... loading ...
سمیع اللہ ملک
(گزشتہ سے پیوستہ)
بش حکومت نے ورلڈٹریڈسینٹرپرحملے کاکبھی سوچابھی نہ تھایہ توموسادکے120/اعلی تربیت یافتہ جاسوسوں کوورلڈٹریڈ سنٹرپر حملے کی منصوبہ بندی کاجوٹاسک دیاگیاتھا،وہ پوراہوا، اورپھردنیانے11ستمبر2001 کادن بھی دیکھاکہ دنیاکابلندترین تجارتی مرکزجس کی تکمیل چند ماہ قبل ہی22اپریل2001کوہوئی تھی،جس میں روزانہ ساڑھے آٹھ ارب ڈالرکابزنس ہوتاتھااورجس کو 99سال کیلئے تین ارب بیس ملین ڈالرزکی لیزپرسلوراسٹیشن پراپرٹیزاورویسٹ فیلڈامریکانے حاصل کیاتھا،زمین بوس ہوگیا۔اس حملے سے بش حواس باختہ ہو کراپنی تمامترانتظامی صلاحیتیں گنوابیٹھااورافغانستان پرچڑھ دوڑااوراس طرح یہودی لابی نے امریکاکونہ ختم ہونے والی طویل جنگ میں جھونک دیا۔ایک طرف بش حکومت پہلے ہی سے غیرمستحکم حالات اورہچکولے کھاتی معیشت کاشکارتھی تودوسری طرف افغان جنگ سے یہودی لابی نے نہ صرف امریکی معیشت کودیوالیہ کردیابلکہ ریکارڈ حد تک ورلڈبینک اورآئی ایم ایس جیسے اداروں کامقروض بھی بنادیا،اوریہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ دونوں ادارے عالمی سودی مالیاتی نظام کی تشکیل کاسرچشمہ ہیں جس کے تحت ممالک کومقروض بنا کر جکڑ لیا جاتا ہے اورآج امریکی محکمہ خزانہ کے اعداد وشمارکے مطابق امریکی تاریخ میں پہلی بارامریکاکا قومی قرض33ٹریلین ڈالرسے تجاوز کر گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہرامریکی شہری ایک لاکھ ڈالرسے زائدکامقروض ہے۔
یہ دوریہودیوں کیلئے انتہائی سنہری دورتھاجس میں خوب کھل کرامریکی انتظامیہ،مقننہ اورعدلیہ کے ذریعے اپنی پالییسیوں کوعملی جامہ پہناتے رہے۔یوں محسوس ہوتاتھاکہ تین فیصدامریکی یہودی97 فیصدامریکیوں اورسوفیصددنیاکے مالک بنے بیٹھے ہیں اوریہ تمام یہودی انتہائی درجہ کے متعصب،بنیادپرست اورنظریاتی تھے۔دوسری طرف دنیابھرکے تیل کے ذخائرپرقبضہ کرنے کیلئے موسادنے یوسف اے میمن کوترکمانستان میں تعینات کیا۔یوسف اے میمن موسادسے ریٹائرڈہونے کے بعداسرائیل کی ایک کمپنی مہیروگروپ کاصدربن گیا۔ اس وقت ترکمانستان کے صدرنیازوف نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے یوسف اے میمن کونہ صرف ترکمانستان کی شہریت دی بلکہ اسے آئل وگیس کا مشیراورخصوصی سفیربنادیااوریوں ترکمانستان کے تیل پراسرائیل کاقبضہ ہوگیا۔اس کے ساتھ ساتھ تیل کے دیگرتجارتی معاہدوں کے ذریعے یوسف اے میمن نے آذربائیجان کے تیل کے ذخائرتک بھی رسائی حاصل کرلی۔ادھرسنیئربش کے تیل کی بڑی کمپنیوں کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں امریکاکی دیگر آئل کمپنیوں نے بھی ترکمانستان اورقازقستان میں مجموی طورپر33/ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی اورپاکستان سے افغانستان اورافغانستان سے ترکمانستان گیس پائپ لائنزبچھانے کی سرمایہ کاری اس کے علاوہ تھی۔اس صورتحال نے اسرائیل اوربش خاندان کوایک دوسرے کے مدمقابل کھڑاکردیاکیونکہ تیل کے ذخائر پرقبضہ کرنادونوں کامقصدتھا۔
بش خاندان نے جب سینٹرل ایشیاکے تیل کویورپ اورامریکاپہنچانے کے بارے میں سوچاتواس کے صرف تین راستے تھے۔ پہلا راستہ ترکمانستان ،قاقستان،ازبکستان اورآذر بائیجان سے روس اورروس سے یورپ،دوسراچارممالک سے براستہ ایران سے بحیرہ عرب اوروہاں سے یورپ اورامریکا،اورتیسراان چارممالک سے افغانستان براستہ پاکستان، بھارت اوروہاں سے بحرہندسے یورپ اورامریکا۔روس کے صاف انکارکردینے پرصرف دوآخری آپشن تھے لیکن چونکہ امریکاایران پراعتمادکرنے کیلئے تیار نہیں تھا ،اس لئے ان کے پاس صرف ایک ہی راستہ بچا۔اسی راستے میں جوسب سے بڑاخطرہ تھاوہ افغان طالبان کاانقلاب تھاچنانچہ سنیئر بش نے دوجون 2000 کوامریکا میں تیل کمپنیوں کے بڑے بڑے مالکان کوکھانے پربلایا اوران کے سامنے تجویزرکھی کہ اگر میرے بیٹے(جارج ڈبلیوبش)کوامریکاصدرمنتخب کرادیاجائے توہم پانچ کھرب ڈالرکے تیل کے ذخائرآپ کی جھولی میں ڈالنے کیلئے تیارہیں۔کمپنیوں کے مالکان نے جب گارنٹی مانگی توبش نے انہیں پیشکش کی کہ حکومت تشکیل پاتے ہی آپ تمام کو کابینہ کے ارکان کے طورپرلے لیاجائے گا۔بس پھرکیاتھاتیل کمپنیوں کے مالکان نے ڈالروں کی بارش کردی اورہرطرف بش خاندان کاڈنکا بجنے لگا۔ٹی وی،ریڈیواخبارات،رسائل وجرائد میں اشتہارات کی بھرمارہوگئی یہاں تک کہ پانامااورایتھوپیاجیسے بدحال ممالک کے اخبارات میں بھی بش کی حمائت میں مضامین چھپنے لگے اوراس مہم کے نتیجے میں بش خاندان ایک بارپھروائٹ ہاس میں داخل ہوگیا۔وعدے کے مطابق تیل کمپنیوں کے مالکان کووزیرداخلہ،وزیرخارجہ،وزیرتوانائی اوردیگرحساس نوعیت کے سرکاری عہدے سونپ دیئے گئے۔الیکشن مہم میں سب سے زیادہ چندہ دینے والی آئل کمپنی ایزون کے وائش چیئرمین تھامس وائٹ کوامریکا کی سب سے مضبوط وزارتِ فوج کاسربراہ مقررکردیاگیا۔
بش خاندان چونکہ مذہباًکٹرعیسائی تھااوریہ لوگ ہراتوارکوباقاعدگی کے ساتھ چرچ بھی جایاکرتے تھے بلکہ سنئیربش کے بارے میں تویہاں تک بیان کیاجاتاہے کہ یہ یہودیوں کا سخت مخالف اورفلسطین کے معاملے پرعربوں کاحامی تھا۔اس لئے عربوں کاخیال تھا کہ جونیئربش صدرمنتخب ہونے کے بعدفلسطین کے مسئلے میں ہماری حمائت کرے گااورمشرقِ وسطیٰ میں امن قائم ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جارج ڈبلیوبش کی الیکشن مہم کیلئے عربوں نے ڈیڑھ بلین ڈالرچندہ دیاتھاجو الیکشن مہم کے اخراجات کاتقریبا نصف بنتاتھا۔کامیاب مہم کے نتیجے میں جب جارج ڈبلیوبش امریکاکا43واں صدرمنتخب ہوااوراس نے اپنی کابینہ کااعلان کیاتواس میں یہودیوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابرتھی اوریہ یہودیوں کیلئے شدید جھٹکاتھا۔اس سے قبل چونکہ امریکی معیشت وحکومت پریہودی مکمل طورپرقابض ہوچکے تھے لہندابش حکومت کیلئے مشکلات پیداکرناان کیلئے کوئی مشکل کام نہ تھا چنانچہ تمام یہودیوں نے شٹرڈان کرکے بش حکومت کوگھٹنے ٹیکنے پرمجبورکردیااوراسٹاک ایکسچینج اپنی آخری حدتک گرگیا۔کارخانوں کیلئے آتش بازی کاسامان تک چین سے منگواناپڑگیاجس کی وجہ سے بش حکومت کو125ملین ڈالرکایومیہ خسارہ برداشت کرنا پڑگیا۔
یہودیوں نے اسی پراکتفانہیں کیابلکہ موسادنے اپنے120/اعلی تربیت یافتہ افرادکوورلڈٹریڈسینٹرپرحملے کی منصوبہ بندی میں لگا دیا جو بعدمیں امریکی تحقیقات کے خفیہ ادارے سی آئی اے کی تفتیشی کاروائیوں کے نتیجے میں گرفتار بھی ہوئے لیکن تاریخ مزیداس حوالے سے خاموش ہے۔دوسری جانب امریکاکی الیکٹرانک اورپرنٹ میڈیاکی تمام بڑی کمپنیاں جن کے مالکان کٹر متعصب یہودی تھے،نے اپنی توپوں کارخ بش کی طرف پھیردیا۔میڈیاپراسامہ بن لادن کوبنیادبناکرافغان طالبان اوراسلامی سزاں کے خلاف پرزور پروپیگنڈہ کاآغازکردیاجس کے نتیجے میں امریکی عوام کے دلوں میں طالبان کوانسانیت اورامریکی تہذیب کا بدترین دشمن بناکرپیش کیاگیااور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت امریکی عوام کی طرف سے یہ مطالبہ کیاجانے لگاکہ طالبان کوجلدازجلدسبق سکھاناچاہئے۔
طالبان حکومت کے بعض لوگ اس منصوبے کے پیچھے خفیہ عزائم کوبھانپ گئے تھے لہنداانہوں نے تعلقات عامہ کی ماہرخاتون اورسی آئی اے کے سابق سربراہ رچرڈ ہیلمزکی بھتیجی لیلیٰ ہیلمز نامی خاتون کوباقاعدہ معاوضہ دیکرخدمات حاصل کیں۔لیلٰی ہیلمزکی کوششوں سے امریکاانتظامیہ طالبان کے نمائندوں سے گفتگوکیلئے تیارہوگئی اورمارچ2001کوطالبان حکومت کے مشیر سیدرحمت اللہ ہاشمی پانچ روزہ دورے پرواشنگٹن پہنچ گئے جہاں ان کے سامنے صلح کی صرف ایک ہی شرط رکھی گئی کہ افغانستان میں لبرل اورماڈریٹ حکومت تشکیل دی جانی چاہئے بصورت دیگرامریکاطالبان پر حملہ کردے گا۔6/اگست کواسلام آباد میں موجودافغان سفیرکے ذریعے طالبان کوآخری وارننگ دی گئی لیکن طالبان نے امریکی دھمکیوں کونظر اندازکردیا۔جونیئربش افغانستان پرحملے کااس لئے بھی خواہشمندتھاکہ ایک طرف تواس کے والدسنیئربش کے منصوبے کے تحت تیل کے ذخائرپرقبضہ کرلیاجائے گا تو دوسری طرف بش جونیئرکی حکومت کی پذیرائی ہوگی اورامریکی صنعت وحرفت کاپہیہ چلناشروع ہوجائے گا۔۔۔ (جاری ہے)