وجود

... loading ...

وجود
وجود

آمد ن سے زائدبجلی کے بل

جمعه 28 جون 2024 آمد ن سے زائدبجلی کے بل

ڈاکٹر جمشید نظر

جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں سن 2017میں جنوبی افریقن ہارٹ ایسوسی ایشن کی اٹھارہویں سالانہ کانفرنس کے دوران ماہرین امراض قلب نے ہارٹ اٹیک کی وجوہات سے متعلق جب رپورٹ پیش کی تو دنیا بھرکے میڈیا میں اس کا چرچا ہونے لگا۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیاتھا کہ یوٹیلیٹی بلوں کی قیمتوں میں اضافہ انسان کے ذہنی تناؤ کو بڑھا کر بلڈ پریشر میں اضافہ کرتا ہے جس کے باعث نارمل انسانوں میں ہارٹ اٹیک کا خطرہ تین گنا زیادہ بڑھ جاتا ہے۔یہ دعویٰ یونیورسٹی آف وٹ واٹرسرانڈ(University of Witwatersrand) کی تحقیقی رپورٹ میں کیا گیا تھا جس کو محققین نے سو سے زائد ہارٹ اٹیک کے شکار افراد کا جائزہ لینے کے بعد مرتب کیا تھا۔رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ مالی دباؤ کی وجہ سے تیرہ فیصدنارمل انسانوں کو ہارٹ اٹیک کا خطرہ رہتا ہے ۔اس رپورٹ کے بعد دنیا بھر کی بے شمار طبی وتحقیقی رپورٹس میں ماہرین صحت نے اس بات کی تصدیق کی اور خبردار کیا کہ مالی دباؤ اور یوٹیلٹی بلوں کی وجہ سے ہارٹ اٹیک کی شرح بڑھتی جارہی ہے۔اس رپورٹ پراقوام عالم نے علاج معالجہ پر توجہ تو دی لیکن ہارٹ اٹیک کا باعث بننے والی وجوہات کو ختم کرنے کے لئے کوئی قانون ،کوئی نظام اورکوئی طریقہ کار وضع نہیں کیا گیا۔پاکستان کی عوام کوآج ہارٹ اٹیک کا باعث بننے والی انہی دو بنیادی وجوہات کا سامنا ہے ایک طرف مہنگائی کی وجہ سے شدید مالی دباؤ اور دوسری جانب یوٹیلٹی بلز کے بڑھتے ہوئے نرخ خصوصا بجلی کے بڑھتے نرخوں نے عوام سے جینے کی رہی سہی اُمیدیں بھی چھین لی ہیں۔اس وقت نہ صرف غریب افراد بلکہ متوسط طبقہ بھی مہنگائی اور بجلی کے بلوں کی وجہ سے شدید مالی مشکلات کا شکار ہوگیا ہے یہی وجہ ہے کہ بجلی کے بلوں میں ہوشربا اضافہ کے خلاف ملک بھر میں عوام سراپا احتجاج بن گئے ہیں۔بجلی کے بلوں کے خلاف جماعت اسلامی، سماجی تنظیموں اور عوام کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر یہ بھی دکھایا جارہا ہے کہ گھریلو خواتین اپنے چھوٹے بچوں کے ہمراہ سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہیں ،نہ صرف خواتین بلکہ مرد سڑکوں پر زاروقطار روبھی رہے ہیںانھیں اس بات کا غم ستا رہا ہے کہ وہ اپنے بچوں کا پیٹ پالیں یا بجلی کے بل ادا کریں۔موجودہ حکومت سے عوام کا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ غریب آدمی آمدن سے زائد بجلی کے بل کیسے ادا کرے ؟ بجلی کے نرخوں کی وجہ سے ملک بھر میں ایک عجیب سی صورتحال ہے ، ہم آزاد ملک میں رہتے ہوئے مافیا،کرپشن،جرائم،مہنگائی،بے روزگاری اورغربت کی دیواروں میں قید ہیں جس کی وجہ سے ہرفرد پریشانی،بے چینی،مایوسی کا شکار نظر آرہا ہے اس کے باوجود عوام کو مسلم لیگ نون کی حکومت سے بہت سی توقعات ہیں ۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر یونہی بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہا توملک میںکرپشن ،سٹریٹ کرائم ، بجلی چوری ،مہنگائی ،بے روزگاری اورغربت کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوجائے گا کیونکہ بجلی کے بل جب زیادہ ادا کرنا پڑیں گے تو بڑی بڑی صنعتیں اپنی مصنوعات کی قیمتیں بڑھادیں گی،عام دکاندار زائد نرخوں پر اشیاء بیچنا شروع کردیں گے ،،ڈاکٹراپنی فیسیں بڑھا دیں گے،پرائیویٹ ا سکولز اورکالجز کی فیسیں بھی بڑھا دی جائیں گی،ادویات ساز کمپنیاں یا تو ادویات کی قیمتیں بڑھا دیں گی یا مافیا ادویات کی شارٹیج کرکے زائد قیمتیں وصول کرنا شروع کردے گا، محکمانہ کرپشن میںبھی اضافہ ہوگا،ان تمام وجوہات کی وجہ سے بجلی چوری سمیت دیگرسٹریٹ کرائم بھی بڑھ جائیں گے۔پنجاب پولیس کی ایک رپورٹ کے مطابق یکم جنوری سے 21 جون تک لاہور سمیت صوبہ بھر میں بجلی چوروں کے خلاف 50 ہزار 500 سے زائد مقدمات درج کئے گئے اورصوبہ کے تمام اضلاع سے بجلی چوری میں ملوث 26 ہزار 686 ملزمان گرفتار کی گیا۔رپورٹ کے مطابق صوبائی دارالحکومت لاہور میں 15533 مقدمات درج اور15 ہزار سے زائد ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کا کہنا ہے کہ لاہور سمیت ہر ضلع میں 660 پولیس اہلکار بجلی چوروں کے خلاف جاری مہم میں معاونت فراہم کر رہے ہیں۔
بجلی کی بڑھتی قیمتوں پر قابو پانے کے لئے وزیر اعظم شہباز شریف کو چاہئے کہ بجلی کے بلوں پرتمام اضافی ٹیکسز واپس لینے کا علان کریںاور قومی سولر پالیسی کے تحت عوام کوآسان ترین قسطوں پربنک سولر فناسنگ کی سہولت فراہم کرنے کے لئے ہنگامی اقدامات کریں۔سولر فنانسنگ کچھ عرصہ سے بند تھی اب کچھ بنکوں نے سولر فنانسنگ شروع کردی ہے لیکن ان کا مارک اپ اتنا زیادہ ہے کہ عام آدمی سولر فنانسنگ سے مستفید ہونے کی بجائے مزید مالی مشکلات کا شکار ہورہا ہے۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سابقہ حکومت میں سولر فنانسنگ پر مارک اپ کی شرح 6فیصد رکھی گئی تھی جبکہ اب بنک 25فیصد سے زائدشرح پر مارک اپ لے رہے ہیں جس کی وجہ سے لوگ بینک سولر فنانسنگ سے کترا رہے ہیں۔ حکوت کو چاہئے کہ پیٹرول اوربجلی کے نرخوں،بے روزگاری اور مہنگائی پر قابو پانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرے تاکہ عوام میں پھیلی مایوسی ،بے چینی اور نااُمیدی ختم ہوسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
دوست دشمن کی تمیز وجود هفته 06 جولائی 2024
دوست دشمن کی تمیز

ایک اور متنازع عدالتی فیصلہ وجود هفته 06 جولائی 2024
ایک اور متنازع عدالتی فیصلہ

کشمیریوں کی جائیدادیںجبراً ضبط وجود هفته 06 جولائی 2024
کشمیریوں کی جائیدادیںجبراً ضبط

آئی ایم ایف رکنیت کی درخواست کرے گا!! وجود جمعه 05 جولائی 2024
آئی ایم ایف رکنیت کی درخواست کرے گا!!

کشمیری اسکولوں میں ہندی زبان لازمی قرار وجود جمعه 05 جولائی 2024
کشمیری اسکولوں میں ہندی زبان لازمی قرار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر