وجود

... loading ...

وجود
وجود

یہ کھیل ختم کروکشتیاں بدلنے کا

هفته 29 جون 2024 یہ کھیل ختم کروکشتیاں بدلنے کا

سمیع اللہ ملک
خاموشی کی زبان آپ سمجھتے ہیں؟ نہیں۔۔۔.تواس میں میراکیاقصور!خاموشی میں ایک چیخ پوشیدہ ہوتی ہے،ایک احتجاج،ایک طوفان،اورجب خاموشی بول پڑے توگھمسان کارن پڑتاہے،پھرکوئی نہیں بچتاجی،کوئی بھی نہیں۔وہ جومحلات میں آسودہ ہیں اوروہ جو کھولیوں اورجھونپڑیوں میں تڑپ رہے ہیں،سب ایک جیسے ہوتے ہیں۔بس دیکھوایک انتظارکے بعد کیاہوتاہے،حادثہ یک دم تونہیں ہوتاناں! برسوں وقت اس کی پرورش کرتاہے،پالتاپوستاہے،پھرایک دن لاواپھٹ پڑتاہے،پھروہ دہکتی آگ کچھ نہیں دیکھتی .مال ومنال، عزت وآبرو،ذلت ورسوائی،زرداراوربے زرکچھ بھی نہیں۔ہمارے حکمران قوم کے جذبات کے ساتھ کھلواڑکرکے خودکومسیحاثابت کرنے کاسہرااپنے سرسجانے کی کوششوں میں مگن ہیں۔قوم کوبھیڑبکریاں سمجھ کر،ان کے مصائب کابڑی دلسوزی سے ذکرکرکے ہیرو بننے کی اداکاری کمال کی حدوں کوچھورہی ہے جبکہ آپ کے اعمال کے آئینے توبکھرے پڑے ہیں اوروہ ہمیں شکل دکھانے سے بازنہیں آتے۔آئینے کی لاکھ کرچیاں کردیں،وہ کبھی اپناکام نہیں چھوڑتے۔وزیراعظم نے اپنے خطاب کوایک شعرپرختم کرکے دکھوں اورغموں سے نڈھال قوم کاخوب مذاق اڑایاہے:
سیاہ رات نہیں لیتی نام ڈھلنے کا
یہی تووقت ہے سورج ترے نکلنے کا
وزیراعظم کے اس خطاب نے مجھے چونکادیاکہ ان کویہ علم ہی نہیں کہ اب وہ ملک کے سب سے بڑے انتظامی عہدے پرہیں جہاں ان کے اشارے کی تعمیل اورتکمیل کیلئے غلام قطار در قطارمیں کھڑے منتظر ہیں کہ ظل سبحانی کے منہ سے جھڑنے والے ہرپھول کو مقتدرحسینہ کے جوڑے میں سجانے کیلئے بے تاب ہیں لیکن ان کے خطاب میں اب بھی دھاڑتاہو ا اپوزیشن لیڈرسامنے آگیا۔ان کے خطاب میں جذبات،الزامات،خواہشات اورماضی کو کوسنے کے بھاری بھرکم الفاظ کے سواکچھ تھاہی نہیں!میں تویہ امید لگائے بیٹھا تھاکہ ملک کودرپیش مسائل میں سرفہرست بیرونی قرضوں سے نجات کاکوئی فارمولہ سامنے آئے گا،مہنگائی کے ہاتھوں پس جانے والی قوم کے مسائل کوجس دلسوزی سے ذکرکیاہے،ان کے علاج کیلئے کسی پلان کااعلان ہوگا،کسی ٹھوس لائحہ عمل اوراس کے حصول کیلئے کوئی روڈمیپ سامنے لایاجائے گالیکن وہ تواپنے دکھ دردکے اظہارکے ساتھ ساتھ قوم کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پرتعزیت کرتے دکھائی دیئے۔کاش انہیں کوئی جاکریہ بتائے کہ وہ اب اپوزیشن لیڈرنہیں بلکہ وزیراعظم ہیں اورقوم کے جتنے مسائل اوردکھ دردکاجوتذکرہ فرمایاہے، اب ان کے علاج کی ذمہ داری ان کی ہے۔
وزیراعظم نے بڑے دبنگ لہجے میں فرمایاکہ اشرافیہ کواپنے اخراجات کم کرنے ہوں گے؟توآپ کیااشرافیہ نہیں،اگرنہیں توکس کی طرف آپ کااشارہ ہے،کھل کراس کانام کیوں نہیں لیتے اوراس اشرافیہ پرہاتھ کون ڈالے گا؟اشرافیہ کے بجٹ میں اضافہ آخرکس کے حکم سے کیاجاتاہے؟آپ ہی توان کے اخراجات کوبجٹ میں بڑھاتے ہیں توشکائت کس سے کررہے ہیں؟کیایہ وہی اشرافیہ نہیں جن کی بیرون ملک جائیدادیں اورپلازے بنے ہوئے ہیں؟سوئس بینکوں میں اربوں ڈالرپڑے ہوئے ہیں۔آپ کے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار جب آپ کے بھائی کے دورحکومت میں وزیرخزانہ تھے،توانہوں نے قوم کوسوئس بینکوں سے دوسوارب ڈالرواپس لانے کی خبرسنائی تھی کہ بس معاہدہ ہونے ہی والاہے؟ کہاں ہیں وہ دوسوارب ڈالر؟قوم کویہ بتایاجائے کہ اتنے بڑے منصب پربیٹھ کرقوم کو جھوٹے دلاسے دینے اورلالی پاپ دینے والے اب پھرسے اتنے بڑے منصب پرکیوں فائز ہیں؟پی ڈی ایم کی تشکیل کے بعدان کو پاکستان کی ڈوبتی معیشت کامسیحابناکرواپس وطن لایاگیااورانہوں نے وزیرخزانہ کامنصب سنبھالتے ہی سب سے پہلے پاکستان میں عدالتی احکام پرضبط شدہ اپنی ساری جائیدادکوبحال کروایا،کئی برس لندن میں گزارے ہوئے جعلی جلاوطنی کے ایام کی بطورسینیٹر پوری تنخواہ وصول کی اورملکی معیشت کوبحال کرنے کی بجائے عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ ایسا رویہ اختیارکیاکہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچنے کیلئے خودآپ نے میڈیاکے سامنے آکراعتراف کیاکہ ہماری ناک سے لکیریں نکلوائی گئی ہیں اور ان کے پاؤں چھونے پڑگئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ایسے نااہل فردکوکس کارکردگی اورتجربے کی بناپرملک کاوزیرخارجہ جیسااہم منصب عطاکیاگیا،کیا پاکستان کے آئین میں درج ہے کہ اس عہدے کیلئے اپنے بڑے بھائی کے سمدھی ہوناہی کافی ہے۔پاکستان کے آئین میں کہیں نائب وزیراعظم کے عہدے کاذکرتک نہیں لیکن آپ ریاض سعودی عرب میں ورلڈ اکنامک فورم میں اسحاق ڈار کے ساتھ شریک تھے اور آپ کی غیرموجودگی میں چھٹی کے دن اتوارکواسحاق ڈارکے نائب وزیراعظم کی تقرری کانوٹیفکیشن جاری ہوگیا،کیاقوم کے دکھوں کا اس قدردلسوزی کے ساتھ ذکرکرنے والے وزیراعظم اس کی کوئی توجیہ بیان کرسکتے ہیں کہ25کروڑپاکستانیوں کے ساتھ یہ کھلواڑ کیوں کیاگیا؟ ایک طرف آپ ملکی معیشت کی بربادی کارونارورہے ہیں جس میں یقیناآپ سمیت دوسرے مقتدرسیاستدان اورافرادشامل ہیں لیکن دوسری طرف اسمبلی اورسینیٹ میں بیٹھے غربا اورمساکین کے کھانے تک میں جوخصوصی مراعات دی جارہی ہے،انہیں پٹرول کی مدمیں الاؤنس دیئے جارہے ہیں،بجلی،گیس کے بل میں سبسڈی دی جارہی ہے،جہازوں کے کرایوں میں خصوصی مراعات،رہنے کیلئے شاہانہ ہوسٹل مہیاکئے گئے ہیں،پھربھی ان کے بجٹ میں اضافہ کیوں کیاگیاہے؟کیابجٹ میں یہ تمام مراعات آپ کے حکم سے نہیں کی گئیں ؟یاپھریہ بجٹ بنانے والے کوئی اورہیں،لیکن اپنے خطاب میں اپوزیشن لیڈرکے فرائض انجام دے رہے ہیں!پارلیمنٹ کے بجٹ میں بے تحاشہ اضافہ کردیاگیاہے۔ووٹ لینے سے پہلے یہاں کے مکیں توعوام کی خدمت کانعرہ لگارہے تھے اورخدمت تو اپنی جیب سے کرنے کی بجائے اس کاسارابل عوام کاخون نچوڑکر کیوں وصول کیاجارہاہے؟
اپنے خطاب میں بجلی کی چوری کی شکایت کررہے ہیں……آخرآپ کس سے شکایت کررہے ہیں،اگربجلی چوری ہورہی ہے توبجلی چوروں کوکون پکڑے گا؟فری بجلی کون استعمال کر رہاہے؟کون اس کوروکے گا؟مجھے کسی ایسے ملک کی مثال دیں جہاں بجلی، گیس اوردیگریوٹیلیٹیزمیں کوئی مراعات لے رہاہو۔کیاآپ کوعلم ہے کہ دنیابھرمیں اسرائیل کاوزیراعظم نیتن یاہو لعنت ملامت کی زد میں ہے لیکن وزیراعظم کے دفترکابروقت بل ادا نہ کرنے کی پاداش میں سال میں تین دفعہ بجلی منقطع کردی گئی لیکن آپ اپنے خطاب میں قوم کے غریب افراد کے ساتھ جہاں ہمدردی کااظہارفرمارہے تھے،وہاں ان کویہ بھی بتادیاجاتاکہ آپ ہی کے پیش کردہ بجٹ کے مطابق رواں مالی سال99کروڑ30لاکھ روپے مختص کیے گئے تھے۔وزیراعظم ہاؤس کیلئے گزشتہ بجٹ کی نسبت26کروڑ73 لاکھ روپے زیادہ مختص کیے گئے ہیں۔آئندہ مالی سال کیلئے ایک ارب26کروڑروپے سے زائدکا بجٹ مختص کیاگیاہے جبکہ وزیراعظم ہاس نے مختص بجٹ سے ایک کروڑ80 لاکھ 48ہزارروپے زیادہ خرچ کیے ہیں۔اسی طرح گذشتہ سال کے بجٹ میں ایوان صدرکیلئے 80 کروڑروپے مختص کیے گئے تھے لیکن ایوان صدرنے اپنے بجٹ سے گیارہ کروڑروپے زیادہ خرچ کیے۔وزیراعظم صاحب!آپ تواپنے خطاب میں اشرافیہ کے شاہانہ اخراجات کوکم کرنے کاکہہ رہے تھے،کیا یہ شاہانہ اخراجات کی مد میں نہیں آتا؟کیایہ اخراجات آپ اپنی جیب سیاداکریں گے یاپھرقوم کے ٹیکس سیاداہوگا؟توپھرشکائت کس سے کررہے ہیں؟
آپ کے دل میں ملک کے غریب آدمی پرٹیکس کے بڑھ جانے کابہت بڑابوجھ ہے۔یہ بتائیں کہ بجٹ میں یہ ٹیکس کس کے حکم سے لگایاگیاہے؟بجٹ آپ کی حکومت نے پیش کیا ہے یاپھرجیل سے عمران خان نے یہ بجٹ آکربنایاہے؟
گھرمیں جو آگ لگی ہوئی ہے اورخلقِ خدا کودن دیہاڑے کندچھری سے جوذبح کیاجارہاہے،آپ کے پیش کردہ بجٹ میں آپ نے کون سی رعائت دی ہے۔ایک عام شہری اپنے درداورکرب کوکس کے سامنے جاکربیان کرے کہ آپ کے شاہانہ پروٹوکول کودیکھ کر آپ سب مقتدر اشرافیہ توکسی اورسیارے کی مخلوق لگتے ہیں جویہاں صرف ہم پرحکومت کرنے کیلئے آتے ہیں،اپنی باری لیکر اپنی راہ لیتے ہیں اورآپ کادوسراساتھی ایک خاص ایجنڈے پرکام کرنے کیلئے آجاتاہے۔ابھی کل ہی ایک عالمی شہرت یافتہ میرے ایک انگریز پروفیسرنے مجھے ایک ویڈیوارسال کی جس میں ہمارے صدرآصف زرداری اپنے علاقے میں42گاڑیوں کے حفاظتی حصارمیں عیدکی نمازکیلئے تشریف لے جارہے تھے۔ میر ا سر شرم سے اس لئے جھک گیاکہ ایک طرف توہم بھکاریوں کی طرح عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے گڑگڑارہے ہیں اوردوسری طرف تعیشات کایہ عالم ہے۔جس جمہوریت کا نعرہ آپ الاپ رہے ہیں آپ توسال میں برطانیہ کے کئی چکرلگاتے ہیں،یہاں کے وزیراعظم کاکوئی پروٹوکول دیکھا ہے،اس کی کارپرتوجھنڈہ بھی نہیں ہوتااور10 ڈاؤننگ سٹریٹ میں وزیر اعظم کافلیٹ تین بیڈروم پرمشتمل ہے اورگھرکے کام کیلئے کوئی ملازم نہیں اوریہاں کے وزرااوردیگرعہدیدارعام شہریوں کی طرح پبلک ٹرانسپورٹ پرسفرکرتے ہیں۔معاملہ صرف یہاں تک نہیں بلکہ برطانوی وزیر اعظم رشی سونک کوچلتی کارمیں سیٹ بیلٹ نہ باندھنے پرجرمانہ عائدکردیاگیااورجرمانے سے قبل انہوں نے اپنی اس غلطی پر ساری قوم سے معافی مانگی اورپولیس نے باقاعدہ اس سارے واقعہ کی تصدیق بھی کی۔کیاآپ نے اپنے بجٹ میں اس طرف کوئی توجہ فرمائی ہے کہ سالانہ کروڑوں روپے پروٹوکول پراٹھنے والے اخراجات سے کیسے نجات حاصل کی جائے۔آخرجب آپ حکومت میں نہیں ہوتے توتب آپ کے ساتھ ایساشاہانہ پروٹوکول نہیں ہوتا۔لیکن مجھ جیسا ایک عام انسان اپنے درداورکرب کووہ لفظ بھی عطا نہیں کرسکتاجوآپ کے شاہانہ اندازکوتبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتاہواورآپ کی طرح میڈیا پر قوم کی ہمدردیاں سمیٹنے کیلئے ایسالاجواب خطاب بھی کرسکے حالانکہ برسہا برس سے صحافت کی صحرانوردی میں عمرگزری ہے۔بیان کاسلیقہ بھی موجوداورمیڈیاسے بھی پرانارشتہ ہے لیکن کیاکروں…… دردتودردہے ناں، جوہرانسان کے دل اورسینے میں ہوتاہے،پھروہ یہ دردلیکرکہاں جائے،کس سے بیان کرے،کس کودکھائے یہ زخم؟وزیر اعظم صاحب!میں آپ سے جوبات کروں گا،آپ کہیں گے،نیاکیاہے اس میں؟لیکن ظل الہٰی!ہردرددوسرے سے جداہے،ہرایک اپنے غم میں تنہا ہے۔سناہے کہ دردبانٹنے سے کم ہوجاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں تویہ معاملہ بالکل الٹ ہے۔
پچھلی کئی دہائیاں میں نے بہت کرب میں گزاری ہیں۔یوں لگتاہے کہ اب میرے قلم میں بھی اتنی طاقت نہیں رہی اس کا سہارالے کر یہ بوجھ ہلکاکرلوں۔اب توہرروزٹی وی پرایسے دل دہلادینے والے مناظردیکھنے کوملتے ہیں کہ سوچتاہوں کہ اگررب کے محبوب پیغمبرۖکی دعاؤں کاسہارانہ ہوتاتویقیناہماری قوم کایہ مخصوص گروہ ہرروزطوفانِ نوح اورپتھروں کی بارش کاشکاررہتامگرمجھ جیسے ہزاروں یہ سوچنے پرمجبورہیں کہ یہ سلسلہ کب تک یونہی چلے گا؟رزقِ حلال کمانے والوں کی دن بدن سانس کی ڈوری ساتھ چھوڑتی نظرآرہی ہے۔
دوسری طرف تپتی جھلسادینے والی دھوپ میں ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک اپنے لاپتہ پیاروں کی بڑی بڑی تصاویراٹھائے درجن سے زائدعورتیں،معصوم بچے اوران کے لواحقین مارچ کرنے بعد اب اقوام متحدہ کو اس معاملے میں ملوث کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں کہ انہیں اب یہاں سے انصاف کی کوئی توقع نہیں،اس کے ساتھ ساتھ ان سینکڑوں تارکین وطن جن کی جائیدادوں پرقبضہ مافیااپنے خونی پنجے گاڑچکاہے،اب وہ بھی اپنی درخواستیں لیکراقوام متحدہ کے دروازہ پرنوحہ سنانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔
میں سوچاکرتاتھاکہ سقوطِ مشرقی پاکستان کاصدمہ کیسے برداشت کیاہوگااہل وطن نے۔اتنابڑاصدمہ سہہ کربھی وہ زندہ بچ گئے، کیسے مرمرکے جئے ہوں گے وہ،میں توان کے حوصلوں کوہمیشہ رشک کی نظرسے دیکھاکرتاتھا۔مشرقی پاکستان کے بنگالی بھی توہم کوقبضہ مافیاکانام دیتے تھے۔اب تک رہ رہ کرسینے میں جودرداٹھتاہے توسوچتاہوں کہ1971ء میں یہی دردمحسوس کیاہوگااہل وطن نے۔یہ کسک،یہ چبھن یہ ڈپریشن،مرمرکرجیناکہیں گے اسے آپ یاجی جی کے مرنا۔آپ اسے جوبھی کہہ لیں۔ہم توزندہ ہیں، ہمیں تواپنے حصے کاقرض چکاناہے۔اس پاکستان کوبچانے کیلئے پہلے بھی قربانیاں دیتے آئے ہیں لیکن اس مرتبہ بڑی قربانی کے آثاردکھائی دے رہے ہیں اوروہ قربانی اس تمام اشرافیہ کی ہوگی جس کیلئے قوم کی قوت برداشت کبھی بھی ختم ہوسکتی ہے!یاد رکھیں کہ فرانس کے خونی انقلاب نے بھی بے بس نڈھال عوام کی ختم ہوتی ہوئی قوت برداشت کی کوکھ سے جنم لیاتھااورپھرہر اس فردکاسردھڑسے الگ کردیاگیاتھاجس کے نرم ہاتھ اورکالرسفیدتھے۔
تاریخ گواہ ہے کہ اہل قلم بھی قوموں کی تقدیر کارخ بدل دیتے ہیں،اوران اہل قلم کوغنیمت جانیں جوآج بھی ایسے خطرناک سیلابوں کے آگے بندھ باندھنے کی کوشش کر رہے ہیں وگرنہ ہم جیسے تارکین وطن نے احتجاج کے طورپرصرف زرمبادلہ بھیجنے سے ہاتھ روک لیاتوپھرکیاہوگا؟آگ کے شعلے بہت تیزی سے بلندہورہے ہیں۔خطرے سے آگاہ کرنا توخطرے سے بچنے کی تیاری کرناہے ناں۔آپ کوان خطرات سے آگاہ کرنااپنی ذمہ داری سمجھتاہوں کہ یہ اشرافیہ،قبضہ مافیاجومختلف عہدوں پربراجمان مقتدرلوگوں کی ملی بھگت سے قوم کولوٹ رہاہے،یہ پاکستانی طالبان،بلوچستان میں دہشتگردی کی کاروائیوں میں ملوث وطن دشمن افراد،اجرتی قاتلوں اوربھتہ خوروں سے کہیں زیادہ خطرناک ہیں جنہوں نے ملک کے ہرادارے کواپنے گھرکی لونڈی بنا رکھاہے۔ وزیراعظم صاحب!اٹھئے خدارا،اپنے پاکستان کومزید تباہی سے بچالیں،بس آپ کی ذمہ داری اورصرف آپ کی ذمہ داری ہے۔کسی مبلغ یااسکول ہیڈ ماسٹرکی طرح قوم کونصیحتیں کرنے کاوقت نہیں بلکہ عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اوریہ سلسلہ خود آپ کو اپنے گھرسے شروع کرناہوگا۔
کیامحترم وزیراعظم صاحب کواس بات کاعلم ہے جب وہ امریکا کے ایک ہسپتال میں انتہائی نازک حالت میں دنیاومافیہاسے بے خبراپنے رب سے یہ عہدکررہے تھے کہ اگرمجھے اللہ نے زندگی دی تومیں پاکستان میں حق داروں کی داد رسی کیلئے اپنی جان تک قربان کردوں گا۔میں یہاں اللہ سے کئے گئے اس عہد کی یاد دہانی کروارہاہوں۔میں نہیں سمجھتاکہ آپ کویہ بتانے کی ضرورت ہے کہ جناب آپ اب وزیراعظم ہیں، آپ کے حکم سے ملک کاکاروبارچل رہاہے،آپ خودکہتے ہیں کہ ہمیں عوام نے اس منصب کیلئے منتخب کیاہے توکیایہ بھی ہم بتائیں گے کہ آپ کوکس نے اورکیوں منتخب کیاہے۔ یقین مانیں کہ قوم آپ کے خطاب پرمزیدبیوقوف بننے کیلئے تیار نہیں!وزیراعظم صاحب آپ نے اپنی تقریرکوجس شعرپرختم کیا تھا،اس سے اگلے دواشعارمیں آپ کوسنادیتاہوں!
کہیں نہ سب کوسمندربہاکے لے جائے
یہ کھیل ختم کروکشتیاں بدلنے کا
بگڑگیاجویہ نقشہ ہوس کے ہاتھوں سے
توپھرکسی کے سنبھالے نہیں سنبھلنے کا


متعلقہ خبریں


مضامین
اقلیتوں کے حقوق اورریاست کی ذمہ داری وجود پیر 01 جولائی 2024
اقلیتوں کے حقوق اورریاست کی ذمہ داری

کامیڈی کا زوال؟ وجود اتوار 30 جون 2024
کامیڈی کا زوال؟

کشمیریوں کے حمایتی پابند سلاسل وجود اتوار 30 جون 2024
کشمیریوں کے حمایتی پابند سلاسل

کمزوری کاتاثر نہ دیں! وجود اتوار 30 جون 2024
کمزوری کاتاثر نہ دیں!

لفظوں کے جادوگر وجود هفته 29 جون 2024
لفظوں کے جادوگر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر