وجود

... loading ...

وجود
وجود

جرم قانون سے ایک قدم آگے۔۔

منگل 25 جون 2024 جرم قانون سے ایک قدم آگے۔۔

جاوید محمود

گریٹ فائر وال آف چائنہ نے عالمی ڈیجیٹل منظر نامے پر ابھرنے کے بعد سے انٹرنیٹ کی تاریخ میں ایک الگ مقام حاصل کر لیا ہے۔ یہ فائر وال جس میں ضوابط ٹیکنالوجی اور بیوروکریسی کا ایک پیچیدہ جال شامل ہے ایک ایسی حکومت کے کنٹرول کو مجسم بناتا ہے جو مفت معلومات تک رسائی کو روکنے اور تیزی سے ڈیجیٹل کرنے والی دنیا میں اپنی معلوماتی خود مختاری قائم کرنے کے لیے پر عزم ہے۔ یہ منصوبہ چین کی پبلک سیکیورٹی کی وزارت نے 1996کے اوائل میں شروع کیا تھا اور اسے گولڈن شیلڈ پروجیکٹ کا نام دیا گیا تھا۔ پہل پہل فائر وال کی سرگرمی کا دائرہ محدود تھا اور اس نے مٹھی بھر اپوزیشن کے مواد کو نشانہ بنایا ۔ چینی شہریوں کی جانب سے آغاز سے عائد پابندیوں سے نمٹنے کی کوششیں متاثر کن تھیں۔ انہوں نے ہوشیار طریقوں کا ایک سلسلہ تیار کیا جیسے کہ مسدود فکروں کے لیے ہرموفونک متبادل استعمال کرنا یا پابندیوں کو روکنے کے لیے پراکسی سرور کا استعمال کرنا ۔لوگوں کی کوششوں کو دیکھ کر حکومت نے گریٹ فائر وال کو بہتر بنانے کا آغاز کیا اور اس سے بلی اور چوہے کے درمیان دنیا کی سب سے بڑی ڈیجیٹل گیم کا اغاز ہوا۔
2009 چین کی سنسر شپ دیوار کے لیے ایک اہم موڑ تھا۔ سنکیا نگ میں بغاوت شروع ہوتے ہی چینی حکومت نے انٹرنیٹ سینسر شپ کے لیے ایک نئے دور کی نشاندہی کرتے ہوئے خطے میں 10 ماہ کے لیے انٹرنیٹ بلیک آؤٹ نافذ کر دیا، اس عمل نے فائر وال کو پائلٹ پروجیکٹ سے ایک طاقتور ٹول میں تبدیل کر دیا۔ یہ سمجھنا کہ چین میں انٹرنیٹ کیسے کام کرتا ہے، ایک وسیع تکنیکی بھول بھلیاں سے گزرنا ہے جو ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کی ترقی کی وجہ سے پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے چین میں فلٹرنگ آپریٹس نے کئی سالوں سے کئی طریقے استعمال کیے ہیں جن میں کی ورڈ بلاک آئی پی بلاکنگ ڈی این ایس سپوفنگ اور ڈی پیکٹ انسپیکشن ڈی پی آئی شامل ہیں ۔
پاکستان میں موجودہ سیاسی صورتحال میں حکومت کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کو کنٹرول کرنے کے لیے انٹرنیٹ گیٹ وے پر فائر وال کی تنصیب سے متعلق خبروں پر شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق فائر وال کی تنصیب کے بعد حکومت کے لیے متنازع مواد کو حذف کرنے اور اسے اپلوڈ کرنے والے صارفین کی شناخت کرنا قدر ے آسان ہو گیا ہے۔ پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت سے وابستہ ایک اعلیٰ ذریعے نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پرایک انٹرویو میں بتایا کہ یہ ٹیکنالوجی ایک دوست ملک نے پاکستان کو فراہم کی ہے اور اسے مشرقی وسطیٰ کے ایک عرب ملک میں پہلے ہی کامیابی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس ذریعے کے بقول فائر وال لگانے کے دو مقاصد ہیں ۔ایک نا مناسب مواد اپلوڈ کرنے والوں کی شناخت کرنا اور دوسرا ایسے مواد کی عام لوگوں تک رسائی محدود کرنا ۔ماہرین کے بقول فائر وال کی تنصیب سے شہریوں کا پرائیویسی کا بنیادی حق ختم ہو کر رہ جائے گا۔ پاکستان میں فائر وال کے حوالے سے تفصیلات سامنے لانے والے ایک سینئر صحافی نے ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپلوڈ کیے جانے والے مواد کو فلٹر کرنے کی خاطر لگائی گئی فائروال کی تنصیب کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے لیے تو یہ بات حیران کن بات ہوگی کہ اگر کوئی انہیں بتائے کہ فائر وال نصب نہیں کی گئی تاہم حکومت نے اس حوالے سے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ پاکستان میں مین اسٹریم میڈیا پر عائد غیر اعلانیہ پابندیوں کے بعد سوشل میڈیا ان خبروں کو سامنے لانے کا ایک اہم ذریعہ رہا ہے، جنہیں حکومت دبانے کی کوشش کرتی ہے۔ فائر وال کے حوالے سے نئی پیش رفت ایسے وقت پر سامنے آئی ہے جب ملک میں تقریبا پچھلے آٹھ ماہ سے سابقہ ٹوئٹر اور موجودہ ایکس تک رسائی بند ہے اور ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ہتک عزت کے متنازع قانون پر صحافتی تنظیمیں احتجاج بھی کر رہی ہیں۔ پاکستان میں ڈیجیٹل رائٹس کے لیے کام کرنے والے ماہرین نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ نیشنل فائر وال کی تنصیب سے معلومات تک رسائی آزادی اظہار اور انفرادی پرائیویسی جیسے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہو سکتے ہیں۔ اس فائر وال سے ایک عام شہری کی بینک معلومات تنخواہ صحت سے متعلق تفصیلات یہاں تک کہ ای میل وغیرہ سے لے کر پاسورڈز تک رسائی اداروں کی دسترس میں آ سکتی ہیں۔ سائبر امور کے قانونی پہلوؤں پر نگاہ رکھنے والے ایک سینئر وکیل کے مطابق فائر وال کی تنصیب سے شہریوں کا پرائیویسی کا بنیادی حق ختم ہو کر رہ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس حکومتی اقدام کے نتیجے میں صارفین کی ساری نجی معلومات تک ریاست کی رسائی ممکن ہو جائے گی اور کسی بھی شہری کو کسی بھی ایسے مواد کو اپلوڈ کرنے کے ضمن میں سزا کا مستحق ٹھہرایا جا سکے گا۔ جسے ریاست قابل اعتراض گردانے گی۔ اس دوران بظاہر آزادیٔ اظہار کی علمبردار اور ملک کی سیاسی جماعتیں شہری آزادیوں پر حال ہی میں عائد کردہ قدغنوں کے خلاف کوئی دو ٹوک یا موثر بیان دینے سے ہچکچا رہی ہیں ۔مبصرین کا خیال ہے کہ غلط حکومتی پالیسیوں سے ستائے ہوئے عوام کے رد عمل کو فائر وال کے ذریعے روکنے کے بجائے ضرورت اس امر کی ہے کہ ان اسباب کو دور کیا جائے جو عوام میں بے چینی اور رد عمل پیدا کرتے ہیں ۔اگر موٹروے پر کسی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہو جائے تو ایسے حادثوں کو روکنے کا حل موٹروے بند کر دینا نہیں ہوتا ،ایسی صورت میں ڈرائیوروں کو ٹریننگ دینا چاہیے۔ عوام میں آگہی میں اضافہ کرنا چاہیے اور ٹریفک ڈسپلن کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ حادثات کا باعث بننے والے اسباب کی روک تھام بھی کی جانی چاہیے ۔پاکستان میں پہلے ہی غیر مناسب مواد کی حامل ویب سائٹ کو بلاک کرنے کے لیے فائر وال استعمال کی جا رہی ہیں اور حکومت نے اب تک ساڑھے 12 لاکھ کے قریب ویب سائٹس بند کر رکھی ہیں۔ ان میں سے نو لاکھ 80ہزار سائٹس ایسی ہیں جن پر فحش اور اخلاقی اعتبار سے نامناسب مواد موجود ہے جبکہ باقی تین لاکھ ویب سائٹس میں سیاسی اور خبری مواد والی سائٹس بھی شامل ہیں۔ سوشل میڈیا کا ایک تعلیمی اور مثبت استعمال بھی ہے۔ اس پر قدغنیں لگانے سے ان لوگوں کو نقصان ہوگا جو اس کا مثبت استعمال کر رہے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جوتا لہرانے کی ایک ویڈیو سامنے آنے پر یوٹیوب سمیت کئی ایسی ویب سائٹس کو بند کر دیا گیا تھا جن میں لفظ جوتے کا ذکر تھا۔ س صورتحال میں قصور کے ایک نوجوان کا کاروبار بھی ٹھپ ہو گیا تھا جو جوتوں کا آن لائن کاروبار کر رہا تھا۔ لوگوں کو سوشل میڈیا کے ذمہ دارانہ استعمال کا شعور دینا چاہیے لیکن ان کی علم تک رسائی کو روکنا مناسب نہیں ہے۔ فائر وال کے ایشو کو سمجھنے کے لیے سارے ا سٹیک ہولڈرز کا نقطہ نظر سامنے رکھنا ہوگا۔ میڈیا کی آزادی کی حمایت ضرور ہونا چاہیے لیکن میڈیا کو یہ بھی تو دیکھنا چاہیے کہ ان کی صفوں میں وہ کون لوگ ہیں جو صحافیوں کے روپ میں ریڈ لائن کراس کر کے فائر والز لگوانے کا باعث بن رہے ہیں ۔ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ نامور صحافی بھی حقائق کی چھان بین کیے بغیر فیک اسٹوری سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔ دوسری طرف حکومت بھی سمجھتی ہے کہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے اسے عدم استحکام سے دوچار کرنے والے پروپیگنڈیے اور فیک نیوز کا خاتمہ ہونا چاہیے لیکن حکومت کویہ بات یاد رکھنا ہے کہ وہ ایک ہی لاٹھی سے سب کو نہیں ہانک سکتی ۔اس کو پروفیشنل صحافیوں پر قدغن لگانے سے گریز کرنا چاہیے ۔اقتدار میں بیٹھے لوگ روس چین سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مثالوں کو سامنے رکھ کر فائر وال کی کامیابی کی امیدیں لگا رہے ہیں۔ ان کو 100 فیصد کامیابی نہ بھی ملے وہ پھر بھی کچھ نہ کچھ کامیابی حاصل کر ہی لیں گے۔ جیسے پاکستان میں چند ماہ قبل ایکس ٹویٹر پر پابندی لگائے جانے کے بعد پاکستان میں ایکس صارفین کی تعداد اب نصف کے قریب رہ گئی ہے ۔ٹیکنالوجی میں مسلسل تبدیلیاں اور ترقی ہوتی رہتی ہے۔ مستقبل میں فائر والز کا توڑ بھی تلاش کرنے والے اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل سامنے لے ا سکتے ہیں۔ پاکستان میں لوگ آزادی رائے کی اہمیت اور ضرورت سے آگاہ ہیں اس لیے یہاں آزادی اظہارپر قدغنیں لگانا اور انہیں برقرار رکھنا آسان نہیں ہوگا ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جرم قانون سے ایک قدم آگے ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
بھارتی فلموں میں اسلام، مسلمانوں کی توہین وجود جمعرات 04 جولائی 2024
بھارتی فلموں میں اسلام، مسلمانوں کی توہین

ہندوستانی کرکٹ میں تکثیری سماج کی نمائندگی کیوں نہیں ہے ؟ وجود جمعرات 04 جولائی 2024
ہندوستانی کرکٹ میں تکثیری سماج کی نمائندگی کیوں نہیں ہے ؟

کِس کی مانیں اور کِسے رَد کریں وجود جمعرات 04 جولائی 2024
کِس کی مانیں اور کِسے رَد کریں

بلائنڈ کرکٹ ٹیم اور مزے کی بات وجود بدھ 03 جولائی 2024
بلائنڈ کرکٹ ٹیم اور مزے کی بات

بھارتی مسلمانوں پر ہجومی تشدد وجود بدھ 03 جولائی 2024
بھارتی مسلمانوں پر ہجومی تشدد

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر