں چپکانے کے لئے نہیں ۔۔۔” اقوالِ زریں ” وہ غلطیاں ہیں جو بڑوں نے خود تو انجوائے کر لیں ہمیں بچانا چاہتے ہیں ۔۔۔دنیا میں سات ارب انسان ہیں اور ہم پھر بھی اس کو اپنے لیے چنتے ہیں جس نے ہماری ایک نہیں سننی ہوتی۔۔۔پارک میں ہرروز چند خواتین اکھٹی ہوتی تھیں اورخوب باتیں کرتی تھیں،ایک دن سب خواتین کوچپ دیکھاگیاپوچھنے پرپتا چلا کہ اس دن سب خواتین حاضرتھیں۔۔ہمارے نوجوانوں کا یہ حال ہے کہ ہاتھ میں گٹار، کچھ کے ہاتھ میں ہتھیار، باقی سب کے سب بیروزگار۔۔۔
ہمارا معاشرہ بھیڑ چال کا شکار ہے، کامیڈی میں ایک زمانہ تھا، منورظریف، ننھا، علی اعجازچھائے ہوئے تھے، پھر رنگیلے کا زمانہ آیا اور اس کے ساتھ ہی فلموں میں کامیڈی کا زور بھی ٹوٹ گیا۔۔۔ اسٹیج پر معین اختر۔۔ عمرشریف۔۔ خالدعباس ڈار۔۔ امان اللہ۔۔سہیل احمد وغیرہ نے دنیا پر ثابت کیا کہ ہم زندہ دل قوم ہیں۔۔ پھر ٹی وی پر سٹ کام کی بھیڑ چال چلی۔۔ ایک ہی کمرے میں پورے پورے ڈرامے ہونے لگے۔۔ بھارت سے موازنہ کیا جائے تو ہماری کامیڈی کا شعبہ کافی جاندار ہے۔۔ ہمارے یہاں کے کامیڈینز وہاں کے ٹی وی چینلز پر ہونے والے کامیڈی کے کئی مقابلے جیت کر واپس آئے اور ملک کا نام روشن کیا۔۔ مزاح نگاروں میں ہمارے یہاں انور مقصود۔۔ مشتاق یوسفی۔۔ ڈاکٹر یونس بٹ وغیرہ عالمی شہرت رکھتے ہیں۔۔ مزاحیہ شاعری میں ضمیرجعفری۔۔ دلاور فگار۔۔ انورمسعود سمیت کئی شعرا کرام کا مزاحیہ کلام ایسی پھلجڑیاں چھوڑتا ہے کہ لوگ مسکرانے اور ہنسنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔۔مزاح اور پھکڑ پن میں ایک باریک سے لائن کا فرق ہوتا ہے، ان دنوں ہمارے تھیٹر پر ہونے والی کامیڈی پھکڑ پن کے سوا کچھ نہیں، بہت معذرت کے ساتھ کہ ہمارے کامیڈینز اب لافٹر کے چکر میں ذومعنی جملے بولنے اور ولگریٹی کے لیول پر آنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔۔۔ٹی وی پر آج بھی سٹ کام کی شکل میں صاف ستھرا مزاح دکھایاجارہا ہے۔۔ کامیڈیز شوز میں وہی بھیڑ چال ہے۔۔ تین چار کامیڈینز، ایک میزبان، ایک دو خوب صورت چہرے، کوئی ایک آدھ گیسٹ اور کامیڈی شو تیار۔۔ یہ لوگ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ اردو ہماری قومی زبان ہے۔۔ کم سے کم اردو میں ہی کامیڈی کرلیا کریں۔۔ بات ٹی وی کی ہورہی ہے تو یہ یہ بات بھی کرتے چلیں کہ جب ہمارے ملک میں ایک چینل تھا تو ہر ڈرامے کا کوئی نہ کوئی ایک کردار عوام میں ضرور مقبول ہوتا تھا۔۔ چوہدری حشمت۔۔ گلو بادشاہ۔۔ قباچہ۔۔ حسنات بھائی۔۔ وغیرہ تو شاید آپ کو یاد ہوں۔۔ سوال یہ ہے کہ اب پہلے سے زیادہ چینلز ہیں۔۔ پہلے سے زیادہ ٹیلنٹ ہے۔۔ پہلے سے زیادہ کام ہورہا ہے پھر کیا وجہ ہے برسوں میں کوئی ایک کردار ہی نکھر کر سامنے آتا ہے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ہر موٹا انسان اکثر یہی سوچتا ہے کہ ایسا کیا کھاؤں کہ میں پتلا ہو جاؤں لیکن سوچتا وہ پھر کھانے کا ہی ہے ۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔