... loading ...
سمیع اللہ ملک
(گزشتہ سے پیوستہ)
اس کے علاوہ عراق امریکاجنگ میں بھی ان 32یہودیوں کے مرکزی کردارکونظراندازنہیں کیاجاسکتاجوورلڈٹریڈسنٹرپرحملے کے بعد بش انتظامیہ اورتمام اہم کلیدی عہدوں تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکے تھے۔یہی وہ یہودی تھے جواس وقت تمام امریکاکے سیاہ وسفیدکے مالک بن بیٹھے تھے اورتمام پالیسیوں کوتشکیل دیرہے تھے۔ان میں سے ایک رچرڈپرل تھاجو پینٹاگون کے ڈیفنس پالیسی بورڈکاچیئرمین اورخارجہ پالیسی کے سلسلے میں بش کا مشیر تھا۔اس سے قبل رچرڈاسرائیل کی اسلحہ ساز فیکٹری سولٹم میں ملازم تھا دوسرا شخص پال ولف اوٹس جو امریکا کانائب وزیردفاع اوررچرڈ کے ڈیفنس پالیسی بورڈکا ممبرتھا ۔یہ وہ شخص ہے جس کے اسرائیل سے خفیہ تعلقات کی خبریں متعددبارامریکی اخبارات میں شائع ہوئیں۔تیسراشخص ڈگلس فیتھ تھاجودفاع کاانڈرسیکرٹری اورپینٹاگون میں پالیسی ایڈوائزر تھا۔ یہ شخص ایک متعصب یہودی تھاجوعرب مخالف پالیسیوں کی بنا پر امریکامیں خاصامقبول تھااوریہودیوں کی بدنام زمانہ تنظیم زاہانسٹ آرگنائزیشن آف امریکامیں بھی شامل رہا۔
چوتھاشخص ایڈورڈلٹواجوپینٹاگون میں قائم سیکورٹی اسٹڈی گروپ کاممبرتھا۔یہ ایک نظریاتی اورانتہاپسندیہودی تھاجس کی تعلیم وتربیت تل ابیب میں ہوئی اوراخبارات میں مسلسل اسرائیل کی حمائت میں مضامین بھی لکھتارہا۔اگلاشخص ڈوزاخم جودفاع کاانڈر سیکرٹری اورمحکمہ دفاع کاچیف فنانشل آفیسرتھا۔یہ شخص بھی نسلاًیہودی تھااوراورامریکاکے ساتھ ساتھ اسرائیل کی شہریت بھی رکھتاہے۔اس کاکہناہے کہ جب تک مسلمانوں کی طاقت ختم نہیں ہوجاتی یہودیوں کا عروج شروع نہیں ہوسکتا۔کینتھ ایڈولمین پیٹاگون میں مشیرتھااور ڈیفنس پالیسی بورڈ کا ممبر بھی تھا ۔یہ بھی ایک انتہائی متعصب اورانتہا پسندیہودی ہے،جس کا کاکہناہے کہ اگردنیاامن چاہتی ہے تومسلمانوں کی بیخ کنی کرناہوگی اوراگریہ ممکن نہ ہوتو مسلمانوں کواس جگہ پر رکھنا چاہئے جہاں لوگ پرانے غلاموں کورکھاکرتے تھے۔اس شخص کوآپ ہمیشہ کی طرح بین الاقوامی ٹی وی چینل فاکس نیوزپرعربوں اور مسلمانوں کے خلاف گفتگوکرتاہواپائیں گے۔لیویزلیبی امریکاکے نائب صدرڈک چینی کاچیف آف سٹاف تھا،اس کاکہناہے کہ اگردنیا سے دہشتگردی کوختم کرنا ہے توجہادکے جذبے کومٹاناہوگا ،اس کیلئے مسلمانوں کے اندرایک گروہ احمدی(قادیاانی)کے نام سے جوکام کررہاہے،ان کی ہرموقع پرحوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔
رابرٹ سٹالوف امریکی قومی سلامتی کامشیرتھاجواس سے قبل اسرائیل کے تھنک ٹینک،واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فارنیئرایسٹ کا ڈائریکٹرتھا۔اس کاکہناہے کہ عربوں کاتیل بنیادی طورپر یہودیوں کی جاگیرہے لیکن مسلمان اسے استعمال کررہے ہیں،یہ سراسر بے ایمانی ہے اورایک دن یہودی اپناحق لیکرہی رہیں گے۔ایسٹ ابرامزکاشماربھی انتہاپسندیہودیوں میں ہوتاہے اوریہ شخص اس دورمیں نیشنل سیکورٹی کونسل کامشیرتھا۔اس کاکہناتھاکہ اس وقت تک دنیامیں امن قائم نہیں ہوسکتاجب تک وہ تمام ذرائع مسدودنہ کردیئے جائیں جن سے اسامہ بن لادن جیسے لوگ پیداہوتے ہیں۔پس منظرکے طورپرعرض کیاجاتاہے کہ بش کوعراق پرحملے کی چنداں ضرورت نہیں تھی کیونکہ عرب حکمرانوں کی تمام دولت امریکامیں ہے اورامریکا کوتیل کی ترسیل روک کروہ اپنے اربوں کھربوں ڈالرزکوخطرہ میں نہیں ڈال سکتے لیکن یہ کیسے ممکن ہوسکتاہے کہ وزارتِ خارجہ اورڈیفبس جیسے حساس اداروں پرانتہاپسند اور متعصب یہودی تعینات ہوں جوبرسوں سے مسلمانوں کے زوال اوربیخ کنی کے منتظر تھے اورجونیئربش کوعراق پرحملہ کرنے کی تجویزنہ دیں بلکہ مجبورنہ کریں۔اس بات کااندازہ لگانابھی مشکل نہیں کہ ان حضرت کے ہوتے ہوئے جونیئربش عراق پرحملہ کرنے سے کیسے انکارکرسکتاتھاجبکہ بش کواپنے آگے اورپیچھے دونوں طرف موت منڈلاتی دکھائی دے رہی تھی اوراسے اس بات کابخوبی علم تھاکہ امریکاکے 16ویں صدرابراہام لنکن اور20ویں صدرچیمزگارفیلڈ عالمی مالیاتی نظام جسے براہِ راست یہودی کنٹرول کرتے ہیں، میں رخنہ ڈالنے کے سبب قتل کئے جاچکے ہیں،اس لئے وہ کسی بھی صورت میں اپنی جان کوخطرے میں نہیں ڈال سکتاتھا۔
یہودی اگرامریکاکوعراق اورشام کے خلاف جنگ کرنے پرابھارتے ہیں اورحملہ کرنے پرمجبور کرتے ہیں توبات سمجھ میں آتی ہے کہ ایساکرنے سے یہودیوں کے گریٹراسرائیل(جو مصرکے نیل سے لیکرفرات تک پھیلاہواہے اورجس میں اردن سمیت سعودی عرب کاشمالی علاقہ نصف عراق اورپوراشام شامل ہے)کاخواب تکمیل تک پہنچتاہے،لیکن سوال یہ ہے کہ یہودی لابی نے امریکا کوافغانستان کی دلدل میں کیوں دھکیلا؟تواس بات کورسول اکرم ۖکی حدیث مبارکہ سے باآسانی سمجھاجاسکتاہے۔سنن ابن ماجہ میں حضوراکرم ۖ سے ایک روایت نقل کی گئی ہے کہ جب تم دیکھو کہ خراسان کی جانب سے سیاہ جھنڈے نکل آئے ہیں تواس لشکرمیں شامل ہوجا ؤ چاہے تمہیں اس کیلئے برف پرگھسٹ کرہی کیوں نہ جاناپڑے کہ اس لشکرمیں اللہ کے آخری خلیفہ مہدی ہوں گے۔
اس وقت توپوری دنیامیں خراسان نام کے کسی ملک کاوجودنہیں ملتالیکن صدیوں پہلے یہ افغانستاان،ایران،پاکستان کے وسط ایشیائی ریاستوں تک پھیلاہواتھا۔یہ تمام وہ علاقہ ہے جس کے بارے میں نبی اکرم ۖنے فرمایاکہ امام مہدی علیہ السلام کی مدد کیلئے یہاں سے کالے جھنڈے لیکر مسلمان فوجیں چلیں گی اوران کوراستہ کوئی نہ روک سکے گایہاں تک کہ وہ کالے جھنڈے ایلیائی(بیت المقدس)میں نصب کئے جائیں گے اورچونکہ یہی علاقے یہودی لابی کے عالمی غلبے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں،اس لئے یہودی امریکاکوافغانستان کی جنگ میں دھکیل کرخراسان کے علاقوں کوکمزورکرناچاہتے تھے اورایک تیرسے دوشکارکرناچاہتے تھے اوردوسری وجہ یہ ہے کہ افغانستان سے متصل پاکستان کی حدودشروع ہوتی ہیں اورکرہ ارض پردوہی نظریاتی ریاستیں وجودرکھتی ہیں،ایک پاکستان اوردوسرااسرائیل،چونکہ پاکستان قومی نظریہ اورلاالہ الااللہ کی بنیادپر وجودمیں آیاہے جو یہودیوں کے عالمی نظام کے بالکل متصادم ہے
لہٰذااسرائیل کیسے اپنے نظریاتی حلیف کوبھول سکتاہے؟اس کابرملااظہاران کے سرکردہ رہنماں نے کئی باراپنے نظریاتی کارکنان کے سامنے کیاہے تاکہ وہ اپنے ٹارگٹ کوکسی بھی حالت میں بھولنے نہ پائیں۔
1967کی عرب اسرائیل جنگ میں جب اسرائیل کوفتح حاصل ہوئی توکامیابی کاجشن منانے کیلئے بن گوریان نے پیرس (فرانس) کا انتخاب کیااورساربون یونیورسٹی میں ممتاز یہودیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا:بین الاقوامی صہیونی تحریک کوکسی بھی طرح اپنے لئے پاکستان جیسے عظیم خطرے کانظراندازنہیں کرناچاہئے اورپاکستان اب بھی ان کااولین ہدف ہوناچاہئے،اس لئے کہ یہ نظریاتی ریاست ہمارے وجودکیلئے خطرہ ہے۔(پاکستان کاذہنی وفکری سرمایہ اورجنگی وعسکری قوت وکیفیت آگے چل کر کسی بھی وقت ہمارے لئے باعثِ مصیبت بن سکتی ہے)۔پاکستان یہودیوں سے نفرت اورعربوں سے محبت کرتاہے،عربوں سے محبت کرنے والایہ ملک ہمارے لے خودعربوں سے کہیں زیادہ خطرناک ہے چنانچہ عالمی صہیونیت کیلئے انتہائی ضروری ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف فوری طورپراقدامات کرے اورپاکستان سے ہمیشہ خبرداررہے اورجہاں تک ہو سکے اس کو تباہ کرنے کیلئے اپنی تدابیرکوبروئے کارلانے میں کبھی بھی سستی نہ کرے جبکہ جزیرہ نمائے ہندکے رہنے والے ہندوہیں جن کے دل مسلمانوں کے خلاف نفرت سے بھرے ہوئے ہیں چنانچہ پاکستان کے خلاف کام کرنے کیلئے بھارت ہمارے لئے بہترین اڈہ ثابت ہوسکتاہے۔ہمارے لئے یہ نہائت اہم اورضروری ہے کہ ہم اس اڈے کواپنے تصرف میں لاکرخوب فائدہ اٹھائیں اورپنے تمام خفیہ اورپوشیدہ منصوبوں کے ذریعے پاکستانیوں کونشانہ بناکرانہیں نیشت ونابودکردیں جویہودیت وصہیونیت کے دشمن ہیں۔بھارت کے ساتھ ہماری دوستی نہ صرف ضروری ہے بلکہ مفیدبھی ہے اورہمیں اس تاریخی عنادسے ضرورفائدہ اٹھانا چاہئے ۔جوہندوپاکستان اوراس میں رہنے والے مسلمانوں کے خلاف رکھتاہے۔یہ تاریخی دشمنی ہمارے لئے زبردست سرمایہ ہے لیکن ہماری حکمت عملی ایسی ہونی چاہئے کہ ہم بین الاقوامی دائروں کے ذریعے ہی بھارت کے ساتھ اپنا ربط وضبط رکھیں۔(یروشلم پوسٹ 19/ اگست1967)تقریرکے مندرجہ بالااقتباس میں ڈیوڈبن گوریان نے اپنے ممتازیہودیوں کوپاکستان کے مسلمانوں اوربھارت کے ہندوؤں کے درمیان نفرت کو بہترین وکارآمدہتھیارکے طورپر استعمال کرنے کی جوتجویزپیش کی تھی اورکون نہیں جانتاکہ آج افغانستان میںبھارت کے ایک سوسے زائد مراکز میں جہاں افغانی اوردیگرقومیت کے افرادکوپاکستان میں تخریبی ودہشتگردکاروائی کیلئے ہر قسم کی ٹریننگ دی جاتی ہے،آرمی پبلک اسکول جیسے وحشیانہ واقعات اسی کاشاخسانہ ہیں۔لہنداافغانستان کے راستے پاکستان کے امن کو سبوتاژ کرنا ہمیشہ سے یہودوہنودکاایجنڈہ رہاہے اوراب تک ارضِ پاکستان کوشدیدنقصان پہنچانے کی کوششیں جاری ہیں لیکن اللہ کی تائیدونصرت کی وجہ سے ہماری بہادرافواج اپنی لازوال جانوں کی قربانیوں سے ان کی مکروہ کوششوں کوناکام بناتی چلی آرہی ہیں۔مثلا27مئی 1998 کوپاکستان کے ایٹمی پلانٹ کوتباہ کرنے کیلئے بھارت کے ائیرپورٹ پراسرائیلی جہازوں کاپایاجانالیکن پاکستان کے انٹیلی جنس اداروں اور پاک فضائیہ کی بروقت کارروائی نے اس خطرناک منصوبے کاناکام بنادیا۔دونوں ممالک کواس کے بلاتاخیرخوفناک نتائج سے آگاہ کر دیاگیا۔۔۔ (جاری ہے)