... loading ...
ریاض احمدچودھری
بھارت غیر قانونی طور پر زیر قبضہ جموں و کشمیر نوجوان لڑکیوں سمیت کشمیری خواتین کو بدترین ریاستی دہشت گردی اور تشدد کانشانہ بنا رہا ہے۔ بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں چادر و چار دیواری کا تقدس بری طرح پامال کررہی ہے، اب تک بھارتی افواج کئی ہزار نہتے مردوں کو شہید کرکے ہزاروں کشمیری خواتین کو بیوہ کرچکی ہے اور کئی ہزار کشمیری خواتین کے شوہر تاحال لاپتہ ہیں۔
آج جب دنیا میں بیواؤں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے ، کشمیر خواتین بھارتی فوجیوں ، پیرا ملٹری فورسز، پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے وحشیانہ مظالم کا سامنا کر رہی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی ریاستی دہشت گردی کے باعث جنوری 1989 سے اب تک 22976 خواتین بیوہ ہوئیں جبکہ ان کے شوہروں کو بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں نے جعلی مقابلوں میں یا دوران حراست شہید کیا۔ گزشتہ 36 سال کے دوران تقریباً 2500 کشمیری خواتین کو نیم بیواؤں کے طور پر زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ بھارتی فوج اور پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد جن خواتین کے شوہروں کو دوران حراست لاپتہ کیا گیا ان کو نیم بیواؤں کا نام دیا گیا ہے اور ان میں سے کئی کی موت ذہنی تناؤ کے باعث ہوئی ہے۔ یہ نیم بیوائیں اپنے شوہروں کی تلاش کیلئے برسوں سے بھارتی فوج اور پیرا ملٹری فورسز کے کیمپوں کے چکر لگا رہی ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں لا پتہ افراد کے والدین کی ایسوسی ایشن ‘اے پی ڈی پی’ اور انسانی حقوق کے دیگر گروپوں کے مطابق مقبوضہ جموں و کشمیر میں1989 کے بعد سے تقریباً8000 شہری بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی حراست میں لاپتہ ہو چکے ہیں۔ جنوری 2001 سے اب تک فوجیوں اور پیرا ملٹری فورسز کے ہاتھوں 684 خواتین شہید ہو چکی ہیں۔ کشمیری خواتین کی اکثریت متعدد نفسیاتی مسائل اور ذہنی تناؤ کا شکار ہے۔ایک تحقیق کے مطابق مقبوضہ جموں وکشمیر کے نفسیاتی مریضوں میں 60 فیصد سے زیادہ خواتین ہیں۔ سرینگر کی ایک ماہر نفسیات زویا میر کے مطابق زیادہ تر لوگ جسمانی بیماری کو ترجیح دیتے ہیں دماغی بیماری اس طرح نظر نہیں آتی اس لئے اس کا سمجھنا مشکل ہے۔ ماہر نفسیات کے پاس جانے والے کو پاگل سمجھا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر لوگ اس کے بارے میں بات بھی نہیں کرتے۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں اسی کی دہائی میں شروع ہونے والی مسلح جدوجہد کے دوران ہزاروں کشمیری نوجوان ہلاک جب کہ کئی بھارتی جیلوں میں قید ہیں۔ ان نوجوانوں کی ہلاکت کی وجہ سے ہزاروں کشمیری خواتین بیوہ اور کئی بے سروسامانی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔مقامی انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق متنازع علاقے میں گزشتہ 31 برس سے جاری شورش کے نتیجے میں ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک اور سیکڑوں کی تعداد میں معذور ہو چکے ہیں۔ جب کہ سرکاری اعداد و شمار میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد اس سے نصف بتائی جاتی ہے۔اس تنازع کا پہلا اور سب سے المناک نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ ہزاروں خواتین نوجوانی میں بیوہ ہو گئی ہیں اور یتیموں کی تعداد اس سے دگنی یا تین گنا ہے۔ ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ چوں کہ ہلاک ہونے والوں کی غالب تعداد مردوں خاص طور پر 15 سے 30 سال کی عمر کے افراد کی ہے جس سے کشمیری آبادی کے تناسب میں جنس کے لحاظ سے عدم توازن پیدا ہوا ہے۔دوسری طرف نوجوان بیوہ خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد نے کشمیریوں کے لیے ایک بہت بڑا معاشرتی مسئلہ پیدا کر دیا ہے۔اس کے علاوہ 1500 سے 2000 تک ایسی خواتین بھی ہیں جن کے شوہر جبری گمشدگیوں کے واقعات میں اپنوں سے جدا ہوئے۔مبصرین کے مطابق کشمیری خواتین کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جن کے گھر بسانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا ہے۔ایک مقامی غیر سرکاری تنظیم ‘تحریکِ فلاح المسلمین’ کا کہنا ہے کہ صرف وادی کشمیر میں ایسی غیر شادی شدہ خواتین کی تعداد 50 ہزار تک پہنچ گئی ہے جن میں سے 10 ہزار سے زیادہ کا تعلق دارالحکومت سرینگر سے ہے۔
فاشسٹ نریندر مودی کی فاشسٹ حکومت کشمیری خواتین کی عصمت دری کو کشمیریوں کی تذلیل کرنے اور بھارتی سفاکانہ تسلط کے خلاف جاری جدوجہد کو دبانے کے لیے جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ اگرچہ ہر کشمیری بھارتی ریاستی دہشت گردی کا شکار ہے لیکن خواتین کو بدترین تشدد کا سامنا ہے۔ قابض افواج، پولیس، نیم فوجی دستوں اور ایجنسیوں کے ہاتھوں کشمیری خواتین کے ظلم و ستم کا سلسلہ بھارت کے غیر قانونی زیرتسلط مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری ہے جس نے وادی کے رہائشیوں کے لیے زندگی کو جہنم بنا دیا ہے۔ ہزاروں خواتین جموں و کشمیر کے 96,181 افراد میں شامل ہیں جنہیں جنوری 1989 سے اب تک بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں شہید کیا گیا۔ جنوری 2001 سے اب تک کم از کم 682 خواتین کو فوجیوں نے شہید کیا لیکن فاشسٹ حکام بہادر خواتین کی ہمت کو پست نہیں کر سکے۔
عالمی برادری کو بھارت کے غیر قانونی زیرتسلط مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہندوستانی فورسز کی طرف سے کیے جانے والے جنسی تشدد کو روکنے کے لیے بیدار ہونا چاہیے۔ حریت رہنمائوں اور کارکنوں جیسے آسیہ اندرابی، فہمیدہ صوفی، ناہیدہ نسرین، انشا طارق شاہ، صائمہ اختر، عائشہ مستق، حنا بشیر بیگ اور آسیہ بانو سمیت دو درجن سے زائد خواتین بھارت کے غیر قانونی زیرتسلط مقبوضہ جموں و کشمیر اور نئی دہلی کے تہاڑ جیل میں غیر قانونی طور پر نظربند ہیں۔ کشمیری عوام کو صرف حق خودارادیت کے منصفانہ مطالبے اور جموں و کشمیر کے عوام کی امنگوں کی نمائندگی کرنے پر ظلم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔