وجود

... loading ...

وجود

لفظوں کے جادوگر

هفته 29 جون 2024 لفظوں کے جادوگر

میری بات/روہیل اکبر
ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کا لفظ بہت استعمال ہوتا ہے جس کی وجہ سے بگاڑ بھی پیدا ہوتا ہے اور یہ لفظ ہی ہوتے ہیں جو زبان سے ادا ہونے کے بعد جنگ و جدل کا ماحول بنا دیتے ہیں یا پھر صحرا میں بھی پھول کھلا دیتے ہیں ۔اسی لیے تو کہتے ہیں کہ پہلے تولو پھر بولو۔ موضوع الفاظ کا انتخاب ہی انسان کو صاحب طرز بناتا ہے سنگ تراش کا فن پتھر میں چھپے ہوئے نقش اجاگر کرتا ہے۔ اسی طرح الفاظ سے مضمون اور مضامین سے الفاظ کے رستوں کا علم ہی انسان کو مصنف بناتا ہے دنیا میں اصل قوت الفاظ کی ہے الفاظ کی طاقت قدم قدم پر عیاں ہوتی ہے لفظ لفظ قلزم ہوتے ہیں۔ قوموں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے الفاظ کا تازیانہ ہی کافی ہے۔
علمائے کرام اورشعراء حضرات کا کمال الفاظ کے دم سے ہے الفاظ خون میں نہ صرف حرکت پیدا کرتے بلکہ جسم کے رونگٹے بھی کھڑے کر تے ہیں اوریہ الفاظ ہی ہوتے ہیں جو غلامی کو آزادی میں بدل جاتے ہیں۔الفاظ ہی امید کے چراغ روشن کرتے ہیں اور الفاظ ہی مایوسی کی تاریکیاں پیدا کرتے ہیں۔ الفاظ کی خاص ترتیب حد خوانی کا کام کرتی ہے محبت اتنی قابل نہیں ہوتی جتنی اسے الفاظ بنا دیتے ہیں ۔اس لیے ہمیشہ اپنی زبان پر قابو رکھنا چاہیے کیونکہ جس طرح کی زبان سے جیسے لفظ ادا ہونگے انکی نسبت بھی ویسے ہی بن جائیگی جیسے الفاظ خداکے ہوں تو قران، رسول ۖکے ہوں تو حدیث،بزرگان دین کے ہوں توملفوظات اورداناؤںکے ہوں تواقوال کہلاتے ہیں۔ جتنی مقدس زبان سے ادا ہوں گے الفاظ اتنے ہی مقدس ہوں گے اتنے ہی موثر و معطر ہوں گے۔ اچھے الفاظ پر کچھ خرچ نہیں ہوتا لیکن اچھے الفاظ سے بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔ الفاظ ہی انسان کو پسندیدہ یا ناپسندیدہ بناتے ہیں۔ الفاظ خوشبو کی طرح ماحول کو معطر کرتے ہیں ۔منور کرتے ہیں اور الفاظ ہی انسان کی روح اور وجود کا تعارف ہوتے ہیں اور وہ بتاتے ہیں کہ انسان کس ماحول میں پلا بڑھا اور کن ہاتھوں میں اس کی تربیت ہوئی۔
مولانا روم فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ دو قافلے صحرا کے قریب آ کر ٹھہرے۔ ایک مسلمانوں کا دوسرا یہودیوں کا تھا۔ مسلمانوں کے قافلے نے صبح کے وقت جب اذان کہی تو کچھ ہی دیر کے بعد یہودیوں کی طرف سے ایک نمائندہ انتہائی بیش قیمتی تحائف لے کر امیر قافلہ کے پاس حاضر ہو کر شکریہ کے ساتھ عاجزی کے ساتھ کچھ تحائف پیش کرنے لگا ۔وجہ دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ یہودی سردار کی بیٹی نے اسلام قبول کیا تھا اور اس کو اسلام سے ہٹانے کے لیے اس کے قریب رفقاء علماء اور والدین یہودی خاندان نے بہت کردار ادا کیا۔ کا وو اسلام سے پھر جائو لیکن اس میں خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی لیکن آج جب مسلم قافلے کی طرف سے دی جانے والی اذان کرخت لہجے بے سر میں دی گئی تو وہ عورت اپنے دین کی طرف واپس پلٹ آئی۔ نتیجہ یہ تھا کہ موذن مبلغ خوشحال خوش الحان ہونا چاہیے ۔دعوت کے افکار انداز اور لفظوں کے چناؤ سے ہٹ کر لہجے کی گرختگی اور نرمی بھی اکثر اوقات آپ کو بدظن کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
الفاظ کے چنائو پر ہی ایک اور قصہ بھی پڑھ لیں کہ ایک بادشاہ نے دست شناس یعنی ہاتھ دیکھنے والے کو بلوایا اور اس شخص نے جب بادشاہ
کا زائچہ بنایا تو یہ کہا کہ جہاں پناہ اپ اپنے خاندان کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتا ہوا دیکھیں گے اور ان جملوں کی ادئیگی کے بعد بادشاہ انتہائی سیخ پا ہوتے ہوئے غصے میں آگیا اور اس نے اس دست شناس کو گرفتار کر کے بند کرنے کا حکم دیا اور پھر اعلان کروایا کسی اور شخص کو تلاش کیا جائے ۔پھر دوسرا دست شناس آیا اس نے جب بادشاہ کا ہاتھ دیکھا تو اس نے بتایا کہ بادشاہ سلامت اپ کی عمر لمبی ہوگی اور جی بھر کر جیے گے ۔ بادشاہ بڑا خوش ہوا اور کہا آپ انعام کے طور پر مانگیے مجھ سے کیا مانگتے ہیں ؟ تو اس شخص نے کہا کہ مجھے پیسے نہیں چاہیے بس آپ کی قید و بند میں جونجومی ہے اسکو آزاد کر دیں۔ بادشاہ نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ اصل میں وہ میرے انتہائی قابل صد احترام استاد ہیں بات میں نے بھی وہی کہی جو انہوں نے کہی لیکن ان کے اور میرے لفظوں میں فرق یہ تھا انہوں نے کہا کہ اپ اپنے خاندان کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتا ہوا دیکھیں گے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی عمر کم ہوگی اور آپ کی عمر زیادہ تو میں نے آپ کو صرف یہ کہا کہ حضور آپ کی عمر زیادہ ہوگی اس کا مطلب ہے آپ لمبی عمر کے ساتھ زندہ رہیں گے۔ ان سے لفظوں کے چناؤ میں یہ کمی رہ گئی کہ وہ لفظوں کے انتخاب میں محتاط نہ رہ سکے ۔اس لیے ہمیں خود بھی الفاظ کا استعمال کرتے وقت اپنی زبان میں مٹھاس اور لہجے میں شیرینی رکھنی چاہیے کسی کی بری بات بھی برے انداز میں منہ پر نہیں کہنی چاہیے ۔
ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ گلی محلوں میں بچوں کی توں تکرار سے شروع ہونے والی لڑائی خاندانوں کے خاندان اجاڑ دیتی ہے اس لیے دوسروں سے بات کرتے وقت اپنی زبان کو قابو میں رکھتے ہوئے کسی کی دل آزاری بھی نہیں کرنی چاہیے بلکہ ہمیشہ ایک دوسروں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کسی کی دو لفظوں میں تعریف کردیں تو اسکا خوشی سے خون بڑھ جاتا ہے اور بے جا تنقید کرنے سے مایوسی بڑھتی ہے جو انسان کو جرائم کی طرف مائل کردیتی ہے اگر لفظوں کا صحیح استعمال دیکھنا ہو تو آپ قصیدے کے الفاظ،مرثیے کے الفاظ ، تنقید کے الفاظ، توصیف کے الفاظ ، رزمییہ اور عشق کے الفاظ، غزل کے الفاظ ،مثنوی کے الفاظ ، شرافت کے الفاظ کا بغور جائزہ لیں تو سب میں فرق ہوتا ہے جس کو جو بات سمجھانی ہو اسی لہجے میں سمجھائی جاتی ہے اور سب الفاظ کا طرز مخاطب ایک دوسرے سے جدا ہوتا ہے لیکن ان سب میں ایک چیز مشترک ہو تی ہے کہ یہ تمام کے تمام الفاظ مٹھاس سے بھر پور ہوتے ہیں جبکہ بدمزاج،بدتمیز اور بدالفاظ ہونا سب سے خطرناک ہے آپ تمیزدار ہیں یا بدتمیز اس کا پتہ سامنے والے کو اپ کے ادا کردہ لفظوں سے ہوگا۔ بولتے وقت ایسے لفظوں کا انتخاب کیجیے کہ ہر لفظ کرامت بن جائے اور آپ لفظوں کے جادوگر بن کر سامنے والے پر سحر طاری کردیں ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر