... loading ...
ڈاکٹر جمشید نظر
جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں سن 2017میں جنوبی افریقن ہارٹ ایسوسی ایشن کی اٹھارہویں سالانہ کانفرنس کے دوران ماہرین امراض قلب نے ہارٹ اٹیک کی وجوہات سے متعلق جب رپورٹ پیش کی تو دنیا بھرکے میڈیا میں اس کا چرچا ہونے لگا۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیاتھا کہ یوٹیلیٹی بلوں کی قیمتوں میں اضافہ انسان کے ذہنی تناؤ کو بڑھا کر بلڈ پریشر میں اضافہ کرتا ہے جس کے باعث نارمل انسانوں میں ہارٹ اٹیک کا خطرہ تین گنا زیادہ بڑھ جاتا ہے۔یہ دعویٰ یونیورسٹی آف وٹ واٹرسرانڈ(University of Witwatersrand) کی تحقیقی رپورٹ میں کیا گیا تھا جس کو محققین نے سو سے زائد ہارٹ اٹیک کے شکار افراد کا جائزہ لینے کے بعد مرتب کیا تھا۔رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ مالی دباؤ کی وجہ سے تیرہ فیصدنارمل انسانوں کو ہارٹ اٹیک کا خطرہ رہتا ہے ۔اس رپورٹ کے بعد دنیا بھر کی بے شمار طبی وتحقیقی رپورٹس میں ماہرین صحت نے اس بات کی تصدیق کی اور خبردار کیا کہ مالی دباؤ اور یوٹیلٹی بلوں کی وجہ سے ہارٹ اٹیک کی شرح بڑھتی جارہی ہے۔اس رپورٹ پراقوام عالم نے علاج معالجہ پر توجہ تو دی لیکن ہارٹ اٹیک کا باعث بننے والی وجوہات کو ختم کرنے کے لئے کوئی قانون ،کوئی نظام اورکوئی طریقہ کار وضع نہیں کیا گیا۔پاکستان کی عوام کوآج ہارٹ اٹیک کا باعث بننے والی انہی دو بنیادی وجوہات کا سامنا ہے ایک طرف مہنگائی کی وجہ سے شدید مالی دباؤ اور دوسری جانب یوٹیلٹی بلز کے بڑھتے ہوئے نرخ خصوصا بجلی کے بڑھتے نرخوں نے عوام سے جینے کی رہی سہی اُمیدیں بھی چھین لی ہیں۔اس وقت نہ صرف غریب افراد بلکہ متوسط طبقہ بھی مہنگائی اور بجلی کے بلوں کی وجہ سے شدید مالی مشکلات کا شکار ہوگیا ہے یہی وجہ ہے کہ بجلی کے بلوں میں ہوشربا اضافہ کے خلاف ملک بھر میں عوام سراپا احتجاج بن گئے ہیں۔بجلی کے بلوں کے خلاف جماعت اسلامی، سماجی تنظیموں اور عوام کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر یہ بھی دکھایا جارہا ہے کہ گھریلو خواتین اپنے چھوٹے بچوں کے ہمراہ سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہیں ،نہ صرف خواتین بلکہ مرد سڑکوں پر زاروقطار روبھی رہے ہیںانھیں اس بات کا غم ستا رہا ہے کہ وہ اپنے بچوں کا پیٹ پالیں یا بجلی کے بل ادا کریں۔موجودہ حکومت سے عوام کا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ غریب آدمی آمدن سے زائد بجلی کے بل کیسے ادا کرے ؟ بجلی کے نرخوں کی وجہ سے ملک بھر میں ایک عجیب سی صورتحال ہے ، ہم آزاد ملک میں رہتے ہوئے مافیا،کرپشن،جرائم،مہنگائی،بے روزگاری اورغربت کی دیواروں میں قید ہیں جس کی وجہ سے ہرفرد پریشانی،بے چینی،مایوسی کا شکار نظر آرہا ہے اس کے باوجود عوام کو مسلم لیگ نون کی حکومت سے بہت سی توقعات ہیں ۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر یونہی بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہا توملک میںکرپشن ،سٹریٹ کرائم ، بجلی چوری ،مہنگائی ،بے روزگاری اورغربت کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوجائے گا کیونکہ بجلی کے بل جب زیادہ ادا کرنا پڑیں گے تو بڑی بڑی صنعتیں اپنی مصنوعات کی قیمتیں بڑھادیں گی،عام دکاندار زائد نرخوں پر اشیاء بیچنا شروع کردیں گے ،،ڈاکٹراپنی فیسیں بڑھا دیں گے،پرائیویٹ ا سکولز اورکالجز کی فیسیں بھی بڑھا دی جائیں گی،ادویات ساز کمپنیاں یا تو ادویات کی قیمتیں بڑھا دیں گی یا مافیا ادویات کی شارٹیج کرکے زائد قیمتیں وصول کرنا شروع کردے گا، محکمانہ کرپشن میںبھی اضافہ ہوگا،ان تمام وجوہات کی وجہ سے بجلی چوری سمیت دیگرسٹریٹ کرائم بھی بڑھ جائیں گے۔پنجاب پولیس کی ایک رپورٹ کے مطابق یکم جنوری سے 21 جون تک لاہور سمیت صوبہ بھر میں بجلی چوروں کے خلاف 50 ہزار 500 سے زائد مقدمات درج کئے گئے اورصوبہ کے تمام اضلاع سے بجلی چوری میں ملوث 26 ہزار 686 ملزمان گرفتار کی گیا۔رپورٹ کے مطابق صوبائی دارالحکومت لاہور میں 15533 مقدمات درج اور15 ہزار سے زائد ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کا کہنا ہے کہ لاہور سمیت ہر ضلع میں 660 پولیس اہلکار بجلی چوروں کے خلاف جاری مہم میں معاونت فراہم کر رہے ہیں۔
بجلی کی بڑھتی قیمتوں پر قابو پانے کے لئے وزیر اعظم شہباز شریف کو چاہئے کہ بجلی کے بلوں پرتمام اضافی ٹیکسز واپس لینے کا علان کریںاور قومی سولر پالیسی کے تحت عوام کوآسان ترین قسطوں پربنک سولر فناسنگ کی سہولت فراہم کرنے کے لئے ہنگامی اقدامات کریں۔سولر فنانسنگ کچھ عرصہ سے بند تھی اب کچھ بنکوں نے سولر فنانسنگ شروع کردی ہے لیکن ان کا مارک اپ اتنا زیادہ ہے کہ عام آدمی سولر فنانسنگ سے مستفید ہونے کی بجائے مزید مالی مشکلات کا شکار ہورہا ہے۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سابقہ حکومت میں سولر فنانسنگ پر مارک اپ کی شرح 6فیصد رکھی گئی تھی جبکہ اب بنک 25فیصد سے زائدشرح پر مارک اپ لے رہے ہیں جس کی وجہ سے لوگ بینک سولر فنانسنگ سے کترا رہے ہیں۔ حکوت کو چاہئے کہ پیٹرول اوربجلی کے نرخوں،بے روزگاری اور مہنگائی پر قابو پانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرے تاکہ عوام میں پھیلی مایوسی ،بے چینی اور نااُمیدی ختم ہوسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔