وجود

... loading ...

وجود
وجود

ملک میں ہجومی تشدد کی نئی لہر

منگل 25 جون 2024 ملک میں ہجومی تشدد کی نئی لہر

معصوم مرادآبادی

عام انتخابات میں مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہونے کے بعد سنگھ پریوار میں بو کھلاہٹ پیدا ہوگئی ہے ۔ مسلمانوں کے خلاف ماحول گرم کرکے ہندو ووٹ حاصل کرنے کی حکمت عملی بری طرح ناکامی سے دوچار ہوئی ہے ۔ ایسا محسو س ہوتا ہے کہ اب نفرت کی سیاست کے ناکام ہونے کا انتقام مسلمانوں سے لیا جارہا ہے ۔ملک کے مختلف حصوں میں گزشتہ دوہفتوں کے دوران ہجومی تشدد کی پے درپے وارداتیں ہوئی ہیں جن میں مسلم نوجوانوں کو انتہائی سفاکی سے ہلاک کردیا گیا ہے ۔ سب سے تازہ واردات اترپردیش کے علی گڑھ شہر میں ہوئی ہے جہاں اورنگ زیب نامی نوجوان کو چور قرار دے کر اس بری طرح پیٹا گیا کہ اس کے جسم کے چتھڑے اڑگئے ہیں۔اس کے علاوہ ملک کے کئی حصوں میں عیدالاضحی کے موقع پر گؤ رکشکوں نے قہربرپا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔ واضح رہے کہ ملک میں عام انتخابات اور مرکزمیں تیسری بار مودی سرکار بننے کے بعد یہ پہلی عیدقرباں تھی، جس میں گؤرکشکوں نے کھل قتل وغارتگری کا مظاہرہ کیا ہے ۔ یہاں تک کہ بعض علاقو ں میں تشدد کی وارداتوں کے بعد کرفیو نافذکیا گیا ہے ۔چھتیس گڑھ میں گؤکشی کا جھوٹا الزام عائد کرکے گؤ رکشکوں نے تین مسلم نوجوانوں کی جانیں لے لی ہیں اور کئی جگہ بے قصور مسلمانوں کو جارحیت کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔ اڑیسہ کے بالاسور ضلع میں قربانی کے خون پرایسا وبال مچاکہ وہاں کرفیو نافذ کرنا پڑا۔اڑیسہ میں بی جے پی نے پہلی بار اقتدار حاصل کیا ہے اور یہ اقتدار وہاں کی پرامن آبادی میں جارحانہ ہندوتوا کی جوت جگاکر حاصل کیا گیا ہے ، اس لیے وہاں صورتحال بے قابو ہوگئی ہے۔ نوین پٹنائک پچیس برس سے اڑیسہ میں برسر اقتدارتھے ، لیکن کبھی کوئی فرقہ وارانہ جھڑپ نہیں ہوئی۔ بی جے پی کے اقتدار میں آتے ہی وہاں کا ماحول اس حد تک گرم ہوگیا ہے کہ ہندتو وادیوں نے نالیوں میں بہتے ہوئے قربانی کے خون کو دیکھ کر پتہ لگالیا کہ یہ گائے کا خون ہے ۔ظاہر ہے جب نفرتوں نے ذہنوں میں ڈیرے جمالیے ہوں تو اس کا نتیجہ یہی برآمد ہوتا ہے ۔
اڑیسہ کے علاوہ بی جے پی کے اقتدار والی ریاست مدھیہ پردیش میں بھی گؤرکشکوں نے دہشت مچائی ہے ۔ مدھیہ پردیش کے ایک گاؤں میں گؤکشی کا الزام لگاکر ایک درجن مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلادیا گیا ہے اور انھیں اس شدید گرمی کے موسم میں بے گھر کردیا گیا ہے ۔یہ کام وہاں کی انتظامیہ نے انجام دیا ہے ۔ گویا گؤرکشکوں اور سر کار دونوں کی سوچ یکساں ہے ۔ اس واقعہ نے 2015 میں اترپردیش کے دادری میں اخلاق کے وحشیانہ قتل کی یاد دلادی ہے ۔یہاں بھی عیدلاضحی کے موقع پر محمداخلاق کو اس بنیاد پر وحشیانہ انداز میں قتل کردیا گیا تھا کہ اس کے گھرکے فریج میں گائے کا گوشت ہونے کی افواہ اڑادی گئی تھی۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حالیہ پارلیمانی چناؤ میں اپنی کمزور کارکردگی کا انتقام بی جے پی مسلمانوں سے لے رہی ہے ۔ مرکز میں تیسری بار وزیراعظم نریندرمودی کی قیادت میں بی جے پی کی سرکار تو بن گئی ہے ، لیکن پچھلی دوبار کی طرح بی جے پی کو اپنے بل پر اکثریت حاصل نہیں ہوسکی ہے ۔ اس کا قصور ان مسلمانوں کے سر ڈالا جارہا ہے جنھوں نے متحد ہوکر انڈیا اتحاد کو ووٹ دیاہے اور بی جے پی کو اتحادیوں کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔حالانکہ یہ خود وزیراعظم کی انتخابی تقریروں کا ہی اثر تھا جو مسلمانوں کو مسلسل نشانہ بنارہے تھے ۔اس کا مقصد ہندو ووٹ کو متحد کرنا تھا، لیکن وزیراعظم کی تقریروں کا الٹا اثر ہوا۔ ہندو ووٹ تو ذات پات میں بٹ گیا لیکن مسلمانوں نے متحد ہوکر اپنا ووٹ انڈیا اتحاد کے امیدواروں کو دے کر اس کی کامیابی کی راہ ہموار کردی۔
بی جے پی اپنی ناکامیوں کا ٹھیکراہمیشہ دوسروں کے سرپھوڑتی ہے لہٰذا اس بار بھی یہی ہوا کہ اپنی خراب کارکردگی کا قصور مسلمانوں کے سر ڈال دیا گیا اور ان سے انتقام لینے کا عمل شروع ہوگیا۔سب سے پہلے مدھیہ پردیش کے منڈلا ضلع میں پولیس نے گائے کا گوشت رکھنے کے الزام میں غریب مسلمانوں کے مکانوں پر بلڈوزر چلا ئے ۔ منڈلا کے ایس پی نے بتایا کہ یہاں کے گیارہ مسلمانوں کے مکانوں سے گائے کی باقیات برآمد ہوئیں، جس کے بعد محکمہ مالیات نے ملزمین کے مکانات مسمار کردئیے ۔بلڈوزر چلاتے وقت بتایا گیا کہ یہ عمارتیں سرکاری زمین پر بنائی گئی تھیں۔ جبکہ مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ وہ پچیس سال سے یہاں پرامن طریقے سے رہتے چلے آئے ہیں۔ پولیس اب ان لوگوں کے خلاف قومی سلامتی قانون کے تحت کارروائی کررہی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اگرپولیس کو گائے کے ذبیحہ کی اطلاع ملی تھی تو اس نے گوشت کی جانچ کیوں نہیں کروائی اور اس معاملہ میں قانون کے مطابق کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔سب کچھ اپنی مرضی اور منشا سے ہی کرناہے توملک میں قانون اور دستور کی ضرورت ہی باقی نہیں ہے ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پہلے برآمد شدہ گوشت کو لیبارٹری میں بھیجا جاتا اور اگر اس کی تصدیق ہوجاتی تو قصورواروں کے خلاف دستیاب قانون کے تحت کارروائی ہوتی،لیکن پولیس نے ضابطہ کی کارروائی کرنے کی بجائے من مانی کارروائی کی اور مسلمانوں کے خلاف اپنی نفرت اور تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے شدید گرمی کے اس موسم میں ان کے گھروں پر بلڈوزرچلاکر انھیں بے گھر اور بے در کردیا۔
گؤرکشکوں کی دہشت کی سب سے دردناک خبر مدھیہ پردیش کی پڑوسی ریاست چھتیس گڑھ سے موصول ہوئی ہے ، جہاں کے رائے پور میں گؤ رکشکوں کے حملے میں تین مسلم نوجوان کی جانیں چلی گئی ہیں۔ مویشی لے جانے کے الزام میں گزشتہ سات جون کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنائے گئے 23سالہ صدام قریشی نے گزشتہ روز دم توڑ دیا۔ صدام ان تین مسلم نوجوانوں میں شامل تھا جنھیں رائے پور میں جانوروں کی اسمگلنگ کے الزام میں ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان میں سے دونوجوانوں کی موقع پر ہی موت ہوگئی تھی جبکہ صدام کوشدید زخمی حالت میں اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ اس کے دماغ میں کافی چوٹیں آئی تھیں۔ اس کے علاوہ اس کے جسم کی بیشتر ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں۔صدام کوما میں تھا اور اس نے اسی حالت میں جان گنوادی۔ اس ہجومی تشدد کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والے دودیگر مسلمانوں کے نام گڈوخاں اور چاند میاں ہیں۔ چاند میاں کا تعلق اترپردیش کے سہارنپور اور گڈو خاں کا شاملی سے تھا۔
مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور اڑیسہ کے علاوہ تلنگانہ کے بعد میدک ضلع میں قربانی کے جانور کے نام پر دودینی مدرسوں پر حملہ کیا گیا اور کئی لوگوں کو زخمی کردیا گیا۔ مقامی مسلمانوں کی دکانوں اور تجارتی اداروں کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔شرمناک بات یہ ہے کہ زخمیوں کو جب اسپتالوں میں داخل کرایا گیا تو وہاں بھی شرپسندوں نے ان پر حملہ کیا۔ اس معاملہ میں تلنگانہ پولیس نے بی جے پی کے کئی کارکنوں کو گرفتار کیا
ہے ۔ اس کے ساتھ ہی اقلیتی طبقے کے بھی کئی لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے ۔عیدالاضحی کے موقع پر مسلمانوں کو دہشت زدہ کرنے کے لیے جو کچھ کیا گیا ہے ،وہ انتقامی کارروائی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔مختصر خاموشی کے بعد گؤ رکشک ایک بار پھر میدان میں آگئے ہیں۔ان کا مقابلہ کرنے کے لیے نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں ہجومی تشدد کی نئی لہر شروع ہوگئی ہے ۔ حالانکہ مرکزی حکومت ہجومی تشدد کے خلاف سخت قانون بناچکی ہے ، لیکن اس کا اطلاق نہیں کیا جارہا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اقلیتوں کے حقوق اورریاست کی ذمہ داری وجود پیر 01 جولائی 2024
اقلیتوں کے حقوق اورریاست کی ذمہ داری

کامیڈی کا زوال؟ وجود اتوار 30 جون 2024
کامیڈی کا زوال؟

کشمیریوں کے حمایتی پابند سلاسل وجود اتوار 30 جون 2024
کشمیریوں کے حمایتی پابند سلاسل

کمزوری کاتاثر نہ دیں! وجود اتوار 30 جون 2024
کمزوری کاتاثر نہ دیں!

لفظوں کے جادوگر وجود هفته 29 جون 2024
لفظوں کے جادوگر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر